مفتی محمد اللہ قاسمی
دارالعلوم دیوبند کا قیام جہاں مسلمانوں کے اندر اسلامی تہذیب و تمدن کو بحال کرنے، علوم شرعیہ سے آگاہ کرکے جوہرِ اسلام کو اجاگر کرنے اور اس کے بنائے ہوئے سیدھے خطوط پر چلنے کے لئے ہوا تھا ، وہیں ہندوستان کو انگریزوں کے جبرواستبداد سے نجات دلانے اور مغربیت سے دور رکھ کر انگریزوں کی کوشش کو ناکام کرنا بھی اس کا ایک اہم مقصد تھا۔ انگریزوں کی فرعونیت کو ختم کرنے کے لئے دارالعلوم ایک ضرب کلیم تھا جس کی مجاہدانہ و سرفروشانہ کوششوں نے ہندوستان میں انگریزوں کا جینا دوبھر کردیا ۔ہندوستان کی طویل جدوجہدآزادی میں ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا،جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں، تختہٴ دار پرچڑھے، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخر غیرملکی (انگریز) ملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔ فرزندانِ دیوبند نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائیاں کرکے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ حریت ہند کی تاریخ کا روشن باب ہیں۔
مسلمانوں کے دور حکومت میں ہندوستان کی ترقی و خوشحالی کو دیکھ کر انگریزوں نے بڑی چالاکی اور عیاری کے ساتھ پہلے اس ملک میں تجارت کے نام پر اڈے بنانے کی اجازت حاصل کی اور پھر بعد میں مسلم حکومت کے کمزور ہوتے ہی انھوں نے اپنے آپ کو مسلح اور مستحکم کرنا شروع کردیا۔ بنگال میں انگریزوں کے توسیعی منصوبوں کو بھانپتے ہوئے نواب سراج الدولہ نے ۱۷۵۷ء میں ان سے باقاعدہ جنگ کی ۔ دوسری طرف جنوب میں سلطان حیدر علی اور سلطان ٹیپو نے انگریزوں کی پیش قدمی کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جس میں بالآخر سلطان ٹیپو ۱۷۹۹ء میں شہید ہوگئے۔
ٹیپوسلطان کی شہادت کے بعدانگریزوں کے حوصلے بڑھ گئے اور ملک میں انھیں کوئی چیلنج کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ انگریزوں نے سیاسی اثرات بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشنری اور تبلیغی سرگرمیاں شروع کر رکھی تھیں۔ بالآخر ملک کے سنگین حالات کے پیش نظر ، تحریک ولی اللہی کے قائد شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی(م۱۸۲۳ء)نے ۱۸۰۳ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتوی دیا،جس میں ہندوستان کودارالحرب قرار دیا گیا۔ اسی پس منظر میں سیداحمدشہیدرائے بریلویتحریک شروع ہوئی جس نے انگریزوں کے حلیف سکھوں کے ساتھ تاریخی جہاد چھیڑا اور ۱۸۳۱ء میں حضرت سیداحمدشہیداورشاہ اسماعیل شہید وغیرہ حضرات نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
۱۸۵۷ء میں ہندوستان کی آزادی لیے ملک کے طول و عرض میں جو سب سے بڑی مسلح جنگ لڑی گئی اس میں اکابرین دیوبند نے بھی بڑی سرگرمی سے حصہ لیا اور شاملی و تھانہ بھون کے محاذ پر انگریزی فوجوں سے لوہا لیا۔
معرکہٴ ۱۸۵۷ء میں اکابرین دیوبند کی شرکت
۱۸۵۷ء میں انگریزی اقتدار سے ہندوستان کی آزادی کے لیے دارالعلوم کے اکابر بالخصوص حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی(عمر ۴۲ سال)، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی(عمر ۲۵ سال)، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (عمر ۲۹ سال) وغیرہ حضرات نے سرفروشانہ جد و جہد فرمائی۔ میرٹھ اور دہلی میں انگریزوں کے خلاف مسلح جد و جہد کے موقع پر ضلع مظفر نگر کے تاریخی قصبہ تھانہ بھون کے ایک اجتماع میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت امارت کر کے ان کو امیر منتخب کیا گیااور اسی وقت انگریزی حکومت کے ختم ہونے کا اعلان کردیا گیا اور آزادیٴ وطن کے لیے جانباز مجاہدین کی جماعت بنائی گئی۔ حضرت حافظ ضامن شہید کو صدر مجلس جنگ ، حضرت نانوتوی کو چیف کمانڈر، مولانا محمد منیر نانوتوی کو معاون کمانڈر اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کو فوجی سکریٹری بنایا گیا۔
اتفاق سے اسی زمانے میں انگریزی فوج کے چند سوار کہاروں کے کندھوں پر کارتوسوں کی بنہگیاں لدوائے ہوئے سہارن پور سے کیرانہ جا رہے تھے، جماعت مجاہدین کے لیے یہ بڑا اچھا موقع تھا، انھوں نے سواروں پر حملہ کر کے ہتھیار چھین لیے۔ انگریزی افسر جو ساتھ تھے مقابلے میں مارے گئے۔ اس کامیابی کے بعد مجاہدین نے قریب کی تحصیل شاملی پر حملہ کیا جس میں انگریزوں کی ایک چھوٹی سی فوج رہتی تھی۔ تحصیل کو انگریزی فوج نے قلعے کی طرح مستحکم کر کے دروازہ بند کرلیا۔ مجاہدین چوں کہ کھلے میدان میں تھے، اس لیے انھیں انگریزی فوج کی گولیوں سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نازک موقع پر حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے بڑی جرأت و دلیری سے کام لے کر تحصیل کے پھاٹک کو آگ لگادی۔ مجاہدین آگ کے شعلوں ہی میں تحصیل کے اندر گھس گئے۔ بڑا سخت معرکہ پڑا۔ دست بدست جنگ کے بعد محصورین ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے۔ عین اس وقت جب انگریزی فوج ہتھیار ڈال رہے تھے حضرت حافظ ضامن انگریزی فوج کی گولی سے شہید ہوگئے۔ کچھ روایات کے مطابق یہ معرکہ تین دن تک جاری رہا۔ انگریزی وقائع نگار ہنری جارج کین کے مطابق اس لڑائی میں ۱۱۳ محصورین مارے گئے۔
یہ واقعہ ۲۴/ محرم ۱۲۷۴ھ دوشنبہ (۱۴/ ستمبر ۱۸۵۷ء) کا ہے۔ مجاہدین کی یہ جماعت انگریزی فوج پر غالب آگئی اور تحصیل پر قبضہ کرلیااور عمارت کو توڑ پھوڑ کر کھنڈر بنادیا۔ لیکن یہ جنگ ایک محاذ کی جنگ نہ تھی، یہ جنگ تو پورے ملک میں لڑی جارہی تھی۔ اتفاق یہ کہ فتح شاملی کے دن ہی ۱۴/ ستمبر کو انگریزی فوج دہلی میں داخل ہو کر لال قلعہ پر قابض ہوگئی۔ بدقسمتی سے ہندوستانی عوام اس وقت اپنی طاقت کو منظم نہ کر سکے اور نتیجةً انگریزوں کا پورے ملک پر تسلط قائم ہوگیا۔
جن انگریزوں نے دہلی پر قبضہ کر لیا تب اطراف و جوانب کے باغیوں کی سرکوبی کی مہم بڑے پیمانے پر شروع کردی۔ انگریزوں کی اس فہرست میں تھانہ بھون اور شاملی بھی تھا۔ انگریزوں نے اس حملہ کا سخت انتقال لیا اور تھانہ بھون کو بری طرح تباہ و برباد کردیا۔ جنگ میں حصہ لینے والے تمام مجاہدین کے خلاف وارنٹ جاری ہوا۔ اسی لیے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ہجرت کر کے چھپ چھپا کر مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی گرفتار ہوکر جیل میں قید کیے گئے لیکن چھ ماہ کے بعد رہائی پائی۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے خلاف بھی وارنٹ جاری ہوا لیکن دو سال تک انگریزوں کے ہاتھ نہیں آئے، پھر بالآخر حکومت برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی اور عام معافی کا اعلان کردیا گیا۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: تاریخ دارالعلوم دیوبند، جلد اول ، ص۵۱۰-۵۰۶، مولانا محمد قاسم نانوتوی : حیات اور کارنامے، ص ۹۴-۸۲)
دارالعلوم دیوبند: مجاہدین حریت کی چھاؤنی
جہاد ۱۸۵۷ء کی ناکامی اور سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد، ہندوستانی اور خصوصاً مسلمان انگریزوں کی انتقامی کارروائی کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔انگریزوں نے علماء و امراء کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر دیا، مدارس و معاہد تباہ و برباد کردیے اور اسلامی تہذیب وثقافت کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اکابرین دیوبند نے ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے مقصد سے تعلیمی تحریک برپا کرنے کا فیصلہ کیا اور دارالعلوم دیوبند اس سلسلہ کی پہلی کڑی تھی۔ سیاسی زوال نے مسلمانوں کو بے چارگی و مجبوری اور بے چینی و پریشانی کے جس عالم میں پہنچا دیا تھا، دارالعلوم دیوبند کے قیام سے انھیں سکون و اطمینان اور قرار نصیب ہوا۔اور پھر تاریخ نے ثابت کردیا کہ علماء نے فراست ایمانی سے جو فیصلہ کیا تھا اس کے بالکل صحیح نتائج برآمد ہونے شروع ہوگئے۔ جہاں ایک طرف دارالعلوم دیوبند نے دینی تعلیم کے فروغ ، عقائد صحیحہ و اسلامی تعلیمات کی اشاعت ، مسلمانوں کے دینی تشخص کی حفاظت اور اسلامی علوم و فنون کی ترقی و آبیاری میں بھرپور حصہ لیا وہیں دوسری طرف مجاہدین اور سرفروشوں کی ایک جماعت پیدا کی جس نے آزادی کے مبارک جذبہ کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ انگریزی سامراج کا اس وقت تک تعاقب کرتے رہے جب تک وہ اس ملک کو چھوڑ کر نہ چلا گیا۔
ان علماء و اکابر کو اگرچہ میدان جنگ میں شکست ہوچکی تھی لیکن ان کا تصور آزادی فنا نہیں ہوا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد صرف یہی جماعت تھی جس نے آزادی کے تصور کو ہندوستان میں زندہ رکھا ۔ یہی نہیں بلکہ انگریز دشمنی اور آزادیٴ وطن کے جذبے میں جو حرارت، طاقت اور عمومیت پیدا ہوتی گئی وہ انھیں کی پیہم کوششوں کا نتیجہ ہے۔
تحریک شیخ الہند
جہاد ۱۸۵۷ء کے بعد پہلے مرحلے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا۔ دارالعلوم نے خاموشی سے تقریبا ً پون صدی تک افراد کی تیاری پر توجہ مرکوز رکھی۔ بالآخر دارالعلوم دیوبند کے پہلے سپوت شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندیکی مجاہدانہ سرگرمیوں سے یہ تحریک دوسرے مرحلے میں داخل ہوئی جس کو تحریک شیخ الہند یا عرف عام میں تحریک ریشمی رومال کہا جاتا ہے۔
تحریک شیخ الہند کی ابتدا بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہوئی جب شیخ الہند حضرت مولانامحمودحسن دیوبندی کے شاگردوں اور متوسلین کی ایک بڑی جماعت اس انقلابی تحریک سے وابستہ ہوگئی۔شیخ الہندکے نمائندے ملک کے اندر اور ملک کے باہر افغانستان، آزاد علاقہ، صوبہ سرحداورحجازکے اندرسرگرم اورفعال تھے۔
اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگردمولاناعبیدالله سندھینے ادا کیا، افغانستان کی حکومت کومدد کے لیے تیارکرنااورانگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا عبیدالله سندھی کامشن تھا۔ شیخ الہند نے مولانا سندھی کو کابل اس مشن پر بھیجا تھاکہ حکومتِ افغانستان کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی اور فوجی امداد دینے کے لیے تیار کرلیا جائے۔ اسی درمیان مولانا سندھی نے ایک عارضی حکومت ہند قائم کی جس کے تین رکن تھے؛ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ صدر ،مولانا برکت اللہ بھوپالی وزیر اعظم اور مولانا عبیداللہ سندھی وزیر ہند۔ اس عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ۔ اسی سلسلہ میں ایک وفد روس بھیجا گیا ،اس کے بعد دووفد کو ترکی اور جاپان کے لیے روانہ کیے گئے۔ ترکی جانے والے وفد میں عبدالباری اور شجاع اللہ اور جاپان جانے والے وفد میں شیخ عبد القادر اور ڈاکٹر متھرا سنگھ شامل تھے ۔ جاپان جانے والے وفد کوگرفتار کرکے روسی حکام نے برطانیہ کے حوالے کردیا اور بد قسمتی سے ترکی جانے والا وفد بھی برطانوی حکام کے قبضہ میں آگیا۔ ان کے بیانات سے سارے واقعات انگریزوں کے علم میں آگئے۔ انھیں دنوں مشہور ترک جرمن مشن افغانستان آیا جس کا مقصد افغانستان کو برطانیہ کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنا اور جنگ عظیم میں شامل ہونا تھا۔
تحریک آزادی کے لیے حضرت شیخ الہندنے اپنا مرکز بھی سرحدی علاقہ کو بنایا تھا۔ انگریزوں سے مقابلہ میں مجاہدین وہاں پہلے سے متحرک تھے۔ افغانی قبائل کو جہاد کے دعوت دینے اور ان کو متحد و متفق رکھنے کے لیے حاجی ترنگ زئی، عبد الرحیم سندھی وغیرہ متعدد افراد اس علاقہ میں کام کر رہے تھے۔مرکزیاغستان سے تقاضہ ہورہا تھا کہ حضرت شیخ الہند وہاں تشریف لے آئیں، تو مجاہدین کا اجتماع اور زیادہ ہوجائے گا۔ آپس کے تفرقہ کا خطرہ نہ رہے گا،اور کاروبار جہاد میں پختگی آجائے گی؛ لیکن مجاہدین اور ضروریاتِ جہاد کے لیے غیر معمولی امداد کی بھی ضرورت تھی اور حضرت کے علاوہ اور کوئی ایسانہ تھا کہ لوگ اس کی شخصیت سے متاثر ہوں اور محض خفیہ اشارہ پر غیر معمولی امداد پیش کردیں۔ لہٰذا حضرت نے فیصلہ کیا کہ کسی باقاعدہ حکومت کو آمادہ کیا جائے کہ وہ پشت پناہی کرے۔ اس مرحلہ پر حضرت نے یاغستان کے بجائے حجاز کا ارادہ کیا کہ ترکی حکومت سے رابطہ قائم کریں۔
اسی مقصد کے لیے حضرت شیخ الہند ۱۹۱۵ء میں حجاز تشریف لے گئے اور وہاں دو سال تک ان کا قیام رہا۔ حجاز میں خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں سے خصوصاً غالب پاشا گورنرمدینہ اور خلافت عثمانیہ کے وزیر الحرب انورپاشاہ وغیرہ سے رابطہ کیا اورانھیں ہندوستان کی صورت حال سے آگاہ کیااوراپنے منصوبہ سے واقف کرایا۔ ان دونوں نے شیخ الہند کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے، ان کے منصوبے کی تائیدکی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اوراپنی حکومت کے تعاون کایقین دلایا۔ غالب پاشا کے خط میں حضرت شیخ الہند کی شخصیت پر اعتماد اور اہل ہند سے ان کی مدد کی اپیل تھی ، اس خط کو ہندوستان کی تحریک آزادی میں ’غالب نامہ‘ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ترکی سپہ سالار غازی انور پاشا کے پیغام کا مضمون بھی وہی تھا جو غالب نامہ کا تھا یعنی اس میں ہندوستانیوں کے مطالبہ آزادی کی تحسین کی گئی تھی ،اور اپنی طرف سے امداد واعانت کا وعدہ تھا اور ہر شخص کو جو ترکی کی رعیت یا ملازم ہو، حکم تھا کہ مولانا محمود حسن صاحب پر اعتماد کرے اور ان کی اعانت میں حصہ لے۔ یہ فرامین صندوق کی تلی میں پیوست کرکے ہندوستان پہنچائے گئے۔ پھر ان کے فوٹو لیے گئے او ران کو افغانستان ویاغستان کے جہادی مراکز پہنچایا گیا۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے حضرت شیخ الہند کو حالات سے مطلع کرنے کے لیے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر خط لکھ کر جولائی ۱۹۱۶ء میں عبد الحق کو دیا اور اس کو ہدایت کردی کہ یہ خطوط شیخ عبدالرحیم سندھی کو پہنچادیں تاکہ وہ ان خطوط کو مدینہ روانہ کردیں۔ ایک روایت کے مطابق یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھے تھے۔ بہر حال یہ خطوط ملتان کے خان بہادر رب نواز خاں کو ہاتھ لگ گئے اور اس نے ملتان ڈویزن کے انگریز کمشنر کو یہ خطوط حوالے کردیے۔ بعد میں پنجاب سی آئی ڈی نے اس سلسلہ میں تحقیقات کیں ۔ انگریزوں نے ان کاروائیوں اور مقدمات کو ریشمی رومال سازش کیس (Silk Letter Conspiracy Case) کا نام دیا اور اسی بنیاد کو اس کو ’تحریک ریشمی رومال ‘ کہا جانے لگا۔ اس کیس سے متعلق تمام امور کی تفصیل انڈیا آفس لائبریری لندن کے پولٹیکل اور سیکریٹ شعبہ میں محفوظ ہے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر لکھے تھے اور یہ تاریخی و سیاسی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے پہلا خط شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا۔ یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا تھا اور حضرت شیخ الہندکو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کردیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ دوسرا خط حضرت شیخ الہند کے نام تھاجس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھادیا جائے۔ اس خط میں رضاکار فوج جنود اللہ اور اس کے ۱۰۴/ افسروں کا ذکر ہے جن کی فوجی تربیت اور ذمہ داری لکھی گئی ہے۔ اس میں راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرمی، جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت کا قیام روس جاپان اورترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
تیسرا خط بھی حضرت شیخ الہند کے نام تھا ۔ اس خط میں تحریر تھا کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں اور کون کون سے لوگ سست پڑگئے ہیں ۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں مہمند اور سوات کے علاقوں میں مجاہدین کی سرگرمیوں، جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب اور افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے ا س کی تفصیل بھی درج تھی۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہند کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندسے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں ، حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
اسی زمانہ میں انگریزوں سے مل کر مکہ کے گورنرشریف حسین نے ترکی حکومت کے خلاف بغاوت کردیا۔ شریف حسین کے سرکاری علماء نے ایک استفتا اور اس کا جواب مرتب کرایا، جس میں ترکی فوج کی تکفیر تھی، سلاطین آل عثمان کی خلافت سے انکار کیا گیا تھا اور شریف حسین کی بغاوت کو حق بجانب اور مستحسن قرار دیا گیا تھا۔ شریف حسین سے تعلق رکھنے والے بہت سے علما نے اس پر دستخط کردیے تھے؛ لیکن علما کی کثیر تعداد متردد اور خائف تھی۔ حضرت شیخ الہند کے سامنے یہ فتوی پیش کیا گیا تو حضرت نے اس پر تائیدی دستخط کرنے سے سختی سے انکار کردیا۔ آپ کے انکار پر تمام حق پرست علما کی ہمت بلند ہوگئی، جو حضرات متردد اور خائف تھے، ان سب نے دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ فتوی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے حکومتِ برطانیہ کے اشارے پر شریف حسین نے گرفتار ی کے احکام جاری کردیے ، حضرت شیخ طائف میں ۱۵/ فروری ۱۹۱۷ء کو گرفتار کر لیے گئے اور وہاں سے بحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا روانہ کردیے گئے جوبرطانیہ کے سیاسی اور جنگی قیدیوں کا مرکز تھا۔ وہاں سخت تکلیف کی زندگی گزار نے کے بعد ۸/ جون ۱۹۲۰ء کو تین برس سات مہینے کی اسارت کے بعد بمبئی پہنچا کر آپ کو رہا کیاگیا۔
دوسری طرف ریشمی رومال خطوط کی روشنی میں ہندوستان میں بھی حکومت نے نہایت ہی تیزی سے کاروائی شروع کی، چھاپے مارے اور گرفتاریاں شروع کیں۔ ۲۲۲ /افراد کے خلاف انکوائری اور پوچھ تاچھ کی گئی۔ ۵۹/ اشخاص پر حکومت برطانیہ کا تختہ الٹنے کا اور غیر ممالک سے امداد حاصل کرنے کی سازش کا مقدمہ قائم کیاگیا۔ادھر افغانستان میں بھی امیر حبیب اللہ کی رائے بدل گئی،اس نے انگریزوں کا دبا ؤ پر مولانا مولانا عبیداللہ سندھی او ران کے ساتھیوں کی گرفتاری اور نظر بندی کا حکم جاری کردیا۔
جنگ عظیم کی ابتدا، عربوں کی ترکوں کے خلاف بغاوت، امیر حبیب اللہ کی طوطا چشمی اور دوسرے اسباب کی بنیاد پر تحریک ریشمی رومال اپنے انقلابی مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہی ، لیکن اس تحریک کی تفصیلات سے بوریہ نشین علماء کی بلندیٴ فکر، مجاہدانہ اولوالعزمی اور عظیم تدبر و سیاست کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ میں ’تحریک ریشمی رومال‘ ایک تابناک باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت شیخ الہند نے مالٹا سے واپسی کے بعد ملک کی آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ مالٹا میں اسارت کے زمانے میں حضرت شیخ ا لہند نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندوستان کی آزادی صرف ایک قوم اپنی کوشش سے حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ لہٰذا آپ نے انقلاب و تشدد کی پالیسی بد ل کر ہندوستان کی آزادی کوہندو اور مسلمان کی مشترکہ جد وجہد سے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسی سلسلہ میں آپ نے نیشنلسٹ طاقتوں کا ساتھ دیا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنا میں حصہ لیا۔
شیخ الہندکی اس تحریک میں مولانامنصورانصاری، مولانا فضل ربی، مولانافضل محمود،مولانامحمداکبر کاشماراہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری، مولانا محمداحمدچکوالی، مولانامحمدصادق کراچوی، شیخ عبدالرحیم سندھی، مولانا احمدالله پانی پتی، ڈاکٹرمختار احمدانصاری وغیرہ نے اپنا تعاون پیش کیا۔ ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر، مولاناابواکلام آزاد،مولانااحمدعلی لاہوری،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے ۔ مالٹا کے اسارت خانہ میں حضرت شیخ الہند کے ساتھ آپ کے دیگر رفقاء حضرت مولاناحسین احمدمدنی،مولاناعزیزگل پشاوری،مولانا حکیم نصرت حسین امروہوی، مولانا وحید احمدفیض آبادی وغیرہم بھی قید کیے گئے تھے ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: نقش حیات، حضرت مولانا حسین احمد مدنی، جلد دوم، صفحہ ۱۷۸-۱۳۱؛ ریشمی خطوط سازش کیس، مولانا محمدمیاں دیوبندی)
جمعیة علمائے ہند
۱۹۱۹ء میں ہی تحریک خلافت شروع ہوئی جو جنگ عظیم اول کے بعد خلافت عثمانیہ کے تحفظ اور ہندوستان پر برطانوی تسلط کے خلاف ایک نہایت موٴثر اور ہمہ گیر تحریک تھی ۔ اس تحریک نے ہندوستان میں ہندومسلم اتحاد کا عظیم الشان نمونہ پیش کیا اور اس پلیٹ فارم سے مسلمان اور ہندہ شانہ بشانہ انگریزی حکومت کے خلاف لڑے۔ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی و دیگر علمائے دیوبند اس تحریک میں شریک رہے۔ ۱۳/ نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کا اجلاس مولانا فضل الحق کی صدارت میں ہوا جس میں برطانیہ کے جشنِ صلح کے بائیکاٹ کی تجویز مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب نے پیش کی جس کی تائید میں گاندھی جی نے بھی تقریر کی۔ اسی موقع پر انقلابی علماء نے ’جمعیة علمائے دیوبند‘ کے نام سے باضابطہ دستوری جماعت کی تشکیل کا فیصلہ کیا جس کے پہلے صدر مفتیٴ اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی منتخب ہوئے۔ جمعیة علمائے ہند کے قیام کے بعد علمائے دیوبند کی مجاہدانہ سرگرمیاں اسی پلیٹ فارم سے جاری رہیں اور ہندوستان کی آزادی کی تحریک اس جماعت کا بنیادی مشن تھا۔
جمعیة علمائے ہند ایک ایسے وقت میں قائم ہوئی جب انگریزی استبداد اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا اور کسی میں جرأت موجود نہیں تھی کہ وہ سات سمندر پار کی اس اجنبی مخلوق کے خلاف کوئی آواز بلند کر سکے، لیکن جمعیة علمائے ہند اور اس کے بانیوں نے سب سے پہلی جو آواز لگائی وہ وہی تھی جسے سننے کے لیے ہر ہندوستانی گوش بر آواز تھا، اس نے مکمل آزادی کا نعرہ دیا اور کہنا چاہیے کہ اس نعرہ کے ذریعہ اس نے تحریک آزادی کے لیے قائم تمام تنظیموں، تحریکوں اور انجمنوں پر سبقت حاصل کرلی۔
جون ۱۹۲۰ء میں خلافت کانفرنس الہ آباد میں نان کوآپریشن(ترک موالات) شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ جولائی ۱۹۲۰ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے ترک موالات کا فتوی دیاجس کو بعد میں مولانا ابوا لمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیة علمائے ہند کی طرف سے ۴۸۴ دستخطوں کے ساتھ شائع کیا۔ غیر ملکی مال کے بائیکاٹ اور برطانوی حکومت کے ساتھ عدم تعاون کی یہ تجویزبہت کارگر ہتھیار تھا جوجنگِ آزادی میں استعمال کیاگیا، انگریزی حکومت اس کاپورا پورا نوٹس لینے پر مجبورہوئی اوراس کاخطرہ پیدا ہو گیا کہ پوراملکی نظام مفلوج ہوجائے اورعام بغاوت پھیل جائے۔
نومبر ۱۹۲۰ء میں جمعیة علمائے ہند کا دوسرا اجلاس عام دہلی میں حضرت شیخ الہند کی صدارت میں ہوا ۔ آپ نے اپنے خطبہٴ صدارت میں سیاسی جد وجہد کی منتشر طاقت کو متحد وموٴثر بنانے کے لیے کانگریس کے مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ حضرت شیخ الہند کی اس کوشش نے جنگ آزادی کے نعرہ میں ایک روح پھونک دی ۔
جولائی ۱۹۲۱ء میں خلافت کانفرنس کراچی کے اجلاس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ حکومت برطانیہ کے ساتھ موالات و اعانت کے تمام تعلقات اور ملازمت حرام ہے۔ اس کے پاداش میں کراچی کا مشہور مقدمہ چلا جس میں آپ کے ساتھ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، گرو شنکراچاریہ وغیرہ کو دو دو سال قید بامشقت کی سزا ہوئی۔
جنوری ۱۹۲۴ء میں جمعیة علمائے ہند کے پانچویں اجلاس میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے اپنے خطبہ میں آزادیٴ کامل کی طرف سب سے پہلے توجہ دلائی۔ پھر جمعیة علمائے ہند نے حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے صدارت میں ہونے والے ساتویں اجلاس میں ۱۴/ مارچ ۱۹۲۶ء کو سب سے پہلے مکمل آزادی کی تجویز پاس کی۔ ہندوستان پر برطانوی قبضہ کے خلاف ہندوستانیوں کی طرف سے یہ پہلی تجویز تھی جس نے ببانگ دہل برطانیہ سے ملک کی مکمل آزادی کی حمایت کی ، ورنہ اس وقت کانگریس وغیرہ دیگر قومی جماعتیں حکومت سے محض کچھ مراعات کی طالب ہوا کرتی تھیں۔ بالآخر جمعیة علمائے ہند کی یہی تجویز ملک کے ہر فرد کی آواز بن گئی۔
۱۹۲۹ء میں گاندھی جی کے ’ڈانڈی مارچ‘ اور نمک سازی تحریک میں جمعیة علمائے ہند کے رہ نما مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی وغیرہ نے شرکت کی اور دیگر قومی کارکنوں کے ساتھ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سید فخر الدین مراد آبادی، مولانا سید محمد میاں دیوبندی اور مولانا بشیر احمد بھٹہ وغیرہ بھی گرفتار ہوئے۔
۱۹۳۰ء کی تحریک سول نافرمانی میں جمعیة علمائے ہند کے صدر حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی اور ناظم اعلی جمعیة علمائے ہند مولانا احمد سعید دہلوی کو قانون تحفظ عا مہ و بغاوت کے جرم میں گرفتار کر کے قید بامشت کی سزا دی گئی۔ ۱۹۳۲ء میں جب دوبارہ سول نافرمانی کی تحریک شروع کی گئی تو جمعیة علمائے ہند نے بھی کانگریس کی جنگی کونسل کی طرح ’ادارہ حربیہ‘ قائم کر کے ڈکٹیٹرانہ نظام جاری کیا جس کے ذمہ دار مولانا ابوالمحاسن سجاد صاحب تھے۔ مارچ ۱۹۳۴ء میں جمعیة علمائے ہند کے پہلے ڈکٹیٹر حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی ایک لاکھ افراد کا جلوس لے کر نکلے اور گرفتار کر لیے گئے۔ جمعیة علمائے ہند کے دوسرے ڈکٹیٹر حضرت مولانا حسین احمد مدنی کو بھی دیوبند سے دہلی آتے ہوئے راستے میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کے بعد سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دیوبندی، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہم ڈکٹیٹر منتخب ہوتے رہے اور گرفتاریاں دیتے رہے۔ اس تحریک میں تقریباً تیس ہزار مسلمان گرفتار کیے گئے۔
۱۹۳۵ء میں حکومت ہند کا جو دستور بنایا گیا تھا اس میں مسلمانوں کی مذہبی و ملی مشکلات کے حل کے لیے جمعیة علمائے ہند نے ایک فارمولا پیش کیا تھا جس کو ’مدنی فارمولا‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اگر اس فارمولے کے مطابق دستور بنایا جاتا تو کافی حد تک مسلمانوں کی مشکلات حل ہوجاتیں اور ملک تقسیم نہ ہوتا۔ بہر حال گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء کے ذریعہ مسلمانوں کو جو بھی مراعات حاصل ہوئیں وہ اسی فارمولے کی بنیاد پر شامل ہوئیں۔
۳۷-۱۹۳۶ء میں جمعیة علمائے ہند نے حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی کی رہ نمائی میں صوبہ سرحد کی اسمبلی میں شریعت بل کا مسودہ پیش کر کے پاس کرایا ، جو بالآخر شریعت ایکٹ بنا اور آج تک نافذ ہے۔ ۱۹۳۷ء میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے انگریزی اقتدار کے مقابلے میں بلا تفریق مذہب و ملت ہندوستانیوں کے لیے متحدہ قومیت کی وکالت کی اور اس کو قرآن وحدیث سے ثابت کیا۔ اُس وقت مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا کی جانے سے مذہب پر مبنی تصورات پیش کیے جارہے تھے۔
۴۰-۱۹۳۹ء میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر جمعیة علمائے ہند نے جبری بھرتی کی پرزور مخالفت کی اور اعلان کیا کہ جنگ کے سلسلہ میں ہم کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے، جس کی پاداش میں جمعیة کے رہ نماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ان میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا محمد قاسم شاہجہانپوری، مولانا ابوالوفا شاہجہانپوری، ، مولانا محمد اسماعیل سنبھلی، مولانا شاہد میاں فاخری الہ آبادی، مولانا اختر الاسلام مدرسہ شاہی مرادآباد وغیرہ شامل ہیں۔
اپریل ۱۹۴۲ء میں جمعیة علماء کی بچھرایوں کانفرنس میں آزادی کے مطالبہ کی پاداش میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی کو جون ۱۹۴۲ء میں گرفتار کر لیا گیا اور چھ ماہ کی مدت اسارت ختم ہونے کے وقت دو بارہ غیر محدود عرصہ کے لیے نظر بند کردیا گیا۔ ۵/ اگست ۱۹۴۲ء کو جمعیة علمائے ہند کی مجلس عاملہ کے چار مقتدر ارکان حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا احمد سعید دہلوی اور مولانا عبد الحلیم صدیقی لکھنوی کے دستخطوں سے ایک اخباری بیان جاری کیا گیا جس میں کھلے لفظوں میں کہا گیا تھا کہ ”انگریز ہندوستان چھوڑ دے“۔ اس کے بعد ۸/ اگست کو کانگریس نے بمبئی کے اجلاس میں ’کوئٹ انڈیا‘ (انڈیا چھوڑ دو)کی تجویز پاس کی۔ اس کی پاداش میں کانگریس کی طرح جمعیة علمائے ہند کے رہ نما اور ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا محمد میاں دیوبندی، مولانا نور الدین بہاری وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جمعیة علمائے ہند نے مسلمانوں کے لیے الگ اسٹیٹ یعنی نظریہٴ قیامِ پاکستان کی ہمیشہ پوری قوت کے ساتھ مخالفت کی۔ بالآخر ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء کو مجاہدین ملت کی بیش بہا قربانیوں کی بدولت جب آفتابِ آزادی نصف شب کو طلوع ہوا، برطانوی شاطر حکمراں اپنی پھوٹ ڈالنے والے سیاست میں کامیاب ہوچکے تھے۔ اس مبارک گھڑی میں ہندو مسلم اتحاد کی وہ عمارت جس کی تعمیر میں جمعیة علماء کے اکابر نے کی تھی وہ لرزہ بر اندام ہوگئی ، نفرت کی آندھیوں میں صدیوں کے پروردہ رشتے کچے دھاگوں کی طرح ٹوٹ گئے۔ اس وقت شمالی ہند کی مسلمانوں کے سامنے کربلا جیسے مناظر تھے۔ اس بھیانک تاریکی میں جمعیة علمائے ہند نے امید کا چراغ روشن کیا، لڑکھڑاتے قدموں کو سہارا دیا اور حوصلوں کو بحال کیا ۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: جمعیة علماء نمبر ، ہفت روزہ الجمعیة نئی دہلی، شائع شدہ بہ موقع ۲۵/ واں اجلاس عام ممبئی ۱۹۹۵ء ، صفحہ نمبر ۵۷ تا ۶۵)
خلاصہٴ کلام
ہندوستان کی تحریک آزادی کی پوری تاریخ میں علمائے دیوبند کی مجاہدانہ سرگرمیاں بہت نمایاں ہیں۔ فکر ولی اللہی کے وارث و امین ہونے کی حیثیت سے علمائے دیوبند نے پورے تسلسل اور اعتماد کے ساتھ انگریزوں سے لوہا لیا اور بالآخر انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ ان علماء نے جذبہٴ آزادی کی شمع ایسے تیرہ و تاریک ماحول میں بھی جلائے رکھی جب برطانوی جبر و استبداد اپنے عروج پر تھا اور انگریزوں کے خلاف کوئی بھی میدان میں نہیں تھا۔ ان علماء نے پوری سیاسی بصیرت اور تدبر کے ساتھ وقت اور حالات کے تقاضے کے تحت اپنے ہتھیار بدلے، اپنا طریقہٴ کار تبدیل کیا ، لیکن آزادی کے عظیم الشان ہدف و مقصد سے کبھی سر مو انحراف نہیں کیا۔ یہ ان بوریہ نشین علماء ہی کی دور رس نگاہیں تھیں جنھوں نے ہر موڑ پر تحریک آزادی کی قیادت کی اور مکمل آزادی، کوئٹ انڈیا وغیرہ جیسے تاریخی تحریک کی ابتدا میں انھوں نے دوسروں سے سبقت حاصل کی؛ جب کہ دوسری طرف ملک و بیرون ملک کے اعلی تعلیمی اداروں سے سیاست و پولیٹکل سائنس کی ڈگریاں حاصل کرنے والے افراد ان کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے اور وہ انگریز کو ناقابل تسخیر ہی سمجھتے رہے۔
دوسری طرف علماء نے تقسیم ہندوستان اور نظریہٴ پاکستان کی زبردست مخالفت کی، حالاں کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپائے اور انگریز اپنی تفرقہ انگیزی کی سیاست میں کامیاب ہوئے؛ لیکن علماء کی متحدہ قومیت کی حمایت کا سب سے اہم فائدہ یہ ہوا کہ ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک بنا اور اس کے دستورنے ہندوستانی مسلمانوں کو برابر کا حق دیا۔ خدا نخواستہ اگر ملک کا سیاسی ڈھانچہ غیر سیکولر اور غیر جمہوری ہوتا تو مسلمانوں کا اس ملک میں کیا حال ہوتا اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آئین میں مسلمانوں میں باعزت برابری کا حق انھیں علمائے حق کی متحدہ کوششوں کا نتیجہ ہے جنھوں نے ہر طرح کی فرقہ واریت اور مذہبی لکیروں سے ہٹ کر اس کثیر المذاہب اور متنوع الثقافة ملک کے لیے سیکولر آئین بنوایا تاکہ یہاں ہر مذہبی طبقہ اپنے مذہب پر عامل رہ سکے اور اپنے مذہب کے بقا و اشاعت کے لیے خود مختار ادارے قائم کرسکے۔