شمس تبریز قاسمی
stqasmi@gmail.com
ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی خدمات کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ ہندوستان کی آزادی ، معاشرہ کی اصلاح ، اقتصادی نمو ، اور تعلیمی شرح میں اضافہ کی شرح کا سہرا انہیں دینی مدارس کو جاتا ہے ۔بے سروسامانی کے عالم میں علم نبوت کی اشاعت کا مدارس نے جو فریضہ سنبھالاتھا وہ آج تسلسل کے ساتھ برقررر ہے اور ہزراوں خوفناک طوفان کے باوجود مدارس کا چراغ گل نہیں ہوسکا ہے ۔ ہر دور میں مدارس کو ختم کر نے کی کوششیں کی گئیں۔ اہل مدارس کے خلاف الزام تراشیاں کی گئیں۔ ان کا ناطقہ حیات بندکرنے کی سازشیں رچی گئیں۔ عوام کو مدارس سے دوررکھنے کی عوامی اور سرکاری سطح پر تحریکیں چلائی گئیں ۔ مدارس کے طلبہ کو غریب اور پسماندہ قراردیا گیا ۔ انہیں جاہل اور گنوار کہاگیا ۔ان کے مستقبل کو تاریک بنانے کی کوشش کی گئی۔ دہشت گردکا خطاب دیا گیا ۔ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا ۔ارباب اقتدار نے یہ فرما ن بھی جاری کردیا کہ ” مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہندوستان کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہے“ ۔ان سب کے پیچھے یہی مقصد کارفرما تھا کہ مسلم عوام مدارس سے برگشتہ ہوجائیں ۔ ان کے دلوں میں مدارس کے تئیں نفرت سماجائے ۔ مسلم والدین اپنے بچوں کو دینی مدارس میں حصول تعلیم کے لئے نہ بھیجیں کیوں کہ اسلامی تعلیمات انہیں مدارس سے زندہ ہے ۔ اسلامی تشخص اور شعائر کو فروغ دینے کے کے علم بردار یہی مدراس ہیں ۔ قرآن و حدیث سے مسلمانوں کا رشتہ انہیں مدارس کی وجہ سے بر قرار ہے ۔ مساجد اور مکاتب انہیں مدرسہ والوں کی وجہ سے آباد ہیں۔بہت پہلے ایک انگریز دانشور نے کہا تھا کہ اگر مسلمانوں پر حکومت کرنا ہے اور انہیں اپنا مطیع اور غلام بنانا ہے تو انہیں قرآن پاک سے دور کردو ، جب وہ قرآن پاک نہیں پڑھ سکیں گے تو ایک مسلمان کی حیثیت سے زندگی بھی نہیں گذار سکیں گے ۔ لیکن اس طرح کی کو ئی بھی سازش کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکی ہے ۔ ارباب اقتدرا اور اسلام دشمن عناصر کی یہ تمام ترکیبیں بے اثر اور رائیگاں ثابت ہوئی ہیں۔
بی جے پی کی زیر قیادت مہاراشٹرا کی فڈنویس سرکار کا یہ فیصلہ اسی سلسلے کی عملی کڑی ہے جس کو نافذ کرنے کے لئے اب باضابطہ طور پر قانون کا سہار الیا گیا ہے ۔ مہاراشٹر ا حکومت نے چندر وز قبل یہ فیصلہ لیا ہے کہ اسکول کے نصاب کے مطابق تعلیم نہ حاصل کرنے والے مدارس کے طلبہ ناخواندہ اور غیر اسکولی کہلائیں گے ۔”سروا شکچھا ابھیان “اور آر ٹی ای کے تحت ان کا شمار نہیں ہوگا۔ جن مدارس میں عصری علوم کی تعلیم نہیں دی جائے گی انہیں کسی بھی طرح کی کوئی سرکاری گرانٹ نہیں ملے گی ۔ مہاراشٹر حکومت کا یہ فیصلہ وا ضح طور پر مسلم مخالف اور قانون مخالف ہے ۔ دستور ہند کی دفعہ نمبر30 کے تحت اس ملک میں اقلیتوں کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارہ جات کھولنے کی پوری آزادی حاصل ہے ۔ سپریم کورٹ کے مطابق ان ادارہ جات میں مدرسے سے لے کر اسکول تک سبھی تعلیمی ادارے آتے ہیں لہٰذا مہاراشٹر حکومت کا یہ اقدام نہ صرف آئین کی خلاف ورزی ہے بلکہ سپریم کورٹ کی بھی توہین کے مترادف ہے ۔
ہندوستان میں دینی مدارس کی تعداد تقریبا لاکھوں سے زائد ہے جہاں سے ہر سال کم و بیش پندرہ ہزار طلبہ فراغت حاصل کرتے ہیں ۔ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے مدارس میں کچھ وہ ہیں جن کا شمار سرکاری بورڈ کے تحت ہوتا ہے ۔بہار ، بنگال ،آسام یوپی اور ایم پی میں اسکول بورڈ کی طرح باضابطہ مدرسہ بورڈ ہے۔ بورڈ سے منسلک طلبہ اپنی اہلیت کے دائرے میں سرکاری ملازمت کے حقدار ہوتے ہیں ۔انہیں سرکاری امداد ملتی ہے ۔ دوسر ے لفظوں میں انہیں گورنمنٹ اسکول کی طرح گورنمنٹ مدرسہ کہا جاتا ہے۔ مدرسہ عالیہ کلکتہ یونیورسیٹی لیول پر مسلسل ترقی کررہی ہے ۔بقیہ مدارس وہ ہیں جنہیں حکومت سے کسی طرح کی کوئی امداد نہیں ملتی ہے ۔ ملت اسلامیہ کے تعاون سے وہ مدارس چلتے ہیں ۔گذشتہ یو پی اے حکومت کے دوران مرکزی مدرسہ بور ڈ کی تجویزیں بار ہا زیر غور آئی لیکن مسلم قیادت نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ ریاستی سطح پر جو بورڈ ہیں وہ ناکامی کے شکار ہیں ۔ ڈگری ملنے کے سوا کسی طرح کی قابلیت اور صلاحیت وہاں کے طلبہ کو نہیں مل سکی ہے۔ ایسے میں مرکزی مدرسہ بورڈ کا قیام دینی مدارس کو تعلیمی انحطاط سے دو چار کرنے اور اصل مقصد سے منحرف کرنے کا ایک منصوبہ تھا جس میں حکومت ہند کامیاب نہیں ہوسکی ۔
مہاراشٹرا ان صوبوں میں شامل ہے جہاں کسی طرح کا کوئی مدرسہ بورڈبھی نہیں ہے ۔ سرکاری محکموں میں مدراس کے طلبہ کو کوئی ملازمت نہیں دی جاتی ہے ۔ 2013 میں محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ نے مہاراشٹر ا حکومت سے مہاراشٹرا مدرسہ بورڈ تشکیل دینے کی سفارش بھی کی تھی ۔ مہاراشٹر ا کے دینی مدارس کی تعداد تقریبا1900 سے زائد ہے ۔ یہاں دو لاکھ کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں جن کی مکمل کفالت من جانب مدرسہ کی جاتی ہے ۔ حکومت نہ طلبہ کو نہ ہی مدارس کو کسی طر ح کا امداد دیتی ہے ۔
مہاراشٹرا حکومت کے فیصلہ کا یہ جز ہمیں خوشی بہ خوشی تسلیم ہے کہ وہ مدارس کو کسی طرح کا گرانٹ نہیں دے گی لیکن دوسرا جز ا قانو ن مخالف ، اسلام دشمنی اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کے نفاذ پر مبنی ہے کہ مدارس کے طلبہ غیر تعلیم یافتہ شمار کئے جائیں گے۔ مدارس کے فارغ طلبہ اپنی جدو جہد اور مدارس کی آغوش میں ملی فکری بلندی کے سبب زمانہ سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ حسب سہولت یونیورسیٹز اور کالج کا رخ کرکے اعلی ترین عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ یوپی ایس سی تک کا سفر طے کرتے ہیں ۔ سرکاری محکموں میں نمائندگی حاصل کرتے ہیں ۔ سیاست میں قدم جماتے ہیں ۔ سیاسی ، سماجی اور تعلیمی انقلاب برپا کرتے ہیں ۔ ایسے میں حکومت نے غیر تعلیم یافتہ قراردے کر اور آر ٹی ای سے باہر کرکے ان کے شہ رگ پر ہی حملہ کردیا ہے ۔ عملی طور پر مدارس سے دل چسپی رکھنے والوں کو اس سے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔مہاراشٹرا حکومت کا مسلمانوں کے خلاف یہ دوسرا اقدام ہے ۔ اس سے قبل گائے اور اس کی نسل کے ذبیحہ پر ریاستی حکومت پابندی عائد کرکے مسلمانوں کو اقتصادی طور پر نقصان پہچارہی ہے ۔ اب یہ فیصلہ لیا گیا ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو تعلیمی سطح پر کمزور کرنا ہے کیوں کہ یہاں پڑھنے والے وہ غریب بچے ہوتے ہیں جن کے والدین خط افلاس سے نیچے زندگی گزارتے ہیں ۔ ان کے پاس اپنے چھوٹوں بچوں کو کام میں لگانے کے سوا کسی طرح کی تعلیم دلانے کی کوئی صلاحیت نہیں ہوتی ہے ۔
مدراس اسلامیہ اسلام کا قلعہ ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے علم بردار ہیں ۔ حب الوطنی ، فرض شناسی اور حسن اخلاق کی تعلیم دی جاتی ہے۔انسانیت کا سبق سکھایا جاتا ہے ۔ دینی تعلیم کے ساتھ تقریبا تمام چھوٹے بڑے مدارس میں عصری تعلیم کے ضروری مضامین بھی شامل ہیں ۔ جیسے کہ انگریزی ، ہندی حساب ان سب کے باوجود اگر یہ کہاجائے کہ مدارس کے طلبہ مین اسٹریم سے باہر ہیں ۔ وہ جاہل اور غیر تعلیم یافتہ ہیں تو اسے اسلام دشمنی ، اور مدرسہ مخالف مہم کے علاوہ کچھ نہیں کہاجاسکتا ہے ۔ ہندوستان کی آزادی دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ کی مرہون منت ہے۔بر صغیر کی تہذیبی ،ثقافتی ، سماجی ، تعلیمی اور معاشی اصلاحات میں مدارس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ جن اسباب کی بناپر ہندوستان کو دنیا بھر میں شہرت ملی ہے ان میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند سرفہرست ہے ۔گذشتہ سال کی بات ہے جب پاکستان کے سفر کے دوران ایک یورپین مفکر نے یہ اعتراف کیا کہ” سرخ اینٹوں سے بنی ان عمارتوں میں نہ جانے کیا رکھا ہے جس نے گذشہ ڈیڑھ صدی میں بر صغیر کا مزاج بدل کر رکھ دیاہے “۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکو ں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!