مصنف : مفتی محمد جنید قاسمی صاحب
استاذ مدرسہ عربیہ مفتاح العلوم گنج مراد آباد
از : *عکرمہ سلیمان قاسمی فرخ آبادی*
زیر نظر کتاب مختلف مقالات و مضامین کا ایک قیمتی مجموعہ ہے، جو کانپور کی عظیم شخصیت، سیاسی و دینی رہنما، قاضئ شہر حضرت مولانا مفتی منظور احمد مظاھری رحمہ اللہ کی علمی، فکری، ادبی سیاسی اور سماجی نگارشات، مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے۔
حضرت مفتی منظور احمد صاحب کی باوقار شخصیت محتاجِ تعارف نہیں، اگر میں اس جرم کا مرتکب بنوں تو تحصیل حاصل یا سورج کو چراغ دکھانے جیسے گناہوں کا بوجھ بردوش ہوگا۔
کتاب کے آغاز میں مولانا راشد وحید صاحب نے حضرت مفتی منظور صاحب کی "حیات و خدمات” کے عنوان سے تعارفی خاکہ رقم کیا ہے جس کو میں اجمالی تعارف کی شکل میں حرف آخر سمجھتا ہوں۔
انہوں نے مؤلفِ کتاب کی اس سعئ با مراد کو سراہتے اور ستائش کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس درجہ کے مفید اور زندہ مضامین ٦٥ سال پہلے ماہنامہ نظام کے صفحات میں ایک ماہ کی عمر پاکر آہنی الماریوں کے قبرستان میں دفن تھے، عزیز مکرم مولانا محمد جنید قاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے مختلف مقبروں کا پتہ لگاکر ماہنامہ نظام کا کاغذی کفن چاک کیا، اور مفتی صاحب کی زندہ تحریروں کا گلدستہ سجا کر "نگارشات منظور” کے نام سے علم و فکر کی میز پر پیش کرنے کا حوصلہ کیا "
” نگارشات منظور” یہ کتاب حضرت مولانا مفتی منظور احمد مظاھری رح کے "ماہنامہ نظام” کانپور میں شائع مضامین کا مجموعہ ہے۔
اس کتاب میں کل 37 مضامین شامل ہیں جن میں 12 ادارئیے، 11 وفیاتی مضامین اور 12 اصلاحی و تذکیری مضامین ہیں، ان کے علاوہ ایک سفرنامہ حج اور ایک مضمون غیبت سے معنون ہے ۔
مفتی صاحب رح کانپور کے قاضی شہر تھے اور کانپور کا قاضی شہر نیم دینی و نیم سیاسی ہوتا ہے، وہاں منصبِ قضاء کا پروٹوکول کسی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے کم نہیں ہوتا، اس کے علاوہ مفتی صاحب دارالعلوم دیوبند و مضاھر العلوم کے بیک وقت رکن شوری تھے جو حضرت کے تفکر و تدبر کی واضح علامت ہے، اس کے علاوہ مفتی ہونے کے ساتھ قاضی بھی تھے کیونکہ افتاء کا مدار محض کتب و مصادر ہیں جبکہ قضاء کا مقتضا حالات و واقعات، معاشرتی نکات کا استحضار ہے، یوں قاضی کی جولان گاہ یا میدان عمل مفتی سے دو چند ہوجاتا ہے، حضرت کانپور کے مشہور ادارے جامع العلوم پٹکا پور کے شیخ الحدیث بھی رہے اور تاعمر پیلی مسجد توپ خانہ بازار کانپور کے امام رہے، مسجد کا فرش ہی مسندِ قضاء تھا وہیں جلوہ گر ہوتے، سادگی کی تعبیر اور تواضع کا نشاں تھے اور تا دم آخریں وہیں مقیم رہے۔
بہر حال ایسی عظیم شخصیات ہمارے وجود آشنا ہونے سے پہلے گزر گئیں اور ہم ان کے فکری تدبر، علمی و فنی مہارت، ادبی و لسانی حذاقت سے نا آشنا رہے۔
مگر اللہ جزائے خیر دے مفتی جنید صاحب کو جنہوں نے ان بکھرے اوراق کو یکجا کیا، ان قیمتی مقالات کو تلاش بسیار کے بعد باصرہ نواز کیا، گویا مفتی صاحب رح کی شخصیت کے کچھ ٹکڑے جمع کرکے ان کو کاغذی زندگی دے دی ہو، یقینا موصوف اور ان جیسے لوگ ہم جیسے نوخیز طلبہ کے لیے قابل قدر اور باعث توقیر ہیں کیونکہ علم صرف کتابوں کی اوراق گردانی سے نہیں آتا بلکہ اس کے لیے بسا اوقات اسلاف و اکابر کی سوانح عمری، حالات زندگی اور ان کے رقم کردہ مقالات و تجربات اور ان کی صحبت بھی ضروری ہوتی ہے۔ یوں ہم ان بزرگوں کی صحبت تو نہیں حاصل کرپاتے لیکن ان کے اشہب قلم سے نکلے الفاظ سے ان کی شخصیت، قابلیت و لیاقت اور طرز معاشرت کا عکس نگاہوں میں آجاتا ہے۔
چنانچہ جس طرح اپنی علمی قابلیت کو دو چند کرنے کے لیے کتابوں کی ضرورت ہے اسی طرح بزرگوں کے اہم نوشتوں کو مطالعہ کی میز پہ لانا اہم ہے تاکہ ہمیں اپنے پیش رو اسلاف کی مہمات کا علم ہوسکے ان کے قد، ان کی خدمات اور ان کی جد و جہد سے آشنائی ہوسکے اور ہم اس کو مشعل راہ بنا سکیں۔