از ـ محممود احمد خاں دریابادی
دارالعلوم دیوبند کے ہمارے آخری استاذ بھی رخصت ہوئے، ہم متحدہ دارالعلوم کی پیداوار ہیں، ہمارے فراغت کے سال 1978 تک نہ صدسالہ برپا ہوا تھا نہ وقف وجود میں آیا تھا ـ…………. آگے کا تذکرہ تکلیف دہ ہے اس لئے جانے دیجئے،…………
وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا
درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رُلانے والے
یوں تو ہماری ابتدائی ومتوسطات تک کی تعلیم جامعہ ہتورا باندہ اور دارالعلوم امدادیہ ممبئی میں ہوئی ہے، آخر کے دو برس دارالعلوم دیوبند میں گزرے،
1976 میں ہم دیوبند پہونچے، چند دنوں میں داخلے کی کارروائی مکمل ہوئی، اسی دوران ایک دن پتہ چلا کہ دارالحدیث تحتانی میں مناظرے کی انجمن کا افتتاحی اجلاس ہوگا، ہم بھی پہونچے، مناظرے کا موضوع آریوں کا مشہور عقیدہ تناسخ یعنی آواگون تھا، دارالحدیث پورا طلبا سے بھرا ہوا تھا، مناظرے میں حصہ لینے والے طلبا کے دو گروپ تھے ایک آواگون کو ثابت کرنے والا اور دوسرا اس کی تردید کرنے والا، درمیان میں ایک مسند تھی جس پر سیاہ ڈاڑھی، خوبصورت، وجیہ، دوپلی ٹوپی اورسادہ سفید لباس میں ایک بزرگ نظر آنے والی شخصیت حکم کی حیثیت سے تشریف فرماتھی ـ معلوم ہوا کہ یہ دارالعلوم کے استاذ حضرت مولانا قمرالدین صاحب ہیں ـ بہر حال پروگرام شروع ہوا دونوں طرف کے طلبا نے اپنی تیاری کے مطابق تقریریں کیں، اس دوران حضرت اطمینان سے چار زانو بیٹھے رہے، اسی بیچ حضرت نے دوایک ” برگ سبز” یعنی پان بھی نوش جان کئے اور سامنے رکھے پیک دان کا بھی متعدد مرتبہ استعمال ہوا، پھر آخر میں حکَم کی حیثیت سے حضرت کا بیان ہوا، بیان میں بھی ہمیں حکمت و موعظت جھلکیاں نظر آئیں ـ ……… تو یہ تھا ہمارا حضرت مولانا قمرالدین صاحب سے پہلا اور یکطرفہ تعارف! حالانکہ ہم حضرت کو درسگاہوں میں آتے جاتے، ناظم کی حیثیت سے دفتر دارالاقامہ کی سیڑھیاں چڑھتے اُترتے دیکھ کر اپنے یک طرفہ تعارف کو مزید مضبوط کرتے رہےتھے ـ
دو طرفہ تعارف کی نوبت بہت بعد میں آسکی، ہوا یوں کہ ہم افریقہ منزل جدید کے کمرہ نمبر ایک میں مقیم تھے، ہمارے کمرے کے سامنے بیر کا باغ تھا، جسے دارالعلوم کی طرف سے کسی کو ٹھیکے پر دے دیا گیا تھا، ایک رات اس باغ میں کسی نے گُھس کر کافی سارے بیر توڑلئے، صبح جب باغ کا رکھوالا جاگا تو اُس کو پتہ چلا، چونکہ ہم ممبئی کے کئی لڑکے ایک نمبر میں تھے، اور ممبئی ہی کا اثر تھا کہ سب کے سب تیز طرار، ہنسی ٹھٹول، ہنگامہ، شور، اور بے چارے بعض یوپی بہار کے صوفی صافی لڑکوں سے ہم لوگ ” خصوصی گفتگو” بھی کرتے رہتے تھے اس لئے اس لئے اُس باغ کے رکھوالے کا شک ہم شریر لڑکوں پر ہی گیا اور اُس نے دفتر دارالاقامہ میں نامزد شکایت کردی، ……… وہاں سےطلبی ہوئی ہم سارے” ایک نمبری ” حاضر ہوئے، وہاں حضرت مولانا قمرالدین صاحب اور حضرت مولانا عبدالعزیز بی اے تشریف فرماتھے، سارے ایک نمبریوں نے مجھے ” دس نمبری” کا عہدہ دیا اور متکلم کی ذمہ داری سونپ دی تھی، ( کیا بتائیں اب تک دس نمبری عہدے سے پیچھا نہیں چھوٹا ہے اب بھی بیشتر جگہوں پر متکلم بننا ہی پڑتا ہے ـ ) وہاں جاکر پتا چلا کہ ہمارا اجمالی تعارف ہم سے پہلے پہونچ چکا ہے ـ ہمیں دیکھتے ہی مولانا قمرالدین صاحب مولانا بی اے سے مخاطب ہوکر کہنے لگے
” یہ موٹا ممبئی کا ہے خود بھی نہیں پڑھتا اور اس کے ساتھ دس پانچ لڑکے بھی گھومتے رہتے ہیں "
بتائیے ہم کیا جواب دیتے آدھی بات تو بہرحال درست تھی، البتہ دس پانچ لڑکوں والی بات میں مبالغہ نظر آرہا تھا، یہ بھی ممکن ہے حضرت تک یہ روایت یوں ہی پہونچی ہو، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ” دروغ بر گردنِ راوی ” ـ بہر حال سر جھکائے سنتے رہے، ……… پھر حضرت کا ارشاد ہوا
” بیر کی چوری تم لوگوں نے کی تھی "
” جی نہیں! ہم لوگوں کو یہاں کے بیر بالکل پسند نہیں”
حضرت مسکرائے فرمانے لگے
” تعجب ہے ! دیوبند کے بیر سارے ہندوستان میں شہرت رکھتے ہیں "
” جی! مگر ہم لوگوں کو عادت نہیں ہے، دانت کھٹے ہوجاتے ہیں "
” پھر وہ باغ والا پاگل ہے جو صاف صاف تم لوگوں کا نام لے رہا ہے ؟ "
” جی! ہم لوگوں نے کوئی چوری نہیں کی، اس کے پاس کوئی ثبوت گواہ ہو تو لائے "
ہمارے اس جواب پر حضرت نے برہمی کے ساتھ فرمایا
” رات بارہ بجے وہ گواہ ڈھونڈنے کہاں جاتا "
” ہم قسم بھی کھا سکتے ہیں کہ ہم نے چوری نہیں کی ” یہ ہمارا آخری جواب تھا،
حضرت نے فرمایا
” ٹھیک ہے اس وقت آپ لوگ جائیں آگے دیکھیں گے "
اس طرح ہم لوگوں کی پیشی اختتام کو پہونچی ـ ( آگے چل کر ہم لوگوں نے اُس جھوٹے باغ والے کو جو سبق سکھایا تھا اس کا ذکر ابھی موضوع سے خارج ہے)
اس کے بعد بھی کئی چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں پیش آتی رہیں، چونکہ حضرت ناظم دارالاقامہ تھے اس لئے کبھی کبھی فجر کے فورا بعد ہماری افریقی منزل کا دورہ فرماتے، ہمارے زمانے میں افریقی منزل ہم جیسے آزاد پنچھیوں آشیانہ تھا، اس لئے عموما حضرت کے ہر دورہ پر کوئی نہ کوئی ایسا پرندہ شکار ہوجاتا جو صیاد سے بے خبربال وپر بکھرائے ہوئے بستر خواب پر دراز ہوتا ـ الحمدللہ ہمارے ساتھ یہ نوبت کبھی نہیں آئی، البتہ کبھی کبھی سامنا ہوجاتا تو ہم سلام کا شرف حاصل کرلیتے تھے ـ
موقوف علیہ میں ہم لوگوں کا کوئی سبق حضرت کے پاس نہیں تھا، ہمارا حضرت کے پاس پہلا سبق دورہ حدیث کے سال موطاء امام محمد کا ہوا، عجیب درس تھا، سبق بھی ہوتا اور حضرت کا وعظ بھی، حدیث پر مختصر جامع کلام کے بعد اسی موضوع پر بزرگوں کے اقوال، اکابر دارالعلوم کے واقعات، مثنوی کے اشعار مخصوص انداز میں سناتے تھے ـ
حضرت سے تعلیم کے دوران ایک سابقہ اور پڑا، دراصل دارالعلوم میں یہ قانون بنایاگیا کہ دارالعلوم سے فارغ ہونے والوں کے لئے تجوید کا جاننا ضروری ہے، طلباء دارالعلوم اپنی سہولت کے مطابق شعبہ تجوید کے کسی بھی قاری کے یہاں جاکر روز تجوید کی مشق کریں اور فوائد مکیہ مکمل پڑھیں،اس قانون کے بعد ہم نے بھی حضرت قاری احمد میاں ( یہ حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی کے صاحبزادے اور مجذوب صفت دلچسپ بزرگ تھے، عرصے سے موصوف پر کچھ لکھنے کا تقاضا ہے مگر اب تک ہو نہیں پایا، دیکھئے کب ہوتا ہے ـ ) کے درجے میں نام لکھا لیا، وہاں بہت آسانیاں تھیں، سال بھر غیر حاضری کے باوجود ہمیشہ حاضری لگ جاتی تھی، سہ ماہی شش ماہی امتحانات میں بغیر محنت کے اعلی کامیابی ملتی تھی،……….. مگر قاری صاحب کے اسی مزاج کی وجہ سے اُن کے درجے کا سالانہ امتحان کسی دوسرے استاذ کے سپرد ہوتا تھا اور تب سال بھر کی کوتاہیوں اور تن آسانیوں کا احتساب ہوجاتا تھا ـ اسی وجہ سے عموما لڑکے دوسرے قراء کے یہاں پڑھتے تھے، میں چونکہ ممبئی میں ہی متعدد قراء کے یہاں مشق کرچکا تھا، قواعد تجوید سے بھی کچھ شدبدھ تھی، اس لئے مجھے قاری احمد میاں کے یہاں نام لکھانا مناسب لگا،………… بہر حال تجوید کا سالانہ امتحان حضرت مولانا قمرالدین صاحب کے یہاں پہونچا، قاری صاحب کے درجے کے سب لڑکے حاضر ہوئے، حضرت ایک ایک کو بلاکر فوائد مکیہ سے سوالات کرتے اور قران کی چند آیتیں تجوید کے ساتھ سنتے، میرا نمبر آیا فوائدمکیہ سے سوال جواب کے بعد مجھے بھی کچھ پڑھنے کا حکم ہوا، مجھے پہلے سے مشق تھی اس لئے اعتماد کے ساتھ ترتیل سے پڑھنا شروع کیا، حضرت کے ذہن میں چونکہ میری تصویر ایک کھلنڈرے، شریر اور نااہل طالبعلم کی تھی اس لئے جب میں نے پڑھنا شروع کیا تو حضرت کے چہرے پر تعجب کی لکیریں تھیں، آخر تک غور سے میرا چہرہ دیکھتے رہے ـ الحمدللہ نمبرات بھی حضرت نے اعلی دئے تھے ـ ہاں ! آخر میں حضرت نے تمام لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
” آپ لوگ قاری احمد میاں کے شاگرد ہیں مگر ان کے لہجے میں تو کسی نے نہیں پڑھا ؟ "
کیسے پڑھتے ؟کسی نے قاری احمد میاں کے پاس جاکر مشق کی ہو تب نا! …….. مگر یہ بات حضرت کو کون بتاتا ؟
فراغت کے تقریبا دس برس بعد ممبئی میں منعقد ہونے والے حضرت مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی رح کے تعزیتی اجلاس میں شرکت کی دعوت کے لئے حضرت کو فون کیا، شروع میں محمود نام بتایا تو حضرت پہچان نہیں پائے، مگر جب ممبئی کا موٹا بتایا تو فورا پہچان لیا، دعوت قبول ہوئی حضرت تشریف لائے، یہاں بڑا تعزیتی اجلاس تھا اس سے خطاب فرمایا، ……… اُس اجلاس میں شرکت کے لئے حضرت ایک خادم کے ساتھ صبح فجر کے وقت ٹرین سے پہونچے تھے، حضرت وہیں اسٹیشن پر ہی نماز پڑھنا چاہتے تھے، ہم نے عرض کیا، حضرت مہدی مسجد قریب ہے جماعت مل سکتی ہے، اسٹیشن کی ٹرافک کی وجہ سے جب مسجد پہونچے تو جماعت ہوچکی تھی، انفرادا نماز پڑھی گئی، مسجد میں کچھ ہمارے جاننے والے بھی ملے، انھیں جب بتایا گیا کہ دیوبند کے استاذ ہیں تو انھوں نے حجرے میں چائے وغیرہ کا اہتمام کیا، اُن دنوں اُس مسجد میں دیوبند کے قاری زبیر صاحب امام تھے، وہ بھی تشریف لے آئے، دیوبند کا ہونے کی وجہ سے حضرت بھی اُن سے واقف تھے، وہ کہنے لگے کہ مولانا ہمارے پڑوس میں صبح جلیبیاں بہت عمدہ بنتی ہیں، چائے سے قبل گرم جلیبیاں لطف دے جائیں گے ـ حضرت نے قاری صاحب کو اصول حدیث کے ایک مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے بڑا پر لُطف جواب دیا ـ فرمایا
” قاری صاحب آپ ثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی معتبر ہوتی ہے "
حضرت باندوی کے تعزیتی اجلاس کے بعد ابھی چند سال قبل ممبئی کے ایک ادارے میں ختم بخاری کے سلسلے میں حضرت تشریف لائےتھے ، ملاقات ہوئی، ہم نے محمود دریابادی کہہ کر اپنا تعارف کرایا، حضرت نے پہچان لیا، دراصل پچھلے کچھ برسوں میں مضامین نویسی اور دیگر گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے ہمارا نام کسی حد تک بزرگوں تک پہونچ گیا ہے،اس لئے اس بار ” موٹے تعارف” کی نوبت نہیں آئی ـ بس یہی آخری زیارت و ملاقات تھی، حالانکہ عرصے سے صحت خراب تھی، عمر طبعی کو بھی پہونچ چکے تھے، تاہم جب انتقال کی خبر ملی تو دل نے کہا ارے! ابھی کیسے؟ ابھی تو حضرت کی بڑی ضرورت تھی! ………. مگر وقت موعود آچکا تھا، اللہ درجات بلند فرمائے، ہم سب اُن کے پسماندگان ہیں اللہ ہم سب کو صبر جمیل عطافرمائے ـ
جھونکے نسیم خلد کے ہونے لگے نثار
جنت کو اس گلاب کا تھا کب سے انتظار
محمود احمد خاں دریابادی
24 دسمبر 2024 ایک بجے شب