نایاب حسن
9560188574
پہلے تو ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ترکی اب یورپ کا ’مردِ بیمار‘ نہیں؛بلکہ ’مردِ تواناوتنومند‘ اور عالمِ اسلام کی واحد اُمیدگاہ ہے ،گزشتہ تیرہ سال سے وہاں جس پارٹی کی حکومت ہے اس کانام ہے جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی،جسے انگریزی میں شارٹ نامAKPسے بھی جانا جاتا ہے اور عربی میں ”حزب العدالة والتنمیة“ سے،اس کے سربراہ رجب طیب اردوگان ہیں،جولگاتار تین ٹرم ترکی کے وزیر اعظم رہنے کے بعد2014ء میں وہاں کے صدربھی منتخب ہوئے ہیں،اُنھوں نے گزشتہ تیرہ سالوں میں ترکی کا ڈھانچہ اور سانچہ ہی بدل کر رکھ دیاہے، جس طرح کی حکمرانی کی ہے،وہ کم ازکم عربی اور دیگر مسلم ملکوں کے لیے تو نمونہ ہے ہی،جہاں کے حکمراں عیاشی کی سیج پربیٹھ کرعوام کے تئیں ہمدردی کا راگ الاپتے رہتے اور قصرِ شاہی کی مضبوط دیواروں کے اندرمظلوموں کی دادوفریادکی آوازیں پہنچ نہیں پاتیں۔جب ترکی کی زمامِ اقتدار اردوگان کے ہاتھوں میں آئی تھی،اس وقت واقعتاً وہ ایک مردِ بیمار ہی تھا،مگر اردوگان نے اپنے کمالِ ہوش مندی،دانش مندی،سیاسی بصیرت،دوراندیشی و دوربینی سے ترکی کو یو رپی ممالک کے سرخیلوں میں شامل کردیا۔دس سال پہلے تک ترکی کی معیشت انتہائی حد تک خستہ و شکستہ تھی،مگر اب وہ بیس معاشی اعتبار سے طاقت ور ملکوں کی فہرست میں سولہویں نمبر پرہے،جب کہ یورپی ملکوں میں اس کا نمبر چھٹا ہے،دس سال پہلے ترکی پر عالمی بینک کا ملینوں ڈالرقرضہ تھا،مگر آج کی تاریخ میں عالمی بینک ترکی کا قرض دار ہے،دس سال پہلے ترکی کی تعلیمی حالت ناگفتہ بہ تھی،مگرفی الوقت شاید ترکی دنیا کا واحد ایسا ملک ہے،جہاں شعبہٴ تعلیم کا بجٹ دفاع کے شعبے سے بھی زیادہ ہے،مواصلات کے شعبے میں بھی اردوگان نے نت نئے تجربے کیے اور عوام کو ایک سے بڑھ کر ایک سہولت سے مستفیض کیا،ترکی کی وراثتی،تاریخی و سیاحتی حیثیت پہلے سے بھی زیادہ اہمیت کے ساتھ نمایاں ہوکر سامنے آئی اور صرف سیاحت کے ذریعے سے آمدنی میں بیسیوں گنااضافہ ہوا،دینی و اسلامی فضابھی اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ عود کر آئی اور علماے کرام کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس دلانے کے ساتھ حکومت نے دینی تعلیم کے نظام کوبھی منظم ، مربوط و مستحکم کیا،ترکی نے عالمِ اسلام کو در پیش خطرات اور المیوں سے براہِ راست دل چسپی لی اور اردوگان نے پوری دلیری اورجرأت و بسالت کے ساتھ اقوامِ متحدہ تک کے اسٹیج سے عالمی سطح پر مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی نا انصافیوں کا پردہ چاک کیا،فلسطین اور غزہ کے مظلوم و بے کس مسلمانوں کو سہارا دیا اور اسرائیل سے دوبدوہوکراُنھیں اسبابِ خوردونوش و ادویہ پہنچائے،شام ،عراق اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر بحران زدہ ملکوں کے مہاجر مسلمانوں کی دادرسی کی،انھیں اپنے ملک میں پناہ دیا،حتی کہ بہت سوں کو ترکی کی شہریت تک دی،حالیہ دنوں میں جب برماکے مظلوم و مکروب اور بے آسراروہنگیا مسلمان سمندروں کی تہوں پر موت و زیست کے درمیان پیچ و تاب کھارہے تھے اور برماسمیت دیگر کئی نام نہاد مسلم ممالک بھی ان کی آہ و فغاں سے بے نیازکانوں پر ہاتھ دھرے اور منہ میں گھنگھنیاڈالے ہوئے تھے،توترکی نے ہی آغوش شفقت واکیا اور انھیں بچانے کے لیے بحری جہازروانہ کیے،قومی سطح پر اردوگان کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے سیاسی بصیرت مندی اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک میں خالص جمہوری فضا بحال کرنے کی مخلصانہ کوششیں کیں؛چنانچہ اُن قبائل اور طبقات کوبھی کئی دہائیوں کے بعد کھلی فضامیں آزادانہ سانس لینے کا موقع ملا،جوکل تک رسمِ زباں بندی کے پابند تھے،اردوگان نے کردوں کوان کے حقوق دیے،ان کی زبان کو تمام سرکاری اسکولوں میں اختیاری مضمون کے طورپر شاملِ نصاب کیا،جب کہ اس سے پہلے زبان تو کیا،کردی النسل انسانوں کی زندگیاں بھی ہست و نیست کے مابین ہچکولے کھارہی تھی،اردوگان کی اسی کشادہ ظرفی اور جمہوریت نوازی کا نتیجہ ہے کہ کردوں کی نمایندگی والی پارٹی ۸۰/نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہونے جارہی ہے،حالاں کہ بیچ بیچ میں اردوگان کے سیاسی حریفوں نے انھیں بعض ناگزیرفیصلوں کی وجہ سے ڈکٹیٹریا آمربھی ثابت کرناچاہااور ان کے خلاف میڈیاٹرائل بھی کیے گئے،فتح اللہ گولن ٹائپ کے مذہبی سربراہوں نے بھی ان کے خلاف مورچہ بندی کی کوششیں کیں،مگر چوں کہ حقیقت کچھ اور تھی، سوان کے سارے حریفوں کو منہ کی کھانی پڑی اورطویل مدت تک وزیر اعظم رہنے کے بعداردوگان2014ء میں صدرِمملکت بھی منتخب ہوگئے۔
اب حالیہ الیکشن کی طرف،ترکی میں 7/جون کو550/پارلیمانی سیٹوں پرجوعام انتخابات ہوئے ہیں،ان میں چارپارٹیاں ابھر کر سامنے آئی ہیں پہلے نمبرپرتو حکمراں پارٹی ہی ہے،گوکہ اسے حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں مل سکی،دوسرے نمبرپربائیں محاذکی ریپبلکن پیپلزپارٹی ہے، جسے ترکی الیکشن کمیشن کے حتمی اعلان کے مطابق 24.95فیصدووٹ اور132سیٹیں حاصل ہوئیں،تیسرے نمبرپردائیں محاذکی نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی ہے، جسے 16.29فیصدووٹ اور80سیٹیں حاصل ہوئیں،جبکہ چوتھے نمبرپرپیپلزڈیموکریٹک پارٹی ہے،جسے13.12فیصدووٹ اور80سیٹیں حاصل ہوئیں، موٴخرالذکرپارٹی کردوں کی نمایندگی کرتی ہے،ان کے علاوہ دیگر چھوٹی پارٹیوں اورآزادامیدواروں کو4.77فیصدووٹ حاصل ہوئے۔اس الیکشن میں حکمراں جسٹس اینڈڈیولپمنٹ پارٹی کو 40.87فیصدووٹ حاصل ہوئے ،جبکہ نشستیں کل258 حاصل ہوئی ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ یہ الیکشن خالص جمہوری فضامیں منعقدکیاگیا اور کردوں کوپہلی بار ترکی کی پارلیمنٹ میں بامعنیٰ نمایندگی کا موقع ملاہے۔دوسری بات یہ کہ حکمراں جماعت گرچہ بڑی پارٹی بن کر اُبھری مگراسے حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ کم ازکم276سیٹیں حاصل نہ ہوسکیں اوراس طرح چاروں میں سے کوئی بھی جماعت اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ تنہا اور اپنے بل پر حکومت تشکیل دے سکے۔اس سے پہلے2002ء کے الیکشن میں اردوگان کی پارٹی سے365 ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے، 2007ء میں343 اور2011ء میں327،اسی طرح ماضی میں دوباردستورمیں ترمیم کے لیے بھی انتخابات ہوئے اور ان میں بھی جسٹس اینڈ ڈیولپمینٹ پارٹی کوکامیابی ملی ،پہلی بار2007ء میں جس میں65.95فیصدعوام نے دستور میں ترمیم کے حق میں ووٹ کیے اور اسی کے بعدقانون میں تبدیلی کرتے ہوئے یہ طے کیاگیا کہ صدرکا انتخاب ممبران پارلیمنٹ کی بجاے عوامی انتخاب سے ہواکرے گا اورعام انتخابات ہر پانچ سال کی بجاے ہر چار سال بعد ہواکریں گے،دستور میں ترمیم کے لیے دوسرا الیکشن2010ء میں ہوا،اس میں بھی حکمراں جماعت کو عوامی حمایت حاصل ہوئی،جس کے بعدقانونی چارہ جوئی کے انفرادی حق کوتسلیم کیا گیا،اسی طرح1980ء کے انقلاب میں ملوث افراد کے خلاف عدالتی چارہ جوئی میں مخل دفعہ کوختم کیاگیا۔
حالیہ الیکشن کے بعد بھی اردوگان صدرکے اختیارات کے حوالے سے قومی دستور میں چند ضروری اصلاحات کے خواہاں تھے،جسے میڈیااور ان کے سیاسی حریفوں نے اختیارات کواپنی ذات میں مرتکزکرنے کی کوشش سے تعبیر کیا اور انتخابی مہم کے دوران اسی ایک نسبتاًWeak Pointکوبنیاد بناکر اردوگان کے خلاف ماحول سازی کی گئی،اس کے علاوہ ملک کی ترقی و تعمیر کے حوالے سے اردوگان اور ان کی حکومت کی کوئی کمزوری یاخامی ایسی نہ تھی کہ جس کی بنیاد پراُنھیں الیکشن میں مات دینے کی ہمت کی جاسکتی،ویسے سیاسی نقطہٴ نظرسے اگراردوگان الیکشن سے پہلے دستور میں ترامیم کی بات نہ کرتے ،توانھیں فائدہ ہوتااوروہ اکثریت حاصل ہونے کے بعدحسبِ ضرورت اصلاح و ترمیم کاکام کرسکتے تھے،ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس بارجسٹس اینڈڈیولپمنٹ پارٹی کاووٹ فیصد جن حلقوں میں کم ہواہے،وہ زیادہ تر کرداکثریتی علاقے ہیں،جہاں سے کردوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی کوکامیابی حاصل ہوئی ہے،اس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ان خطوں کے عوام نے اردوگان یا ان کی پارٹی کو اس لیے مستردنہیں کیا کہ وہ ملک کے مفادکے لیے کام نہیں کررہی تھی یا بہتر نہ تھی؛بلکہ اس لیے کہ ان کے سامنے ان کی جنس کی سیاسی جماعت کھڑی تھی،جوان کے مفاد کی بات کر رہی تھی،سیاست اور الیکشن میں ذات پات اور برادری کا فیکٹرکس قدر موٴثرثابت ہوتا ہے،اس سے ہم ہندوستانی اچھی طرح واقف ہیں۔
بہرکیف ترکی میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آجانے کے بعد جو سیاسی منظرنامہ اُبھر کر سامنے آیاہے،اس کے مطابق کوئی بھی پارٹی تنہا حکومت سازی کا دعویٰ کرتی ہوئی نظر نہیں آتی،ایسے میں تین آپشنزہے،اول یہ کہ سب سے بڑی پارٹی کسی بھی دوسری پارٹی کو ساتھ لے کر حکومت سازی کے لیے پیش رفت کرے،موجودہ وزیر اعظم احمد داوٴداوغلواور خودصدراردوگان بھی یہی چاہتے ہیں،وہ بات چیت بھی شروع کرچکے ہیں،وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی پارٹی کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی کی رفتارکوآگے بڑھاتے رہیں،جب کہ خبر ہے کہ دوسری جماعتیں اردوگان کی پارٹی کے ساتھ اتحادکے لیے تیار نہیں ہیں،اگرایسا نہیں ہوسکاتوپھر صدرمملکت دوسری پارٹیوں کوحکومت سازی کی دعوت دیں گے اوراگلے 45دنوں میں نئی کابینہ تشکیل دینا ہوگی اوراعتمادکاووٹ بھی حاصل کرنا ہوگا،پھراگریہ بھی نہیں ہوپایایانومنتخب کابینہ پارلیمنٹ میں اعتمادکا ووٹ حاصل نہ کرسکی،توپھر صدرِمملکت نئے سرے سے انتخابا ت کا اعلان کردیں گے اور انتخابات کے دنوں میں کوئی بھی موٴقت وزیر اعظم امورِمملکت دیکھے گا۔
یہ ترکی کی موجودہ و متوقع صورت حال ہے اور دیکھا جائے تو بڑی نازک ہے،میرے خیال سے اردوگان کی حریف تینوں میں سے کسی بھی پارٹی کوان کے ساتھ ضرورہاتھ ملالینا چاہیے اور جواس میں جلدی کرے گی،اتناہی بہترہوگا،خوداس کے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی؛کیوں کہ سیاسی اعتبار سے خود اس پارٹی کوبھی فائدہ ملے گا،دوسرے یہ کہ گزشتہ تیرہ سالوں سے حکومت کرنے والی پارٹی کے تجربات سے فائدہ اٹھانے اور ملک کی ترقی و تعمیر میں حصہ لینے کا موقع ملے گا اورعالمی سطح پربھی یقیناً اُس پارٹی کی مقبولیت کے گراف میں اضافہ ہوگا۔ویسے سیاست ہے بڑی عجیب و غریب چیز،سب کہتے ہیں کہ اس کے پہلومیں دل ہی نہیں ہوتا،شاید اسی وجہ سے سیاست داں عموماً سفاک ہوتے ہیں،انھیں صرف اپنا مفاد نظر آتاہے،جن کے نام پرووٹ اور جیت حاصل کرتے ہیں،وہ جائیں بھاڑمیں،اگرترکی میں بھی ایسا ہی ہوا اوراردوگان کی پارٹی سے الگ دیگرپارٹیوں نے مل کر حکومت تشکیل دینے کی کوشش کی یا دوبارہ الیکشن کی نوبت آگئی،توپھرکسی بھی بڑی انہونی کاہوناممکن ہوگا۔ویسے ہماری تودعاہے کہ خداترکی کی سیاست کو تند خو موجوں سے محفوظ رکھے،کہ وہ ابھی تنِ تنہا عالمِ اسلام کے رِستے ہوئے زخموں پرمرہم نہانی کا مقدس فریضہ انجام دے رہاہے۔