صاحب کتاب: حضرت مولانا یحیی نعمانی صاحب
تعارف نگار: عبداللہ ممتاز
ہم اہل سنت والجماعت کا متفقہ عقیدہ یہی ہے کہ سارے صحابی "رضی اللہ عنہم” ہیں اور ادنی سے ادنی صحابی کی گستاخی ایمان وعقیدہ میں فساد کی دلیل ہے۔ ان اصحاب میں نامور ترین صحابی حضرت امیر المؤمنین امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جن کی ایمانی اور سیاسی زندگی، خدمت رسول، خدمت اسلام اور شاندار کارناموں سے عبارت ہے؛ لیکن شہادت عثمان ذوالنورین کے بعد سے ہی فتنوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا، جس نے مسلمانوں کے درمیان سخت انتشار اور خانہ جنگی برپا کردی، اس نے نہ صرف اسلام کے سیاسی نظام کو زک پہنچایا؛ بلکہ اس میں ایمان وعقائد کی بنیا دپر بھی شیعہ وسنی کی گروہ بندیاں ہوگئیں، جو آج تلک آپس میں دست وگریباں ہیں۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تمام کارنامے انھیں اختلافات وانتشار کی نذر ہوگئے۔ جو بغض اسلام میں مبتلا تھے، انھوں نے بظاہر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو آسان ٹارگیٹ پایا اس لیے ان کے خلاف ایسی ایسی افواہیں پھیلائیں اور ایسے الزامات واتہامات کا بازار گرم کیا کہ اہل اسلام اور اہل سنت بجائے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے کارناموں اور ان کی شخصیت کو اجاگر کرتے، وہ حضرت معاویہ کے دفاع میں لگ گئے۔ اب ہمارے سامنے ان کا بس ایک پہلو آتا ہے، وہ یہ کہ انھوں نے خلیفہ چہارم حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اور اہل دفاع بڑے معذرت خواہانہ انداز میں ان کے کتابت وحی کا حوالہ دے کر ان پر کسی "نقد "سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
جب کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے قبول اسلام کے بعد سے ہی نمایاں سرگرمیوں میں مصروف رہے، خدمت رسول کا شرف حاصل کیا، کتابت وحی کا فریضہ انجام دیا، غزوات ومہمات میں شریک ہوے اور سربراہی کی، دور صدیقی میں ہی مناصب پر فائز ہوے اور دور فاروقی میں باضابطہ امیر شام (شام کے گورنر) بنائے گئے۔
چوں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسول میں سب سے متنازع شخصیت ہیں، اس لیے ان کے حوالے سے متضاد تاریخی روایات اور رطب ویابس آثار واقوال کی کثرت فطری ہے؛ چناں چہ ان کی شخصیت پر کتاب لکھنے والے مصنفین اکثر افراط وتفریط کے شکار ہوے ، "ایک نے حسین وزیبا تصویر بنادی اور دوسرے نے ایک سیاہ وتاریک مرقع کھینچ دیا”۔ اور جن معتدل اور صاحب تحقیق شخصیتوں نے لکھا تو صرف دفاعی پہلو سے لکھا، جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شاندار کارناموں کا تفصیلی تذکرہ مقصد تھا اور نہ ہی ممکن۔
حضرت مولانا یحیی نعمانی صاحب کی شخصیت سے کم ہی لوگ نا آشنا ہوں گے، وہ عرصہ تک”نوجوان عالم دین” کے سابقہ سے پہچانے جاتے تھے؛ لیکن وہ اب نوجوان نہیں، پختہ کار عالم دین ، تحقیق کے رسیا اور کہنہ مشق قلمکار ہیں، علم میں وسعت، فکر میں پختگی، اکابر علماء دیوبند سے وارفتگی اور مزاج میں اعتدال ان کے اوصاف خاصہ ہیں، وہ جب بھی لکھتے ہیں، علم وتحقیق کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں علمی حلقوں میں بے پناہ مقبول ہوئیں اور عوام وخواص نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ "جہاد کیا ہے” اور "تقلید اور مسلکی اختلاف کی حقیقت” جیسی کتابوں نے ان کے علمی مقام ومرتبہ کو اجاگر کیا۔ میں نے دیوبند میں پہلی مرتبہ حضرت مولانا کا تذکرہ مفتی سعید احمد پالن پوریؒ سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے اسی کتاب کے تعلق سے دورہ حدیث شریف کے سبق میں سنا۔ حضرت مفتی سعید صاحب نے نہ صرف کتاب اور صاحب کتاب کی پذیرائی کی؛ بلکہ اپنے مخصوص انداز میں فرمایا ” جاؤ بازار سے خریدو اور پڑھو”۔
حضرت مولانا کی یہ کتاب "سوانح حضرت معاویہ” ان دو پہلؤوں سے ان شاء اللہ منفر دثابت ہوگی کہ
1. یہ کتاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مکمل سوانح حیات ہے، جس میں ان کے شاندار کارناموں کو صحیح روایات وآثار اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے۔
2. حضرت معاویہ کی شخصیت پر کتاب لکھی جائے اور خلیفہ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اختلاف کا ذکر نہ ہو، یہ کہاں ممکن ہے؛ لیکن اس حوالے سے روایات وآثار کی چھان پھٹک، رواۃ کی جانچ پڑتال اور اہل سنت والجماعت کے اصول اور مزاج ومذاق کے مطابق مکمل دیانت کے ساتھ ان کی تشریحات کی گئیں ہیں۔
یہ ایسے مشکل ترین کام ہیں، جن میں حضرت مولانا، جیسے وسیع المطالعہ، وسیع الفکر اور زود نویس شخصیت کو بھی کتاب کی تکمیل میں چار سال کا عرصہ لگا۔ حضرت مولانا تحریر فرماتے ہیں:
"کتاب کا مرکزی تخیل یہ ہے کہ حضرت معاویہ کی شخصیت کو صحیح اور مکمل طور پر کم جانا گیا ہے۔ وہ تاریخ انسانی کی ایک مظلوم شخصیت ہیں ، جن کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ کم ہوا اور اسلام کی خدمت میں ان کے عظیم الشان کارناموں پر پردہ پڑا رہا ہے۔ ان کی شخصیت ان تنازعات کے علاوہ بھی بہت سے حوالوں سے لائق مطالعہ ہے۔ خدمت و نصرت رسول میں ان کا کردار ، خلافت راشدہ کے دور میں ان کا جہاد اور لشکروں کی قیادت ، خصوصا ان کا یہ کارنامہ کہ امت کی کشتی کو انہوں نے فتنوں کی منجدھار سے نکالا، اسلام کے سب سے بڑے دشمن رومن امپائر کا کامیاب مقابلہ اور اس کو پسپا و کمزور کرنے کا بے مثال کارنامہ، پھر امارت وخلافت کے دور میں ان کا نہایت عادلانہ اور کامیاب نظام حکومت اور امت مسلمہ کے نظم اجتماعی کی ترتیب و تشکیل، نیز ان کے غیر معمولی ذاتی اوصاف و کمالات اور اخلاق، یہ سب بے بنیاد افواہوں کے طومار تلے دفن کر دیا گیا۔ ان کی سیرت میں یہ سب کارنامے اور کمالات اور ان جیسے بے شمار ایسے پہلو ہیں، جن کی وجہ سے سوانح معاویہ ہماری علمی و دینی ضرورت ہے”۔
گزشتہ کچھ عرصے سے اہل سنت والجماعت میں بھی شیعی جراثیم در آئے ہیں اور کچھ اہل سنت کہلانے والے علماء بھی "حب علی” کا نام لے کر "بغض معاویہ "کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنے لگے ہیں۔ اس کا اچھا خاصہ اثر عوام میں بھی پڑا اور بعض "پڑھے لکھے لوگ”بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کے شکار ہوے۔ حضرت مولانا کی زبانی: "اب تو جو صحیح الفکر حلقے، ان میں بھی کئی مقررین ومبلغین کھلم کھلا شیعیت کے بیج بو رہے ہیں اور سادہ لوح عوام کو بڑی فن کاری سے مغالطے دینے کی کوشش کی جا رہی ہے … اس کا اثر راقم سطور نے بچشم خود یہ دیکھا کہ اہل سنت کے بہت سے نوجوان شبہات کے شکار ہیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ نوجوان فارغین مدارس کی ایک تعداد اپنے صحیح عقیدہ ومسلک سے منحرف ہو رہی ہے، یہاں تک کہ ان میں سے بعض تو شیعوں کی مناظرانہ کتابوں سے ‘استفادہ فرماکر’ الزامات کو بے تحقیق وتفتیش نقل کر رہے ہیں اور کھلم کھلا حضرت معاویہ کو سب وشتم کر رہے ہیں”۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ حضرت معاویہ کا مقام ومرتبہ حضرت علی سے بڑھ گیا۔ (مصنف کی زبانی:)”سیدنا علی کی فضیلت وفوقیت اور حقانیت ایک امر واقعہ بھی ہے اور اہل سنت کا مسلمہ فکر وخیال بھی … سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سابقین اولین کی بھی صف اول میں تھے۔ ان کی فضیلت کا راز جمل وصفین کے کارزاروں میں تلاش کرنا حد درجہ ناواقفیت وکج فکری کی بات ہے”۔ "اہل سنت یقینا خلوص وصدق کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اولاد واحفاد واخلاف سے سچی محبت وتعظیم کا معاملہ رکھتے ہیں۔ ہمارا حضرت معاویہ سے پہلے اور کہیں زیادہ سیدنا علی سے رشتہ ہے۔ ہاں حب علی کے لیے بغض معاویہ کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ اور اسی رویے کو دین وامانت اور حق وعدل کا تقاضہ سمجھتے ہیں”۔
یہ ٹاپک ایسی خار دار وادی ہے، جس میں اپنے دامن کو لپٹوں اور کانٹوں سے بچانا سنگلاخ پہاڑیوں پر ننگے پاؤں چلنے کے مرادف ہے۔ حضرت علی یا حضرت معاویہ کے تعلق سے لکھتے ہوے، اسی موقف پر قائم رہنا جو اہل سنت والجماعت کا ہے اور کسی بھی پہلو کی طرف ایسے جھکاؤ سے بچنا جس سے دوسرے کی شان میں کمی آتی ہو، صرف وہی کرسکتا ہے، جس کا نہ صرف علم وسیع ہو اور روایات وآثار سے گہری واقفیت ہو؛ بلکہ اہل سنت کے موقف میں تصلب اور حضرت علی اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بے انتہا محبت ہو۔
یقینا اس قضیہ سے ہر سال آپ بھی جھوجھتے ہوں گے اور نہ چاہتے ہوے بھی ایک مخصوص موسم میں آپ کے اسکرین پر حمایت ومخالفت میں تحریریں آپ کی اسکرین پر نمایاں ہوتی ہوں گی اور کبھی اِدھر کے اور کبھی اُدھر کےدلائل سے تذبذب کے شکار ہوتے ہوں گے۔ یہ جانتے ہوے بھی کہ ہم اہل سنت ہیں، ہم سارے صحابہ کو جنتی جانتے ہیں، حضرت معاویہ کے تعلق سے، ان کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈون سے دل میں شکوک وشبہات جنم لیتے ہوں گے۔ ان سارے مسائل کا حل اور ان سارے امراض کا علاج ان شاء اللہ یہ کتاب ثابت ہوگی۔ حضرت مولانا امت مسلمہ کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالی انھیں جزائے خیر عطا فرمائے، ان کے خدمات کو قبول فرمائے،کتاب کو مقبول عام فرمائے اور تمام صحابہ کرام؛ بالخصوص اہل بیت اطہار کی محبت ہمارے دلوں میں راسخ فرمائے۔ جزاہ اللہ عنا وعن جمیع المسلمین۔
کتاب کی پیشگی بکنگ رعایتی قیمت کے ساتھ جاری ہے۔ 512 صفحات پر مشتمل کتاب ڈاک خرچ کے بشمول صرف تین سو پچاس (350) روپے میں گھر بیٹھے حاصل کرسکتے ہیں۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے دیے ہوے نمبر پر رابطہ کریں۔