بقلم: مفتی محمد ساجد کھجناوری
مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
نہایت رنج وصدمہ کے ساتھ یہ خبر کلفت اثر دی جاتی ہے کہ ہمارے دیار کے روشن ضمیر عالم دین ، خدارسیدہ بزرگ ،شیخ الاسلام مولانامدنی کے تلمیذرشید اور جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد کے سابق نائب مہتمم حضرت مولانامحمدعمرقاسمی تقریبا پچانوے سال کی عمر میں اپنے وطن مجاہدپور سہارن پور میں وفات پاگئے ہیں انا للہ واناالیہ راجعون
آپ کے خادم خاص اور نسبت یافتہ مولانافتح محمدندوی زید مجدھم نے ابھی فون کرکے بتایا کہ حضرت کی طبیعت دوروز سے متأثر تھی لیکن آپ کے معمولات برابر جاری وساری تھے صبح نمازفجر بھی ادا کی اس کے بعد علالت ماسوا ہوگئی اور ابھی نو بجے آپ نے اس دارفانی کو الوداع کہ دیا،
مولانامحمدعمرقاسمی 28/ ربیع الاول 1350 ھجری مطابق 31/ اگست _1931 عیسوی کو شہر سہارن پور سے تقریبا تیس کلومیٹر دور مجاہدپور میں پیداہوئے جو کھجناور سے چارکلومیٹر جبکہ سنسارپور سے دس کلو میٹر کے فاصلہ پر کوہ شوالک کے دامن میں واقع ہے۔
مولانا کی تسمیہ خوانی چھ سال کی عمر میں ہوئی اورمختلف مراحل سے گزرکر درس نظامی کا آغاز جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ سے ہوا،
مظاہرعلوم سہارن پور میں بھی اوسط درجات تک تعلیم پائی اور اعلی تعلیم کیلۓ دارالعلوم دیوبند پہنچے جہاں 1955 میں آپ نے سند فراغت حاصل کی
بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی سے پڑھی ، آپ کے دیگر اساتذہ میں حضرت مولانااعزاز علی امروہوی ، حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاوی ، حضرت مولانافخرالحسن اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب قاسمی جیسے مشاہیر شامل ہیں ،
بعدازاں آپ کی علمی وعملی زندگی مدرسہ حسینیہ تاؤلی سے شروع ہوئی جہاں اہتمام وتدریس کی خدمت آپ کو سپرد کی گئی آپ کے چہیتے استاذ حضرت مدنی نے اس وقت فرمایا کہ کمر مضبوظ کرکے جانا بڑی کتابیں پڑھانے کو ملیں گی ، مولانا محمدعمر طب کا بھی ذوق رکھتے تھے اور خواہش تھی کہ طب کا کورس مکمل کرلیا جائے لیکن حضرت مدنی نے فرمایا : حدیث وتفسیر پڑھنے کے بعد بھی ” قارورہ” دیکھنے کا شوق ہے ؟۔حضرت مدنی کے اس تبصرہ کے بعد مولانانے اپنایہ ارادہ ملتوی کردیا ،
اسی طرح جامعہ اسلامیہ ریڑھی تاجپورہ جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد اور مدرسہ خادم العلوم باغونوالی میں آپ کا تدریسی فیضان ہوا ، مرادآباد اور ریڑھی میں آپ نے اہتمام کی ذمے داریاں بھی نبھائیں۔
آپ انتہائی اصول پسند اور ستھری دینی علمی زندگی گزارنے والے بافیض عالم دین تھے ، اپنے بزرگوں سے مربوط رہ کر ذکر وفکر کا معمول رکھتے تھے اسی لۓ حضرت مولانا عبدالغنی لاہوری حضرت مولانا شاہ عبداللطیف نلہیڑوی حضرت مولانا سید مکرم حسین سنسارپوری اور حضرت مولانا بلال حسین تھانوی کے مجاز بھی قرار پائے۔
تدریس وتنظیم کے ساتھ لکھنے لکھانے کا ستھرا ذوق تھا آپ کی متعدد کتابیں مطبوع ہیں جن میں آپ کی خودنوشت سوانح عمری ” دودن کا سفر ” اور ” توشۀ آخرت ” متداول ہیں ۔
حضرت مولانا اپنے پرکھوں کی یادگار تھے ، ہمیشہ چہرہ پر مسکراہٹ رہتی ، ادھر کچھ عرصہ سے احباب کی فرمائش پر اپنے وطن میں مجلس ذکر بھی پابندی سے کرانے لگے تھے جس کیلۓ آپ کے جانشین مولانافتح محمد صاحب مخلص معاون کی حیثیت سے متحرک رہتے ، آپ کے دم فیض سے ہمارا علاقہ مرجع بنا ہوا تھا ، واضح رہے کہ درویش زماں حضرت مولاناشاہ عبدالستاربوڑیوی مدظلہ کا آبائی نسب بھی اسی علاقہ سے ہے ۔
مولانا محمدعمر صاحب سے اھل مدارس اور دین پسند لوگ تعلق خاطر رکھتے تھے اسی طرح
پریشان حال اور مضطرب لوگ آپ سے ملاقات کیلۓ آتے رہتے اور دامن مراد بھرنے کی مستجاب دعائیں لےکر جاتے آپ بھی بڑی حکمت سے لوگوں کو سنت وشریعت کے قریب لانے کی دعوت دیتے یقینا آپ کے وصال سے ایک بڑا خلا واقع ہوا ہے ،
ابھی رمضان سے قبل آپ سے شفاہی ملاقات ہوئی تھی ، ارادہ تھا کہ سفر سے واپسی ہوگی تو پھر آپ کے روحانی دربار میں حاضری دیں گے مگر بسارآرزوکہ خاک شدہ ۔
اللہ تعالی غریق رحمت فرماۓ اور تمام متعلقین ومنتسبین اور تلامذہ کو صبر وسکون دے آمین۔
۱۰/ رمضان المبارک ۱۴۴۶
11/3/2025