عید الاضحیٰ: آوٴپھر عہدِ وفا تازہ کریں!

محمد عامر مظہری ،جالے
دارالعلوم سبیل الفلاح جالے
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ”ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کرنا اس لئے مقرر کیا تاکہ وہ مخصوص جانوروں (اونٹ‘ گائے‘ بکرے وغیرہ پر ) اللہ تعالیٰ کا نام لے کراسے قربان کریں“۔ (سورہ الحج) یہی وجہ ہے کہ اللہ کو منانے اور اس کی توجہ اور قرب اپنی جانب مبذول کرنے کے لیے قربانی کرنا حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اور تاحال جاری ہے اور تقرب کا یہسلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔قربانی کرنے کا اولین ذکرہمیں قرآن سے آدم علیہ السلام کے بیٹوں کی طرف سے دی گئی قربانی کے حوالے سے ملتا ہے۔ اس کے بعد تمام امتوں ،گروہوں،قبائل اور نسلوں میں اس کا وجود کسی نہ کسی طور پر نظر آتا ہے۔مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسرے تمام مذاہب میں بھی قربانی کو تقرب کے ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا۔بت پرست اپنے بتوں کے آگے قربانی دیتے تھے۔یہاں تک کہ شیطان کے پجاری شیطان کو راضی کرنے کے لیے قربانی پیش کرتے تھے،اسی طرح مجوسی و ستارہ پرست لوگوں کے ہاں اپنا ایک طریقہ رائج رہا الغرض ہر مذہب میں اپنے معبود کو راضی رکھنے کی ڈگر جاری رہی ہے ، سیکڑوں سال قبل دنیا کے ناقابل رسائی جنگلات میں بہت سے مشرک قبائل حتیٰ کہ آدم خور قبائل بھی ان دیکھے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے قربانی دیتے آئے ہیں۔بعض قبائل میں تو اس کے لیے انسان تک کی قربانی دی جاتی رہی ہے۔ زمانہٴ قدیم میں اہل مصر کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ اچھی فصل کے لیے نیل کے دیوتا کو خوش کرنے کے لیے انسان، جو عام طور پر کوئی کنواری دوشیزہ ہوا کرتی تھی، کی قربانی دیا کرتے تھے۔ انڈونیشیا کے وحشی اور آدم خور قبائل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں کی قربانی دیا کرتے تھے۔جنوبی امریکا کے بہت سے جنگلی قبائل میں بھی اس امر کے اشارے ملتے ہیں کہ وہ ایسا کیا کرتے تھے۔ جانوروں کی قربانی تو مختلف مذاہب میں عام رہی ہے اور آج بھی دی جاتی ہے، تاہم اس سلسلے میں حرام حلال جانور کی تمیز نہیں کی جاتی ۔ہندو مت میں بھی مختلف دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لیے ”بھینٹ“ کا تصور موجود ہے۔قربانی کے لیے ضروری نہیں کہ ان مذاہب میں صرف جانوروں کو قربان کیا جائے بلکہ خوراک اور دیگر مختلف اشیاء کی شکل میں بھی قربانی دی جاتی رہیں ہیں اور اسی وجہ سے قربانی کو مختلف مذاہب میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔مثال کے طورپر ماقبل عیسائیت کے مختلف علاقائی مذاہب میں قربانی کے لیے جو نام استعمال کیے جاتے تھے ، ان میں ہندوؤں میں اسے ”بھینٹ“ اور ’یگیہ “، یونانیوں میں ”تھوسیا“ ، جرمنی قبائل میں ”بلوٹان“ اور صیہونی یا عبرانی زبان میں ”قربان“ کہا جاتا تھا۔
اسلام میں قربانی سنت ابراہیمی کی یاد گار ہے۔کیوں کہ حدیث شریف میں موجود ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قربانی کیا ہے؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کی یادگار ہے“چوں کہ دین اسلام کو ملت ابراہیم علیہ الصلوة و السلام سے کافی امور میں مماثلت ہے اس لئے قربانی کی نسبت حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة و السلام کی طرف کی گئی ہے۔ دوسری وجہ مفسرین نے یہ بھی لکھی ہے کہ قربانی کے عمل میں حضرت اسماعیل علیہ الصلوة و السلام کے واقعہ کو خاصہ دخل ہے۔ اس لئے نسبت ان کی طرف کی گئی ہے کہ ’سنتہ ابیکم ابراہیم‘ قربانی کی فضیلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ کوئی نبی اور کوئی امت اس مبارک عمل سے مسثتثنیٰ نہیں رہی ہے خود سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال گزارے اور ہر سال قربانی فرماتے رہے ایک اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف اور حجتہ الوداع کے موقع پر سو اونٹ قربان فرمائے جن میں تریسٹھ اونٹ خود اپنے دست مبارک سے راہ خدا میں ذبح فرمائے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو ترغیب دینے کے لئے اس مبارک عمل کے فضائل بیان فرمائے اور دونوں جہانوں میں رب العالمین کی رضاکا ذریعہ قرار دیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یوم النحر (دسویں ذوالحجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل خدا کے نزدیک قربانی کرنے سے زیادہ پیارا نہیں۔ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ، بال اور کھروں کے ساتھ آئے گا، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے خدا کے نزدیک شرف قبولیت حاصل کرلیتا ہے لہذا اسے خوش دلی سے کرو“۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا ہوں۔ (ترمذی 3 : 159، رقم : 1493)حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔ (ترمذی 3، 170، رقم، 1507)حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ قربانی کیا شے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اگر مینڈھا ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تب بھی ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی“۔ (ابن ماجہ، 3 : 533، رقم : 3127)
یہ قربانی بلاشبہ سنت ابراہیمی ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اسلام کی سر بلندی و احیائے دین و ملت اسلامیہ کی نشأتِ ثانیہ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار رہیں، مال و دولت، اہل و عیال یہاں تک کہ اپنی جان بھی راہ حق میں لٹانے سے گریز نہ کریں۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے قربانی کی رسم کو تو اپنایا مگر اس کی اصل روح کو نہ سمجھ سکے۔ دراصل قربانی 10 ذی الحجہ کو جانور کی گردن پر چھری چلا کر خون بہادینے کا نام ہے۔ گوشت تقسیم کرنا بعد کا حکم ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔”ہر گز نہ (تو) اللہ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے“۔ (الحج)گویا انسان 10 ذی الحجہ کو جانور کی قربانی دے کر ذبح حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یاد تازہ کرتا ہے اور اس دن اللہ سے یہ وعدہ کرتا ہے کہ اے اللہ! جس طرح آج حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا فدیہ ادا کررہا ہوں اسی طرح اس خون کو گواہ بناکر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تیرے لئے، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تیرے دین کی سربلندی کے لئے مجھے جان بھی قربان کرنی پڑی تو کبھی بھی دریغ نہیں کروں گا۔ اگر قربانی کے عمل کے اندر یہ روح کارفرما نہ ہو تو قربانی رسم کے سوا کچھ نہیں۔کیوں کہ قربانی کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے وہ اخلاص، للہیت، ایثار، تقویٰ اور مجاہدانہ کردار کی تیاری کو یقینی بنانا ہے۔ قربانی محض جانور ذبح کرنا نہیں بلکہ تقویٰ کے جذبات ہیں اور مقصد رضائے الہٰی ہے۔ عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم عبادت ہے، وہاں تجدید عہد ِوفا بھی ہے۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا او رہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔ بندگی کے اظہار کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرنا بندہ مومن کا شیوہ ہے۔ اور دنیائے کفر کو یہ باور کروانا بھی ہے کہ ہم جس طرح حکمِ خداوندی اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اسی طرح ہم اپنے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر اپنی جان ، اپنا مال اور اپنی اولاد قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے ۔
مگر دنیاوی لذات میں کھو کر آج ہم ذبح عظیم کی حقیقی روح کو فراموش کر کے عید الاضحی یعنی اس سنت ابراہیمی کو فقط اپنی نمود و نمایش ہی کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں ، ایک بکرے کی بجاے تین یا چار جانور ذبح کر کے معاشرے میں اپنی دولت کی دھاک بٹھانا ، قربانی کا گوشت حقداروں میں تقسیم کرنے کی بجائے دوستوں کے ساتھ دعوتوں میں اڑانا،یا پھر محض گوشت کو سال بھر محفوظ رکھنے کی نیت سے عید سے قبل ڈیپ فریزر خریدنا، گھر پر یا ہوٹلوں میں عید کی شاندار پارٹیوں کا اہتمام کرنا، الغرض آج ہماری عید الاضحی صرف مظلوم و بے زبان جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلا کر معاشرے میں اپنی دولت کی نمود و نمایش تک محدود ہو کر رہ گی ہے ، اس عظیم قربانی کا اصل مفہوم تو یہ تھا کہ انسان اپنے نفس کی ناقہ کو قربان کرے اور انقطا ع کی چھری سے اپنی خواہشات نفسانی کی گردن کاٹ دے یہی وہ نیت ابراہیمی ہے اور یہی سنت اسماعیلی ہے، ذبح عظیم کی حقیقی روح کو فراموش کر کے ہم بیشک لاکھوں جانور ذبح کرتے چلے جا ئیں ،تمام بے سود اور فقط جانوں کا زیاں ہے ، ذبح عظیم تو وہ ہے جو اپنے دل سے ذبح ہو رہا ہو، ذبح عظیم تو نفس کو قربان کرنے کا پیغام تھا، ذبح عظیم تو اپنی نفسانی خواہشات کی گردن کا ٹنے کا نام تھا،اور ذبح عظیم تو خود اپنے حقوق اپنے ہاتھوں تلف کرتے ہوے اپنے مال کا حصہ قربانی کے گوشت کا ایک بڑا حصہ غربا و مساکین میں تقسیم کرنا تھا؛کیوں کہ خالق کائنات کی خوشنودی کا راستہ اسکی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی سے ہو کر جاتا ہے ، یہی وہ تعلیم تھی جو اسی ذبح عظیم کا ایک پیغام بھی تھا کہ مخلوق خدا سے ہمدردی کے بنا خالق سے محبت کے تمام دعوے لا حاصل ہیں ، آج ہم نے جانوروں کی گردنوں پر چھریاں چلانے کی رسم تو اپنا لی لیکن سنت اسماعیلی کو قطعا فراموش کر تے ہوے اپنے نفس کو بے لگام ہی چھوڑ دیا تمام کی تمام حقیقی قربانیوں اور ذبح عظیم کی روح کو کتابوں میں دفن کر کے بے زبان جانوروں کا خون بہانے گوشت کھانے اور دعوتیں و پارٹیاں اڑانے کوبنا دیا جب کہ حقیقی قربانیاں تو آج یہ بے چارے بے زبان جانور دے رہے ہیں ،اپنی جانوں کا ہمارے ہاتھوں زیاں کر کے ،افسوس کہ اس ذبحِ عظیم کی روح کو آج یہ بیچارے بے زبان جانور تک تو سمجھ گئے مگر یہ نسل ابراہیم آج بھی اس سنت اسماعیلی سے ناواقف ہی ہے۔
آج عزمِ ابراہیمی درکار ہے۔ کیوں کہ عید قرباں پر بارگاہِ الٰہی میں قربانی کے ذریعے ہم اس درس کی تجدید کرتے ہیں جو عرب کے ریگ زار میں اللہ کے سچے پیغمبر نے اپنے فرزند کی قربانی پیش کر کے وفا شعاری کا عزم دیا، اور رب کریم کی اطاعت و فرماں برداری کا درس دیا، پھر عزم جواں چاہیے جس سے اسلام کی فصیل کو اندرونی و بیرونی حملوں سے بچانے کا سامان مہیا ہو سکے۔ کیا ہم اپنے زخموں سے با خبر ہیں؟عراق و افغان تباہ ہو کر رہ گئے، فلسطین میں خونِ مسلم کی ہولی کھیلی جاتی رہی، مصر و لبنان، شام و یمن اور لیبیا صہیونیت کی زد پر ہیں، ہمارے کلچر کو مغرب دوخانوں میں تقسیم کر رہا ہے، تعبیرات کا یہ طلسم اس کی مثال ہے،اعتدال پسند اور انتہا پسند،لیکن مسلمان مسلمان ہے وہ ان صہیونی تعبیرات سے اپنی شناخت کو مجروح ہوتا نہیں دیکھ سکتا،دنیا کے بہت سے خطے خونِ مسلم سے لہولہان ہیں، اسلامی ممالک میں باہم اتحاد نہیں، عربوں کا سرمایہ سوئز بنکوں میں منتقل ہو رہا ہے، معاشی طور پر مسلمانوں کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے، سیاسی لحاظ سے بھی ہم کم زور کر دیئے گئے، عرب حکمراں اسلامی آثار کو ہی پامال کرتے جا رہے ہیں،آج اسلامی تمدن پر حملہ ہے، اسلامی وضع قطع پر حملہ ہے،
داڑھی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا ہم اب بھی نہ جاگیں گے؟کیا قربانی کے لیے جذبہٴ صالح اب بھی بیدار نہیں ہوگا؟ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نفس کی قربانی دے کر اسلامی زندگی کا عہدکریں۔ ہم اپنے مال کی قربانی دے کر باطل کے خلاف صالح لٹریچر کی اشاعت کریں، ہم گستاخوں کے مقابل ڈٹ کر عشق رسول کے داعی بن جائیں، ہم عزم ابراہیمی سے فیض حاصل کر کے قوم کے لیے کچھ جدوجہد کریں۔
قربانی کا مقصد یہی ہے کہ رب کی رضا کے لیے جیو، زندگی گزارو اپنے خالق کی خوشنودی کے لیے، جہاں رہو جس حال میں رہو اسلام کے سچے وفادار بن کر رہو، اسلامی احکام پر عمل کرو، اسلامی تہذیب اپنا کر زندگی کامیاب بناوٴ۔ یہی ہمارا مقصد ہو کہ ہمارا ہر لمحہ اطاعت الٰہی اور محبت رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں گزرے۔ ہمارا ہر عمل اسلام کے مطابق ہو #
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے