دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث وتلمیذ رشید شیخ الاسلام کی رحلت

✒️صادق مظاہری

آج صبح اس جانکاہ خبر نے دل پر بہت اثر کیا جب معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے تلمیذ رشید اور محی السنہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئ رحمہ اللہ کے خلیفہ حضرت مولا علامہ قمرالدین رحمہ اللہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کرگۓ حضرت رحمہ اللہ کو ہم نے سب سے پہلے زمانہ طالب علمی میں اس وقت دیکھا جب ہمارے مشفق و محسن استاذ حضرت مولانا مفتی سلیم بھیسانوی دامت برکاتہم استاذ حدیث مفتاح العلوم جلال آباد نے ان کو مدرسۃ الابرار امرودوں والی مسجد محلہ سیدان تھانہ بھون میں مدعو کیا تھا یہ ٢٠٠٦ ء یا ٢٠٠٧ ء کی بات ہے ہمیں آج بھی یاد ہے جیسے ہی حضرت رحمہ اللہ مدرسہ کے دروازے میں داخل ہوۓ تو ہماری نظر ان کے اوپر پڑی اور کچھ دیر کے لۓ رک گئ ۔ لمبا قد ، وجیہ نورانی چہرہ ، سفید ڈاڈھی ، سفید کپڑے پہنے ہوۓ ہم نے دیکھا ، چال میں وقار ، گفتار میں سنجیدگی ومتانت ، سادگی ان کے انداز سے اور تواضع ان کے مزاج سے جھلکتی تھی ، باتوں سے علم وحلم ، لب ولہجہ میں شفقت ومحبت نظر آتا تھا ، خوش اخلاقی وخندہ روئ سے ملنا ان کا مزاج تھا ، ذھانت وفطانت ان کی پیشانی کی بناوٹ سے ظاہر ہوتی تھی یہ کچھ چیزیں ان کو اس وقت دیکھ کر دل پر نقش ہوگئ تھیں ۔ حضرت رحمہ اللہ کی علمی لیاقت وصلاحیت کا ایک زمانہ معترف رہا ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل دار العلوم دیوبند کا مدرس حدیث ہونا ہے بخاری شریف ، نسائ شریف ، مسلم شریف جیسی عظیم واہم کتابیں ان کے زیر درس رہیں علم وکتاب سے ان کا خاص رشتہ تھا گرچہ ان کی قلمی خدمات منظر عام پر نہ آئیں ہوں لیکن انھوں نے ہزاروں ایسے طلبہ کو تیار کیا ہے جو چلتی پھرتی کتابیں ہیں جن کے علم ومعلومات سے آج دنیا فیض حاصل کر رہی ہے حضرت رحمہ اللہ باکمال مدرس تھے انھوں نے میدان تدریس کو اپنا مشن اور علم دین کی اشاعت وتبلیغ کو اپنا مقصد بنایا تھا جس کے اثرات وثمرات ان کی پوری زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں ان کے تلامذہ سے ہم نے یہ تاثرات سنے ہیں کہ ان کا درس علم ومعلومات سے پُر سہل وآسان زبان میں ہوتا تھا ان کا تدریسی زمانہ تقریبا ٦٦ سال ہے اور دار العلوم دیوبند کا تدریسی دور نصف صدی سے زائد پر محیط ہے یہ ایسی مثالی خدمت دین ہے جس سے بے شمار ایسے افراد تیار کرئیے جاتے ہیں جو ہر میدان میں کام کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں آج حضرت رحمہ اللہ کے تلامذہ ہر میدان میں مل جائیں گے خواہ وہ تدریس ہو یا تبلیغ ، قومی وملی خدمات ہوں یا پھر علمی وتصنیفی کارنامے ۔۔۔ ہر محاذ پر ان کے تلامذہ کام کرتے ہوۓ نظر آجائیں گے ۔۔۔۔۔۔ ان کے ذریعہ بیعت وارشاد کا سلسلہ بھی آگے بڑھا ان کے مریدین ومتوسلین کی ایک جماعت موجود ہے جن میں بہت سے خلفا بھی ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں خانقاہوں واصلاحی مجلسوں کے ذریعہ امت کے اصلاح باطن وظاہر کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور یہ سب حضرت رحمہ اللہ کے لۓ ذخیرہ آخرت ہے ۔۔۔۔۔۔حضرت رحمہ اللہ اگر چاہتے تو بہت شہرت پاجاتے ان کے پاس دار العلوم دیوبند کے استاذ حدیث ہونے کی نسبت مزید حضرت مولانا شاہ ابر الحق ہردوئ رحمہ اللہ کے خلیفہ لیکن ریا ونمود سے دور اور شہرت وناموری سے نفور نے ان کو یکسو بنادیا تھا اور خلوص وللہیت ، خوف وخشیت نے ان کو صالحین کی فہرست میں شامل کرادیا تھا آؤ بھگت کرانا اور خود کو پیر وشیخ ظاہر کرنا اس سے گویا ان کو نفرت تھی یہ جب کہ شہرت اور دولت کی پوجا کا دور ہے انسان کے صالح ومتقی ہونے کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ ان مواقع سے دور رہنے کی کوشش کرے کہ جہاں پر بناوٹی شہرت نے پیر پسار رکھے ہوں اور لوگ اس کو دولت وعہدہ کے ذریعہ خرید رہے ہوں ایسے اشخاص کے حالات زندگی کو جب ہم پڑھیں یا دیکھیں تو ہم جیسے لوگوں کو ان سے یہ سبق لینا چاہۓ کہ اتنے بڑے ہوکر بھی وہ خود کو چھپاتے ہیں اور ہم جیسے لوگ تھوڑا بہت کیا خود کو مشہور کرنے کی تگ ودو میں لگ میں جاتے ہیں ۔۔۔ حضرت رحمہ اللہ بڑہل گنج ضلع گورکھپور یوپی میں ٢ فروری ١٩٣٨ ء میں پیدا ہوۓ اور تقریبا زندگی کی چھیاسی بہاریں دیکھ کر آج ٢٢ دسمبر ٢٠٢٤ ء کو رخصت ہوگۓ
اس وقت حضرت رحمہ اللہ کے تعلق سے مجھے جگر مراد آبادی کا یہ شعر یاد آتا ہے

جان کر من جملہ خاصان مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ مجھے

٢٢ دسمبر ٢٠٢٤ ء

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے