عشرہٴ ذی الحجہ، قربانی فضائل ومسائل

تحریر :مولانا محمد ساجد حسن سہارنپوری
استاد تفسیرو حدیث جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور یوپی

تجربات و مشاہدات سے یہ ثابت ہے کہ سال بھر میں کئی موسم، بہاریں اور فصلیں آتی ہیں اور یہ علا قا ئی اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں، مثلاً ہمارے ان اطراف(سہا رنپوروغیرہ) میں گر می کے موسم کے آغاز میں گندم (گیہوں) کی فصل اوسر دی کے موسم کے آغاز میں دھان کی فصلیں ہوتی ہیں، ایک فصل کا موسم ختم ہوتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے۔ کاشتکار دونوں فصلوں میں گندم کی فصل کو اہم اور قیمتی سمجھتا ہے مگر کبھی کبھی تقدیرِ خداوندی سے اس فصل سے بالکل محروم یا خاطر خواہ اور اندازہ وقیاس کے مطابق نفع حاصل نہیں کرپاتا، گذشتہ کی تلافی اور مستقبل کو روشن بنانے والا کاشت کار صورت اپنی تمام تر توجہ آئندہ فصل پر مرکوز کردیتا ہے۔
نیز تاجروں کو بھی فصل کے موقع پر قیمت کم دینی ہوتی ہے اور سامان زیادہ ملتا ہے، ہوشیار، مزاج شناسی، اور تجربہ کا رتاجر اس موقع پر کم قیمت اورکم محنت اٹھا کر زیادہ اسٹاک کرلیتا ہے اور نفع حاصل کرتا ہے۔
شریعت کی نظر میں بھی ہر آدمی تاجر ہے ”کُلُّکُمْ َبائعٌ نَفْسَہ“ اس کو بھی نیکیاں حاصل کرنی ہیں، اس لیے اس کو فصل بہارا ور ایسے مواقع سے سرفراز کیا گیا ہے کہ محنت و مشقت کم اور فائدہ زیاد ہ سے زیادہ حاصل کرسکے۔
سب سے بڑی فصل بہار تو رمضان المبارک اور شب قدر تھی، مگر جو لوگ غفلت اور اپنی کوتاہ طبیعت اور اپنی کم ہمتی کی بنا پر اس سے محروم رہ گئے، تو ان کو مزید ایک اور موقع دیا جاتا ہے اور وہ ذی الحجہ کے دس دن اور دس راتیں ہیں۔
جس کی ایک رات کی عبادت ایک سال کی عبادت کے برابر ثواب رکھتی ہے اس کثیر ثواب کی خاطر ضروری ہوا کہ عشرہ ذی الحجہ میں عبادت اورروزوں کا اہتمام کریں، جو شب زندہ دار ہیں ان کے لیے تو ”سونے پر سہاگہ“ ہے مگر دیگر قدردانوں کے لیے بھی یہ نعمت غیر مترقبہ ہے۔ اس لیے ان راتوں کو بھی مثل رمضان تسبیح و تہلیل ، تلاوت و استغفار ،نیاز و نماز میں بسر کریں۔ والله الموفق وہوالمعین․
چنانچہ قرآن کریم میں قسم کھاکر اللہ رب العزت نے ان راتوں کی اہمیت بتلائی ہے
”وَالْفَجْرِ، وَلَیَالٍ عَشْرٍ، وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ، وَاللّٰیْلِ اِذَا یَسْرِ،ہَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِذِیْ حِجْرٍ․“
” قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اورجفت اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلنے لگے ،بیشک اس میں عقل مند کے واسطے کافی قسم بھی ہے“۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں چند چیزوں کی قسم کھاکر یہ ارشاد فرمایا: کہ کافروں کو، توحید و رسالت کا انکار کرنے والوں کو ضرور سزا ہوگی، اللہ تعالیٰ کو قسم کھانے کی ضرورت تو نہیں مگر مخاطبین کے اعتبار سے کلام میں قوت پیدا کرنے کے کے لیے اور جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان کی عظمت واہمیت اجاگر کرنے کے لیے کلام الٰہی میں متعدد قسمیں موجود ہیں۔
مذکورہ آیت شریفہ میں اولاً وقت فجر اور بعدہ اکثر مفسرین کے بقول ماہ ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے،تذکرہ اگر چہ دس راتوں کا ہے مگر مراد و مقصود دس رات اور دس دن دونوں ہیں۔
ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں: کہ سورہٴ فجر میں اللہ رب العزت نے فجر اور دس راتوں نیز شفع اور وتر کی قسم کھائی ہے، توان دس راتوں سے ذی الحجہ کی دس راتیں مراد ہیں۔ شفع سے قربانی کا دن اور وتر سے عرفہ کا دن مراد ہے۔
(شعب الایمان، تخصیص ایام العشر من ذی الحجة بالاجتہاد وبالعمل فیہن رقم الحدیث ۳۷۴۶)
نیز سورہ ٴحج کی آیت شریفہ ۲۸: ”وَاذْکُرُ وا اللهَ فِیْ اَیَّام مَّعلُوْمَات“ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ: اَیاّم معلومات سے بھی ذی الحجہ کے دس دن ہی مراد ہیں۔ اور بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ کا یہ عمل بھی مذکورہ ہے کہ یہ دونوں حضرات ان ایام کی خود بھی قدر کرتے، تکبیر(اللہ اکبر) و تہلیل(لا الہ) پڑھتے اور لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے بازار جاتے اور بآواز بلند تکبیر پڑھتے ان کے اس عمل کو دیکھ کر لوگ بھی تکبیر پڑھتے۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی ”ما ثبت من السنة “ نامی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :کہ اگر کسی آدمی نے نذر اور منت مان لی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو ہفتہ کے سب سے افضل اور بہتر دن کا روزہ رکھوں گا، تو اسے جمعہ کے دن کا روزہ رکھنا ہوگا کیونکہ جمعہ کا دن ہفتہ کا سب سے افضل اور بہتر دن ہے۔
اور اگر کسی نے نذر مانی کہ وہ سال کے سب سے افضل دن کا روزہ رکھے گا تو اس کو عرفہ کے دن (نویں ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا ہوگا، کیونکہ عرفہ کا دن سال کا سب سے افضل دن ہے۔
اور اگر کسی نے نذر مانی کہ سال کے سب سے افضل دنوں کے روزہ رکھے گا تو اس کو انہیں ذی الحجہ کے دس دنوں کے روزے رکھنے ہوں گے، کیونکہ سال کے سب سے افضل دن یہی ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔
شیخ صاحب کی اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ذی الحجہ کے یہ دس دن کس قدر قیمتی ہیں اور ہفتہ کا سب سے افضل اور بہتر بلکہ سال کا سب سے بہتر دن بھی ان دس دنوں میں ہی آرہا ہے۔
بعض علماء نے اس عشرہ کو رمضان کے عشرہ سے بھی اس اعتبار سے افضل قرار دیا ہے کہ اس عشرہ میں بہت سی بنیادی عبادتیں اکٹھی ہوجاتی ہیں جو دوسرے دنوں رمضان وغیرہ میں جمع نہیں ہوتیں، مثلاً نماز، روزہ، صدقہ اور حج وغیرہ سب ان دس دنوں میں جمع ہیں۔
(ما ثبت من السنة ص:۲۴۳)
احادیث مبارکہ میں بھی ان ایام اور خود ذی الحجہ کی فضیلت بھی مذکور ہے۔
ماہ ذی الحجہ کی فضیلت
مہینوں میں سب مہینوں کا سردار تو رمضان المبارک ہے، مگر رمضان کے بعد جس مہینہ کی رو رعایت اور جس کا حق، جس کی حرمت، جس کا ادب و احترام اور جس کا اہتمام سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب مہینوں کا سردار تو رمضان المبارک ہے اور مہینوں میں سب سے بزرگ تر ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔
(شعب الایمان بیہقی باب فی الصیام تخصیص أیام العشر من ذی الحجہ رقم: ۳۷۵۵)
نوٹ: ”عشرة“ کے معنی عربی زبان میں دس اور ذی الحجہ کے معنی حج والا مہینہ جو ہجری سال کا بارھواں مہینہ کہلاتا ہے، مگر یہاں عشرة سے دس نہیں بلکہ نو دن مراد ہیں، انہیں کا روزہ رکھنا بالاجماع مستحب ہے، دسواں دن قربانی کا دن ہے جس کار وزہ رکھنا حرام ہے۔ (تحفة الالمعی ۳/۱۳۰)
آداب ماہ ذی ا لحجہ:
ذی ا لحجہ کا مہینہ شروع ہو نے کے بعد مستحب ہے کہ آدمی نہ سر منڈوائے ،نہ بال کتر وائے، نہ ناخن ترشوائے ،خصوصاً جس کو قربانی کرنی ہو اس کے لئے اور زیادہ تاکید ہے ۔
ام المومنین حضر ت ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کو قربانی کرنی ہو، اورذی الحجہ کا چاند نظر آجائے ،تو وہ شخص اپنے بال نہ کٹائے اور نہ ناخن میں سے اس وقت تک کچھ ترشوائے جب تک کہ قربانی نہ کرلے ۔
(مسلم شریف باب نہی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ :الرقم ۱۹۷۷)
اورجس پرقربانی واجب نہیں اس کے لئے ان چیزوں کااستحباب ایک دوسری حدیث سے ثابت ہوتا ہے ،جس کو ہم (قربانی کے بدل)کے عنوان سے آگے لکھیں گے۔
عبادت کے لیے سب سے موزوں و مناسب دن:
کاشتکار جس موسم میں بھی بیج زمین میں ڈالدے تو بیج اُگ ہی جاتا ہے مگر تھوڑی محنت ، تھوڑی لاگت اور پیدا وار زیادہ۔ تو اس کے لیے ہوشیارکاشتکار اور دانا تاجر، مناسب اور موزوں موسم کا منتظر رہتا ہے۔ اسی طرح جس وقت اور جس حال میں بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی عبادت کرلی جائے تو بہتر ہی بہتر ہے۔ مگر تھوڑی محنت ”عمل کم اور ثواب زیادہ“ کے متلاشی حضرات کے لیے ذی الحجہ کے شروع کے دن بہت مناسب ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ عبادت کے لیے سب سے موزوں و مناسب اور سب سے محبوب و پسندیدہ دن اللہ کے نزدیک ذی الحجہ کے دس دن ہیں، کیونکہ ذی الحجہ کے ایک دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت کا ثواب شب قدر کی نفلوں کے برابر ہے۔
(رواہ الترمذی باب ماجاء فی العمل فی أیام العشر:الرقم۷۵۸)
ایک دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے برابر:
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، ذی الحجہ کے شروع کے دنوں میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور عرفہ (نویں ذی الحجہ) کا روزہ دو سال کے روزوں کے برابر اور عاشورا (دسویں محرم کا روزہ) ایک سال کے برابر اور جمعہ کی راتوں کی عبادت کا ثواب شب قدر کی نفلوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔
(اصبہانی فی الترغیب فی العمل فی ایام العشرة رقم الحدیث:۳۶۲)
ہر دن تین سال تین مہینے کے برابر:
حضرت انس بن مالک سے منقول ہے کہ (ذی الحجہ) کے دس دنوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ (ان میں سے ) ہر دن ایک ہزار دن کے برابر ہوتا ہے (اور ایک ہزار دن کے تقریباً تین سال تین مہینے ہوتے ہیں)اور(خاص) عرفہ کا دن فضل وثواب کے لحاظ سے دس ہزار دنوں کے برابرہے ۔
(بیہقی شعب الایمان الرقم ۳۷۶۶)
جہاد کے برابر ثواب
جہاد ہی کتنا مبارک عمل ہے پھر جہاد بھی وہ جس میں دن میں روزہ اوررات میں اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز گویا شب وروز کے چوبیس گھنٹے میں عبادت ہی عبادت۔ چوبیس گھنٹے عبادت کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اور رہا جہاد تو وہ تو بڑے دل ،گردے والے کا کام ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے اللہ رب العزت نے ذی الحجہ کے دس دن عنایت فرمائے ہیں جو مذکورہ جہاد سے بھی کئی درجہ افضل وبہتر ہیں۔
عباس بن الولید کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے اوزاعی نے بیان کیا اور اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ (ذی الحجہ) کے دس دنوں میں سے کسی دن میں کیا جانے والا عمل اللہ کی راہ میں کئے جانے والے کسی ایسے غزوہ کے بقدر اجروثواب رکھتا ہے کہ جس کے دن میں روزہ رکھا جائے اور رات میں پہرہ داری کی جائے مگر یہ کہ کوئی شخص شہادت کو سینہ سے لگالے۔
اوزاعی کہتے ہیں کہ مجھ سے قریش میں سے بنو مخزوم کے ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث بیان کی۔
(بیہقی فی شعب الایمان رقم الحدیث:۳۷۵۳)
کتنا روشن دن، کتنی منوّر رات ہے
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ ذی الحجہ کے شروع کے دس دنوں کی عبادت اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اور دوسرے دنوں کی بہ نسبت اِن دنوں کے عمل کے ثواب میں اضافہ کردیا جاتا ہے، چنانچہ ذی الحجہ کے ایک ایک دن کے روزوں کا ثواب ایک ایک سال کے روزوں کے برابر اور اس کی راتوں کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ثواب رکھتی ہے۔
(اصبہانی فی الترغیب فی العمل فی ایام العشرة رقم الحدیث:۳۶۵)
سب سے زیادہ ثواب والا عمل:
عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی عمل اللہ کے نزدیک اس نیک عمل سے زیادہ پاکیزہ اور ثواب میں بڑھا ہوا نہیں ہے کہ انسان جس کو عید الاضحی کے پہلے دس دنوں میں انجام دیتا ہے۔ پوچھا گیا ، کیا جہاد بھی نہیں؟ فرمایا: جہاد بھی نہیں ہاں! یہ کہ کوئی آدمی جان مال لے کر نکلے اور دونوں کو اللہ کے راستہ میں لگادے۔ اسی بنا پر سعید بن جبیر ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہونے پر عبادت میں حد سے زیادہ منہمک رہتے تھے۔
(شعب الایمان، باب فی الصیام ، الصوم فی الاشہر الحرم رقم الحدیث:۳۷۵۲)
نوٹ: ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ کو یوم الترویہ کہتے ہیں۔
آٹھویں دن کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ:
حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں سے ہر دن کے روزہ سے ایک مہینہ کے گناہ معاف اور آٹھویں ذی الحجہ کے روزہ سے ایک سال کے گناہ معاف اور عرفہ کے دن کے روزہ سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
(اصبہانی فی الترغیب فی العمل فی ایام العشرة رقم الحدیث:۳۶۳)
عرفہ کا دن: ذی الحجہ کے نویں دن کو عرفہ کہا جاتا ہے۔
ایک سال کا کفارہ:
عرفہ ایک ایسا متبرک دن ہے کہ اگر آدمی اپنے اعضاء کو اس دن گناہوں سے محفوظ رکھ لے تو اس ایک دن کی برکت سے اللہ تعالیٰ ایک سال کے گناہوں کومعاف فرمادیتے ہیں۔
حضرت فضل بن عباس  حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: کہ جس آدمی نے عرفہ کے دن اپنی زبان، اپنے کان، اپنی آنکھ کو (حرام کاموں سے) محفوظ رکھا تو اس کے ایک سال کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔
(شعب الایمان باب الصیام تخصیص یوم عرفة بالذکر رقم الحدیث : ۳۷۶۸ )
دو سال کے گناہوں کا کفارہ
عرفہ کا دن اتنا مبارک دن ہے کہ اس ایک دن کا روزہ رکھنے سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ایک سال گذشتہ کے اور ایک سال آئندہ کے۔
(۱) حضرت ابو قتادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں :کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہے، اور دسویں محرم کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی الرقم:۳۷۶۲ )
ایک ہزار دن کا ثواب
سابقہ حدیث سے گناہوں کا کفارہ ہونا ثابت ہوا۔ مندرجہ ذیل حدیث سے ایک روزہ کا ثواب ایک ہزار دن کے برابر ثواب کا ملنا معلوم ہورہا ہے۔
(۲) حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرفہ کے دن کا روزہ ایک ہزار دن کے روزوں کے برابر ثواب رکھتا ہے۔
(شعب الایمان للبیہقی الرقم:۳۷۶۴)
عرفہ کے دن کی دعا ء:
مانگنے کا طریقہ بھی بتا دیا جائے اور کیا مانگا جائے یہ بھی بتادیا جائے یہ اللہ کے بے پناہ احسانات میں سے ایک احسان ہے،چنانچہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (دسویں ذی الحجہ، عرفہ کے دن) درج ذیل دعا پڑھتے تھے۔
لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَہ لاَشَرِیْکَ لَہ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ․
(شعب الایمان للبیہقی الرقم:۳۷۶۷)
سب سے زیادہ مغفرت والا دن:
حضرت جابر  سے منقول ہے کہ:ذی الحجہ کی دس دنوں سے زیادہ فضیلت والے دن اللہ کے نزدیک کوئی نہیں ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ : ذی الحجہ کے دس دن زیادہ فضیلت والے ہیں یا ان دس دنوں کے برابر اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا زیادہ افضل ہے؟ فرمایا: ذی الحجہ کے دس دن زیادہ افضل ہیں ان کی بقدر اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے سے۔
عرفہ کے دن سے زیادہ فضیلت والا اللہ کے نزدیک کوئی اوردن نہیں ہے، اس دن اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اترتے ہیں، اور زمین والوں کے ذریعہ آسمان والوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: دیکھو میرے بندے کیسے پراگندہ ،غبار آلود دھوپ کے اندر بغیر کسی چیز کا سایہ کئے ہوئے جو آئے ہیں دور دور راستوں سے جو میری رحمت کے امیدوار ہیں اور انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا، پس نہیں دیکھا گیا کوئی ایسا دن جس میں آگ سے آزادی زیادہ مقدار میں ہوتی ہو عرفہ کے دن کے مقابلہ میں۔
(ابن حبان رقم الحدیث : ۳۸۵۳ باب ذکر رجاء العتق من النار لمن شہد عرفات یوم عرفة)
ابلیس عرفہ کے دن سے زیادہ کسی بھی دن ذلیل و خوار ،حقیر ،ایڑیاں رگڑتا ہوا ،پھسلتا ہوا غصہ میں نہیں دیکھا گیا، اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ عرفہ کے دن کثرت سے نزول رحمت اور گناہوں کی بخشش کو دیکھتا ہے (کہ ابلیس نے اس سے زیادہ تکلیف دہ بات نہیں دیکھی) سوائے اس کے جو اس نے یوم بدر میں دیکھا؟ پوچھا گیا :اس نے یوم بدر میں کیا دیکھا؟فرمایا: اس نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ملائکہ کی صف بندی کررہے تھے۔
۔(الأصبہانی رقم الحدیث: ۱۰۴۳)
ان دنوں کا خصوصی عمل
نماز ،مناجات دعاء، درود، تلاوت ، دعوت و تبلیغ آدمی جو بھی نیک عمل کرے تو بہتر ہی ہے مگر ان دنوں کا خاص عمل بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے:
سعید بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن زیادہ فضیلت والے ہیں، اور ان میں کیا گیا عمل بھی اللہ کو بہت محبوب ہے، تو تم ان دنوں میں لا الہ الا الله، الله اکبر اور سبحان الله بکثرت پڑھا کرو، کیونکہ یہ تہلیل و تکبیر وتسبیح کے دن ہیں، ان میں سے ہر ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ثواب رکھتا ہے اور عمل کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
عشرہ ذی الحجہ کے روزے کبھی نہیں چھوڑے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ذی الحجہ کے شروع کے دس دنوں کے روزے رکھتے تھے۔
حضرت حفصہ سے مروی ہے کہ چار چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ترک نہیں کرتے تھے، (۱) عاشورا کا روزہ (۲) ذی الحجہ کے دس دن کے روزے (۳) ہر مہینہ کے تین دن کے روزے (۴) فجر سے پہلے دو رکعت سنت۔

(احمد ۶/۲۸۷، النسائی فی الصیام باب کیف یصوم ثلاثة ایام من کل شہر ۱/۲۶۸)۔

قربانی : فضائل ومسائل
تکبیر تشریق :
نویں ذی الحجہ کی نمازِ فجرسے تیرھویں ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نمازکے بعد مردوں، اور عورتوں پر اَللّٰہُ اَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ لاَاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ أَللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ“پڑھنا واجب ہے،البتہ مرد بلند آواز سے اورعورتیں آہستہ سے پڑھیں گی۔
قربانی کامفہوم:
لفظ قربانی کا مادہ ہے ،”قَ رُ بَ“جس کا مفہوم ہے قریب ہونا ۔
قربانی اصطلاح لفظ ِقربان سے بنی ہے جس کے معنی ہیں ”ہر وہ چیز جسے اللہ کی راہ میں اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے پیش کر دیا جائے،،۔
تاریخِ قربانی:
حضرت ابراہیم جب اپنے اہل وطن کے ایمان سے بالکل مایوس ہو گئے،اور آپ کے بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا،توآپ اپنی زوجہٴ مطہرہ حضرت سارہ اور اپنے بھانجے حضرت لوط علیہ السلام کو لیکر سفر پر روانہ ہوئے اور عراق کے مختلف حصوں سے ہو تے ہوئے بالآخر ملک ِشام پہنچ گئے، اس وقت تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے یہا ن کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اس لئے آپنے دعا فر مائی ”رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ“اے میرے پروردگار مجھے ایک نیک فرزند عطا فرما ۔
چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالی نے آپ کو ایک فرزند کے پیدائش کی خوش خبری سنائی”فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ“ پس ہم نے ان کوایک حلیم المزاج فرزند کی بشارت دی ،حلیم المزاج کہہ کر اشارہ کر دیا گیا کہ وہ بچہ اپنی زندگی میں ایسے صبر و ضبط اور بردباری کا مظاہرہ کرے گا کہ دنیا اس کی مثال پیش نہیں کرسکے گی ۔
”فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ ٰیبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْمَاذَا تَرٰیط“تو جب وہ فرزند اتنی عمر کو پہونچا کہ ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے، پھرنے لگا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :بر خوردار! میں نے خوا ب دیکھا کہ: میں تم کو ذبح کر رہا ہوں ،بعض روایات سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تین روز متواتر دکھایا گیا ۔ (قرطبی)
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا خواب وحی ہوتا ہے ،اس لئے اس خواب کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا ہے کہ: اپنے اکلوتے بیٹے کوذ بح کردو،اور وہ پو ری طرح ذبح کرنے پرآمادہ ہو گئے۔
(اللہ تعالی نے” فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ“ کے الفاظ بڑھائے ہیں یعنی ارمانوں سے مانگے ہوئے اس بیٹے کو قربان کرنے کا حکم اس وقت دیا گیا تھا جب یہ بیٹا اپنے باپ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہو گیاتھا،اور پرورش کی مشقتیں برداشت کرنے کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ وہ قوت ِبازو بن کر باپ کا سہارا بنے،مفسرین نے لکھاہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ سال تھی)،حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل سے فرمایا” فاَنْظُرْ مَاذَا تَریٰ“( تم بھی سوچ لو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟)
حضر ت اسما عیل نے جواب دیا:” ٰٓیاَبَتِ افْعَلْ مَا تُوٴْمَرُ ز“ابا جان! جس بات کا آپ کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گزریئے، اس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بے مثال جذبہٴ جاں سپاری کی تو شہادت ملتی ہی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کم سنی میں اللہ نے انہیں کیسی ذہانت اور کیسا علم عطافرمایا تھا ،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کے سامنے اللہ کے کسی حکم کا حوالہ نہیں دیا تھا ،بلکہ محض ایک خواب کا تذکرہ فرمایاتھا۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی طرف سے اپنے والد بزرگوار کو یہ یقین بھی دلایا کہ:”سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ“(انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے)
”فَلَمَّآأَسْلَمَا وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنَ“ (پس جب وہ دونوں اللہ کے حکم کے آگے جھک گئے،یعنی باپ نے بیٹے کو ذبح کرنے کااور بیٹے نے ذبح ہوجانے کا ارادہ کر لیا ۔
بعض تاریخی اور تفسیری روایات سے معلوم ہوتاہے :کہ شیطان نے تین مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکانے کی کوشش کی ،ہر بار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے سات کنکریاں مار کر بھگادیا،آج تک منیٰ کے تین جمرات پر اسی محبوب عمل کی یادگار، کنکریاں مار کر منائی جاتی ہے۔
با لآخر جب دونوں باپ بیٹے یہ انوکھی عبادت انجام دینے کے لئے قربان گاہ پہونچے تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا :کہ ابا جان !مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجئے ،تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں ،اور اپنے کپڑوں کو بھی مجھ سے بچائیے ،ایسا نہ ہو کہ ان پر میرے خون کی چھینٹیں پڑیں،اور میرا ثواب گھٹ جائے،اس کے علاوہ میری والدہ خون دیکھیں گی تو انہیں غم زیادہ ہوگا ،اور اپنی چھری بھی تیز کر لیجئے ،اور اسے میرے حلق پر ذرا جلدی جلدی پھیرئے گا ،تاکہ آسانی سے میرا دم نکل سکے ،کیوں کہ موت بڑی سخت چیز ہے ،اور جب آپ میری والدہ کے پاس جائیں تو ان سے میرا سلام کہدیجئے گا ،اور آپ میری قمیص میری والدہ کے پاس لیجانا چاہیں تو لیجائیں ،شاید کہ اس سے انہیں کچھ تسلی ہو۔
اکلوتے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر ی ہو گی؟لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام اِستِقامت کے پہاڑ بن کر جواب دیتے ہیں کہ ”بیٹے!تم اللہ کا حکم پورا کرنے کے لئے میرے کتنے اچھے مددگار ہو “یہ کہہ کر انہوں نے بیٹے کو بوسہ دیا ،پر نم آنکھوں سے انہیں باندھا، ”وَتَلَّہ لِلْجَبِیْنِ“(انھیں پیشانی کے بل خاک پر لٹا دیا )اس طرح کروٹ پر لٹادیا کہ پیشانی کا ایک کنارہ زمین سے چھونے لگا ۔
بعض دوسرے حضرات نے اس طرح لٹانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ شروع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انھیں سیدھا لٹایا تھا ،لیکن جب چھری چلانے لگے تو بار بار چلانے کے باوجود گلا نہیں کٹتا تھا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے پیتل کا ایک ٹکڑا بیچ میں حائل کردیا تھا ،اس موقع پر بیٹے نے خود یہ فرمائش کی کہ ابا جان!مجھے چہرے کے بل کروٹ سے لٹادیجئے،اس لئے کہ جب آپ کو میرا چہرہ نظر آتا ہے تو شفقت پدری جوش مارنے لگتی ہے ،اور گلا پوری طرح کٹ نہیں پاتا،اس کے علاوہ چھری مجھے نظر آتی ہے تو مجھے بھی گھبراہٹ ہونے لگتی ہے،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں اسی طرح لٹاکرچھری چلانی شروع کی،”وَنَادَیْنٰہُاَنْ یّٰٓاِبْرٰھِیْمُ “ (اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم !تم نے خواب سچ کر دکھایا )یعنی اللہ کے حکم کی تعمیل میں جو کام تمہارے کرنے کا تھا تم نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی،اب یہ آزمائش پوری ہوچکی اب انہیں چھوڑدو،”أِنَّاکَذٰ لِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ“(ہم مخلصوں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں)یعنی جب کوئی اللہ کا بندہ اللہ کے حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرکے اپنے تمام جذبات کو قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے،تو ہم بالآخر اسے دنیوی تکلیف سے بھی بچالیتے ہیں ،اور آخرت کا اجروثواب بھی اس کے نامہٴ اعمال میں لکھ دیتے ہیں۔
روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ آسمانی آواز سن کر اوپر کی طرف دیکھا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک مینڈھا لئے کھڑے تھے۔
یہ جنتی مینڈھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عطا ہوا ،اور انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے کے بجائے اس کو قربان کیا ۔ (تفسیرمعا ر ف القرآن۵،۴۵۷)
انہیں کی یاد گار کے طورپرقربانی کاطریقہ جاری کیا گیا۔
قربانی سب سے افضل عمل ہے:
بعض لوگ اپنی ناواقفیت کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ قربانی کرنے سے گوشت حاصل ہو تا ہے اور قربانی کے دنوں میں سب ہی قربانی کر تے ہیں ،تو گوشت کی حاجت بھی نہیں رہتی اس لئے قربانی کے بجائے اگر ان دنوں میں قربانی کی قیمت کو صدقہ کر دیا جائے ،یا کسی دوسرے رفاہی ،فلاحی کاموں میں لگا دیا جائے تو شاید یہ زیادہ بہتر ہے ،حدیث شریف میں بتلایاگیا ہے کہ سونا چاندی کی خیر خیرات بھی ثو اب میں قربانی کی برابری نہیں کرسکتی۔
حضرت ابن عباس سے روایت ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاندی (یا کوئی بھی مال ) کسی ایسی چیز میں خرچ نہیں کیاگیا جو اللہ کے نزدیک اس اونٹ سے زیادہ پسندیدہ ہو جو عید کے دن ذبح کیا گیا ۔
(رواہ لطبرانی فی الکبیر۱۱/۱۷،رقم الحد یث۱۰۸۹۴)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کے دن ارشاد فرمایا :آج کے دن کسی آدمی نے خون بہانے سے زیادہ افضل عمل نہیں کیا ،ہاں کسی رشتہ دار کے ساتھ حسنِ سلوک اگر اس سے بڑھ کر ہوتو ہو۔
(رواہ الطبرانی فی الکبیررقم الحدیث ۱۰۹۴۸)
خو ن کے پہلے قطرہ پر ہی معا فی:
حضرت ابو سعید  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیٹی حضرت فاطمہ  سے فرمایا:اے فاطمہ !اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس رہو (اپنی قربانی کے ذبح ہوتے وقت قریب موجود رہو)کیونکہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے،حضرت فاطمہ نے عرض کیا:کہ اللہ کے رسول!یہ فضیلت ہم اہل بیت کے ساتھ مخصوص ہے یا عام مسلمانوں کے لئے بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہمارے لئے بھی ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی۔
(مستدرک حاکم ۴/۲۲۲)
قر با نی کے خو ن کا مقا م:
قر با نی کے جانو ر کا خو ن بھی بہر حال خو ن ہی ہے مگریہ خون چو نکہ اپنی کسی ذاتی منفعت کے لٴے نہیں بہا یا جا رہا بلکہ حضر ت ابرا ہیم علیہ السلا م کی جاں نثا ری و فدا کاری کی نقل ا ور سنت رسو ل کے اتبا ع او ر اپنے پر و ر دگا ر کی رضا و خو شنو دی حا صل کر نے کے لئے بہا یا جا رہا ہے، اس لئے اس خو ن کا اللہ کے یہا ں ایک خاص د ر جہ ا ور خاص مقا م ہے ۔
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اے لوگو! تم قربانی کرو اوران قربانیوں کے خون پر اجروثواب کی امید رکھو ،اس لئے کہ (ان کا ) خون اگرچہ زمین پر گرتا ہے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی حفظ وامان میں چلا جاتا ہے۔
(رواہ الطبرانی فی الاوسط،رقم الحد یث۸۳۱۵)
ہر بال کے بدلے ایک نیکی :
حضرت زیدبن ارقم راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ !یہ قربانی کیا ہے ؟ فرمایا :تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ (ان کی سنت )ہے ،صحابہ نے عرض کیا :کہ پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجروثواب)ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جانور کے )ہر بال کے بدلے ایک نیکی ، انہوں نے عرض کیا او ر(دنبہ وغیرہ اگر ذبح کریں تو ان کی) اون میں کتنا ثواب ہے؟( او ر اس تعجب کی وجہ یہ ہے کہ بھیڑ، دنبہ کے اوپر تواون اور بال بہت بڑی تعداد میں ہو تے ہیں )حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ اون کے ہربال کے بدلے ایک نیکی۔سبحا ن اللہ
(ابو داوٴد رقم الحدیث ۳۱۲۷، باب ثواب الا ضحیة)
قربانی کا جانور خود نیکیوں میں تبدیل:
انسان جو عمل کرتا ہے تو اس کونیت واخلاص کے بقدر اجروثواب ملتا ہے ،مقدار اور تعداد پر نہیں،مگر قربانی ایسا عمل ہے کہ اس کی مقدار بھی مطلوب ہے اور اس پر اجر وثواب بھی ،چنانچہ قربانی کا جانور ہی کل قیامت کے روز خود نیکی میں تبدیل ہوکر نیکوں کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : کہ فر ز ندِ آدم(انسان)نے قربانی کے دن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو الله کے نزدیک خون بہانے(قربانی کرنے)سے زیادہ پسندیدہ ہو،اورقیامت کے دن وہ ذبح کیا ہواجانوراپنے سینگوں،بالوں اورکھروں کے ساتھ آئے گا،اورقربانی کا خون ز مین پر گر نے سے پہلے الله تعالیٰ کے یہاں قبول ہوجاتاہے،لہذاتم خو شد لی سے قربانی کیا کر و۔
(رواہ ابن ماجہ،الرقم ۳۱۲۶،الترمذی۱۴۹۳)
ستر گنا زیا د ہ و زن:
ایک دوسر ی حدیث میں تو قر با نی کے جانو ر کا وزن ستر گنا زیا دہ کر کے ترا زوئے اعما ل میں رکھ دینے کا تذ کر ہ مو جو د ہے چنا نچہ:
حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے(حضرت فاطمہ سے)فرمایا:اے فاطمہ اٹھو اور اپنی قربانی کے پاس(ذبح کے وقت) موجودرہو، اس لئے کہ اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے کے ساتھ ہی تمہارے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے، یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا ،اور تمہارے عمل کے ترازو میں ستر گنا (و ز ن زیادہ ) کرکے رکھا جائے گا ، حضرت ابوسعید نے عرض کیا کہ: اللہ کے رسول!یہ فضیلت خاندانِ نبوت کے ساتھ خاص ہے جو کسی بھی خیر کے ساتھ مخصوص ہونے کے حقدارہیں،یا تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ فرمایا : یہ فضیلت آلِ محمد کے لئے تو خصوصاًاور عموماًتمام مسلمانوں کے لئے بھی ہے۔
(سنن بیھقی۹/۲۸۳)
قر بانی جہنم سے بچاؤ کا ذ ریعہ ہے:
شر یعتِ مطہر ہ میں سب سے زیا دہ تعلیم انسا ن کو اس کی دی گئی ہے کہ وہ ایسے اعمال سے بچے جو جہنم میں جانے کا سبب بنتے ہیں اور ایسی ہی دعائیں سکھا ئی گئیں جن کے پڑھنے سے أدمی جہنم سے بچ سکے، قربانی بھی انہیں ذرا ئع واسباب میں سے ہے جو آد می کیلئے جہنم میں جانے سے آڑ بن جا تی ہے۔
حضرت حسین بن علی  سے سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص خوش دلی کے ساتھ، اجروثواب کی امید رکھتے ہوئے قربانی کرے گا تو وہ قربانی اس کے لئے جہنم کی آگ سے آڑبن جائے گی ۔
(رواہ الحاکم فی المستدرک،رقم الحدیث۰۲۷۳۶قال الہیثمی۴/۱۷فیہ سلیمان بن عمرالنخعی وہوکذاب )
امام الا نبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی قربانی:
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر(۱۰۰) سو او نٹوں کی قربانی دی۔
اگر کو ئی انسان کسی انسان کو جان بوجھ کر مار دے تو جان کے بدلے جان ہے قاتل کو بدلہ میں قتل کردیا جاے گااور اگرکسی سے غلطی سے قتل ہوگیا تو بدلہ میں اسے (۱۰۰) سو اونٹ دینے ہوں گے۔
توشریعت میں ایک جان کا بدلہ سو اونٹ ہیں تو گویا سیددوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کے بدلے سواونٹ قربان کردئے ۔
اللہ تعالیٰ کی راہ میں(۶۳)تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ مبارک سے ذبح کئے اور باقی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ذبح کرائے،علماء فرماتے ہیں کہ تریسٹھ اونٹ ذبح کرنے میں اس طرف اشارہ تھا کہ تریسٹھ برس میری عمر ہے،عمر کے ہر سال کے بدلے ایک اونٹ ،تو جب نبی اپنی جان کا فدیہ سو اونٹ کی قربانی کی شکل میں پیش کر رہے ہیں تو امتی کو بدرجہ اولیٰ اپنی زندگی میں سَوْ (۱۰۰)جانور یا کم از کم سَوْ حصوں کی قربا نی کر کے اپنی جان کو جہنم سے آزاد کرا نا چاہیے۔
عقلی تقاضہ :
عقل وخرد کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی کا یہ طریقہ جاری رکھا جائے کیونکہ بغور مطالعہ سے یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی چیز بڑی چیز پر قربان ہو رہی ہے ،اور قربانی کی بدولت ہی کا ئنات کا یہ نظام بدستورجاری ہے مثلا پانی اپنے وجود کو فنا کرکے زمین پر قربان ہوا ،اور اس قربانی کے نتیجہ میں زمین کی قوت نامیہ میں اضافہ ہوا،اور دیکھتے ہی دیکھتے خشک بنجرزمین ہری بھری ،سرسبز وشاداب ہوگئی، اورزمین مخملی فرش سے معمور نظر آنے لگی پھر اس گھاس نے بھی قربانی کیلئے خود کو جانور کے حوالہ کیا ،اور اس قربانی کے نتیجہ میں جانور میں کچھ توگوشت وپوست بنا اور کچھ نفیس وبے بدل مشروب دودھ بنا ،اور دودھ کی قربانی کے نتیجہ میں انسان کی قوتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ،اوریہ سب قربانی کی بدولت ہوا۔
قربانی نہ کر نے پر وعید:
بہتر تو یہ ہے کہ جس پر قربانی واجب نہیں ہے وہ بھی قربانی کرے، تا کہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرے، جس پر قربانی واجب ہو اور وہ پھربھی قربانی نہ کرے،تواس سے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے ناراضگی ظاہر فرمائی ہے ،آنحضرت نے ارشادفرمایاکہ جو شخص باوجود وسعت کے قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے ۔
۔(رواہ الحاکم فی المستدرک ج۲/۳۸۹)
افضل و بہتر قربانی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :کہ افضل و بہتر قربانی وہ ہے جو زیادہ قیمتی اورزیادہ موٹی ہو۔ اِن افضل الضحایااعلاھا وأثمنہا․
قربانی کس پر واجب ہے:
قربانی ہر اس عاقل ،بالغ،مقیم،مسلمان پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہویا اس کی ملکیت میں ضرورت اصلیہ سے زائد اتنا سامان ہوجس کی مالیت نصاب تک پہونچتی ہواور اس کے برابر نصاب ہو،
نصاب سے مرادیہ ہے کہ اس کے پاس ساڑھے باون تولہ(موجودہ دس گرام کے تو لہ سے) ۶۱۲ گرام۳۶۰ ملی گرام چاندی یا۸۷ گرام سونا یا اس کی قیمت کے برابرنقد رقم ہو یا اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد اتناسامان ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو۔
ضرورت ِاصلیہ:
واضح رہے کہ ضرورت اصلیہ سے مراد وہ ضرورت ہے جو انسان کی جان یا اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے ضروری ہو اس ضرورت کے پورا نہ ہونے کی صورت میں جان جانے یابے آبروہونے کااندیشہ ہو مثلاً کھانا ، پینا، رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، کاریگر کے اوزار، سفر کی گاڑی، سواری و غیرہ۔
قربا نی کے وا جب ہو نے کی صورتیں مثلاً:
۱:- ایک شخص کے پاس دو مکان ہیں ،ایک مکان اس کی رہائش کا ہے اور دوسرا خالی ہے تو اس پر قربانی واجب ہے ،جبکہ اس خالی مکان کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی مالیت کے برابر ہو۔
۲:-یا ایک مکان میں وہ خود رہتا ہو اور دوسرا مکان کرایہ پر دے رکھا ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے البتہ اگر اس کا ذریعہ معاش یہی مکان کا کرایہ ہے تو یہ بھی ضروریات زندگی میں شمار ہوگا اور اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہوگی۔
۳:-یاکسی کے پاس دو گاڑیاں ہیں،ایک عام استعمال کی ہے اور دوسری زائد تو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
۴:-یااگر کوئی آدمی مقروض ہے اور اس کے پاس کچھ مال بھی ہے تو قرض کی رقم نکالنے کے بعداگر اس کے پاس ساڑھے باون تولہ(موجودہ دس گرام کے تو لہ سے) ۶۱۲ گرام۳۶۰ ملی گرام چاندی یا۸۷ گرام سونا یا اس کی قیمت کا سامان ہو تو اس پر قر با نی واجب ہے۔
۵:-یا کسی کے پاس پلاٹ ہے، تو اگر اس کے پلاٹ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس پر قربانی واجب ہے۔
۶:-یاعورت کا نقدمہراگر اتنی مالیت کا ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہے ، یا صرف والدین کی طرف سے دیا گیا زیور اور استعمال سے زائد کپڑے نصاب کی مالیت کو پہونچتے ہوں تو اس پر بھی قربانی کرنا واجب ہے ۔
۷:-ایک شخص کے پاس کاشت کاری کے آلا ت واوزار بیل،ٹریکٹراور اس کے متعلقات اوردودھ دینے والی گائے ،بھینس کے علاوہ اگراور جانور اتنے ہیں کہ ان کی مالیت نصاب کو پہونچتی ہے تو اس پربھی قربانی کرنا واجب ہے۔
۸:-اگر کوئی شخص قربانی کے دنوں میں بارہویں کا سورج طلوع ہونے سے پہلے صاحب نصاب ہو گیاتو اس پر بھی قربانی واجب ہے۔
قربانی کی طاقت نہ ہو تو کیا کرے
جس شخص کے ذمہ قربانی واجب نہ ہو،اور نہ اتنی وسعت ہو کہ نفلی قربانی کرسکے تو اس کو بھی قربانی کرنے والوں کی طرح عید کے دن بال ناخن وغیرہ بنوانے چاہئیں۔
حضر ت عبداللہ بن عمروبن العاص  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے آپ نے فرمایا :مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم ہوا ہے اس کو اللہ نے میری امت کے لئے مقرر کر دیا ہے ،ایک شخص نے کہا :یا رسول اللہ مجھ کو کسی نے مادہ جانور دودھ پینے کے لئے دیا ہے ،اس کے سوا دوسرا جانور میر ے پاس نہیں ،تو کیا میں اسی کی قربانی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :نہیں اس کی قربانی مت کرو ،لیکن تم(عید الا ضحی کی نماز کے بعد)اپنے بال کٹوالو،ناخن ترشوالو،مونچھیں کتروالو، اورزیر نا ف بال مونڈلو ،اللہ کے نزدیک تمہاری یہ قربانی مکمل ہو جائے گی ۔
(ابوداؤد فی الضحایا الرقم۲۷۸۹)
دوسرے کی طرف سے قربانی:
جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہو وہ اپنی واجب قربانی کے علاوہ اپنے مرحوم والدین اور دیگر بزرگوں کی طرف سے بھی قربانی کرے ،اس کا بڑااجروثواب ہے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے بھی ہم پر بڑے احسانات اور حقوق ہیں،اللہ تعالیٰ نے گنجائش دی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کی جائے،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجةالوداع کے موقع پر سو اونٹوں کی قربانی کی ہے ،جس میں اپنی امت کی طرف سے بھی کی ہے ،ہمیں بھی اس موقع پر آپ کو نہیں بھولنا چاہئے،مگراپنی جوقربانی لازم ہے اس کو چھوڑناجائزنہیں ۔
قربانی کے جانور:
گھر میں جو چھ طرح کے جانو ر پا لے جاتے ہیں قربانی ان ہی میں سے کسی کی ہوسکتی ہے ،نر ہو یامادہ ہرایک کی قربانی درست ہے،تفصیل یہ ہے:
جانوراور ان کی عمریں:
بڑ ے جا نو ر
(۱) اونٹ ، یااونٹنی، عمرکم ازکم پانچ سال سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں۔
(۲) بیل یا گائے، عمر کم از کم دوسال سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں۔
(۳) بھینس یا بھینسا، عمر کم از کم دوسال سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں۔
چھوٹے جانور
(۴) بھیڑ، عمر کم از کم ایک سال ، صرف ایک شخص کی طرف سے ،
(۵)بکرا ،یا بکری، عمر کم از کم ایک سال ، صرف ایک شخص کی طرف سے ، (۶) دنبہ یا دنبی، عمر کم از کم ایک سال ، صرف ایک شخص کی طرف سے ،
(۷)دنبہ یا بھیڑ اگر اتنا فربہ اور موٹاہو کہ سال بھر والے میں چھوڑ دیں تو کوئی فرق معلوم نہ ہو ،تو سال سے کم عمر یعنی کم از کم چھ مہینے کا بھی جائز ہے۔
(۸)جانور بیچنے والا اگر پوری عمر بتلا تا ہے اور ظاہری حالت سے بھی اندازہ ہوتا ہے تو اس پر اعتماد کرنا درست ہے ۔
(۹)خصی (بدھیا)بکرے کی قربانی درست ، بلکہ افضل ہے ۔
(۱۰)حاملہ (گابھن )جانور کی قربانی جائزہے لیکن اگر وِلادت (بچہ دینے)کا وقت قریب ہوتب قربانی کرنا مکروہ ہے ۔ (عالمگیری)
(۱۱)گابھن جانور کے پیٹ سے بچہ زندہ نکلے تو اس کو بھی ذبح کردیا جائے۔
جانور عیب دار نہ ہو:
قربانی کا جانور اللہ کی بارگاہ میں بندہ کا ہدیہ ہے،جہاں تک ہوسکے بہتر سے بہتر ہونا چاہئے ،خود پال کر یا کچھ دن پہلے خرید کر اس کے کھلانے پلانے کا خیال رکھے تو اس کا بھی ثواب ہے۔لہذا قربانی کا جانور :
(۱) اندھا،کانا نہ ہو ،اگر ایک آنکھ کی تہائی روشنی یا اس سے زیادہ جاتی رہی تو اس کی قربانی درست نہیں ہوگی۔
(۲) ایک کان یا دونوں کان تہائی یا اس سے زیادہ کٹے ہوئے نہ ہو ں۔
(۳) دُم ،تہائی یا اس سے زیادہ کٹی ہوئی نہ ہو۔
(۴) لنگڑانہ ہو، اگر چلنے میں اس لنگڑے پاوٴں سے اتنالنگڑا ہے کہ اس کا سہار ا نہیں لے سکتا ،تو درست نہیں۔
(۵) اتنا مریل، دبلا نہ ہو کہ ہڈیوں میں گودا نہ رہے اور کمزوری کی وجہ سے اپنے پاوٴں سے چل بھی نہ سکے۔
(۶) جس جانور کے بالکل دانت نہ ہو ں اس کی قربانی درست نہیں،اگر کچھ گر گئے مگر زیادہ باقی ہیں تو درست ہے۔
(۷)جس جانور کے پیدائشی کان نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں ، اگر بہت چھوٹے چھوٹے ہیں مگر کٹے ہوئے نہیں ہیں تودرست ہے۔
(۸) جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہو ں اس کی قربانی درست ہے ، اگر تھے مگر ایک یادونوں سینگ ٹوٹ گئے اور اوپر سے صرف خول اترا ہے، اندرکا گودا باقی ہے اس کی قربانی بھی درست ہے،اگر ایک یا دونوں سینگ جڑسے ٹوٹ گئے جس کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اس کی قربانی درست نہیں۔
اوقات قربانی:
(۱)ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے لے کر بارہویں تاریخ کی شام (آفتاب غروب ہونے سے پہلے )تک قربانی کا وقت ہے، ان دنوں میں جب چاہے قربانی کر سکتا ہے،لیکن پہلا دن افضل ہے،پھر گیارہویں تاریخ ،پھر بارھویں تاریخ۔
ان تین دنوں کے دوران رات کے وقت بھی قربانی کرنا جائز ہے،لیکن قربانی کا بہتر وقت دن ہے ،رات میں قربانی کرنے کو فقہاء نے مکروہ لکھاہے ۔
(۲)شہر میں عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا درست نہیں ،اگر کسی نے عیدکی نماز سے پہلے جانور ذبح کرلیا تو یہ گوشت کا جانور ہوا ،قربانی نہیں ہوگی،البتہ دیہات میں جہاں عید کی نماز نہیں ہوتی وہاں عید کے دن صبح صادق کے بعد قربانی کرنا درست ہے۔
(۳)اگر شہری آدمی خودتو شہر میں موجودہے ،مگر قربانی کا جانور دیہات میں بھیج دے اور وہاں صبح صادق کے بعد قربانی ہو جائے تو درست ہے۔
(۴)جس شخص کے ذمہ قربانی واجب ہے اس کے لئے ان دنوں میں قربانی کا جانور ذبح کرنا ہی لازم ہے،اگر اتنی رقم صدقہ خیرات کر دے تو قربانی ادا نہیں ہوگی،اور یہ شخص گناہ گار ہوگا۔
ٰٓ ٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓئئٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٰٓطریقہٴ قربانی:
قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا بہتر ہے ذبح سے پہلے جانور کو بھوکا پیاسا نہ رکھیں ،ذبح سے پہلے یہ دعاء پڑھنا چاہئے ۔
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیْفاً وَّمَا أَنَامِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، اِنَّ صَلوٰتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، لاَ شَرِیْکَ لَہ وَبِذٰلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ․
جا نور کو لٹانے کا طریقہ:
ا س کے بعد جانور کو قبلہ رخ اس کی بائیں پر کروٹ لٹا یا جا ئے جس سے اس کاسر ذبح کرنے والے کی بائیں طرف ہو جائے اوروہ اس کے سرکو با ئیں ہاتھ سے دبا کر دائیں ہاتھ سے سہو لت کے ساتھ ذبح کرسکے یعنی قر بانی کا سر جنو ب (دکھن)کی طر ف اور ٹانگیں شمال (اتر)کی طرف کی جائیں اور بائیں کر وٹ پر لٹا یا جائے اس طر ح جانو ر کا رخ قبلہ کی طر ف ہو جائے گا بعد ہ اس کے کندھے پرپاؤں رکھ کر تیز چھری سے ” بِسْمِ اللهِ أَللّٰہُ أَکْبَرُ، أَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ“کہہ کر جلد ذبح کردے ،اور چھری اتنی دیرچلائے کہ گردن کی چاروں رگیں:
(۱)(نرخرہ ،سانس لینے کی نالی
(۲) ”أَلمَرْیُ“ جس سے دانہ پا نی اندر جاتا ہے ،
(۳)اور(۴)”وَدْجاَنْ“ وہ دورگیں جو نرخرے کے دائیں بائیں ہو تی ہیں)کٹ جائیں۔
ذبح کرنے کے بعد یہ دعاء پڑھے ”اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَاتَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ، وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ رَّسُوْلِ اللهِ عَلَیْھِمَا الصّلوٰةُ وَالسَّلاَمُ“
اگر دوسرے کی طرف سے ذبح کررہا ہوتواوپر کی دعاء میں مِنِّی کی جگہ اس کا نام لے جس کی طرف سے ذبح کر رہا ہے۔
جانور پکڑنے والا بھی” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ“کہتا جائے ۔
نوٹ :… قربانی کے وقت کوئی دعا زبان سے پڑھنا ضروری نہیں صرف دل میں خیال کرلے ،”میں قربانی کرتاہوں “اور” بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ“کہہ کر ذبح کر دینے سے قربانی ہو جاتی ہے البتہ مذکورہ دعائے ماثورہ کاپڑھنا بہتر ہے ۔
اور ذبح کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے،اس وقت تک کھال اتارنا یاٹکڑے کرنا شروع نہ کریں۔
قربانی کے مسائل:
(۱)اگرچند افراد مل کر بڑے جانور کا ایک حصہ یا چھوٹا جانور حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نام سے قربانی کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
(۲)اگر صاحب ِنصاب شخص اپنی قربانی چھوڑ کر میت کے نام سے قربانی کرے تو اس سے قربا نی کا وجو ب ساقط نہیں ہوگا البتہ میت کو ثواب مل جائے گا۔(شامی ۹/۴۸۴)
(۳)اگر کسی میت نے قربانی کی وصیت کی ہو(بشرطیکہ انتقال قربانی کے دنوں میں ہوا ہو) تو ورثاء کے ذمہ واجب ہے کہ ایک تہائی مال میں سے میت کے نام کی قربانی کریں۔
(۴)اگر کسی شخص نے بغیر وصیت کے کسی میت کی طرف سے قربانی کر دی تو اس کا ثواب میت کو مل جائے گا۔
(۵)اگر ایک جانور یا ایک حصہ کی قربانی کرکے اس کا ثواب بہت سے افراد کو پہونچادیاجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،درست ہے۔
(۶)جانور کو ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا ہو نے (جان نکلنے) سے پہلے اس کی کھال کو اتار نادرست نہیں یہ جانور پر ظلم ہے حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
(۷)اگر کوئی شخص جنگلی جانور نیل گائے، وغیرہ کو پکڑکر پال لے اور اس کی قربانی کرے تو قربانی درست نہیں ہوگی، قربانی کا وجوب ذمہ سے ساقط نہیں ہو گا ۔
(۸)اگر نرومادہ دونوں گوشت وقیمت میں برابر ہوں تو موٴنث (مادہ)کی قربانی افضل ہے۔
(۹)اگر بکرے کی قیمت بڑے جانورکے ایک حصہ کی قیمت کے برابر یازائد ہو تو بکرے کی قربانی افضل ہے ۔
(۱۰)اگر کسی شخص کو کسی بڑے جانور میں صرف ایک حصہ کی قربانی کرنی ہوتو،بہتر یہ ہے کہ جانورخریدنے سے پہلے ہی اپنے علاوہ مزید چھ(۶)آدمی شریک تلاش کرلے ،اس کے بعد جانور خریدے لیکن اگر پورا جانور خرید لیا ،اس کے بعد اس نے حصے دار تلاش کئے اور ان سے پیسے لے کر ان کو حصہ دار بنایا تب بھی کوئی حرج نہیں ،قربانی ہو جائیگی۔
(۱۱)اگر قربانی کے جانور کے تھن میں دودھ ہو تو اس کو نکال کر اپنی ضرورت میں استعمال کرنادرست نہیں ،ہاں اگر جانورکو اتنا چارہ دیتاہوتو درست ہے ،اگر چارہ نہ دیتا ہو تو صدقہ کردینا چاہئے۔
(۱۲)اگر قربانی کے جانور کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آئے تو اس کو بھی ذبح کر دینا چاہئے اور اچھا یہ ہے کہ اس گوشت کوصدقہ کردے ۔
(۱۳)اگر کوئی شخص بڑے جانور میں چند حصے ولیمہ(مسنونہ) کی نیت سے لے لے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۱۴)اگر عورت طاقتور ہے اور قربانی کرنا جانتی ہے تو افضل یہ ہے کہ وہ بھی خود اپنے ہاتھ ہی سے ذبح کرے ،لیکن قَصَّابْ (قصائی )کے سامنے بے پردہ نہ آئے بلکہ ذ بح کر کے چلی جائے ،اس کے بعد قَصَّابْ آکرکھال اتارے ۔
(۱۵)اگر نابالغ بچہ قربانی کرناجانتا ہواوروہ قربانی کردے تو کوئی حرج نہیں ،قربانی درست ہے۔
(۱۶)اگر ذبح کرتے وقت، سر بدن سے جداہو جائے تب بھی قربانی ہو جاتی ہے،البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے ۔ (شامی)
(۱۷)ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہیں کرناچا ہئے،حضورصلی ا لله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
قر بانی کاگو شت :
(۱)قربانی کا گوشت اگر کئی آدمیوں کے درمیان مشترک ہو تو اس کو اٹکل(اندازہ) سے تقسیم کرنا جا ئز نہیں،بلکہ خوب احتیاط سے تول کر برابر حصہ کرناضروری ہے ،ہاں!اگر کسی کے حصے میں سری اور پائے لگا دئے جائیں تو اس کے وزن کے حصے میں کمی بیشی جائز ہے۔
(۲)قربانی کا گوشت خود کھائے ،دوست، احباب میں تقسیم کرے ،غریب مسکینوں کو دے ،البتہ بہتر یہ ہے کہ اس کے تین حصے کرے ،ایک اپنے لئے ،ایک دوست احباب ،عزیز و اقارب کو ہدیہ دینے کے لئے اورتیسرا ضرورت مندوں، ناداروں میں تقسیم کرنے کے لئے۔الغرض! کم از کم تہائی حصہ خیرات کر دے لیکن اگر کسی نے تہائی سے کم گوشت خیرات کیا،باقی سب کھا لیا یا عزیز و اقارب کو دیدیا تب بھی گناہ نہیں۔
(۳)قربانی کاگوشت غیرمسلم کو دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ غیر مسلم مسلمانوں کوتکلیف نہ دیتا ہو۔
(۴)اگر نذر کی قربانی ہو یا میت نے وصیت کی ہو ،اوراس کی طرف سے ورثاء نے قربانی کی ہو تواس گوشت کو صدقہ کرنا ضروری ہے ۔ (عالمگیری)
بکرے کے خصیتین(کپورے) کھانا درست نہیں کھانے والا گنہ گار ہو گا ۔
کھا ل کے مسا ئل:
(۱)قربانی کی کھال، قصاب کو اجرت میں دینا یا اس کی قیمت مسجد کی ضروریات یا کسی انجمن یا مسلمانوں کی تجہیز وتکفین میں لگانا جائز نہیں ،اس کو خیرات کرنا ضروری ہے، دینی مدارس میں دینا بہتر ہے جہاں غریب، نادار بچوں کی کفالت ہوتی ہو۔
(۲)قربانی کی کھال یاتو یوں ہی خیرات کردے یا بیچ کر اس کی قیمت ایسے لوگوں کو دے جن کو زکوٰةکا پیسہ دینا درست ہے اور قیمت میں جو پیسے ملے ہیں ، وہی خیرات کرنے چاہئیں،اگر وہ پیسے کسی کام میں خرچ کر ڈالے اور اتنے ہی پیسے اپنے پاس سے دیدے تواداتو ہو جائیں گے مگربری بات ہے۔
(۳)اگر کھا ل کو اپنے کام میں لائیں جیسے اسکی چھلنی بنوالی، یا مشک ،یاڈول،یا جائے نمازبنوائی یہ بھی درست ہے،قربانی کی رسی جھول وغیرہ سب چیزیں خیرات کر دیں۔
(۴)قربانی کی کھال اپنے استعمال کے لئے رکھ سکتاہے ،کسی کو ہدیہ بھی کر سکتا ہے ،لیکن اگر اس کو فروخت کر دیا تو اس کے پیسے نہ خود استعمال کر سکتا ہے نہ کسی مالدار کو دینا جائز ہے،بلکہ کسی غریب پر صدقہ کر دینا واجب ہے۔
س:ہم دو بھائی ہیں اور کاروبار اکٹھا ہی ہے اور دونوں صاحب نصاب ہیں تو کیا دونوں پر قربانی واجب ہو گی ؟
ج:دونوں پر واجب ہے۔
س:میں نے اپنی بیوی کو مہر میں زیور دیدیاتھا جو نصاب کو پہنچتاہے اور میں خود بھی صاحب نصاب ہوں ،تو کیا میاں بیوی دونوں پر قربانی واجب ہے؟
ج:دونوں پر واجب ہے۔
عیدالاضحی کی حقیقت:
ہر وہ دن جس میں کسی صاحب فضل ہستی ، یا کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جائے تو اس کو عید کہتے ہیں ،عید کا لفظ” عَوْدٌ“سے بنا ہے ،”عَوْدٌ‘ کے معنی لوٹنا کیونکہ یہ دن ہر سال لو ٹ کر آتا ہے اس لئے اس کو عید کہتے ہیں ۔
سب سے پہلی عیدالاضحی:
مدینہ طیبہ تشریف آ وری کے دوسرے سال کی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ”غزوئہ سویق“سے ذی الحجہ کی نو تاریخ کو مدینہ طیبہ واپس ہوئے تو اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا ”فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ“ (الکوثر․۲)
اپنے پروردگار کے لئے (عیدالاضحی کی) نماز پڑھئے اور قربانی کیجئے۔
اگلے روزیعنی ذی الحجہ کی دس تاریخ کو آپ نے عیدالاضحی کی دورکعت نماز پرھائی اور نماز وخطبہ کے بعد عیدگاہ میں ہی اپنے ہا تھ سے قربانی کی،اورمالدار مسلمانوں کو قربانی کر نے کا حکم دیا، ۲ ئھ میں یہ پہلی عیدالاضحی تھی۔
مسلمانوں کے لئے سال میں دو عیدیں ہیں،(۱)رمضان المبارک کے ختم پر شوال کی پہلی تاریخ کو عیدالفطر،رمضان کے روزے مکمل ہونے کی خو شی میں ،(۲) ذی الحجہ، حج کے مہینے کی دس تاریخ کو عیدالاضحی (عید قرباں)۔
حضرت انس  سے روایت ہے :کہ حضرت رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکر مہ سے ہجرت فرماکرمدینہ منورہ تشریف لائے تواہل مدینہ کے دودن تھے جن میں وہ تیوہار مناتے تھے ،اور کھیل تماشے ہوا کرتے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:یہ دودن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتلایا: ہم زمانہٴ جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل، تماشے کیا کرتے تھے ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ نے تم کو اس کے بدلہ میں اس سے بہتر دودن دیدئے ہیں،عیدالاضحی اور عیدالفطر۔
(رواہ ابوداوٴد) (مشکوة باب صلوةالعیدین،الفصل الثانی/۱۲۶)
اسلام سے پہلے نوروز اور مہرجان کے نام سے دو عیدیں منا ئی جاتی تھیں،ان کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے عیدالاضحی اور عیدالفطر کے دو مبارک دن عطافرمائے۔
عید کی رات کی عبادت:
مذہب اسلام میں عیدکے روز خوشی ومسرت کے اظہار کی اجازت دی ہے بلکہ اس کو مستحب گردانا ہے مگر ہر چیز کی ایک حد اور ایک دائرہ ہوتا ہے ،عید کے روز کی خوشی کا بھی ایک دائرہ اور ایک حد ہے ،افسوس ہوتا ہے کہ لوگ عیدکی خوشی میں مست ومگن ہو کرتمام حدود کو پامال کردیتے ہیں۔
جب کہ یہ رات بھی عبا دت کی رات ہے ،اور عید کی رات میں عبادت کرنے والا قیامت کے دن خوف وہراس اور گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا،اور یہ اللہ کے انعامات میں سے بڑا انعام ہے کہ جس دن لوگ خوف وگھبراہٹ میں مبتلا ہوں،اور صرف ایک رات (عید کی رات )ایک رات کی عبا دت کرنے والا مامون ومطمئن رہے،چناچہ :حضرت ابو امامہ  سے مروی ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ جس نے دونوں عیدوں کی راتوں میں ثواب کا یقین کرتے ہوئے عبادت کی تو اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل (غم سے )مردہ ہو جائیں گے (قیامت کے دن خوف وگھبراہٹ سے محفوظ رہے گا )۔
( ابن ماجہ باب فی من قام لیلتی العیدین الرقم ۱۷۸۲)
ایمان پر خاتمہ:
ہر مسلمان کو اپنے ایمان پر خاتمہ کی فکر لگی ہے،اور کتابوں میں لکھا ہے کہ جو جو شخص عیدین کی راتوں میں عبادت کرلے تو اللہ تعالیٰ سوء خاتمہ سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں اور اس کی موت ایمان پر ہوجا تی ہے۔ یأمن سوء الخاتمة۔ (المناوی الرقم ۳۔۸۹)
جنت میں داخلہ:
عیدین کی رات میں عیدین کی رات کی عبادت جنت میں داخلہ کا قوی ترین ذریعہ اور مضبوط وسیلہ ہے ،چنانچہ :حضرت معاذبن جبل  کے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ جو شخص پانچ راتوں میں اللہ کی عبادت کر لے جنت اس کے لئے واجب ہوجاتی ہے ،(۱) آٹھویں ذی الحجہ کی رات (۲)نویں ذی الحجہ کی رات جس کو عرفہ کی رات کہا جاتا ہے (۳) عیدالفطر کی رات (۴)عیدا لاضحی کی رات(۵) پندرھویں شعبان کی رات جس کو شب برأت کہا جاتا ہے۔
عیدکے دن کے مستحبات:
عیدالاضحی کے دن مستحب اور باعث ثواب ہے کہ :
(۱) صبح سویرے اٹھا جائے۔
(۲) مسواک کی جائے،غسل کیا جائے ،شرع کے مطابق زیب و زینت کی جائے۔
(۳) اپنے پاس جو موجودہو،ان میں جو سب سے بہترین لباس ہو وہ پہناجائے۔
(۴) خوشبو لگائی جائے ۔
(۵) اپنے ہی محلہ کی مسجد میں فجر کی نماز پڑھنا ،یوں توجماعت سے فجرکی نمازکا
پڑھنا ہر روز ضروری ہے لیکن عید کے دن اپنے ہی محلہ کی مسجد میں پڑھنا بہتر ہے ۔
(۶) عید کی نمازسے پہلے گھر میں یا عید گاہ میں اشراق یا کوئی نفل نماز نہ پڑھے،
اور عید کی نماز کے بعدعید گاہ میں بھی کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے،گھر
واپس آکرگھر میں چاشت یا کوئی نفل نماز پڑھ سکتے ہیں۔
(۷) عیدالاضحی کی نماز کو جانے سے پہلے کچھ کھایا پیا نہ جائے ،بلکہ نماز کے بعد
کھایا جائے ،اور اگر آپ کے یہاں قربانی ہو ،تو قربانی کے گوشت سے کھایا جائے۔
(۸) عید کی نماز کے لئے جلدی پہونچاجائے۔
(۹) عید کی نماز، آبادی سے باہر عید گاہ میں یاکسی میدان میں ادا کی جائے۔
(۱۰) اگر ممکن ہو تو نماز کے لئے پیدل جائے۔
(۱۱) اگر آنے اور جانے کے دو راستے ہوں تو ایک راستے سے جائے،اور
دوسرے راستے سے واپس آئے۔
(۱۲) عید کی نماز کو جاتے اور آتے ہوئے یہ تکبیر -تشریق-درمیانی درجہ کی بلند آواز سے
پڑھتارہے ”اََللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُاَللّٰہُ أَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ“۔
(۱۳) عید الاضحی کی نماز کے بعد بھی یہ تکبیر تشریق ایک مرتبہ پڑھیں۔
(۱۴) کثرت سے صد قہ و خیرات کرے۔
(۱۵) جائز طریقہ پرخوشی کااظہار کرے۔
(۱۶) جن کے ذمہ قربانی ہو! انہیں ذی الحجہ کی چاند رات سے لیکردسویں ۱۰/تاریخ تک
حجامت نہ بنوانا چا ہئے، اور نہ ناخن ترشوانا چا ہئے ،عید الاضحی کی نما ز کے بعد مستحب ہے ۔
(۱۷) قربانی کے دن مستحب یہ ہے: کہ سب سے پہلا لقمہ جومنہ میں جائے وہ قربانی کاگوشت ہو، لیکن یہ تصورغلط ہے کہ بقرعید کے دن کا روزہ ہوتاہے اور افطاری قربانی کے گوشت سے ہی ضروری ہے،اگر قربانی کے گوشت کے علاوہ کوئی دوسری چیز کھا، پی لی، تو کچھ گنہ گار نہ ہوگا۔
عید الفطر اور عیدالاضحی کے خطبے اگر چہ سنت ہیں،مگر ان کا سننا واجب ہے اس لئے نماز سے فراغت کے بعد اپنی اپنی جگہ بیٹھیں رہیں اور دھیان سے خطبے سنیں،نہ بات چیت کریں نہ سلام کریں اورنہ دوسرے کے سلام کا جواب دیں،نہ کسی کو بیٹھنے کے لئے کہیں،اور خطبے کے درمیان میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کانام آئے تو دِل دِل میں درود پڑھیں۔
پیغام
صرف جانور کو ذبح کرنے اور زمین کو خون سے رنگین کر دینے کا نام قربانی نہیں،بلکہ اپنے تمام جذبات ،خواہشات ،تمناوٴ ںآ رزوٴں کے فنا کر دینے کا نام قربانی ہے،ما سوی اللہ اور غیر کی محبت کو قربان کر دینے کا نام قربانی ہے۔
یہ سالانہ اس بات کاعہد ہے کہ جب بھی ، جہا ں بھی،جان،مال،عزت وآبرو ،آل واولاد کی ضرورت ہوگی،اسلام کی خاطر قربان کر دینے میں کبھی دریغ نہ ہو گا ۔آئیے غور کریں!
(۱) جانور کو ذبح کرتے وقت جانب قبلہ لٹاکر ”اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَالسَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضَالخ“ تو پڑھ لیا کہ میں نے اپنا رخ خالق کی طرف کر لیاتو کیا واقعتہ دنیا سے اپنا رخ ہٹاکر قبلہٴ حقیقی ،اللہ کی طرف کربھی لیا ہے؟
(۲) چند سو روپئے کا جانور خرید کر آپ نے قربانی کردی ،کیا اسلام کے لیے جان و مال کی ہر قربانی دینے کے لیے بھی خود کو تیار کر لیا ہے؟
(۳) خدا کے نام پر تو آپ نے جانور کا خون بہا دیا ،کیا اپنی خواہشات کا بھی آپ نے خون کر دیا ہے؟
(۴) بدن،خون اور گوشت کو تو آپ نے قربان کر دیا،کیا اپنی روح اور دل کو بھی اللہ کی نذر کیاہے؟
(۵) جانور کے پاوں میں تو رسی ڈال کر اس کو بے بس کر دیاتو کیا اپنے نفس کو بھی آئندہ لگام لگانے کا ارادہ کر لیا ہے؟
(۶) قربانی کے گوشت کو تین حصو ں میں تقسیم کر کے اپنے رشتہ دار، غرباء و مساکین کے چولہے کو بھی گرم کر دیا ہے تو کیا آئندہ بھی ان کی خبر گیری کرنے کا آپ نے تہیہ کر لیا ہے؟اگر کر لیا ہے !تو آپ کو ایسی قربانی مبارک ورنہ یہ صرف ظاہری قربانی ہو گی !
باری تعالیٰ ہمیں ظاہری وباطنی ہر طرح کی قربانی کے لئے قبول فرمائے۔
آمین اللہم آمین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے