مولانا قاضی سلمان مبشر صاحب مبارک پوریؒ

(وفات: 16/ شعبان 1446ھ مطابق 15/ فروری 2025ء شنبہ)

ازقلم:

حبیب الرحمٰن الاعظمی ابراہیم پوری

استاذ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور

___ ___ ___

نماز عشاء کے بعد راقم کے بھانجے عزیزی مولوی حذیفہ ضیاء سلمہ (متعلم عربی ششم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور) نے اطلاع دی کہ "قاضی اطہر صاحب کے لڑکے مولانا قاضی سلمان مبشر صاحب کا انتقال ہوگیا ہے”۔ اولا تو مجھے سمجھ نہیں آیا کہ وہ اچانک یہ کیا کہ رہے ہیں۔ چناں چہ مزید وضاحت کے لیے دوبارہ پوچھا تو انھوں نے پھر یہی بات دہرائی۔ مجھے اب بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اور میرے نزدیک بہت قابل قدر اور لائق اعتماد ہونے کے باوجود کسی طرح ان کی بات پر اطمینان بھی نہیں ہورہا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ درست کہ رہے تھے اور یہ کوئی انہونی بات بھی نہیں تھی ، لیکن میری حیرت تھی کہ اپنی جگہ قائم تھی۔ انھوں نے کہا کہ واٹساپ گروپ "کاروانِ علم و ادب” میں بھی یہ خبر آئی ہے۔ اس وقت میرے موبائل میں ریچارج نہ ہونے کے سبب فی الفور واٹساپ کھولنا مشکل تھا ، فوراً ان کے چھوٹے بھائی عزیزم قتیبہ ضیاء سلمہ (متعلم عربی چہارم جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور) نے اپنے موبائل میں واٹساپ کھول کر خبر مذکور کو پڑھ کر مجھے سنایا۔ مجھے اپنے کانوں پر اب بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یا اللّٰہ!! یہ اچانک کیا ہوگیا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ابھی کچھ دیر پہلے کی ہی خبر ہے۔

کلمہء استرجاع کے بعد دعائے رحمت و مغفرت کے کلمات مجھ گنہ گار کی زبان پر جاری ہوگئے۔ اور کچھ دیر تک مولانا مرحوم کا ذکر خیر اور ان کے اوصاف و کمالات کا تذکرہ ہوتا رہا۔ ان کا ہنسنا بولنا یاد آتا رہا اور ان سے قدیم جامعہ میں خوش گوار ملاقاتوں کے نقوش ذہن کے پردے پر نمودار ہوتے گئے۔

مولانا کی وفات کی خبر مصدقہ تھی ، جسے خود قاضی عدنان صاحب نے ارسال کیا تھا ؛ مگر میری حیرانی اب بھی برقرار تھی۔ کیوں کہ ان کی علالت کی تازہ کوئی ایسی اطلاع نہیں تھی جو بظاہر تشویش ناک ہو۔ آج ہی دوپہر بعد نماز ظہر ان کے بھتیجے اور میرے مخلص رفیق محترم قاضی عدنان صاحب ولد قاضی حسان صاحب سے بھی واٹساپ پر گفتگو ہوئی تھی اور انھوں نے بھی ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی ؛ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ کے اس فیصلے کے لیے کسی تشویش ناک بیماری کی کوئی تعیین و تشخیص ضروری تو ہے نہیں۔ یہ تو انسانی طبیعت اور عام مزاج ہے کہ وہ عام طور پر کسی بھی جانے والے کے بارے میں سوچتا اور پوچھتا ہے کہ کیا ہوا تھا؟ بیمار تھے کیا؟ ابھی تو اچھے بھلے تھے ، کیسے چلے گئے؟ یہ اور اس جیسے سوالات ذہن و دماغ میں آتے ہیں اور انسان ان کے جوابات سے کچھ نہ کچھ تسلی بھی حاصل کرلیتا ہے۔ لیکن قانون قدرت اٹل ہے ، وہ کسی بیماری کے بعد ہی موت کا منتظر نہیں رہتا۔ وہ بسا اوقات صحت و تندرستی کے ساتھ ہی اپنے وقت مقرر پر نافذ ہوجاتا ہے اور قضاء الٰہی سے انسان کی روح قبض ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوجاتی ہے۔

موت و حیات اس فانی کائنات میں رب العالمین کا ایک نظام ہے اور یہ ابتدائے آفرینش سے تاقیامت جاری رہے گا۔ لیکن انسانی دنیا کا یہ دستور ہے کہ جانے والے کے فراق میں اس کے اہل خانہ ، اعزہ و اقارب اور متعلقین و محبین غم زدہ ہوتے ہیں اور اپنے بہت عزیز و قریب کی جدائی کے صدمے سے نڈھال ہوجاتے ہیں۔ آئے دن وفات پانے والے یوں تو ہر جگہ بے شمار انسان ہیں جن کا وقت موعود آجاتا ہے اور زندگی کا سفر مکمل ہوکر وہ سفر آخرت پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن روزانہ جانے والے ان ہزاروں انسانوں میں بعض انسان اپنے علم و فضل ، اپنے اوصاف و کمالات ، اپنی منفرد خصوصیات اور اپنی عظیم خدمات کی وجہ سے تادیر یاد رکھے جاتے ہیں اور ان کے جانے کا صدمہ ان کے اہل خانہ و متعلقین سمیت دور و نزدیک کے بھی بہت سارے لوگوں کو ہوتا ہے۔

ایسے عظیم انسانوں کی زندگیوں میں بہت سے پرتاثیر اسباق ہوا کرتے ہیں جن سے بعد والے روشنی حاصل کرتے ہیں اور ان کے مآثر و خدمات سے نفع حاصل کرکے اپنے لیے مفید راہیں ، بہتر مواقع اور پُرسکون منازل تلاش کرتے ہیں۔

ان ہی باکمال شخصیات اور مختلف کمالات و خصوصیات کے حامل بڑے لوگوں میں سے ایک ؛ ہمارے بہت ہی قابل قدر بزرگ عالم دین ، خانوادہء قاضی کے چشم و چراغ: حضرت مولانا قاضی سلمان مبشر صاحب قاسمی مدنی مبارک پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ ابن مؤرخ اسلام مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے ، جو ایک عظیم باپ کے عظیم بیٹے ، ایک بافیض اور کامیاب معلم و مدرس نیز علم و ادب کے شیدا اور اہل علم و قلم حضرات کے محب و محبوب تھے۔ جو چھوٹوں کی خوب حوصلہ افزائی کرنے والے اور اپنی زعفران زار مجلس میں ہر چھوٹے بڑے کو اپنی پیار و شفقت بھری ظریفانہ باتوں سے خوش کردینے والے ، روتوں کو ہنسانے اور غم زدوں کا غم دور کردینے والے ، علمی کاموں میں خوب مدد کرنے اور علم دوست حضرات کی بہتر سرپرستی کرنے والے تھے۔ جو اعلیٰ حسب و نسب اور نامور خاندان کے ایک بڑے نام ور انسان ہونے اور بے شمار عمدہ و مفید خصائص و خصائل کے جامع ہونے کے باوجود بالکل سادہ و نفیس مزاج اور سادگی و نفاست کے ساتھ زندگی گزارنے والے تھے۔ جو سنتوں پر عمل پیرا رہنے والے ، دینی و علمی کتابوں کا بکثرت مطالعہ کرنے والے اور اپنے والد بزرگوار کی مختلف مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابوں کو اشاعت کے قابل بنانے والے اور انھیں منظر عام پر لانے والے تھے۔ جو بہت ہی خلیق و ملن سار ، متواضع و غم گسار ، باعمل اور وفا شعار ، خوش مزاج اور خوش گوار طبیعت کے مالک تھے۔ جو احیاء العلوم مبارک پور کے نامور ابنائے قدیم میں سے ایک ، دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ اور مدینہ یونیورسٹی کے فاضل ، تا عمر تدریسی و تصنیفی خدمات انجام دینے والے ایک ایسے بزرگ عالم اور عظیم مشفق و مخلص تھے ، جن کے لبوں پر خوش گوار مسکراہٹ ہوا کرتی اور جو اپنی باتوں سے لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے۔

یاد داشت کے مطابق مولانا مرحوم سے میری پہلی ملاقات اپنے مخدوم گرامی قدر حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحب مبارک پوری دامت برکاتہم کے دولت کدہ پر اس وقت ہوئی تھی ، جب کہ بندہ اپنی بعض تصنیفی مصروفیات کے سلسلے میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے یہاں حاضر ہوا تھا ، اور وہیں کچھ دیر بعد مولانا قاضی سلمان مبشر صاحب اپنے ایک بزرگ رفیق عالم کے ہم راہ تشریف فرما ہوئے تھے۔ سلام و مصافحہ کے بعد تعارف ہوا ، مولانا نے خوشی کا اظہار کیا اور پھر اس کے بعد متعدد بار ان سے قدیم جامعہ میں ملاقاتیں ہوئیں۔ جب ان کے بھائی داعیء اسلام مولانا قاضی خالد کمال صاحب مبارک پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے قیمتی مقالات پر مشتمل کتاب "نگارشات مولانا قاضی خالد کمال مبارک پوری” (مرتبہ: مولانا ضیاء الحق صاحب خیرآبادی زید مجدہ) شائع ہوئی اور "مدرسہ حجازیہ مبارک پور” میں اس کی تقریب اجراء منعقد ہوئی تو بندہ بھی اس میں شریک تھا ، جہاں مولانا سلمان مبشر صاحب سمیت دیگر کئی بڑے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔

مولانا مرحوم اپنی قابل رشک صحت و تندرستی اور ہنس مکھ طبیعت کے باوجود طویل عمری کے سبب جسمانی ضعیفی و کمزوری کی وجہ سے گزشتہ کچھ عرصہ سے کافی علیل تھے۔ چھڑی ان کے لیے بظاہر سہارا تھی ؛ لیکن وہ خود بہت مضبوط حوصلے کے انسان تھے۔ گزشتہ رمضان المبارک کے بعد بہت بیمار ہوگئے تھے ، مگر ادھر پچھلے دنوں طبیعت میں کافی آرام سا محسوس ہورہا تھا ، جس کے بعد بھی چند بار انھوں نے ہمارے قدیم جامعہ تشریف آوری کے ذریعے ہمیں اپنی زیارت و ملاقات کی سعادت بخشی۔

گزشتہ چند روز سے ان کی علالت کی کچھ خاص اطلاع بھی بندہ کو نہیں مل سکی ، ورنہ زندگی کے گوناگوں ہجوم مشاغل کے باوجود ان کے دولت کدہ حاضر خدمت ہوکر عیادت اور زیارت و ملاقات ہی کرلیتا۔ گرچہ ان کا خیال بعض دفعہ آیا بھی اور قاضی عدنان صاحب سے دوران ملاقات و گفتگو ان کا ذکر خیر بھی ہوتا رہا ؛ لیکن ادھر ان کی علالت کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ وہ اکثر ہمارے مدرسے (قدیم جامعہ) بیٹری والے رکشہ سے آتے تھے تو بعض دیگر اساتذہء کرام کے ساتھ بسا اوقات بندہ کو بھی ملاقات و زیارت کی سعادت حاصل ہوجاتی اور وہیں صحن جامعہ میں ہی کھڑے کھڑے کچھ دیر لکھنے پڑھنے کی مفید باتیں بھی ہوجایا کرتی تھیں۔ اکثر لکھنے پڑھنے کی نصیحت کرتے اور راقم الحروف کی تصانیف کو دیکھ کر خوش ہوتے اور خوب حوصلہ افزائی فرماتے۔ وہ راقم کے دوماہی ‘افکار’ ابراہیم پور کے بھی بڑے قدرداں اور مخلص لوگوں میں سے تھے اور اس کے لیے فکر مندانہ انداز میں استفسار کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی محض شفقت و رحمت ہی تھی کہ اس کی مسلسل اشاعت کی ترغیب دیتے اور اس کا سالانہ زر مبادلہ بھی عطا فرماتے۔ ایسے مشفق و مخلص کرم فرما حضرات اب ناپید سے ہوتے جارہے ہیں۔ کبھی کبھی زیادہ عرصہ ہو جاتا تو خود ہی فون کرکے تفصیل سے حال احوال دریافت فرماتے اور لکھنے پڑھنے کے بارے میں معلوم کرتے۔ پچھلے دنوں ان سے ہوئی ایک خوش گوار ملاقات کی تفصیل سپرد قرطاس کرکے بندہ نے اسے سوشل میڈیا پر شائع بھی کیا تھا۔ ان کے کچھ سوانحی حالات و خدمات کا تذکرہ "تذکرہ علمائے مبارک پور” (تیسرے اضافہ شدہ جدید ایڈیشن) کے شروع میں مؤرخ اسلام مولانا قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے حالات کے ضمن میں مذکور ہے۔ امید کہ ان کے اہل خانہ اور دیگر واقف کار اہل علم و قلم ان کے مفصل حالات و واقعات اور ان کے اوصاف و کمالات کے ساتھ ان کی تعلیمی و تدریسی اور علمی و تصنیفی خدمات بھی تفصیل سے ذکر فرمائیں گے۔

آج ان کی اچانک رحلت کی خبر سن کر واقعی بہت دکھ ہوا اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپنے بعض بڑے سرپرستوں کے بعد آج اپنا ایک اور علمی سرپرست بہت دور چلا گیا۔ اللہ ان کی کامل مغفرت فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے۔ انھیں اپنے مقبولین و صالحین بندوں میں شامل فرما کر اپنی وسیع رحمت اور عظیم جنت کا مستحق بنائے اور جملہ اہل خانہ و متعلقین و محبین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے