محمد اللہ قاسمی ، دیوبند
khaliliqasmi
اللہ تعالی کی خاص رحمت و مغفرت کا مبارک مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔ ماہ رمضان اللہ تعالی کی خصوصی الطاف و عنایات کا رازدار اور نیکیوں کی فصل بہار ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کی آمد سے دوماہ قبل ہی سے یہ دعا فرمانا شراع کردیتے تھے: ”اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کا مہینہ نصیب فرما“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کا انتظار فرماتے اور پوری تیاری کے ساتھ اس کا استقبال فرماتے۔ رمضان المبارک میں آپ کے شب و روز کے معمولات بڑھ جاتے۔ قیام لیل فرماتے ، تہجد میں خود بھی اٹھتے اور دوسروں کو بھی تاکید فرماتے۔ باد بارش خیز سے بڑھ کر سخی و فیاض ہوتے اور صدقات و عطیات کی کثرت فرماتے۔ رمضان کے اخیر عشرہ میں ان تمام امور میں مزید اہتمام کے پیش نظر مسجد میں اعتکاف کی نیت سے قیام فرماتے۔
ماہ رمضان یوں تو روزہ کے علاوہ نماز و عبادت، قیام لیل و تہجد، تقوی و طہارت اور زکاة و صدقات کا خصوصی مہینہ ہے، لیکن ماہ رمضان کی قرآن کریم سے بڑی خاص مناسبت ہے۔ قرآن و حدیث سے دونوں کے مابین گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے ۔ اللہ تعالی کا اشاد ہے: ”رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اورجس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور جوحق وباطل کو الگ الگ کرنے والا ہے۔ “ (سورة البقرة2:185 )
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مصحف ابراہیمی اور تورات اور انجیل سب کا نزول رمضان ہی میں ہوا ہے اور قرآن شریف بھی رمضان کی چوبیسویں تاریخ میں نازل ہوا۔ لیکن نزول قرآن اور دیگر مقدس کتب و صحائف کے نزول میں فرق یہ ہے کہ وہ جس پیغمبر پر اتریں ایک ساتھ ایک ہی مرتبہ اتریں لیکن قرآن کریم لوح محفوظ سے اول آسمان پر سب ایک ساتھ بھیجا گیا پھر تھوڑا تھوڑا کر کے مناسب احوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا ۔ قرآن کے اسی نزول کا مختلف مقامات پر کیا گیا ہے: (۱) ”ہم نے قرآن کو لیلة القدر کو نازل کیا “۔ سورة القدر97:1 (۲) ”ہم نے قرآن کو مبارک رات میں نازل کیا“۔ سورة الدخان 44:2 ۔ ان آیات میں یہی بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم ایک ساتھ آسمان اول پر رمضان المبارک کے مہینے میں لیلتہ القدر کو نازل ہوا اور اسی کو لیلہ مبارکہ بھی کہا گیا ہے ۔ قران کریم کو لیلتہ القدر میں لوح محفوظ سے پہلے آسمان کی طرف اتار کر بیت العزة میں رکھا گیا پھر حسب ضرورت واقعات تھوڑا تھوڑا اترتا رہا اور دو عشروں پر محیط زمانے میں مکمل ہوا۔
احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ہر سال ماہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ا س وقت تک جتنا قرآن نازل ہوچکا ہوتا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کے نازل شدہ حصوں کا دور کرتے تھے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ، اُس سال آپ نے دوبار قرآن کریم کا دور فرمایا۔ (ابن ماجہ ، حدیث 1759)
رمضان المبارک کے قرآن مجید کے ساتھ خاص ربط کا مظہر نماز تراویح بھی ہے۔ نماز تراویح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع فرمائی اور مسجد میں باجماعت اس کو ادا بھی فرمایا، لیکن اس خیال سے اس کو ترک فرمادیا کہ کہیں امت پر واجب نہ ہوجائے تو امت کو اس کو نبھانے میں پریشانی لاحق ہوسکتی ہے، چناں حضرات صحابہ انفرادی طور پر تراویح ادا فرماتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد جب یہ خدشہ دور ہوگیا،تو خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ کے مشورہ اور اجماع سے دوبارہ مساجد میں بیس رکعت باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔ اس وقت سے اب تک پورے عالم اسلام میں جمہور امت کا اسی پر عمل ہے اور تمام ائمہ اربعہ اس پر متفق ہیں۔حرمین شریفین میں بھی آج تک بیس رکعت کا معمول چلا آرہا ہے۔ نماز تراویح سنت موٴکدہ ہے اور تراویح میں پورے قرآن کریم کا ایک بار ختم سنت ہے۔ اس طرح رمضان میں نماز تراویح کی برکت سے عام خواندہ و ناخواندہ مسلمان کم از کم ایک بار قرآن کریم سن لیتا ہے اور پورے قرآن کریم کی حلاوت آمیز تلاوت سے کام و دہن معطر ہوتے اور مسلم بستیوں میں لاہوتی پیغام کی گونج سنائی دیتی ہے۔
ان سب آیاد و احادیث کی روشنی میں ماہ رمضان کی فضیلت اور قرآن مجید کے ساتھ اس کی خصوصی مناسبت اور تعلق کا اندازہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی بے بہا دولت اور ایمان و یقین کا خزانہ ہمیں ماہ رمضان میں ملا۔ رمضان کا مہینہ اس نعمت کی سالانہ یادگار کا مہینہ ہے۔ قرآن کے نزول کی یہ یادگار جشن کی صورت میں نہیں منائی جاتی بلکہ تقویٰ اور شکر گزاری کے ماحول میں منائی جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کریں اور خود کو قرآنی احکام و ہدایات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ رمضان کا مہینہ قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کا مہینہ ہے۔ قرآن جیسے ہدایت نامہ کا نزول دنیائے انسانیت کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہے کیونکہ وہ انسان کو عظیم ترین کامیابی کا راستہ دکھاتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ انسان کس طرح اپنی موجودہ زندگی کو گزارے کہ آنے والی اخروی زندگی میں ابدی کامیابی سے ہم کنار ہوسکے۔ یہ مہینہ اس مقصد کے لیے خاص ہے کہ اس میں اللہ کی سب سے بڑی نعمت کا سب سے زیادہ تذکرہ کیا جائے۔
رمضان اور قرآن کے خاص ربط کا راز یہ ہے کہ اللہ تعالی نے روزہ کا مقصد تقوی کا حصول قرار دیا ہے ، ارشاد ہے: اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ ۔ (سورة البقرة 2:183) اب انسان کو تقوی حاصل کیسے ہو اور اس سلسلے میں وہ رہنمائی کس سے حاصل کرے ، اس کو سورة البقرة ہی کی دوسری آیت میں بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہے: یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کوئی شک نہیں، یہ رہ نما ہے تقوی والوں کے لیے۔ لہٰذا رمضان کے اصل مقصد کو حاصل کرنے میں سب سے زیادہ معاون قرآن ہے ، جو تقوی حاصل کرنے والوں کے لیے رہ نما اور گائڈ ہے ۔ پورے قرآن میں شروع سے آخر تک اسی کا ذکر ہے کہ انسان کس طرح تقوی اور اللہ کی رضا حاصل کرکے آخرت کی سرمدی زندگی میں کامیاب و کامران ہوسکتا ہے۔
اس لیے روایات سے معلوم ہوتا ہے ہمارے سلف صالحین صحابہ و تابعین اور اکابرین دین رمضان میں قرآن مجید کے ساتھ خصوصی شغف فرماتے تھے۔ بعض بزرگان دین کے سلسلے میں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تلاوت قرآن کے علاو ہ ان کا کوئی اور شغل ہی نہیں ہوتاتھا۔ بہر حال وہ اپنے اوقات کا اکثر حصہ اسی عظیم عبادت میں صرف کرتے تھے۔ حضرات صحابہ ، تابعین اور بزرگان دین کے بارے میں منقول ہے کہ بعض حضرات روزآنہ متعدد دفعہ قرآن ختم کرتے تھے۔ بعض حضرات ایک ہی رات میں نمازوں میں قرآن ختم کر لیتے تھے۔ امام نووی رحمة اللہ نے اپنی کتاب التبیان فی آداب حملة القرآن میں لکھتے ہیں کہ ایک رکعت میں قرآن ختم کرنے والوں کی تعداد بے شمار ہے۔ ختم قرآن سے متعلق سلف صالحین کے مجاہدات و واقعات اتنے کثیر ہیں کہ جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔ فضائل رمضان اور فضائل قرآن سے متعلق کتابوں کی ان کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں۔
یہاں ایک وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ عجمیوں اور عربی ناخواندہ لوگوں کے لیے قرآن کریم کی تلاوت اور قرآن فہمی دونوں امور مساوی طور پر اہم ہیں۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ قرآن کی صرف تلاوت کو نظر انداز کرتے ہیں اور قرآن کا ترجمہ پڑھنے پر زور دیتے ہیں۔ یہ تلاوت قرآن کی فضیلت سے لاعلمی کی بنیادپر ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت خود ایک مستقل عبادت ہے خواہ تلاوت کرنے والا اس کا مفہوم سمجھے یا نہ سمجھے۔ ہاں اگر تلاوت کے ساتھ معنی و مفہوم بھی سمجھ رہاہے تو نور علی نور۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے ایک حرف کی تلاوت پر دس ثواب ملتا ہے۔ حتی کہ یہ بھی ذکر ہے کہ اگر کوئی شخص ٹھیک طرح سے پڑھنا نہیں جانتا اور اٹک اٹک کر پڑھتا ہے تو اس کو اس مشقت کی وجہ سے دوہرا اجر ملتا ہے۔
ہمارے لیے غور کا مقام ہے کہ ہم رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کتنی تلاوت کررہے ہیں اور کتنا اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں۔ کیا ہم نے رمضان کے لیے کوئی معمول سوچا ہے کہ رمضان میں قرآن کے کتنے ختم کرنے ہیں اور اپنی مصروفیات کو کم کرکے کس طرح رمضان گزارنا ہے ؟ اس لیے بہتر ہے ہم اپنی مصروفیات اور معمولات میں قرآن کے خاص طور سے وقت نکالیں اور قرآن پاک کی تلاوت سے اپنے ایمان کو تازہ کریں۔ نیز، اس کی بھی کوشش ہونی چاہیے کہ رمضان المبارک کے نورانی ماحول میں قرآن کریم کا معتبر ترجمہ کسی عالم کی نگرانی میں پڑھنا شروع کردیں اور جہاں کہیں کچھ اشکال یا پریشانی ہو تو ان سے رجوع کرلیں۔
قرآن کریم کی تلاوت کے سلسلے میں بھی کچھ آداب ہیں جن کا تلاوت کے وقت پاس ولحاظ رکھنا ضروری ہے تاکہ تلاوت اللہ تعالی کے یہاں مقبول ہو اور ثواب کا باعث ہو۔ تلاوت ایک عبادت ہے اور عبادت کے لیے سب سے بنیادی شرط اخلاص وللہیت ہے۔ لہٰذا تلاوت کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا حاصل کرنا ہو۔ تلاوت قرآن کے وقت قرآن کا پوراادب و احترام ملحوظ رکھے ۔ تلاوت پاکی اور طہارت کی حالت میں باوضو کرنی چاہیے؛ کیوں کہ باوضو ہو کر قرآن کی تلاوت کرنے میں اللہ کے کلام کی تعظیم اور احترام ہے۔ تیسرا اہم ادب یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر اور اچھی آواز میں تلاوت کرنے کی کوشش کرے۔ پڑھتے وقت ہر حرف کی ادائیگی کا لحاظ رکھے اور تجوید کے قواعد کے مطابق پڑھے۔ اسی طرح اگر معنی و مفہوم سمجھتا ہے تو رحمت کی آیت کے وقت اللہ تعالی سے رحمت طلب کرے اور عذاب کی آیت کے وقت اللہ تعالی سے اس کی پناہ مانگنا چاہیے۔ تلاوت کے وقت آیتوں کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرے ، غور وفکر اور تدبر کے ساتھ پڑھے۔
قرآن اللہ کا کلام ہے ، قرآن پڑھنا اللہ سے ہم کلام ہونے کے مترادف ہے۔ تلاوت قرآن سے بندہ اور اللہ کے درمیان نورانی اتصال قائم ہوتا ہے۔ قرآن میں وہ ان سعید روحوں کی بابت پڑھتا ہے جنہوں نے مختلف وقتوں میں ربانی زندگی گزاری تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ خدایا! تو مجھ کو بھی اپنے ان پسندیدہ بندوں میں شامل فرما۔ قرآن مین وہ جنت اور جہنم کا تذکرہ پڑھتا ہے، اس وقت اس کی روح سے یہ صدا بلند ہوتی ہے کہ خدایا! مجھے جہنم سے بچا لے اور جنت میں داخل کر دے۔اس طرح قرآن بندہ کے لیے ایک ایسی کتاب بن جاتا ہے جس کے توسط سے وہ اپنے خالق سے سرگوشیاں کرتا ہے اور اس کی تلاوت کی لذت و حلاوت سے مستفید ہوتا ہے۔
قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف ۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو شکر گزاری کے قابل بناتا ہے۔ روزہ کے عمل سے گزر کر وہ اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق دنیا میں تقوی کی زندگی گزارے اور رشک ملائکہ بن جائے۔