سمودھی قبرستان میں اکابر کے مزارات کی زیارت!

محمد سالم سریانوی

بتاریخ: 5؍ رجب 1446ھ مطابق 6؍ جنوری 2025ء بروز دوشنبہ جناب عبد الوافی زاہدی صاحب رکن شوریٰ جامعہ عربیہ احیاء العلوم کا انتقال ہوا، ان کی نماز جنازہ بعد نماز عشاء ساڑھے آٹھ بجے سمودھی قبرستان میں ادا کی گئی، مرحوم جامعہ کے سابق ناظم اعلیٰ مولانا عبد الباری صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے تھے، بڑے جری اور صاف گو تھے، اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے۔

سمودھی قبرستان مبارک پور کا ایک قدیم قبرستان ہے، جو پورہ رانی میں واقع ہے، یہ قبرستان اس لحاظ سے کافی اہمیت کا حامل ہے کہ مبارک پور کی کئی اہم اور بڑی علمی شخصیات آسودہ خاک ہیں، آج جنازہ کی تدفین کے بعد ان اصحاب علم وفضل کی قبروں کی بھی زیارت کی اور ایصال ثواب کیا، ہمارے مبارک پور کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ علماء اور اصحاب علم وفضل کی جتنی قدر اور عزت ہونی چاہیے اتنی نہیں ہو پاتی ہے، سمودھی قبرستان میں جو اصحاب علم وفضل آرام فرما رہے ہیں ان میں بعض ایسے ہیں جن کی شہرت پوری دنیا میں ہے، مگر وہاں جانے کے بعد عامۃ لوگوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا ہے، بس گئے، جنازہ میں شرکت ہوئی اور مٹی دے کر واپسی ہوجاتی ہے، ہمارا گزر اس قبرستان سے ہوتا ہے تو ان اکابر کے آرام فرما ہونے کے تصور ذہن پر آتا ہے اور ان اصحاب علم وفضل کی جانب خیال جاتا ہے، ساتھ ہی جو ممکن ہوتا ہے ایصال ثواب کی کوشش ہوتی ہے۔

سمودھی یا سمودی قبرستان کا نام ’’سمودھی؍ سمودی‘‘ کیوں پڑا؟ اس کی بابت کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہے، قبرستان سے متصل ایک تالاب ہے، غالبا اسی کے نام پر سمودی؍ سمودھی کہا جاتا ہے، اس قبرستان میں سڑک سے متصل ایک طویل چبوترہ ہے، جو موجودہ وقت میں قبر نما ہے اور ’’نوگزے پیر‘‘کے نام سے مشہور ہے، عرف میں ایک تصور یہ پایا جاتا ہے کہ یہاں کوئی بڑے بزرگ ہیں جن کی شہادت ہوئی اور ان کی تدفین کی گئی، یہاں سالانہ عرس بھی لگتا ہے، جہالت کی وجہ سے یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ بزرگ کافی لمبے چوڑے تھے جس کی وجہ سے مزار 9؍ گز کا بنایا گیا ہے، میرا خیال ہے کہ یہاں کئی لوگوں کی قبریں ہیں، جو متصل ہیں، ان کی تدفین ایک ساتھ ہوئی ہے، جس کی وجہ سے قبر کو شرقا وغربا لمبا بنایا گیا ہے، قاضی اطہر صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چبوترہ بعد میں بنایا گیا ہے، قاضی صاحب نے اس کے بارے میں مختصر طور پر لکھا ہے کہ

’’چناںچہ قصبہ کے جنوب میں سمودی تالاب کے پاس ایک مجہول اور قدیم قبر ہے، یہ ’’نو گزے پیر‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ جس پر بعد میں لمبا چوڑا چبوترہ مشرق ومغرب رخ بنا دیا گیا ہے، ایسی مجہول قبریں آس پاس کے دیگر علاقوں میں بھی پائی جاتی ہیں‘‘۔ (تذکرہ علمائے مبارک پور ص:109مطبوعہ مکتبہ الفہیم مئو)

اس قبرستان میں مدفون اصحاب علم وفضل میں سب سے نمایاں نام مولانا عبد الرحمن محدث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، جن کی مشہور کتاب ترمذی شریف کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ ہے،آپ اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتے تھے، بل کہ امامت وپیشوائی کے منصب پر فائز تھے، آپ کی قبر اُسی نو گزے پیر سے جانب شمال وغرب قریب ہی ہے، آپ کی قبر پر کتبہ لگا ہوا ہے، 13؍ شوال 1353ھ مطابق 1935ء میں آپ کا انتقال ہوا۔

آپ کی قبر کے قریب میں دو تین اکابر اور اصحاب علم وفضل اور ہیں جن کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے ہے، جنہوں نے طویل زمانے تک خدمات انجام دیں اور اپنے بعد والوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے، ان میں سب سے نمایاں اور ممتاز نام محی السنہ حضرت مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوری قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، آپ جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور کے دوسرے مہتمم تھے، بڑے علم وفضل کے مالک تھے، احیاء العلوم کی تعمیر وترقی میں بے پناہ قربانیاں دیں، احیاء سنت اور امحاء بدعت کے حوالے سے آپ کی شہرت بہت زیادہ ہے، آپ کی قبر پر بھی کتبہ لگا ہوا ہے، آپ کی وفات 5؍ ربیع الاول 1361ھ مطابق 1942ء میں ہوئی۔

انھی قبروں کے قریب مبارک پور ی علماء اور مفتیان میں سب سے نمایاں شخصیت کے مالک استاذ العلماء حضرت مولانا مفتی محمد یٰسین صاحب قاسمی مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر بھی ہے، آپ باقاعدہ طور پر احیاء العلوم کے سب سے پہلے مفتی تھے، فتوی نویسی میں آپ کو خصوصی ملکہ حاصل تھا، آپ کی شہرت صرف علاقے تک ہی محدود نہ تھی؛ بل کہ ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی تھی، ’’فتاوی احیاء العلوم‘‘ آپ کے فتاوی کا مجموعہ ہے، نہایت نیک صالح اور متقی تھے، آپ کی قبر پر بھی کتبہ لگا ہوا ہے، آپ کی وفات 22؍ محرم 1404ھ مطابق 29؍ اکتوبر 1983ء کو ہوئی۔

وہیں قریب میں ماضی قریب کی ایک بڑی علمی اور سیاسی شخصیت حضرت مولانا عبد الباری صاحب قاسمی مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ کی بھی قبر ہے، جو مولانا شکر اللہ صاحب مبارک پوریؒ کے بھتیجے تھے، مولانا شکر اللہ صاحب ؒ کی وفات کے بعد آپ کو جامعہ عربیہ احیاء العلوم کا ناظم اعلی منتخب کیا گیا تھا، تقریباً نصف صدی تک جامعہ کے ناظم رہے، جامعہ کی تعمیر وترقی میں آپ کی خدمات روز روشن کی طرح واضح ہیں، آپ صرف دینی وعلمی شخصیت کے مالک نہیں تھے، بل کہ ایک سیاسی لیڈر بھی تھے، آپ کی وفات 13؍ ربیع الثانی 1408ھ مطابق 5؍ دسمبر 1987ء کوہوئی، جناب عبد الوافی زاہدی صاحب انھیں کے صاحبزادے تھے۔

اسی قبرستان میں انھیں اکابر کے قریب استاذ گرامی حضرت مولانا عبد المعید صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر بھی ہے، آپ بھی جامعہ عربیہ احیاء العلوم کے ناظم اعلی اور باکمال مدرس تھے، تقریبا ۱۸؍ سال جامعہ کی نظامت کے فرائض انجام دیے، آپ کے ابتدائی دور نظامت میں جامعہ کا شاندار اور تاریخی صد سالہ اجلاس جامعہ آباد میں منعقد ہوا، آپ کا انتقال 18؍ جمادی الثانیہ 1441ھ مطابق12؍ فروری 2020ء بدھ کو ہوا، آپ کی قبر پر کوئی کتبہ نہیں ہے۔

ان حضرات کے علاوہ اور بھی کئی اصحاب علم وفضل یہاں مدفون ہیں، اللہ تعالی ان حضرات کی قبروں کو نور سے بھر دے، کروٹ کورٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین

(تحریر 5؍ رجب 1446ھ مطابق 6؍ جنوری 2025ء شب سہ شنبہ)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے