مولانا محمد الیاس گھمن
آج اہل اسلام تعداد میں کم ہیں نہ ہی دولت، اقتدار، اسباب وسائل میں کسی قوم سے پیچھے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم عزت و وقار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، باہمی عداوت، نفرت، بغض وعناد اور حسد و جلن جیسے دیمک نے اس کے مضبوط اور با اثر وجود کو چاٹنا شروع کردیا ہے، نتیجۃ مسلمان اخلاقی اور روحانی اعتبار سے کھوکھلا ہوچکا ہے۔
جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسی معاشرت سپرد کی تھی، جس میں باہمی محبت، انس و مودت، اخوت و بھائی چارگی، خیر خواہی و ہمدردی، شفقت و احترام ، عزت و توقیر اور عظمت و مرتبت موجود تھی، اس حوالے سے آپ کی زبان مبارک سے تمام مسلمانوں کو آپس میں ”اخوت“ کے اعزاز سے نوازا گیا۔
المسلم اخو المسلم ۔
روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان خواہ کسی بھی رنگ، نسل، قبیلے، برادری یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ان کا آپس میں بھائیوں والا تعلق ہونا چاہیے ایک مسلمان کی خوشی سے دوسرے کو بھی خوشی حاصل ہونی چاہیے اور اگر کسی ایک کو کوئی دکھ ،رنج ،الم یا پریشانی پیش آتی ہے تو اس کی تکلیف بھی تمام مسلمانوں کو محسوس ہونی چاہیے۔
آپس میں اجتماعی زندگی گزارتے وقت کئی طرح کے امور پیش آتے ہیں مختلف مزاج انسانوں کے جمگٹھے میں بعض ناگوار اور غیر مناسب باتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے مواقع پر اسلام ہمیں غیر مناسب باتوں کو اچھالنے کی بجائے چُھپانے کا درس دیتا ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم ”پردہ دری“ کے ماحول میں پروان چڑھ رہے ہیں جب کہ ہمیں ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ”پردہ پوشی“ والے مقدس ماحول بنانے کا حکم دیا تھا۔
متعدد احادیث اس بارے میں کتب حدیث میں مذکور ہیں ،چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کا فرمان نقل کرتے ہیں جو خوشگوار اجتماعی زندگی کا روشن مینارہ ہے۔
آپس میں رہتے ہوئے اگر کسی کا کوئی عیب گناہ یا غیر اخلاقی کام دیکھ لیں تو اسے جگہ جگہ اچھالنے سے گریز کریں، بلکہ اسے چھپالیں۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپائے گا اسے ذلت و رسوائی سے بچائے گا تو اللہ کریم روز قیامت اس کے گناہوں کو چھپالیں گے۔
ایک اور حدیث میں اس بات کا سبق بھی دیا گیا ہے کہ آپس میں ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبے کو موجزن رکھا جائے ،اگر کوئی مسلمان پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کی پریشانی اور تکلیف کو دور کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے، جو شخص کسی کی دنیاوی پریشانی دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان بھائی کے لیےکسی معاملے میں آسانی پیدا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت کی میں آسانیاں ہی آسانیاں پیدا فرمائیں گے ، جب تک آدمی اپنے بھائی کی ہر ممکن مدد کرنے میں لگا رہتا ہےاس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی ”امداد “فرماتے رہتے ہیں۔
امام طبرانی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنے مومن بھائی کے عیوب کو دیکھ کر چھپالیتا ہے تو اللہ اسے بدلے میں جنت عطاء فرمائیں گے ۔
امام نسائی، ابن حبان اور امام حاکم رحمہم اللہ نے اپنی اپنی کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ ایک واقعہ نقل کیا ہے : دُخین ابو الہیثم نامی ایک شخص نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو اپنے پڑوسیوں کے بارے میں بتایا کہ وہ شراب خوری کرتے ہیں پھر ان سے پوچھا کیا میں ان کی اطلاع پولیس کو کردوں؟
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے :ہرگز نہیں! بلکہ تم ان کو سمجھاؤ اور اللہ کے خوف سے ڈراؤ۔ ابو الہیثم کہنے لگے کہ میں نے انہیں بارہا اس کام سے باز رہنے کو کہا لیکن وہ نہیں رکتے ۔کیا ایسی صورت میں ان کی اطلاع پولیس کو کردوں؟
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے:او اللہ کے بندے! ایسا نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس کو اس کا اتنا بڑا اجر عطاء فرماتے ہیں جیسے اس نے زندہ درگور کی جانے والی بچی کو زندہ بچالیا ہو۔
امام طبرانی رحمہ اللہ انہی عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہی کا ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ یہ مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ کے پاس ملنے کے لیے تشریف لے گئے تو مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ کے دربان نے آپ کو اندر جانے سے روک دیا اور آپس میں کچھ باتیں کرنے لگے اندر سے مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے چوکیدار سے کہا کہ انہیں اندر آنے دیں۔
جب حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے میں محض آپ کی زیارت کے لیے نہیں آیا بلکہ مجھے آپ سے ایک کام بھی ہے ۔کیا آپ کو وہ دن یاد ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا ”جسے اپنے بھائی کی برائی یا غیر اخلاقی کام کے بارے میں معلوم ہوجائے اور وہ اسے چھپالے یعنی اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے تو اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ “
مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں مجھے آپ علیہ السلام کا یہ فرمان یاد ہے چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں محض اسی لیے آپ کے پاس حاضر ہوا تھا کہ آپ سے اس کی تصدیق حاصل کرلوں۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات ہمیں معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اپنا مزاج ایسا بنانا چاہیے کہ ہم دوسروں کے عیوب کو جگہ جگہ نہ بتاتے پھریں ہمیں عیب گوئی سے بھی شریعت منع کرتی ہے اور عیب جوئی سے بھی۔
بلکہ سنن ابن ماجہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:” جو کسی دوسرے کی ”پردہ پوشی“ کرتا ہے اللہ قیامت کے دن اس کے عیوب اور گناہوں کو چھپالیں گے اور جو شخص لوگوں کی ”پردہ دری“ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو گھر بیٹھے ذلیل اور رسوا کردیتا ہے۔ “
اس حوالے سے آج ہم سب کو اپنی اپنی حالت دیکھ لینی چاہیے، کیا ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہمارے عیوب اور گناہوں کو چھپا لیں گے یا پھر ہم وہ کام کر رہے ہیں جس سے انسان اپنے گھر بیٹھے رسوا ہوجاتا ہے ۔ یہ بات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اسلام کی تعلیمات سے منہ موڑ لیا ہے ، ہماری اخلاقی حالت قابل رحم ہے ، جب سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی بجائے مغربی کلچر اپنے ماحول میں داخل کیا ہے اسی دن سے بے سکونی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک عادات اپنانے کی توفیق بخشے ۔
آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامی الکریم