یومِ جمہوریہ ہند: ایک تاریخی و تجزیاتی مطالعہ اور تعمیرِ مستقبل کا لائحۂ عمل

مولانا راشد وحید قاسمی

26 جنوری کا دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1950 میں ہندوستان نے اپنے آئین کو نافذ کیا اور دنیا کے سب سے بڑے جمہوری نظام کے قیام کی بنیاد رکھی۔ یہ دن آزادی کی ان قربانیوں کی یاد دلاتا ہے جو مختلف قوموں، مذاہب اور طبقات کے افراد نے مل کر پیش کیں۔ یومِ جمہوریہ صرف ایک تہوار نہیں بلکہ قومی وقار، اتحاد، اور ترقی کے سفر کی تجدید کا عہد ہے۔

ہندوستان کی تاریخ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کا امتزاج ہے؛ لیکن مسلمانوں کی آمد نے اس ملک کو ایک نئی سمت عطا کی۔مسلمانوں کے دورِ حکومت سے پہلے ہندوستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ ہر ریاست اپنی الگ حکومت،اور قوانین رکھتی تھی۔ محمد بن قاسم، غزنوی، اور غوری کے ابتدائی حملوں کے بعد چھوٹی ریاستوں کی بساط لپٹنا شروع ہوئی اورہندوستان نے ایک عظیم اورمستحکم مملکت کی طرف سفر کا آغاز کیا۔جس کو مغلوں نے اپنےشوق ِجہانگیری اورذوقِ جمال سے روئے زمین پر ایک عظیم الشان ،طاقت ور،خوبصورت اوروسائل حیات سے بھرپورملک کے طور پرمتعارف کرایا۔

مغل حکمرانوں نے نہ صرف جغرافیائی توسیع کی ؛بلکہ عدل، مساوات، اور سیکولر طرزِ حکومت کی بنیاد رکھی۔

The Mughal Empire was not just a political structure but a Symbol of cultural and economic integratio

(Irfan Habib. p,153 Medieval India)

شیرشاہ سوری (1486-1545) نے نظامِ حکومت کی تنظیم نوکی ۔ انتظامیہ میں اصلاحات کیں اور مضبوط مرکزی حکومت قائم کی۔انہوں نے اختیارات کو منصفانہ طور پر تقسیم کیا اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان روابط کو بہتر بنایا۔زراعت پر مبنی معیشت کے لیے منصفانہ ٹیکس نظام رائج کیا۔ کسانوں سے زمین کی پیمائش کے مطابق ٹیکس لیا جاتا تھا، جس سے کسانوں پر غیر ضروری بوجھ کم ہوا۔ شیرشاہ کی سب سے مشہور خدمات میں ’’گرینڈ ٹرنک روڈ‘‘کی تعمیر شامل ہے، جو بنگال سے کابل تک جاتی تھی۔ یہ سڑک نہ صرف تجارت کے لیے اہم تھی بلکہ سفر کو بھی آسان بناتی تھی۔شیرشاہ نے ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا۔ جگہ جگہ سرائے قائم کیں، جہاں مسافروں کو سہولیات فراہم کی جاتی تھیں اور سرکاری ڈاک جلد از جلد پہنچتی تھی۔انہوں نے عدالتی نظام کو مضبوط بنایا اور انصاف کو عوام کی دہلیز تک پہنچایا۔ ان کے دور میں انصاف سستا اور فوری تھا۔انہوں نے فوج کو منظم کیا اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا۔ ہر سپاہی کا رجسٹر رکھا جاتا تھا اور گھوڑوں پر نشان لگائے جاتے تھے تاکہ دھوکہ نہ ہو۔شیرشاہ نے اپنی حکومت میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق دیے اور کسی مذہب کے خلاف تعصب نہیں برتا۔انہوں نے چاندی کا نیا سکہ جاری کیا، جو ’’روپیہ ‘‘کہلاتا تھا۔ یہ نظام بعد میں مغل حکمرانوں نے بھی اپنایا۔انہوں نے مسافروں کی سہولت کے لیے سرائے قائم کیں، جہاں مسلمان اور غیر مسلم کے لیے الگ الگ کھانے کا انتظام تھا۔ ان سراؤں میں تجارت کو فروغ دیا گیا۔تعلیم کے فروغ کے لیے مدارس اور علمی مراکز قائم کیے۔ ان کا مقصد عوام کو تعلیم یافتہ بنانا تھا تاکہ وہ ریاست کی ترقی میں حصہ لے سکیں۔شیرشاہ سوری کی خدمات نے ہندوستان کی تاریخ پر گہرے اثرات ڈالے۔ ان کی حکمرانی مختصر ضرور تھی، لیکن ان کی اصلاحات نے آنے والے حکمرانوں کو بھی متاثر کیا۔ ان کی ذہانت، عدل پسندی، اور انتظامی صلاحیت آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں۔

مغل بادشاہوں نے ہندوستان میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کی، جو مختلف ریاستوں کو ایک متحد نظام کے تحت لانے میں کامیاب رہی۔ یہ سیاسی استحکام صدیوں کے تنازعات اور داخلی جنگوں کے خاتمے کا باعث بنا۔ خاص طور پر اکبر بادشاہ کی حکمتِ عملی نے امن کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے مختلف مذاہب کے افراد کو دربار میں اہم عہدوں پر فائز کیا اور ہندوؤں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے جزیہ ٹیکس ختم کر دیا۔ اس پالیسی نے معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔مغل دور میں زرعی اصلاحات، تجارتی نیٹ ورک، اور صنعتوں کی ترقی نے ہندوستان کو معاشی طور پر مضبوط بنایا۔ شیر شاہ سوری کے ذریعے شروع کی گئی جی ٹی روڈ کو مزید وسعت دی گئی، جس سے تجارتی سرگرمیوں کو تقویت ملی۔ مغل دور میں ہندوستان دنیا کی بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا تھا۔مغلوں کی تعمیراتی خدمات دنیا بھر میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تاج محل، لال قلعہ، فتح پور سیکری، اور جامع مسجد جیسی عظیم الشان عمارات نہ صرف فن تعمیر کا شاہکار ہیں ؛بلکہ ہندوستانی ثقافت کا حصہ بھی بن چکی ہیں۔مغل بادشاہوں نے علم و فنون کی سرپرستی کی۔ فارسی ادب، موسیقی، اور مصوری کو ترقی دی گئی۔ درباری شاعروں اور علماء کو پروان چڑھایا گیا۔ اکبر کے دربار میں نو رتن شامل تھے، جو مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔مغلوں نے ہندوستان میں ایک مؤثر زرعی نظام قائم کیا۔ اکبر کے دور میں ’’زمین داری‘‘ اور ’’راشداری‘‘کے اصول وضع کیے گئے، جنہوں نے زراعت کو مستحکم کیا اور کسانوں کی حالت بہتر بنائی۔ مغل بادشاہوں نے انصاف کے لیے قاضیوں اور داروغوں کا نظام قائم کیا۔ انہوں نے شرعی قوانین کے ساتھ ساتھ دیگر انتظامی قوانین بھی نافذ کیے، جنہوں نے عوام میں عدل و انصاف کا اعتماد پیدا کیا۔ یہ رواداری آج کے ہندوستان کے لیے بھی ایک سبق ہے۔مغلوں کی خدمات نے ہندوستان کو امن، ترقی، اور ثقافتی ہم آہنگی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان کا دور محض ایک سیاسی حکومت نہیں تھا ؛بلکہ ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کا ذریعہ بھی بنا۔

مغلوںکی یہی وہ عظیم الشان خدمات تھیںجس کی وجہ سےہندوستان کی شہرت چاردانگِ عالم میں پھیلی۔اوردنیا کے قسمت آزما للچائی نظروں سےہندوستان کی طرف دیکھنےلگے۔اور پاؤں پسارنے کے لیے انہوں نے تاجر کے بھیس میں دراندازی شروع کردی۔بالآخر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریزوں نےملک پر قبضہ جمالیااور اسے اپنی استعماری پالیسیوں کا شکار بنایا۔انگریزوں نے ہندوستان کی معیشت کو تباہ کر دیا۔ مشہور تاریخ دان ول ڈیورانٹ کے مطابق:

”The British drained India of its wealth and left millions in

(Will Durant, . The Case for India,p 87)poverty

ہندوستانی دستکاری صنعت کو تباہ کر کے انگلینڈ کی مشینوں کو فروغ دیا گیا۔کسانوںپربھاری ٹیکسوں نے زراعت کو برباد کر دیا۔لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی نے ہندوستانی زبانوں اور ثقافت کو کمزور کیا اور مغربی طرزِ تعلیم کو مسلط کیا۔لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کا مقصد ہندوستان میں ایسا نظامِ تعلیم متعارف کروانا تھا جو انگریزی زبان اور مغربی اقدار پر مبنی ہو۔ 1835 میں، انہوں نے ’’منٹ آن انڈین ایجوکیشن‘‘ پیش کیا، جس میں انہوں نے مقامی زبانوں کی بجائے انگریزی کو ذریعۂ تعلیم بنانے پر زور دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگا جو ’’خون اور رنگت کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو، لیکن ذوق، رائے، اخلاق اور فہم میں انگریزوں جیسا ہو‘‘۔

(Thomas Babington Macaulay, Minute on Indian Education ) (1835)

نواب سراج الدولہ (ولادت: 1733 -وفات: 2 جولائی 1757 ) بنگال کے آخری آزاد حکمران تھے، جنہوں نے پلاسی کی جنگ (1757) میں انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف مزاحمت کی۔ غداری کے باعث شکست ہوئی اور وہ شہید کر دیے گئے۔

{{Tipu Sultan’s bravery against British imperialism remains (. S Gopal . p, p,45 Modern India) unparalleled}} ہندو اور مسلمان آزادی کے مشترکہ مقصد کے تحت انگریزوں کے خلاف پہلی بار1857 کی جنگ آزادی میں متحد ہو کر لڑے۔ اسے ہندوستان کی پہلی بڑی مزاحمتی تحریک کہا جاتا ہے، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے استحصالی نظام، مذہبی مداخلت، اور مقامی حکمرانوں کی بے دخلی کے خلاف تھی۔

10 مئی 1857 کو میرٹھ سے بغاوت شروع ہوئی اور جلد ہی دہلی، کانپور، لکھنؤ، جھانسی، اور دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔ انگریزوں کے فوجی قوانین، خاص طور پر چربی لگی کارتوس کا مسئلہ، بغاوت کی بنیادی وجہ بنی۔ ہندو اور مسلم سپاہیوں نے مذہبی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحد ہو کر انگریزوں سے لڑائی کی۔مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر، جھانسی کی رانی، بیگم حضرت محل لکھنؤوغیرہ حکمراں طبقہ نے انگریزوں کے خلاف تحریک کو قیادت فراہم کی۔ تحریک سیداحمدشہیدکے وارث علمائے کرام بالخصوص حاجی امداداللہ مہاجرمکی اوران کے نامورخلفاء مولانا محمدقاسم نانوتوی اورمولانا رشیداحمد گنگوہی اورعلمائے تھانیسر نے اس جدوجھد میںکلیدی رول اداکیا۔یہ تحریک، عوامی بغاوت، مسلح جدوجہد، اور مقامی حکمرانی کی بحالی پر مبنی تھی۔ یہ جدوجہد ناکام رہی ؛لیکن اس نے آزادی کی تحریک کو مضبوط بنیاد فراہم کی، جسے بعد میں 20ویں صدی میں ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے مزید تقویت ملی۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے بغاوت کو کچلنے کے لیے غیر انسانی مظالم کیے۔ دہلی، کانپور، اور دیگر شہروں میں ہزاروں بے گناہ شہری قتل کیے گئے۔جن کی تعداد دولاکھ سے متجاوز ریکارڈ کی گئی۔ان میں علمائے کرام اکیاون ہزارتھے۔

1915 میں شیخ الہندمولانا محمود الحسن دیوبندی اور ان کے ساتھیوں نے’’تحریک ریشمی رومال ‘‘شروع کی۔ اس کا مقصد برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد کو تیز کرنا تھا۔ اس تحریک میں ترک خلافت، افغان بادشاہ، اور جرمنی سے مدد لینے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، 1916 میں اس کے منصوبے انگریزوں کے علم میں آنے اور سازش بے نقاب ہونے کی وجہ سے یہ تحریک ختم ہو گئی۔

آزادی کی آخری بڑی تحریک ’’تحریکِ آزادی ہند‘‘کہلاتی ہے، جس میں ملک کے سبھی مذاہب اور طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیااور وہ تحریک ملک کے ہرفرد کی آواز بن گئی۔یہ تحریک ،تحریکِ عدم تعاون کے نام سے (1920)میںگاندھی جی کی قیادت میں شروع ہوئی، جس کا مقصد برطانوی حکومت کا مکمل بائیکاٹ تھا۔ (1919-1924)کے دورانیے میںمسلمانوں نے خلافتِ عثمانیہ کی حمایت میں ،تحریکِ خلافت چلائی، جو آزادی کی جدوجہد کا حصہ بنی۔(1942)میںگاندھی جی کے نعرے ’’کرو یا مرو‘‘ پر مبنی تحریک ’’چھوڑ دو ہندوستان ‘‘ برطانوی حکومت کے خاتمے کے لیے آخری فیصلہ کن کوشش تھی۔یہ جدوجہد مسلسل جاری رہی اور مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد 15 اگست 1947 کو ہندوستان آزاد ہو گیا، جب برطانوی حکومت نے اقتدار ہندوستانیوں کے سپرد کر دیا۔

ہندوستان کی تحریک آزادی میں ہندو، مسلم، سکھ، اور بودھ سبھی کی قربانیاں شامل ہیں؛البتہ 1757سے1947کےدوصدی پرمبنی آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کاکردار ہردوسرے طبقہ سے نمایاں رہا اور ان کی قربانیاں سب سے فزوں تر رہیں۔ ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنا تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔

1915سے1947کے درمیان تحریک آزادی کے ممتازمجاہدین جن میں سبھی دھرم وورگ کے لوگ شامل ہیں حسبِ ذیل ہیں:

مسلم قائدین

شیخ الہند محمود حسن دیوبندی (ولادت: 10 دسمبر 1851 -وفات: 30 نومبر 1920 )

مولانا عبیداللہ سندھی (ولادت: 10 مارچ 1872 -وفات: 22 اگست 1944 )

مولانا ابوالکلام آزاد(ولادت: 11 نومبر 1888 -وفات: 22 فروری 1958 )

مولانامحمد علی جوہر(ولادت: 10 دسمبر 1878 -وفات: 4 جنوری 1931 )

حکیم اجمل خان(ولادت: 11 فروری 1868 – وفات: 29 دسمبر 1927 )

ہندو قائدین

موہن داس کرم چند گاندھی (ولادت: 2 اکتوبر 1869 -وفات: 30 جنوری (1948 )

پنڈت جواہر لال نہرو(ولادت: 14 نومبر 1889 -وفات: 27 مئی ((1964

بال گنگا دھر تلک(ولات: 23 جولائی 1856 -وفات: 1 اگست 1920 )

سکھ قائدین

بھگت سنگھ(ولادت: 28 ستمبر 1907 – وفات: 23 مارچ 1931 )

اجیت سنگھ سندھو(ولادت: 23 جنوری 1881 -وفات: 15 اگست 1947

اودھم سنگھ(ولادت: 26 دسمبر 1899 -وفات: 31 جولائی 1940 )

بودھ قائدین

ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر(ولادت: 14 اپریل 1891 -وفات: 6 دسمبر 1956 )

یہ فہرست ان رہنماؤں کی مختصر جھلک پیش کرتی ہےجوہندوستان کی تاریخ میں اپنے کردار، جہاد اور آزادی کی تحریکات کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتی ہیں۔

آج ہندوستان کو کئی داخلی و خارجی چیلنجز کا سامنا ہے۔حالیہ برسوں میں فرقہ واریت ،سماجی عدم مساوات اورمذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے، جو ملک کی سالمیت کے لیے خطرہ ہے۔سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمان تعلیمی اور اقتصادی میدان میں پسماندگی کا شکار ہیں۔

ـــ”Education and economic upliftment of Muslims is essential for national progress "

(Sachar Committee 2006 )

مستقبل کی تعمیر کا لائحۂ عمل

ہندوستان کو ایک مضبوط، متحد، اور ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:مدارس اور اسکولوں میں بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا جائے۔علما کو اتحاد اور محبت کا پیغام دینا چاہیے۔جدید تعلیم کے ساتھ اسلامی اقدار کو اپنایا جائے۔مسلم قیادت تعلیمی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرے۔مسلمانوں کو کاروبار اور صنعتوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی جائے۔حکومت کی اسکیموں سے جائز حدود میں فائدہ اٹھایا جائے۔آئین کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کے لیے امکان کی حدتک جدوجھد کی جائے۔عوام کو اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ کیا جائے۔

یومِ جمہوریہ کا مقصد نہ صرف آزادی کے حصول کو یاد کرنا ہے بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنا بھی ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کو مل کر ایک متحد ہندوستان کی تعمیر کے لیے کام کرنا ہوگا، جہاں سبھی کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔ یہی آئین کا پیغام ہے اور یہی ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔

حوالہ جات:

1. Irfan habib Medieval India, P.153

2. Will durant the case for india, p.87

3. s.gopal Modern india p,45

4. Sachchar committee Report,2006

5. .234 Medieval India,p. Stanley Lane Poole

6. انڈیا ونس فریڈم : مولانا ابوالکلام آزاد

7. علمائے ہند کا شاندارماضی : مولانا محمد میاں

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے