خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
دارالعلوم دیوبند کے عظیم استاذِحدیث ،اونچی نسبتوں کے حامل بزرگ،عالمِ ربانی،شریعت و طریقت کے جامع،ماہرِ علوم عقلیہ و نقلیہ،حضرت مولانا (المعروف بعلامہ )قمر الدین صاحب گورکھپوری بھی،اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ آج صبح تقریباً پانچ بجےبتاریخ19جمادی الثانی مطابق22دسمبر2024 حضرت مولانا دار فانی سے دار جاودانی کی طرف منتقل ہو گئے۔آپ کے جانے سے تاریخِ دارالعلوم دیوبند کے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔تدریس حدیث کا ایک بڑا ستون منہدم ہو گیا۔ سلوک و تصوف کا ایک روشن باب مستور ہو گیا۔ پند و نصائح کاوسیع سلسلہ رک گیا۔ اسلاف کے واقعات اور نصیحت بھرے حالات سنانے والی ایک عظیم شخصیت داغِ مفارقت دے گئی بزرگوں کی باتیں سنا کر دلوں کو گرمانے والے محدث اور صوفی اب نہیں رہے۔
یوں تو آپ کافی دنوں سے علیل چل رہے تھے۔ رہ رہ کے ایسی خبریں آتی تھیں، جن سے لگتا تھا کہ؛حضرت بس اب جانے والے ہیں چراغِ سحرہیں،بجھاچاہتے ہیں ۔لیکن پھر ایسی خبر آجاتی کہ دل کو سکون ہو جاتا۔آج ساری امیدیں ٹوٹ گئیں اور حضرت حقیقی معنوں میں حیاتِ جاودانی سے ہمکنار ہو گئے۔
ہماری طالب علمی کے زمانے میں حضرت رحمہ اللہ علامہ اور شیخِ مسلم سے مشہور تھے؛ کیونکہ؛آپ صحیح مسلم کا درس دیا کرتے تھے اور اس عاجز نے بھی آپ سے صحیح مسلم شریف ہی پڑھی ہے۔علامہ گویا جزوِ نام ہوگیاتھا۔احاطہءدارالعلوم میں کوئی آپ کو علامہ کے بغیر یاد نہیں کرتاتھا۔
دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں غالبا سب سے پہلے علامہ کے لقب سے امام المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ملقب ہوئے۔ اس کے بعد حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی کا جزوِ نام ہوا۔حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی کے بعد اس لقب سے حضرت مولانا قمر الدین صاحب رحمہ اللہ مشہور ہوئے ۔بے شک! آپ اسکےمستحق تھے اور یہ لقب آپ کو جچتا تھا۔
یادش بخیر! بچپن میں جب فارسی یا عربی اول میں تھا۔ غازی آباد کے ایک گاؤں میں، والد محترم کے ایک شاگرد رشید( قاری ابرار صاحب دوتائ) کے یہاں ان کی مدرسے کے سالانہ اجلاس میں شرکت کا موقع ملا۔ اس علاقے اور اس اجلاس کے مہمان خصوصی حضرت مولانا بلال اصغر صاحب دیوبندی رحمہ اللہ ہوا کرتے تھے۔ان کی تقریر وہاں بڑی مقبول تھی۔ اور لوگ ان کے گرویدہ تھے۔ شوق سے ان کی تقریر سنتے تھے لیکن اس سال حضرت مولانا قمر الدین صاحب رحمہ اللہ کو بھی دعوت دی گئی اور آخر میں حضرت کا بیان رکھا۔سفر کے باعث حضرت مولانا قمر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ کو پہلے موقع دیا گیا اور آخر میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب کو موقع دیا گیا۔ حضرت علامہ نے اس موقع پر جو تقریر فرمائی بہت ہی موثر، دل پذیر، پرکشش، دلوں کو موہ لینے والی تھی ۔پورا مجمع ایک عجیب اثر محسوس کر رہا تھا۔ سماں بندھ گیا۔اس تقریر میں آپ نے بزرگانِ دیوبند کے کئی واقعات سنائے،جس سے مجمعے پر ایک خاص کیفیت دیکھنے کوملی ۔مدرسے کے طلبہ کی دستار بندی بھی تھی، تو حضرت ہی کے ہاتھوں دستار بندی کرا دی گئی، اور آخر میں حضرت مولانا بلال اصغر صاحب کو تقریر کے لیے دعوت دی گئی؛ مگر مجمع حضرت مولانا قمر الدین صاحب نور اللہ مرقدہ لوٹ کر جا چکے تھے ۔اب مجمعے میں وہ کیفیت باقی نہیں رہی تھی ۔پہلے والا اشتیاق نظر نہیں آرہا تھا۔ اس پر حضرت مولانا بلال اصغر صاحب پر ایک جلال والی کیفیت بھی نظر آئی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ وہ منتظمین پر کافی ناراض ہیں۔کچھ دیر بعد مجمع پرسکون ہوا، تو حضرت مولانا بلال اصغر صاحب نور اللہ مرقدہ کی تقریر بھی خوب رہی۔ انہوں نے بھی بزرگوں کے حالات واقعات ،صالحین کے قصے،خوبصورت اور دل پذیر نصیحتیں ارشاد فرمائیں۔ سامعین کو خوب فائدہ ہوا۔یہ ایک واقعہ تھا۔ میں اس واقعہ سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ مجمع ،عام دیہاتیوں کا مجمع تھا۔ان میں سیدھے سادے ان پڑھ لوگ زیادہ تھے اور حضرت والا دارالعلوم دیوبند کے محدثِ کبیر ؛لیکن آپ کی تقریر سے ان پر بےحداثر ہوا،بیان موثر اور کافی مفید رہا۔جب آپ جانے لگے، تو مجمع آپ سے ملاقات کے لیے بے تاب نظر آیا، جو ملاقات نہیں کر سکتے تھے صرف زیارت لیے ہی پریشانی اٹھا رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر پڑ رہےتھے؛ کیونکہ اژدہام تھا، بھیڑ تھی اور لوگوں میں ایک عجیب وارفتگی تھی۔
حضرت مولانا جب سبق پڑھاتے تھے اس وقت بھی عشقِ الہی اور عشقِ رسول میں ڈوب کر تقریر فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی درسی تقریریں عام فہم مربوط اور مسلسل ہوا کرتی تھیں۔ بیچ بیچ میں گاہے بگاہے نصیحتیں، اسلاف کی باتیں،بزرگوں کی حکایات،دل پذیر موعظت سے بھی نوازتے تھے۔ ہم جیسے بیکارو غبی قسم کے طالب علمی بھی آپ کی درسی تقریروں کے نور سے خوب حظ اٹھایا کرتے تھے۔بہت اچھا لگتا تھا جب آپ عشق الہی سے سرشار ہو کر ، عشق رسول کی سرمستی میں قال اللہ وقال رسول کے زمزموں کے درمیان، خوبصورت اور نورانی ماحول اور دارالحدیث کے وسیع ہال میں، اصلاحی باتیں فرماتے تھے ۔
دراصل یہ سب ان پاکیزہ، اونچی اور رفیع نسبتوں کے اثرات تھے، جو اللہ پاک نے آپ کو کاملین کی طرف سے عطا فرمائی تھیں۔ سب سے پہلے تو آپ بزرگانِ دیوبند کے تلمیذِ ِرشید تھے جن کی نسبت کی مضبوطی میں دورائے نہیں ہو سکتیں ۔آپ کے تمام اساتذہ اصحابِ نسبت مشائخ تھے۔ پھر آپ کی نسبت حضرت شاہ وصی اللہ صاحب سے قائم ہوئی اور ان کے پاس آپ نے سلوک کے مراحل طے فرمائے غالبا ان کی طرف سے آپ کو اجازت بھی ملی۔اس کے بعد آپ نے سلوک و تصوف میں اصلاحی سلسلہ، حضرت محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب حقی کی ہر دوئی رحمہ اللہ سے قائم فرمایا۔ان کی طرف سے اجازت و خلافت ملی۔ حضرت مولانا قاری صدیق صاحب باندوی نور اللہ مرقدہ اور حضرت مولاناسید محمود حسن صاحب پٹھیڑوی خلیفہ حضرت اقدس شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہم اللہ سے بھی،آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔
اتنی ساری نورانی نسبتیں ،جب ایک سینے میں جمع ہوں اور قران و سنت کا نور پہلے سے وہاں موجود ہو تو ظاہر ہے رشد و ہدایت کے سلسلہ کا کیا ٹھکانہ! ایسے حضرات کی پوری زندگی ان کی ہرادا، نشست و برخاست سراپا ہدایت ہوتی ہے۔ لوگ انہیں دیکھ کر ہی فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور وہ پوری قوم کے لیے نمونہ ہوتے ہیں۔ان کی پوری ہستی، پورا وجود مجمع ِانوارہوتاہے۔ اس لیے حضرت علامہ کے ہر قول و فعل سے انوارات کی بارش ہوتی تھی۔
انہیں پاکیزہ نسبتوں کے اثرات تھے کہ آپ میں دعوت و اصلاح اور تبلیغ و ارشاد کا جذبہ بہت زیادہ موجزن رہتا۔اسی بنیاد پر آپ نے ملک و بیرون ملک بہت سے اسفار فرمائے۔ کئی مرتبہ انگلینڈ اور امریکہ بھی تشریف لے گئے۔ اور کئی سالوں سے رمضان کے اخیر عشرہ میں مسجد ہاشم آمبور(مدراس)میں اعتکاف فرماتے رہے۔ وہاں رہ کر دل پذیر نصیحتیں، اکابر کی خوبصورت زندگی کے واقعات اور مواعظِ حسنہ سے معتکفین، اصلاح لینے والے مریدین، شہر اور بیرون شہر کے عمائدین اور ہزاروں افراد کو مستفید فرماتے رہے۔آپ کے اُن مواعظِ ثمینہ کو جواہرِ قمر کے نام سے شا ئع بھی کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا نور اللہ مرقدہ مشرقی یو پی میں ضلع گورکھپور کے قصبہ بڑھل گنج میں دو فروری 1938 ءکو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم کا نام حاجی بشیر احمد تھا۔ عربی کی ابتدائی اور متوسط تعلیم مبارک پور اور دارالعلوم مؤ میں حاصل کی۔ 1954 میں دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا۔ 1957 میں اس وقت کے مقتدر، مشاہیر اور اساطینِ علم، علماء جیسے شیخ الاسلام حضرت مدنی سید حسین احمد مدنی جاث المعقول والمنقول حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاوی حضرت مولاناسیدفخر الدین صاحب مراد آبادی حضرت مولانا بشیر احمد خان صاحب وغیرہ چوٹی کے اساتذہ سے علمی تشنگی بجھاکر سندِ فراغت حاصل کی اور دو سال فنون کی تکمیل بھی کی۔
فراغت کے بعد کچھ عرصے مدرسہ عبدالرب دہلی میں تدریس کی خدمات انجام دیں پھر اساتذہ کے حکم پر مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں تشریف لے آئے ۔یہاں آپ نے تقریبا تمام ہی کتابیں پڑھائیں اور ترقی کرتے ہوئے درجہءعلیاء تک پہنچے۔دورہءحدیث میں نسائی شریف ابو داؤد شریف اور مسلم شریف کا درس آپ کے ذمہ رہا۔تکمیلِ تفسیر میں تفسیر ابن کثیرکادرس آپ کے متعلق رہا۔ آپ کے تمام دروس طلباء میں مقبول رہے۔
آہ! آج وہ محدثِ عظیم، مرشدِ کامل،مصلحِ زمن ہمیشہ کے لیے ہماری نگاہوں سے روپوش ہو گیۓ۔ وہ بہت دور جا چکے۔ اتنی دور کہ اب ان سے ملاقات اسی وقت ہو سکتی ہے،جب یہ سارا بکھیڑا ختم ہو جائےگا۔ دنیا نابود،کائنات زیروزبراور آخرت قائم ہوگی ۔
رحمہ اللہ تعالیٰ رحمہ واسعہ