آہ! حضرت مولانا مفتی محمدعثمان صاحب قاسمی

جنید احمد قاسمی

استاذ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر

…………………………..

حضرت مولانا مفتی محمدعثمان صاحب قاسمی استاذ حدیث جامعہ رحمانی مونگیر کا ٢٤/١٢/٢٠٢٤ء ۔ ٨:٤٠ بجے شب پٹنہ میں دوران علاج انتقال ہوگیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

عمر، شخصیت اور علمی لیاقت:

مفتی صاحب کی عمر آدھار کارڈ کے حساب سے غالبا ٦٣ سال تھی ۔ بڑے خلیق، ملنسار، مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک تھے۔ علم طب اور علم حدیث و تصوف پر خاص نگاہ اور خاصی دل چسپی تھی ۔ ڈاکٹر محمد ابواللیث خیرآبادی صاحب چند سال پیشتر میری دعوت پر جامعہ رحمانی تشریف لائے تھے تو حدیث پر حضرت امیر شریعت سابع رح کی صدارت میں ان کا محاضرہ ہوا تھا، مفتی صاحب مرحوم نے بڑی گیرائی اور گہرائی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی بعض باتوں کا جواب دیا تھا ۔اس وقت مفتی صاحب کی حدیث کے تعلق سے دقت نظر کا اندازہ ہوا۔تصنیف و تالیف کا بھی شوق تھا لیکن مفتی صاحب نے ہمیشہ درس و تدریس کو تصنیفی اشغال پر فوقیت دی ۔ میرے مشورے پر انھوں نے لیپ ٹاپ بھی خرید لیا تھا اور سیکھ لیا تھا ۔ ایک دو کتابچے غالباً چھپ کر منظر عام پر آئے ۔

انس و محبت کے پیکر:

مفتی صاحب مرحوم جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں اسی سال بحال ہوئے تھے جس سال میں بحال ہوا تھا ۔ سنہ ٢٠١٤ء تھا ۔میرا کمرہ تعلیم گاہ کی تیسری منزل پر تھا اور مفتی صاحب کا کمرہ ٹھیک اسی کے اوپر چوتھی منزل پر تھا ۔ ایک ساتھ بیٹھنا، باتیں کرنا، استفادہ کرنا لگا رہتا تھا ۔ انھوں نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ سینئر اور میں جونیئر ہوں ۔ تین سال کے بعد مفتی صاحب کو جامعہ رحمانی کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا اور مجھے ان کے سابق کمرے منتقل کر دیا گیا ۔

اس کمرے میں تقریباً میں پانچ سال رہا ۔ لیکن مفتی صاحب سے ملاقات، بات اور علمی تبادلے کا رشتہ ہموار رہا ۔ جب بھی ملاقات ہوتی خبر خیریت پوچھتے اور بڑی مشفقانہ و مخلصانہ انداز سے پوچھتے ۔ ادھر اخیر کے تین سالوں میں مفتی صاحب کے کمرے جانے کا اتفاق نہیں ہوا ۔ درس گاہ آتے جاتے ملاقات ہو جاتی ۔

سادگی و تواضع :

مفتی صاحب کی سادگی طلبہ و اساتذہ میں مشہور تھی ۔وہ ہٹو بچو کے شوقین کبھی نہیں رہے ۔ جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے ۔ جو میسر ہوا کھا لیا ۔ گرمی کے موسم میں بھاگل پوری چادر اوڑھ کر اکیلے برآمدے پر لیٹ جاتے ۔طلبہ شور کرتے لیکن مفتی صاحب مرحوم کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ابو داؤد شریف ان سے متعلق تھی ۔ کتاب خود سے درس گاہ لے جاتے ۔میں نے ایک مرتبہ عرض کیا مفتی صاحب آپ کے اتنے شاگرد ہیں کسی کو لانے لیجانے کا مکلف بنادیں لیکن وہ میری گزارش کو ٹال جاتے ۔ایک مرتبہ پھر میں نے عرض کیا تو فرمایا در اصل حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب رحمہ اللہ نے ہی مجھے یہ ہدایت دی تھی کہ آپ اپنی کتاب خود سے درس گاہ لے کر جائیں اور لے کر آئیں، اسی پر عمل کرتا ہوں ۔

کل پڑھا کر جا رہے تھے تو ہاتھ میں طب کی کوئی کتاب تھی ۔ میں نے سوچا کہ کہوں مفتی صاحب ایک اسکوٹی خرید لیں؛ تاکہ آنے جانے میں سہولت رہے ۔ لیکن تکلفا میں نے کچھ کہا نہیں ۔

نماز کی پابندی :

جب تک صحت مند رہے تکبیر اولی کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی، جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے پر سو فیصد عمل کرتے تھے ۔نماز باجماعت کا ویسا پابند کوئی اللہ کا ولی ہی ہو سکتا ہے ۔

مہمان نوازی :

جب بھی کمرے جائیے اپنے حساب سے خاطر تواضع کرتے ۔

تدریسی خدمات:

جب سے جامعہ رحمانی میں بحال ہوئے حدیث کی کوئی نہ کوئی کتاب مفتی صاحب سے متعلق رہی ۔ ترمذی و ابوداؤد شریف بطور خاص رہی ۔

اللہ پاک مولانا کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ۔مرنے والے میں بہت سی خوبیاں تھیں ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے