اسلام میں سلام کی اہمیت اور اس کے معاشرتی اثرات

مولانا راشد وحید قاسمی

اسلام ہر طرح کی سلامتی، رحمت و برکت اور شرور و فتن سے حفاظت کا مذہب ہے، اور مسلمان کہلانے کا وہی شخص مستحق ہے جس کے ہاتھ، زبان، عادات، رویّہ

اور حرکات و سکنات سے دوسرے مسلمان نہ صرف محفوظ ہوں بلکہ اس کے چہرہ کی بشاشت سے کملائے دلوں کو فرحت و انبساط میسر ہو۔ اس کی زبان خیر و برکت اور امن و سلامتی کی حسین دعاؤں کا تحفہ پیش کرتی ہو، اور اس کے دست و بازو سے کسی قسم کی اذیت کے بجائے امداد اور حسن تعاون ملتا ہو۔

ملت اسلامیہ کے ایک فرد سے دوسرے فرد کے رابطہ اور معاملت کے دوران ترجمانی اور نمائندگی کا کام زبان کرتی ہے، جس کے مختصر سے حدود اربعہ میں قدرت نے شہد اور اپلوا کے چشمے وافر مقدار میں ان کے جملہ اثرات و تاثرات کے ساتھ ودیعت فرما دیے ہیں، یہی زبان اپنی شیریں سخنی کا جادو جگا کر بیگانوں کو اپنا اور جانی دشمنوں کو جاں نثار دوست بنا لیتی ہے، اور یہی زبان اپنی تلخ کلامی اور زہر افشانی کی نحوست سے اپنوں کا بیگانہ اور دوستوں کو دشمن بنا لیتی ہے۔

جسم انسانی میں دل و دماغ کی مرکزیت کے بعد اس کا سماج اور معاشرہ سے تعلق اور اپنوں پرایوں کے درمیان عزت و ذلت، تعاون وعدم تعاون، جاں نثاری و جاں طلبی اور سکون و بے چینی کے دو متضاد رویوں میں سے کسی ایک کا استحقاق گوشت کے اسی معمولی اور کم سواد لوتھڑے زبان ہی پر موقوف ہے، جو دوسروں کی خوشی پر اظہار مسرت، غمی پر اظہار تعزیت و تسلیہ نارمل مواقع پر اپنے لہجہ کی خنکی، الفاظ کی شیرینی، مضمون کے خلوص اور آداب کی رعایت کر کے انسان کا قد سماج کی نظروں میں اتنا بلند کر دیتی ہے کہ اس کی عظمتوں کی طرف نگاہ اٹھنے والوں کی ٹوپیاں سروں سے گر جائیں، اور اسے محبوبیت و مقبولیت کا وہ مقام عطا کر دیتی ہے کہ لوگ ایک نظر دیکھ لینے کواپنی بینائی کا حاصل اور اس کے قدموں میں اپنا سب کچھ نثار کر دینے کو سرمایۂ کامیابی اور مقصود زندگی باور کر لیتے ہیں۔

جب کہ یہی زبان اپنے لہجہ کی گرمی، الفاظ کی تلخی، گستاخی اور بے ادبی کی وجہ سے سر کے بالوں سے پاؤں کے ناخن تک پورے جسم کی تادیب اور تعذیب کا سبب بن جاتی ہے، سماج اسے تلخ گھونٹ کی طرح تھوک دیتا ہے، لوگ اس سے خارش زدہ کتے کی طرح گریز کرتے ہیں، گالیوں، طمانچوں اور ڈنڈوں لاٹھیوں سے اس کی تادیب ہوتی ہے، اور قید خانے اس کا مسکن قرار پاتے ہیں، زندگی کے ہر ہر موڑ پر اور ہر ہر قدم پر ذلتیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔

حالاں کہ کوئی بھی فرد اپنی زبان کا استعمال اس مقصد کے لیے نہیں کرتا کہ اس کے منفی نتیجہ کا ہدف بنے، بلکہ ہر شخص کا مقصد مشترک اور یقینی طور پر مثبت ہوتا ہے، اور وہ اپنی خوبیوں اور عظمتوں کا اظہار ،حسن و اخلاق اور عزت و منزلت کا حصول،

البتہ طریقۂ کار ہر ایک کا مختلف ہوتا ہے، کوئی خندہ پیشانی، شیریں زبانی اور دوسروں کی قدر افزائی، اور مدح و توصیف کے راستہ پر اپنی منزل کا سفر کرتا ہے اور کوئی تلخ کلامی، بد اخلاقی، دوسروں کی غیبت و چغلی اور توہین و ناقدری کر کے اپنے آپ کو نمایاں کرنے اور معاشرہ میں عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، کچھ معاشروں کا شعار بن گیا ہے کہ ملاقات کے وقت آداب و تسلیمات کا تبادلہ بد ترین اور بھونڈی قسم کی بازاری گالیوں سے کرتے ہیں۔جب کہ آداب ملاقات کی یہ بے راہ روی اور محبت و محبوبیت کے حاصل کرنے کے لیے طریقۂ کار کی یہ بظاہر معمولی غلطی کبھی غیر معمولی نتائج اور فتنۂ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔

اسلام جو اپنی فطرت میں امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا بحر مواج لیے ہوئے ہے اور جس نے روئے زمین پر قدم ہی اس لیے رکھا ہے کہ اس کے ماننے والے خاک کے پتلوں (مسلمانوں) کی معاشرت نورانی فرشتوں کی معاشرت سے ہم آہنگ ہو جائے، اور ان کی زندگی کا ایک ایک عمل فرشتوں اور قدسیوں کے اعمال کی طرح صرف اور صرف عبادت الٰہی کے خاکے میں درج ہو، اسی لیے ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت آداب اور ایسے عظیم الشان کلمات کے تبادلے کی تعلیم دی، کہ صدقِ دل سے اس کی پابندی نہ صرف اجر و ثواب کا باعث بنتی ہے، بلکہ پورے معاشرے کے ایک ایک فرد کو محبت و اخوت، عزت افزائی و قدردانی، ہمدردی و غم خواری اور اعتماد باہمی کی عظیم اور فقیدالمثال دولت سے مالا مال کر دیتی ہے۔

سلام تحفۂ ربانی

سلام کی عظمت و برکت کی اس سے بڑی کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لیلۃ المعراج میں عرش پر شرف بار یابی بخشا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلتَّحِیَاتُ لِلّٰہِ وَ الصَّلَوٰتُ وَ الطَّیِّبَاتُ (تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے ہیں) کے عاجزانہ الفاظ میں اپنی عبدیت اور غلامی کی نذر پیش کی تو پروردگارِ عالم نے سلامتی، رحمت اور برکت کا عظیم الشان تحفہ اپنے حبیب کو عنایت فرمایا، السلام علیک ایھا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ (اے پیغمبر آپ کے لیے اللہ کی طرف سے سلام ،رحمت اوربرکت کا وعدہ ہے۔) جس میں محبوب رب العالمین نے اپنی ذات کے عباد صالحین کو یہ کہتے ہوئے شریک فرمالیا اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ (سلام ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر) خود اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں میں سے ایک نام السلام ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ رسولوں کو یہ عطیہ دیا ہے، سَلَامٌ عَلیٰ نُوْحٍ فِی الْعَالَمِیْنَ نوح کو سلام، سَلَامٌ عَلیٰ اِبْرَاھِیْمَ ابراہیم کو سلام، سَلَامٌ عَلیٰ مُوْسیٰ وَ ھَارُوْنَ موسیٰ اور ہارون کو سلام، سَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ تمام رسولوں کو سلام، سَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفیٰ تمام برگزیدہ بندوں کو سلام۔

سلام انبیاء کا شعار

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو حکم دیا کہ فرشتوں کے پاس جا کر انھیں سلام کرو، اور ان کے جواب کو بغور سنو، وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہوگا، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرشتوں کے پاس جاکر ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘کہا، فرشتوں نے جواب میں ورحمۃ اللہ کا اضافہ کر کے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘کہا (مشکاۃ حدیث 3628) متفق علیہ، بخاری باب بدء السلام کتاب الاستئذاء۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی ہدایت

خاتم الأنبیاء حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ ہمارے مومن بندے آپ کے پاس آئیں تو آپ انھیں سلام کریں اور رحمتِ الٰہی کا وعدہ سنائیں، ’’وَ اِذَا جَائَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبَّکُمْ عَلیٰ نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ‘‘ (الانعام ۵۴)اور اے پیغمبرجب وہ لوگ آپ کے پاس آئیںجو ہماری آیتوں پر ایمان رکھنے والے ہیں تو آپ ان سے کہیں السلام علیکم تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر (ایمان والون کے حق میں) رحمت لازم کر لی ہے۔

سلام اہل جنت کا وظیفہ

سلام صرف دنیا ہی میں محبت اخلاص اور خیر سگالی کا ترجمان اور ملاقات مسنون ادب نہیں ہے بلکہ دنیا میں اللہ کی مرضی اور رسول اللہ کے طریقہ پر زندگی گزارنے والے حضرات آخرت میں اپنے ایمان اور حسن اعمال کے صلہ میں جب جنت الفردوس میں پورے اعزاز و اکرام کے ساتھ داخل کیے جائیں گے تو اللہ رب العزت کی طرف سے حکم ہوگا ’’اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ آمِنِیْنَ‘‘جنت میں اطمنان اور بے خوفی کے ساتھ السلام علیکم کہتے ہوئے داخل ہو۔

اور جب جنتی جنت میں بود و باش اختیار کر لیں گے تو پروردگار عالم کا ارشاد سنائی دے گا ’’سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبیٰ الدَّارِ‘‘ ’’السلام علیکم‘‘ یہ (دنیا میں) تمہارے صلہ اور صبر کرنے کا انعام ہے (دیکھو) آخرت کی دنیا کتنی حسین اور باغ و بہار ہے۔

اسی طرح جنتی حضرات جنت میں دنیا کی طرح ہلڑ بازی اور خلافِ طبیعت کوئی بات نہیں سنیں گے بلکہ ’’السلام علیکم‘‘ کے میٹھے بول ان کے کانوں میں رس گھولتے رہیں گے، ’’لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِیْمًا اِلَّا قَلِیْلًاسَلَامًا سَلَامًا‘‘ جنتی حضرات جنت میں بک بک اور بیہودہ کلمات نہیں سنیں گے، بلکہ ’’السلام علیکم‘‘ اور ’’وعلیکم السلام‘‘ (کی آوازیں سنتے رہیں گے)۔

سلام اسلام کا واچ ورڈ

علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں:

اسلام نے اپنے پیروؤں کے درمیان اس کو گویا آپس میں پہچان کی علامت اور ’’واچ ورڈ‘‘ مقرر کیا ہے، آمنے سامنے جب دو زبانوں سے یہ الفاظ نکلتے ہیں، تو دونوں اپنے سینوں میں ہزار بیگانگی کے باوجود آشنائی کی لہر پاتے ہیں، اور آپس میں محبت کی کشش محسوس کرتے ہیں، یہ بتاتا ہے کہ دونوں ایک ہی ملت محمدیہ کے ایمانی فرزند ہیں۔ (سیرت النبی:6/267)

سلام جامع دعا ہے

مختلف ملکوں اور قوموں میں رائج کلمات تحیت معنی و مفہوم کے لحاظ سے بہت محدود ہیں، انگریزی میں گڈ مارنگ صرف صبح کے لیے ہے، گڈایوینگ شام کے لیے، گڈ آفٹر نون دوپہر کے لیے، گڈ نائٹ رات کے لیے، اردو زبان میں صبح بخیر، شام بخیر، اور عربی میں اللّٰھم بک صباحا، اللّٰھم بک مسائً بھی ۱۲؍ گھنٹے سے اوپر کی دعا نہیں، البتہ ایرانی سلام کلمۂ ہزار سال زی ہزار سال جیٔو ان سب سے بڑھ کر دعا ہے، لیکن وہ بھی ہزار سال تک محدود ہے، اس سے اوپر نہیں، دوسرے اس میں دعا کے ساتھ بدعا کے معنی بھی نکلتے ہیں کہ سو سال جینے میں انسان دوسروں کا محتاج ہو جاتا ہے، اگر عمر ہزار سال دے دی جائے نہ جانے اس کا کیا حشر ہوگا، اس لیے کہ دعا صرف ہزار سال تک جینے کی ہے صحت مندی، خیر و سلامتی کی نہیں ہے۔

اس کے علی الرغم اسلام کا سلام اپنے معنی کے لحاظ سے بہت ہمہ گیر ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں کا متعین کیا کلمہ نہیں، بلکہ انسانوں کے خالق و مالک اس کی مصالح کو اس سے بہتر جاننے والے پروردگار حاکم مطلق اللہ رب العزت کا عطا کردہ تحفہ ملاقات ہے، جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو انتہائی بشاشت و محبت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ سلام کی جامعیت کے متعلق فرماتے ہیں:

انسان کی خوشگوار زندگی کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:

(۱) وہ ناگوریوں اور امن چین کو غارت کرنے والی چیزوں سے محفوظ رہے۔

(۲) اسے خیر و سلامتی اور نعمتیں حاصل رہیں۔

(۳) وہ نعمتیں مل کر ختم نہ ہوں بلکہ دائمی طور پر میسر رہیں، اگر یہ تینوں چیزیں حاصل ہیں، تو انسان کی زندگی پر سکون اور پر عیش ہوگی، ورنہ مکدر ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے کلمۂ ملاقات السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ میں ملاقات کے وقت ایک ساتھ تین دعائیں دینے کا حکم دیا ہے، لفظ السلام کے ذریعہ شرور و فتن،بیماری، اعذاری، مشکلات و مصائب سے حفاظت کی دعا ہے، ورحمۃ اللہ کے ذریعہ حصول خیر و بھلائی کی دعا ہے اور برکاتہ کے ذریعہ خیر کی روز بروز زیادتی اور دوام نعمت کی دعا ہے۔ (جمع الفوائد2/178)

سلام کے مواقع

سلام کی اسی جامعیت اور ہمہ گیری کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر، باہر اپنوں، بیگانوں اور ملاقات کے وقت کثرت سے سلام کرنے کا حکم دیا ہے۔

سلام ملاقات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر 6(خاص) حق ہیں (1) جب مالقات ہو سلام کرے (2) دعوت دینے پر اس کی دعوت قبول کرے (3) مشورہ مانگنے پر مفید مشورہ دے (4) جب اس کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہے (5) جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے (6) جب اس کا ایتقال ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جائے۔ (مسلم ؍1)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں پہنچے تو چاہیے کہ پہنچتے ہی اہل مجلس کو سلام کرے، پھر بیٹھنا چاہے جو بیٹھ جائے، اور اگر واپس ہونا چاہے تو واپسی کے وقت پھر سلام کرے، اس لیے کہ سلام ملاقات سلام رخصت دے بڑھ کر نہیں ہے۔ (جامع ترمذی)

سلام مخاطبت

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ممبر پر تشریف لاتے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور ان کو سلام کرتے۔ (عمدۃ القاری 5/220)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے ایک شخص نے یہ کہہ کر اجازت چاہی ’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بھیجا کہ اس شخص کو اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ، وہ گئے، اور آنے والے سے کہا، کہو! السلام علیکم کیا میں آسکتا ہوں آنے والے نے کہا السلام علیکم کیا میں اندر آ سکتا ہوں بھر نبی سلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمادی اور وہ آ گئے۔ (ابو داؤد : کتاب الأدب 5177)

سلام کی کثرت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ایک مسلمان دوسرے مسلمان سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے، پھر اگر دونوں کے دمیان چلتے چلتے دیوار یا درخت حائل ہو جائے، پھر ملے تو پھر سلام کرے۔ (ابوداؤد : کتاب الأدب)

صحابہ کا معمول

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کا سلام کی بابت معمول یہ تھا کہ راستے میں چلتے چلتے سامنے کوئی پیڑ آجاتا، تو دائیں بائیں ہو کر آگے بڑھتے اور پیڑ کی اوٹ سے نمودار ہونے پر پھر ایک دوسرے کو سلام کرتے۔

(الأدب المفرد1043)

بیگانوں کو سلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام کا بہترین عمل یہ ہے کہ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، اور شناسا اور نا آشناؤں کو بلا تفریق سلام کرو۔ (بخاری کتاب الایمان باب اطعام الطعام)

سلام کا وقت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سلام گفتگو سے پہلے کرنا چاہیے۔

(ترمذی باب الاستئذان)

سلام کی آواز

حضرت ثابت بن عبید ؓ فرماتے ہیں: میں ایک مجلس میں گیا وہاں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے، آپ نے نصیحت فرمائی، سلام اتنی آواز سے کیا کرو کہ مخاطب سن لے، پھر فرمایا: سلام اللہ رب العزت کی طرف سے بندوں کے لیے با برکت سرکاری تحفہ ہے۔(الادب المفرد :1036)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو گھر میں داخل ہوتے تھے، تو اتنی آواز سے سلام کرتے تھے کہ اہل خانہ جاگ رہے ہوں تو سن لیں اور سور ہے ہوں تو آواز سے ان کی آنکھ نہ کھلے۔ (مسلم کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف ؍1)

سلام کی پہل کرنے والے کی فضیلت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ رب العزت کی رحمت کا وہ شخص زیادہ مستحق ہے جو سلام میں پہل کرنے والا ہو۔ (احمد :5/253)

سلام پر نیکیوں کے وعدے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مین ایک صحابی حاضر ہوئے، انہوں نے السلام علیکم کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ان کو ملیںگی وہ بیٹھ گئے، دوسرے صحابی آئے انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا: آپ نے جواب دیا اور فرمایا یہ بیس نیکیوں کے مستحق ہیں، وہ بیٹھ گئے تیسرے صحابی آئے انہوں نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہا: آپ نے ان کو جواب دیا اور فرمایا یہ تیس کے مستحق ہیں۔ (ترمذی کتاب الاستئذان باب ما ذکر فی فصل السلام)

خصوصیت والا سلام قرب قیامت کی نشانی ہے

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت سے پہلے خصوصیت کا سلام ہوگا، اور تجارت کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ عورتیں بھی مردوں کا ہاتھ بٹائیں گی۔ (مسند احمد ـ:الرقم319ج 3؍ص 387)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے