تبلیغی جماعت کے بارے میں میرے مشاہدات و تأثرات

تحریر:مولانا ڈَاکٹر عبد الرزّاق اِسکندر
(رئیس و شیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاوٴن کراچی
نائب صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان و امیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ الذی بعث الأنبیاء والرسول لہدایة العباد، وأفضل الصلاة وأتم السلام علی سیّدنا محمد، خاتم الأنبیاء والرسل، ارسلہ بالہدیٰ ودین الحق، بشیراً ونذیراً، وداعیا الی اللّٰہ بإذنہ وسراجاً منیرا، وعلی آلہ وصحبہ، ومن تبعہم بإحسان ودعا بدعوتہم وسلک سبیلہم الٰی یوم الدین۔ وبعد:
۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے کہ کراچی ایئرپورٹ پر ایک عرب اسلامی ملک کے وزیر اوقاف سے میری ملاقات ہوئی، وہ پاکستان کی وزارتِ اوقاف کی جانب سے منعقدہ سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جارہے تھے، وزیر موصوف کے ساتھ دینی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی، حسن اتفاق کہیے کہ اسلام آباد جانے والی فلائٹ لیٹ ہوگئی تو ہماری ملاقات کی نشست بھی لمبی ہوگئی، یوں وزیر موصوف مجھ سے کافی مانوس ہوگئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ: کیا آپ مجھے تبلیغی جماعت جس کا مرکز ہندوستان اور پاکستان میں ہے، اس کے لائحہ عمل کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کرسکتے ہیں؟
اور انہوں نے مجھ سے فرمائش بھی کی کہ میں جماعت کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں، اس کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے اپنے ملک میں ہونے والی ایک اسلامی کانفرنس میں شرکت کی دعوت بھی دے دی جو ایک ماہ بعد ہونے والی تھی۔ میں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور کہا کہ :جب میں کانفرنس میں شرکت کے لیے آؤں گا تو ان شاء اللہ آپ کو مطلوبہ معلومات پیش کردوں گا۔
اس کے بعد میں نے کراچی جماعت کے بعض ذمہ دار حضرات سے رابطہ کیا کہ اگر جماعت سے متعلق عربی میں لکھی ہوئی کچھ معلومات ہوں تو وہ میں ساتھ لیتا جاؤں، اور عرب حضرات کو پیش کروں، مگر جماعت کے ذمہ دار حضرات نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا، کیونکہ جماعت کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے زیادہ تر اردو میں ہے، جب میری روانگی میں صرف دو تین دن باقی رہ گئے تو ہمارے محلہ علامہ بنوری ٹاؤن کی جماعت کے امیر: بھائی نذیر صاحب میرے پاس تشریف لائے اور حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی، حضرت جی سابق امیر کے ایک مفصل مکتوب کی فوٹو کاپی لائے جو انہوں نے ایک ایسی جماعت کو لکھا تھا جو اللہ کی راہ میں دعوت کے لیے نکلی ہوئی تھی۔
اس تفصیلی خط میں حضرت جی  نے جماعت کے لائحہ عمل اور چھ نمبروں کو نہایت شرح و بسط سے ذکر کیا تھا، جن کو جماعت نے اپنی دعوت کی بنیاد قرار دیا ہے۔ الحمدللہ! اس تفصیلی خط کے ملنے سے مجھے خوشی ہوئی کہ میں وزیر موصوف سے کئے گئے وعدہ کا ایفاء کرسکوں گا۔ غالباً دوسرے دن میرا سفر تھا، لہٰذا میں نے جہاز میں بیٹھتے ہی ا س تفصیلی خط کا عربی ترجمہ شروع کردیا ۔الحمدللہ! کہ جہاز جوں ہی منزل مقصود پر پہنچا میں اس کا ترجمہ مکمل کرچکا تھا۔
چونکہ وزیر موصوف نے جماعت کے بارے میں میری ذاتی رائے کا بھی مطالبہ کیا تھا، اس لئے میں نے اپنی معلومات، مشاہدات اور جماعت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات کی روشنی میں اپنی رائے بھی لکھ دی، جب وزیر موصوف سے ملاقات ہوئی تو حسبِ وعدہ ان کو یہ معلومات پیش کردیں۔ وزیر موصوف اس ایفائے عہد پر بہت خوش ہوئے اور شکریہ ادا کیا۔
تبلیغی جماعت کا مختصر تعارف
تقریباً ایک صدی قبل متحدہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ نے دیکھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی حالت افسوسناک حد تک ابتری کا شکار ہے۔ نیز انہوں نے دیکھا کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں مسلمان صرف اسلام کا نام تو جانتے ہیں مگر ان کو کلمہ اسلام: ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کا صحیح تلفظ تک بھی نہیں آتا۔
لہٰذا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کو دکھ اور صدمہ ہوا اور سوچنے لگے کہ مسلمانوں کی اصلاح اور تربیت کے لئے کس طرح کام شروع کیا جائے؟
چنانچہ اس مقصد کے لئے انہوں نے حج کا سفر اختیار کیا، وہاں جاکر مشاعر حج اور حرمین شریفین میں مقدس مقامات پر نہایت عجزو انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہے کہ :اے اللہ! میرے لئے عام مسلمانوں میں دعوت کا راستہ کھول دے ،اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس کے لئے ان کا سینہ کھول دیا گیا۔
چنانچہ آپ حج کے بعد ہندوستان واپس تشریف لائے اور ہندوستان کے دارالحکومت دہلی سے باہر بستی نظام الدین سے دعوت کا کام شروع کردیا۔
آپ کا معمول تھا کہ آپ شہر کے بازاروں، گاؤں اور قصبوں میں جاتے اور مسلمانوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور مساجد اور تعلیم کے حلقوں سے جڑنے کی ترغیب دیتے، تاکہ وہ اس طرح ایمان، نماز اور اسلام کے بنیادی مسائل سیکھیں، اور ان بنیادی مسائل اور اسلامی آداب کو خود سیکھنے، عملی طور پر اپنانے اور دوسروں کو سکھانے کے لئے ان سے مطالبہ کرتے تھے کہ ا پنے خرچ پر مہینہ میں تین دن، سال میں چالیس دن اور عمر بھر میں چار ماہ کے لئے اللہ کی راہ میں نکلیں۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی مخلصانہ محنت میں برکت عطا فرمائی اور ان کے اردگرد پاک سیرت اہلِ ایمان افراد کی ایسی جماعت جمع ہوگئی جن کا تعلق معاشرے کے ہر طبقہ سے تھا، اس میں تاجر، کاشتکار، سرکاری اور غیر سرکاری ملازم، اساتذہ، طلبہ اور مزدور وغیرہ سب ہی تھے۔
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ نے اس جماعت کے لئے کچھ قواعد و ضوابط وضع فرمائے، جن میں سے بعض کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
۱: اپنے خرچ پر نکلنا۔ لہٰذا جو شخص بھی ا للہ کی راہ میں نکلے وہ اپنی جیب سے خرچ کرے، کسی تنظیم کی طرف سے یا چندہ لے کر نہ جائے، اس لئے اگر کسی کو فرصت نہیں یا خرچ کی طاقت نہیں ،وہ اپنے محلہ کی مسجد میں اور مقامی طور پر کام کرتا رہے۔
۲: سیاسی امور میں دخل اندازی سے دور رہے۔
۳: اجتہادی، فروعی اور فقہی مسائل کو نہ چھیڑا جائے اور ہر شخص نے جو بھی فقہی مسلک اختیار کیا ہوا ہے، اسی پر عمل کرے یا اس مسلک پر، جو اس ملک میں رائج ہو اور پوری توجہ اور اہتمام سے ایمان، اخلاص، نماز، علم، ذکر، مسلمان کے اکرام اور اس کے حقوق کا خیال رکھے، دعوت اور خروج فی سبیل اللہ میں مصروف رہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ کی محنت میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ جو دعوت ایک قریہ اور بستی سے شروع ہوئی تھی وہ ترقی کرتے کرتے ایک عالمی اور بین الاقوامی دعوت بن گئی۔ اس جماعت کے بارے میں یہ میری معلومات ہیں ۔ ولا ازکی علی اللّٰہ احداً۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں میری رائے!
میں سمجھتا ہوں کہ اِس جماعت کا کسی ملک میں جانا، وہاں کے عوام اور وہاں کی حکومت دونوں کے لیے باعث ِرحمت ہے، کیونکہ یہ جماعت ایک عام فرد اور شہری کی اِصلاح پر محنت کرتی ہے، تاکہ وہ ایک ایسا اچھا شہری بن جائے جو اپنے خالق کا وفادار، اپنے وطن اور اہلِ وطن کا خیر خواہ ہو، وہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے وطن اور اہل ِ وطن کو نقصان پہنچے، وہ چوری نہ کرے، کسی کو ناحق قتل نہ کرے، کسی کا مال نہ لوٹے، کسی کی عزت پر حملہ نہ کرے، جھوٹ نہ بولے اور نہ کسی کو دھوکا دے، بلکہ وہ دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو حکومت اور عوام دونوں کے حق میں مفید ہیں۔
حکومتیں عام طور پر اِسلامی ہوں یا غیر اِسلامی، اپنی بگڑی ہوئی عوام سے نالاں ہوتی ہیں ا ور دہشت گردوں، چوروں، ڈاکوؤں اور منشیات اور مسکرات کے اِستعمال کرنے والوں کا شکوہ کرتی ہیں اور اُن جرائم کو روکنے کے لئے قوانین اور سزائیں وضع کرتی ہیں، لیکن اُن سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔
لیکن تبلیغی جماعت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے ذریعہ نوجوانوں کے نفوس میں ایسا ملکہ اور ایسی اخلاقی قوت پیدا کردے جو اُنہیں ان جرائم کے اِ رتکاب سے روکے اور ان جرائم سے دِلوں میں نفرت پیدا کردے اور اُنہیں ایسی صفات اور اعلیٰ اخلاق اپنانے کی ترغیب دیتی ہے جن سے عوام اور حکومت دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم کا اِرشاد ہے: ”اَلدِّیْنُ اَلنَّصِیْحَةُ؟ قُلْنَا: لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ؟ قَالَ: لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہ وَلِکِتَابِہ وَلِاَئِمَّةِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَتِہِمْ۔“(مشکوٰة،ص:۴۲۳)
ترجمہ:”دِین خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے عرض کیا: کس کے لیے؟ یا رسول اللہ! فرمایا: اللہ کے لیے، اُس کے رسول کے لیے، اُس کی کتاب کے لیے اور مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔“
یقینی بات ہے کہ جب فرد کی اِصلاح ہوگی تو اس سے پورے معاشرہ کی اِصلاح ہوگی ، ملک میں امن و امان کی فضاء پیدا ہوگی، روحانی و اخلاقی قدریں عام ہوں گی اور لوگ امن و امان کی زندگی بسر کریں گے۔
دیکھا جائے تو عموماً حکومتیں دو باتوں سے گھبراتی ہیں:
۱:۔ایک یہ کہ باہر سے کوئی اجنبی آئے اور آکر ملک کی سیاست میں دخل اندازی کرے۔
۲:۔دوسرا یہ کہ کوئی اجنبی باہر سے آکر عوام الناس میں اِختلاف پیدا کرے۔
ان دونوں باتوں میں حکومت کو اس جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ وہ سیاست میں دخل نہیں دیتی اور نہ ہی وہ عوام میں اِختلاف پیدا کرتی ہے۔
تبلیغی جماعت کا پاکستان اور ہندوستان میں مرکز ہے، جہاں اسے یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ سیاست میں حصہ لے، لیکن اس نے رضاکارانہ طور پر اپنا یہ حق چھوڑ رکھا ہے، لہٰذاجو جماعت اپنے ملک میں ا پناسیاسی حق اِستعمال نہیں کرتی، وہ دوسرے ملک میں کیسے سیاست میں حصہ لے گی، جہاں اسے اس کا حق ہی حاصل نہیں؟ لہٰذا کسی ملک کی حکومت کو اس جماعت سے کوئی سیاسی خطرہ نہیں۔
باقی رہا یہ کہ عوام میں اِختلاف پیدا کرنا اور اُن کی صفوں میں پھوٹ ڈالنا، تو اِس اعتبار سے بھی جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ تبلیغی جماعت کا محور ہی دِین کی بنیادی باتیں اور ایسے اُمور ہیں، جن پر پوری اُمت کا اِتفاق ہے، وہ فروعی اور اِجتہادی مسائل کو نہیں چھیڑتی، جس سے اِختلاف پیدا ہونے کا اِمکان ہے۔
بطور مثال: ہم دیکھتے ہیں کہ جماعت ایک مسلمان کو نماز کی دعوت دیتی ہے، جو کہ دِین کا ایک بنیادی ستون ہے اور جس کی فرضیت میں کسی کا اختلاف نہیں، نیز وہ مسلمان کو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنا تعلق مسجد سے جوڑے، اِس میں بھی کسی مسلمان کو کوئی اِختلاف نہیں۔
اب اگر کوئی مسلمان نوجوان اُن کی بات مان لیتا ہے اور مسجد سے اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے اور نمازوں کی پابندی شروع کردیتا ہے تو الحمدللہ! مقصد حاصل ہوگیا۔ اب تبلیغی جماعت کو اُس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ نوجوان اپنی نماز فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی وغیرہ میں سے کس کے مطابق ادا کرتا ہے، لہٰذا اِس اعتبار سے بھی کسی حکومت کو فکر مند نہیں ہونا چاہئے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ بہت سی اِسلامی اور غیر اِسلامی حکومتیں جنہوں نے اِس جماعت اور اِس کی دعوت کی حقیقت کو جان لیا ہے ،اُنہوں نے اس کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول دیئے ہیں اور وہ اس کے لیے سہولتیں مہیا کرتی ہیں، نیز ان کی عوام بھی اپنے ملک میں اس کا اِستقبال کرتی ہے اور اسے دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔
تبلیغی جماعت کے بارے میں بعض شبہات اور اُن کا اِزالہ
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ تبلیغی جماعت میں عوام الناس کے ہر طبقہ کے لوگ شریک ہوتے ہیں، علماء، طلباء، تاجر، ملازم، کسان اور مزدور وغیرہ۔ اب ان میں سے ہر ایک شخص تو ایسا نہیں ہوتا کہ جس کی کامل اِصلاح اور تربیت ہوچکی ہو، اِسی لیے بعض اوقات ان میں سے کسی سے کوئی نامناسب حرکت سرزد ہوجاتی ہے تو بعض جذباتی حضرات فوراً اس فرد کی اس غلطی کو جماعت کی طرف منسوب کردیتے ہیں، حالانکہ یہ اِنصاف کے خلاف ہے۔ اِنصاف یہ ہے کہ یہ غلطی اس فرد کی طرف منسوب کی جائے نہ کہ جماعت کی طرف، کیونکہ جماعت خود اسے غلط سمجھتی ہے۔
ایک اِسلامی ملک کے سفر کے دوران میری ملاقات ایک ایسے اِدارے کے ذمہ دار شخص سے ہوئی جو اِنسدادِ منشیات کا سربراہ تھا۔ اپنے اِدارہ کا تعارف کراتے ہوئے اُس نے کہا کہ ہمارا کام یہ ہے کہ قانون اور سزاؤں کے ذریعہ نوجوانوں کو منشیات وغیرہ سے روکیں۔
میں نے اس سے کہا کہ: یہ بہت اچھی بات ہے۔ ملک میں ایسے قوانین اور سزائیں ہونی چاہئیں جن کے ذریعہ لوگوں کو منشیات اور دِیگر جرائم سے روکا جاسکے، خصوصاً: اسکول اور کا لج کے طلباء کو جو مستقبل کا سرمایہ ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور راستہ بھی ہے جس کے ذریعہ نوجوانوں کو منشیات و مسکرات کے اِستعمال اور بے راہ روی سے روکا جاسکتا ہے اور ملک کو ان جرائم سے پیدا ہونے والی مشکلات سے بچایا جاسکتا ہے؟
چنانچہ اس کی صورت یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو دِین کی راہ پر ڈال دِیا جائے اور اُن کے دِلوں میں اِیمان کی روح پیدا کی جائے، تاکہ وہ صالح شہری بن جائیں اور خودبخود بلا کسی قانون اور سزا کے خوف سے منشیات اور بے راہ روی کو چھوڑ دیں۔ نہ ان سے کسی کا ناحق قتل ہو، نہ کسی کا مال لوٹیں، نہ کسی کی عزت پر حملہ کریں اور نہ ہی حکومت اور عوام کے لیے مسائل پیدا کریں، بلکہ اپنے فرائض نہایت ذمہ داری اور پوری امانت داری سے ادا کریں۔
مزید میں نے اُن سے یہ کہا کہ: گزشتہ رات مجھے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپ کے شہر کے تبلیغی مرکز میں جانے کا اِتفاق ہوا، جہاں نوجوانوں کا ایک بڑا مجمع تھا، جن کی اکثریت اسکول اور کالج کے اساتذہ اور طلباء کی تھی، اُن کے چہروں پر ایک نور اور وقار ہویدا تھا، جن سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ منشیات یا دِیگر جرائم کا اِرتکاب کریں گے۔
وہ صاحب کہنے لگے کہ: یہ بات بالکل صحیح ہے، ہم نے بھی دیکھا ہے کہ جو لوگ اس جماعت کے ساتھ جڑ جاتے ہیں، اُن پر صلاح و تقویٰ کے آثار نمایاں ہوتے ہیں ا ور وہ منشیات یا دِیگر جرائم سے دور بھاگتے ہیں۔ لیکن ہمیں جماعت سے دو شکوے ہیں:
۱:۔ایک یہ کہ جب کوئی ملازم پیشہ شخص اُن سے متأثر ہوکر کچھ وقت اُن کے ساتھ لگاتا ہے، مثلاً: ایک چلہ۔ تو بعض مرتبہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ شخص چلہ لگانے کے بعد اسی جماعت کا ہوکر رہ جاتا ہے، اُسے نوکری کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ بیوی بچوں کی فکر۔ اِدھر دفتر والے پوچھ رہے ہیں، اُدھر گھر والے پریشان۔
۲:۔ اِسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اسکول یا کالج کا جوطالب علم چھٹی کے دِنوں میں جماعت کے ساتھ نکل جائے تو وہ تعطیلات ختم ہونے کے بعد بھی جماعت کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور وہ اسکول چھوڑ دیتا ہے، اُسے تعلیم کی فکر ہوتی ہے اور نہ والدین کی پرواہ۔
میں نے اُن سے کہا: بے شک اِس طرح کے اِکا دُکا واقعات ہمارے ہاں بھی پیش آتے ہیں، لیکن یہ اِنفرادی کوتاہیاں ہیں، اُن کا جماعت کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں، لہٰذا ان کوتاہیوں کو ان افراد کی طرف منسوب کرنا چاہئے نہ کہ جماعت کی طرف۔
اِس لیے کہ جماعت والے کسی ملازم پیشہ شخص یا طالب علم کو ہرگز نہیں کہتے کہ: تم اپنی ملازمت چھوڑ دو یا اسکول اور کالج کی تعلیم ترک کردو اور جماعت میں لگ جاؤ، بلکہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ: بھائی! رخصت کے ایام ہمارے ساتھ گزارو، پھر اِخلاص اور دیانت داری سے اپنا کام کرو۔
پھر میں نے کہا کہ: ہمارے جامعہ کی مسجد میں ہر ہفتہ جماعت کا اجتماع ہوتا ہے، جس میں طلبہ اور محلہ کے لوگ بیٹھتے ہیں ا ور جماعت کے کسی بزرگ کا بیان ہوتا ہے، ہم نے آج تک کسی کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ وہ طلباء سے کہیں کہ تعلیم چھوڑو اور جماعت میں چلو، بلکہ وہ تو اُنہیں خوب پڑھنے اور محنت کی ترغیب دیتے ہیں، ہاں یہ ضرور کہتے ہیں کہ جمعہ کی رات مدنی مسجد کراچی کے تبلیغ کے مرکز میں آجایا کریں، کیونکہ اُس دِن چھٹی ہوتی ہے اور سالانہ چھٹیوں میں ایک چلہ لگالیا کریں۔
اصل بات یہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقہ میں اِکا دُکا جذباتی افراد ہوتے ہیں، جن سے اِس طرح کے غلط تصرفات صادِر ہوجاتے ہیں، آخر آپ نے بھی تو ایسے ملازمین کا تذکرہ سنا ہوگا، جنہوں نے کسی دوسری وجہ سے جذبات میں آکر ملازمت چھوڑ دی یا ایسے طلباء کا تذکرہ بھی سنا ہوگا جو اسکول یا کالج سے بھاگ گئے۔
لہٰذا ایسے تصرفات کی نسبت ان افراد کی طرف کرنی چاہئے نہ کہ جماعت کی طرف۔ کیونکہ جماعت کی یہ پالیسی ہرگز نہیں۔ وہ صاحب میری اِس گفتگو سے کافی مطمئن ہوئے اور کہنے لگے کہ: واقعی عوام الناس کی اِصلاح کا یہی صحیح طریقہ ہے۔
بعض مرتبہ ذہن میں شبہات اِس لیے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اِنسان شرعی احکام اور آداب سے ناواقف ہوتا ہے۔
اِسی طرح کا ایک قصہ ہے کہ ایک عرب ملک میں مجھے ایک عرب نوجوان ملا، جب تبلیغی جماعت کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ: یہ جماعت بہت اچھا اور مفید کام کررہی ہے، مگر اس میں کچھ بدعات ہیں، جن پر مجھے اعتراض ہے!
میں نے اُس نوجوان سے کہا کہ: آپ مجھے کسی ایک بدعت کی نشان دہی کردیجئے، تاکہ میں جماعت کے ذمہ دار حضرات تک آپ کی بات پہنچاسکوں۔
کہنے لگے: جب کوئی جماعت دعوت کے لئے نکلتی ہے تو کہتے ہیں: یہ ہمارا امیر ہے، حالانکہ یہ بدعت ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ اعتراض یااشکال اس کی دِینی معلومات کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اِس لیے میں نے اُس نوجوان سے پوچھا: آپ کہاں کام کرتے ہیں؟
کہنے لگا: میں وزارتِ اوقاف اور مذہبی اُمور میں کام کرتا ہوں۔
میں نے کہا: آپ کے دفتر میں کتنے ملازمین کام کرتے ہیں؟
کہنے لگا: اِتنے ملازمین کام کرتے ہیں، غالباً بیس سے پچیس تک بتائے۔
میں نے پوچھا: کیا اُن ملازمین پر کوئی نگران بھی ہوتا ہے؟
کہنے لگا: ہاں! ایک مدیر ہوتا ہے جو اُن کی نگرانی اور نظم قائم رکھتا ہے۔
میں نے کہا: کیا وزارتِ اوقاف اور مذہبی اُمور میں یہ بدعت نہیں کہ یہ مدیر ہے، اور یہ موظفین ہیں؟
کہنے لگا: یہ بدعت نہیں، بلکہ یہ ایک نظام ہے، اور نظام کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا ذمہ دار شخص ہو جو سب کی نگرانی کرے، تاکہ نظام صحیح ہو۔
اس پر میں نے کہا: برادر ِعزیز! اگر آپ اپنے شہر اور اپنے دفتر میں ہوتے ہوئے، جہاں چند ملازم کام کرتے ہیں اور ہر شخص کا کام بھی متعین ہے، اپنی یہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ ایک ذمہ دار اور نگران ہو جو اُس نظام کو صحیح چلا سکے، تو آپ خود سوچیں کہ جب ایک جماعت جو دس پندرہ اِنسانوں پر مشتمل ہو، دعوت کے لیے سفر پر نکلی ہو، کیا اس کو نظام کی ضرورت نہیں ہوگی؟ کہ ان میں ایک شخص ایسا ہو جو سب کی نگرانی کرے، ان میں نظم قائم کرے اوران کے حالات پر نظر رکھے۔ جب کہ سفر میں اس کی ضرورت زیادہ ہے، کھانا پینا، نماز پڑھنا، سامان کی حفاظت اور دعوت کی ترتیب وغیرہ اُمور مستقل منتظم کے متقاضی ہیں۔ آپ اس نگرانی کا نام امیر رکھ دیں یا مدیر، نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اُس نوجوان نے سر ہلاتے ہوئے کہا کہ: آپ نے صحیح کہا، مجھے مسئلہ سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ پھر میں نے اُس سے کہا کہ: امیر بنانا نہ صرف جائز اور مباح ہے، بلکہ سنت اور آدابِ سفر میں سے ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وَسلم نے ہمیں حکم دِیا ہے کہ: جب ہم جماعت کی شکل میں سفر کریں تو اپنے لیے ایک امیر چن لیا کریں۔
بعض عوام اور غیر علماء سے دورانِ سفر ایک یہ اعتراض بھی سننے میں آیا کہ: جماعت نے چھ نمبر متعین کرکے باقی دِین کے شعبوں کو چھوڑ دیا ہے ،جب کہ دِین زندگی کے سب شعبوں کو شامل ہے۔
یہ اعتراض بھی لاعلمی پر مبنی ہے، بے شک دِین زندگی کے تمام شعبوں کو شامل ہے، لیکن اُس کے ساتھ ساتھ تقسیم کار بھی ایک فطری اور شرعی قاعدہ ہے، چنانچہ جس طرح کچھ لوگ پڑھنے پڑھانے، کچھ جہاد اور کچھ دِیگر شعبوں میں کام کررہے ہیں، ٹھیک اِسی طرح تبلیغی جماعت کے بزرگوں نے اپنی فراست اور تجربہ سے یہ چھ نمبر متعین کئے کہ ان سے افراد اُمت کی اِصلاح اور اُن کی زندگی میں اِنقلاب آئے گا، جب افراد اُمت کی تربیت اور اِصلاح ہوگی تو پھر وہ زندگی کے جس شعبے میں بھی جائیں گے، وہ دِین کے احکام پر چلیں گے۔ میرے سامنے ایک واقعہ اس کی واضح مثال ہے وہ یہ کہ:
ایک بار حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید کے پاس ایک رکشہ والا آیا اور آپ سے رکشہ، ٹیکسی کے کرایہ کے بارے میں سوال کرنے لگا اور بعض ڈرائیور جو میٹر وغیرہ خراب رکھتے ہیں یا سواریوں کے ساتھ دھوکا بازی کرتے ہیں، اُن کے بارے میں پوچھنے لگا، حضرت نے اُس کے سوالات کے جوابات دیئے اور فرمایا: بھائی! آپ اِتنے عرصہ سے رکشہ چلارہے ہیں اور اب آپ کو حلال وحرام کا کیسے خیال آیا؟
کہنے لگا: حضرت جی! مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دِی اور میں تبلیغی جماعت کے ساتھ جانے لگا، تو مجھے حلال و حرام کی فکر ہوئی، کیونکہ اللہ کا حکم ہے، حلال کماؤ، حلال کھاؤ، حلال کھلاؤ اور حلال خرچ کرو، اِس لیے میں نے یہ مسائل پوچھے ہیں تاکہ حرام سے بچوں۔
اس کے علاوہ امیر جماعت دعوت و تبلیغ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ کے ملفوظات اور خطابات میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ جو حضرات علم میں لگے ہوئے ہیں، وہ بھی دِین کا کام کر رہے ہیں، جو جہاد میں لگے ہوئے ہیں، وہ بھی دِین کا کام کر رہے ہیں، میں آپ کو اِس کام میں لگنے کا کہہ رہا ہوں۔
بہرحال یہ چند شبہات اور اُن کے جوابات بطور ِنمونہ پیش کردیئے ہیں، اگر کسی کو تفصیل معلوم کرنی ہو تو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی کتابیں: ۱:تبلیغی جماعت پر چند عمومی اعتراضات اور اُن کے مفصل جوابات، ۲:الاعتدال، ۳:فضائلِ تبلیغ، دیکھ لی جائیں۔
حاصل یہ ہے کہ میں اِس جماعت کو مخلص سمجھتا ہوں، جس کا فائدہ حکومت اور عوام دونوں کو پہنچ رہا ہے۔ (ولا ازکی علی اللّٰہ أحداً)
پھر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تبلیغی جماعت ایک کھلی ہوئی کتاب ہے، جس میں کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں، ہر شخص قریب سے اس کتاب کو پڑھ سکتا ہے، جس کو جماعت کے بارے میں شک و شبہ ہو، اُسے چاہئے کہ جماعت کے مراکز میں جائے، اُن کے اجتماعات میں شامل ہو اور اُن کے بیانات سنے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اُن کے ساتھ وقت لگائے اور دیکھے کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اِسی طرح جماعت کے بڑوں سے ملے اور اگر کوئی اشکال یا اعتراض ہو تو اُن کے سامنے پیش کرکے تسلی بخش جواب حاصل کرے۔
یہاں میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ کی دو شہادتیں نقل کردوں:
۱:۔ پہلی شہادت ایسے نوجوان کی ہے، جس نے جماعت کے ساتھ غیر اِسلامی ملکوں میں وقت لگایا اور اس جماعت کے نیک آثار دیکھ کر اپنی رائے کا اِظہار کیا۔
۲:۔ دوسرے ایک عالم فاضل کی ہے، جس نے اپنے دوستوں کے ساتھ رائیونڈ کے سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع میں شرکت کی، اور وہاں جو کچھ دیکھا، اُس کی رپورٹ اپنے ملک کے بڑے عالم کو پیش کی۔
ایک عرب نوجوان کی شہادت کے سلسلہ میں عرض ہے کہ ۱۹۹۵ءء میں ا مریکا کے ایک سفر کے دوران شکاگو کی ایک مسجد میں میری اُس سے ملاقات ہوئی۔
ہوا یوں کہ میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی، مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی، نماز کے بعد کسی نے بتایا کہ یہاں عربوں کی جماعت آئی ہوئی ہے، ہم اُن سے ملنے کے لیے گئے، تعارف ہوا۔ جب امیر صاحب کو معلوم ہوا کہ ہمارا تعلق پاکستان سے ہے تو اُنہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور الگ ایک جگہ بیٹھ گئے اور مجھ سے جماعت کے بارے میں سوالات کرنے لگے۔ میں نے اپنی معلومات کے مطابق اُن کو جوابات دیئے، تو کہنے لگے: یا شیخ! میرے ملک میں بعض لوگ اِس جماعت کے خلاف باتیں کرتے ہیں، لیکن حق یہ ہے کہ میں نے ان ملکوں میں اس جماعت کے جو اچھے اثرات دیکھے ہیں، وہ اِس بات کی کھلی ا ور روشن دلیل ہے کہ یہ اہلِ حق کی جماعت ہے۔
اس عرب نوجوان کا:”اچھے اثرات“ کہنے کا معنیٰ یہ تھا کہ وہ اِسلامی مظاہر، جو ان ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ یعنی باوجود اس کے کہ مسلمان اقلیت میں ہیں، مگر اُن کا دِین کی طرف متوجہ ہونا، اپنے اور اپنی نئی نسل کے اِیمان و اِسلام کی فکر کرنا، اس کے لیے جگہ جگہ مساجد تعمیر کرنا اور مساجد میں قرآنِ کریم کی تعلیم کے لیے مکاتب کا اِجراء وغیرہ، یہ اسی کی برکت ہے کہ اب وہ مسلمان خود بھی مساجد میں باجماعت نماز ادا کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لاکر مکاتب میں قرآنِ کریم کی اور دِین کے بنیادی مسائل کی تعلیم دِلواتے ہیں، جب کہ اس سے پہلے وہ مغربی تہذیب اور وہاں کی مادی زندگی پر اِس قدر فریفتہ ہوچکے تھے کہ اُنہیں دِین و اِیمان تک کا کچھ پتہ نہ تھا۔
اب جب کہ وہ جماعت کی محنت کی برکت سے دِین کی طرف متوجہ ہوئے تو اپنی مساجد کے لیے اِسلامی ملکوں سے علماء، ائمہ اور خطباء اور مکاتب کے لیے حفاظ اور قراء لائے، تاکہ وہ اُنہیں د ینِ اسلام سکھائیں۔
ایک دوسری شہادت ایک بہت بڑے عالمِ دِین کی ہے، جن کا تعلق ایک عرب برادر ملک سے ہے اور وہ ہیں: فضیلة الشیخ صالح بن علی الشویمان حفظہ اللہ تعالیٰ جو خود بنفسِ نفیس رائے ونڈ کے سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع میں شریک ہوئے اور پھر اُس کی رپورٹ اپنے ملک کے مفتی اعظم کو پیش کی، چنانچہ وہ رپورٹ ملاحظہ ہو:
پاکستان کی تبلیغی جماعت کے بارے میں فضیلة الشیخ صالح ابن علی الشویمان کی رپورٹ:
جو اُنہوں نے ۱۴۰۷ھ میں پیش کی، یہ رپورٹ ایک کتاب ”جلاء الاذہان عما اشتبہ فی جماعة التبلیغ بعض اہل الایمان“ سے لی گئی ہے جو مختلف خطوط کا مجموعہ ہے، جسے محترم مولانا غلام مصطفی حسن صاحب نے جمع کیا ہے اور مکتبہ محمدیہ۸۶۔ وی: ۱، کشمیر روڈ غلام محمد آباد، فیصل آباد نے چھاپا ہے:
”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
سماحة الوالد الکریم الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز الرئیس العام لادارة البحوث العلمیہ والأفتاء والدعوة والارشاد حفظہ اللہ من کل سو ء ووفقہ وسدد خطاہ آمین۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ امام بعد!
میری رخصت ۱/۳/۱۴۰۷ھ کو شروع ہوئی اور میں ۳/۳/۱۴۰۷ھ کو علماء اور طلباء کی ایک جماعت کے ساتھ پاکستان کے سفر پر روانہ ہوا، ان علماء اور طلباء کا تعلق مملکت کی مختلف جامعات سے تھا، یعنی جامعة الاسلامیہ، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیہ اور جامعة الملک سعود وغیرہ۔
اِس سفر میں ہم نے عجائبات کا مشاہدہ کیا، جب ہم لاہور کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو ہمارا اِستقبال ایک ایسی صالح نوجوانوں کی جماعت نے کیا، جن کے چہروں اور داڑھیوں سے علم اور اِیمان کا نور چمک رہا تھا۔
ہم ہوائی اڈے کی مسجد میں پہنچے، تحیة المسجد ادا کرنے کے بعد ہم سب مل جل کر بیٹھ گئے، ہمارا تعلق مختلف ممالک سے تھا، اب ان میں سے ایک نوجوان اُٹھا اور اس نے ایسا بیان شروع کیا جو دِلوں کو کھینچ رہا تھا، پھر گاڑیاں آگئیں اور ہمیں رائیونڈ (تبلیغی مرکز) لے گئیں، جہاں سالانہ عالمی تبلیغی اجتماع منعقد ہوتا ہے، وہ خوبصورت اجتماع جسے دیکھ کر دِل میں خشوع پیدا ہوتا ہے اور آنکھیں ڈر، خوشی اور اللہ کے خوف سے بارش کی طرح آنسو بہاتی ہیں، یہ اجتماع اہلِ جنت کے اجتماع سے مشابہ ہے، جہاں نہ کوئی شوروغل تھا اور نہ کوئی تکلیف، نہ کوئی فضول بات، نہ لاقانونیت اور نہ جھوٹ۔ صاف ستھرا ماحول، نہ کوئی بدبو اور نہ کوئی گندگی۔ ہر چیز ذہانت و سلیقہ سے ترتیب دِی ہوئی تھی۔ نہ ٹریفک پولیس، نہ عام پولیس اور نہ کوئی چوکیدار۔ جب کہ اجتماع میں آنے والوں کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔
ایک فطری اور پاکیزہ زندگی ہے، جہاں ذکر اللہ کی فضا پھیلی ہوئی ہے، دِن رات ہر طرف علمی، محاضرات، دروس اور ذکر اللہ کے حلقے لگے ہوئے ہیں، بخدا! یہ ایک ایسا اجتماع ہے جس سے دِل زندہ اوراِیمان چمکتا ہے اور اس میں اِضافہ ہوتا ہے۔
کتنا بارعب اور کتنا خوبصورت اجتماع ہے جو آپ کے سامنے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی بولتی ہوئی تصویر پیش کرتا ہے۔ ہر طرف محنت، علم، ذکر، میٹھی گفتگو، خوبصورت اعمال، عمدہ اِسلامی حرکات اور اِیمان اور علم سے چمکتے ہوئے چہرے آپ کو ملیں گے۔ آپ اس اجتماع میں صرف توحید، ذکر، تسبیح و تحمید، تحلیل و تکبیر، قرآن کریم کی تلاوت، السلام علیکم، وعلیکم السلام و رحمة اللّٰہ اور جزاکم اللّٰہ خیراً جیسی باتیں سنیں گے۔
آپ کی نگاہ ایسی چیزوں پر پڑے گی جن سے آپ کو خوشی ہوگی اور آپ کا دِل باغ باغ ہوجائے گا اور وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وَسلم کی سنتوں کو تروتازہ و زندہ کرنا ہے، جنہیں آپ ہر آن اور ہر وقت دیکھ کر لطف اندوز ہوں گے، یہ کتنا خوبصورت اور کتنا ہی عمدہ عظیم الشان اجتماع ہے۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ یہاں آپ کو واضح طور پر قرآنِ کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسلم کی سنت کا عملی نمونہ نظر آئے گا، کیا ہی خوب پاکیزہ اور سعادت مند زندگی ہے۔
میرے دِل میں بار بار یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش! اِس قسم کی دعوت کا اجتماع مملکت سعودی عرب میں بھی منعقد ہو، اِس لیے کہ ہر اچھے کام اسی مملکت کے ساتھ زیب دیتے ہیں اور اس لیے بھی کہ مرحوم ملک عبدالعزیز  کے اِبتدائی تابندہ دور سے لے کر مملکت ہمیشہ ہر عمل خیر میں آگے آگے رہی ہے۔
اِس عظیم اجتماع میں اکٹھے ہونے والے افراد جن کا تعلق دنیا کے مختلف ملکوں سے تھا، سب کی ایک شکل، ایک طبیعت، ایک بات اور ایک ہدف ہے، گویا وہ سب ایک باپ کی اولاد ہیں یا یہ سمجھیں کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ایک دِل پیدا فرمایا اور اُن سب میں تقسیم کردِیا ہے۔
ان سب کا مقصد اور غرض اس کے سوا کچھ نہیں کہ دِین کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور مسلمان نوجوانوں کی اِصلاح کی جائے اور غیر مسلموں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ کی طرف راہنمائی کی جائے۔ تعجب ہے کہ ایسے صالحین کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلانے والے کیوں غلط بیانی سے کام لیتے ہیں؟؟؟
ان حضرات کے بارے میں شیخ عبدالمجید زندانی نے کیا خوب فرمایا ہے: ”یہ تو آسمان کی مخلوق ہے جو زمین پر چل پھر رہی ہے۔“
اس کے بعد کون ایسا دِل ہوگا جو ان کو برا بھلا کہے اور ایسی باتوں کی تہمت لگانے کی جرأت کرے گا جو ان میں نہیں ہیں!۔
میرا خیال یہ ہے کہ اِس جماعت کا ہدف اور مقصد بھی وہی ہے جو ہماری مملکت کا ہے اور وہ ہے: دنیا کے اِنسانوں کی اِصلاح اور زمین کے چپہ چپہ پر امن و امان کی ترویج، اب آپ ہی بتائیں! کہ کون سی بات اُن کی قابلِ گرفت ہے؟؟
اب دوبارہ اجتماع کی طرف آیئے! عشاء کے بعد جب بیان ختم ہوتا ہے تو دائیں، بائیں نگاہ دوڑائیں تو آپ کو مختلف علمی حلقے نظر آئیں گے، اُن میں جس حلقے میں بھی آپ بیٹھیں گے، لطف اندوز ہوں گے اور وہاں سے کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھاکر ہی اُٹھیں گے، پھر جب سونے کا وقت ہوجاتا ہے اور چاروں طرف خاموشی اور سکون طاری ہوجاتا ہے تو آپ ان کو دیکھیں گے گویا جگہ جگہ ستون کھڑے ہیں اور نماز میں مشغول ہیں اور جب رات کا آخری وقت ہوتا ہے تو ان کو دیکھیں گے گویا شہد کی مکھیاں ہیں جوبھنبھنارہی ہیں، ہر طرف آہ و بکا اور رو رو کے ہاتھ اُٹھائے دعا کررہے ہیں کہ:اللہ تعالیٰ ان کے اور تمام مسلمانوں کے گناہ معاف فرمائے، اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے تمام مسلمان بھائیوں کو جہنم کی آگ سے بچائے اور سب لوگوں کو ہدایت بخشے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وَسلم کی سنتوں کو زندہ کریں۔
مختصر یہ کہ یہ ایک ایسا اجتماع ہے، جس میں ہر عالم اور ہر طالب ِعلم کو آنا چاہئے، بلکہ ہر اُس مسلمان کو آنا چاہئے جو دِل میں اللہ کا خوف اور آخرت میں جنت کی اُمید رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس اجتماع کے ذمہ دار حضرات کو جزائے خیر دے، اُن کو ثابت قدم رکھے، اُن کی مدد فرمائے اور اُن کے ذریعہ مسلمانوں کو فائدہ پہنچائے۔ اِنَّہُ سَمِیْعٌ مُّجِیْبٌ۔
اب ان کے بارے میں سنیں جو اس اجتماع میں آنے والوں کی خدمت پر مقرر ہیں، وہ سب کے سب قرآنِ کریم کے حافظ ہیں، آٹا پیسنے والے کی زبان پر اللہ کا نام اور تسبیح و تکبیر جاری ہے، آٹا گوندھنے والے کی زبان پر اللہ کا نام، أَللّٰہُ أَکْبَر، سُبْحَانَ ا للّٰہِ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ جاری ہے، اور روٹی پکانے والے کی زبان پر بھی اللہ کا نام، اللہ کا ذکر، تسبیح، تحمید اور تکبیر جاری ہے اور یہ ہم نے اُس وقت اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا، جب کہ اُن کو ہمارے آنے کی پیشگی کوئی اِطلاع نہیں تھی اور نہ ہی اُن کو پتہ چلا کہ ہم دیکھ اور سن رہے ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اُن پر بصیرت کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنے ذکر کی توفیق دِی ہے، اور اُن کو وہ سیدھا راستہ دِکھایا ہے جس کی ہر مسلمان تمنا کرتا ہے۔
سَمَاحَةُ الْشَّیْخ! حقیقت یہ ہے کہ جو شخص بھی اِس جماعت میں شامل ہوگا اور ان کی صحبت میں شامل ہوگا اور ان کی صحبت میں رہے گا وہ ضرور عملی طور پر داعی اِلی ا للہ بن کر رہے گا۔
کاش! میں جب جامعہ میں طالب ِعلم تھا، اُس وقت سے اِس جماعت سے متعارف ہوتا تو آج میں دعوت اور تمام علوم میں علامہ ہوتا۔
بخدا! میرا ان کے بارے میں یہ اعتقاد ہے اور قیامت کے روز کہ: ”جس دِن مال، اولاد اور کوئی چیز کسی کے کام نہ آئے گی“ اگر جبار مجھ سے پوچھیں گے تو میں یہی جواب دوں گا۔
فَضِیْلَةُ الْشَّیْخ! کاش! وہ تمام دعا ة حضرات جو آپ کے مبارک شعبہ کے ماتحت کام کرتے ہیں، وہ اس اجتماع میں شریک ہوں، اور جماعت کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکلیں اور اِخلاص اور دعوت کا انداز سیکھیں اور صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین  کے اخلاق سیکھیں! اور آخر میں ا للہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حق کو حق دِکھائے اور اُس کی اِتباع کی توفیق دے اور رُشد و ہدایت کی رہنمائی فرمائے اور اخلاص اور صحیح اعمال کی توفیق دے اور ہمیں ہمارے نفس، خواہشات اور شیطان کے شر سے بچائے اور اپنے دِین کی نصرت فرمائے اور کلمہٴ حق کو بلند کرے اور ہماری حکومت کو اِسلام سے عزت دے اور اِسلام کو اُس کے ذریعہ عزت دے اور وہی اُس کے ولی اور اس پر قادر ہیں۔ وَصَلّٰی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَّآلِہ وَأَصْحَابِہ
صالح بن علی الشویمان
عنیزہ کے علاقہ میں
دعوت و ارشاد کا نمائندہ“۔
اِس رپورٹ کے جواب میں سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز نے اُن کو جو خط لکھا ہے اور جس کا نمبر ہے: ۱۰۰۷ خ ۱۷۔ ۸۔ ۱۴۰۷ھ، وہ درج ذیل ہے:
”بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
عبدالعزیز بن باز کی طرف سے (روحانی بیٹے) مکرم و محترم فضیلة الشیخ صالح بن علی الشویمان کی جانب! آپ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو مبارک بنائے، آمین۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ، اما بعد!
میں نے آپ کی رپورٹ جو آپ نے پیش کی ہے پڑھی ہے، جس میں آپ نے اپنے اور اپنے ساتھ جانے والے علماء اور طلباء، جن کا تعلق الجامعة الاسلامیہ مدینہ منورہ، جامعة الامام محمد بن سعود اور جامعہ ملک سعود وغیرہ سے ہے، اس اجتماع میں شریک ہونے کی تفصیلات لکھی ہیں، جسے تبلیغی جماعت نے رائے ونڈ میں ربیع الاول ۱۴۰۷ھ میں منعقد کیا ہے اس رپورٹ کو میں نے پڑھا ہے اور اسے کافی و شافی پایا ہے، اس رپورٹ میں اس اجتماع کی ایسی باریک تصویر پیش کی گئی ہے، جسے پڑھنے والے کو ایک شوق پیدا ہوتا ہے اور رپورٹ پڑھنے والا ایسا محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ خود اس کا مشاہدہ کررہا ہے۔
مجھے اس سے بھی بہت خوشی ہوئی کہ آپ سب حضرات نے اس اجتماع سے بہت سے فوائد حاصل کئے اور ذمہ دار حضرات سے تبادلہٴ خیالات کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے، اور اس قسم کے اجتماعات زیادہ سے زیادہ ہوں اور ان سے مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نفع دے۔
بے شک اس وقت مسلمانوں کو اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ اس قسم کی پاکیزہ ملاقاتیں ہوں، جن میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا تذکرہ ہو اور جن میں اِسلام کو مضبوط پکڑنے، اُس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور توحید کو بدعات اور خرافات سے پاک رکھنے کی دعوت ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو، چاہے حاکم ہوں یا رعیت، اِس فرض کی کامل ادائیگی کی توفیق دے۔“
انہ جواد کریم ….والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ،
الرئیس العام لادارةالبحوث العلمیة والافتاء والدعوة و الارشاد“

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے