آزاد دینی مدارس: ملت کے قیمتی اثاثے

آزاد مدارسِ دینیہ یقیناً زبوں حالی کے شکار ہیں، ان کے نظام میں بہت ساری خرابیاں پیدا ہوچکی ہیں اور ان کے ذمہ داروں میں اخلاص کی مقدار کم ہوتی جارہی ہے مگر ان ساری خرابیوں کے باوجود یہ آزاد مدارس اب بھی بہت غنیمت ہیں اور جو کچھ مسلمانوں میں دین اور اس سے محبت باقی ہے، اور مساجد و مدارس اور اسلامی شعائر سے تعلق اور اسلامی جذبہ باقی ہے وہ انہی مدارس کی دین اور کارنامہ ہے. ملک میں یہی آزاد مدارس مسلمانوں کا دین وایمان تھامے ہوئے ہیں. ان مدارس کا آزاد رہنا ہی ان کا اصل زیور اور جوہر اور روح ہے. جن جن ممالک میں مدارس حکومت کے ماتحت ہوئے اور امداد یافتہ ہوئے وہ برباد ہوگئے، بے روح ہوگئے، بولنے کی ان کی آزادی مسلوب ہوگئی اور جو بولے وہ مصلوب ہوگئے خواہ وہ عرب ممالک ہوں یا دوسرے علاقے ہوں. مدارس کے لئے ان کے لبوں کا آزاد رہنا بہت ضروری چیز ہے اور یہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے. یہ آزاد مدارس ہی ہیں جنہوں نے ملک میں جب جب مسلمانوں کے خلاف اسکیمیں تیار ہوئیں آواز بلند کی اور تحریکیں چلائی. ظاہر ہے کہ سرکاری مدارس سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے. چند سال قبل مسلم دانشوران کا ایک بڑا طبقہ آزاد مدارس کو سرکاری بورڈ سے ملحق کرانے کی جدو جہد میں بہت سرگرم اور ملوث تھا اور الحاق کے فوائد وفضائل پر دفتر سیاہ کررہا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ ملک کے تمام بڑے مدارس نے بیک آواز اس پیشکش کو ٹھکرادیا، اس کی مخالفت کی اور مدارس ان کچھ پیسوں اور دام کے عوض سرکاری دام میں جانے سے بچ گئے. یہ بات بہت واضح ہے کہ سرکار اگر مدارس کو امداد اور تنخواہیں دیگی تو اپنی مخصوص شرطیں بھی رکھے گی جن سے مدارس کا مقصدِ قیام دم توڑ دے گا. ممکن ہے کہ شروع میں یہ شرطیں معمولی اور کم ہوں مگر بعد میں وہ سخت ہوتی چلی جائینگی. دانا کسی کو دام میں لانا چاہتا ہے تو پہلے دانہ ڈالتا ہے اور زیادہ دام دیتا ہے اور پھر شکار زیرِ دام اور بے دم ہوجاتا ہے. نیز، سرکاری تسلط کے بعد سرکار جب چاہے انہیں بیک جنبشِ قلم ختم کرسکتی ہے. آسام کی مثال تازہ ترین ہے.

آزاد مدارس کی افادیت اظہر من الشمس ہے. آج عوام بھی دین کے لئے اگر متوجہ ہوتی ہے تو انہی آزاد مدارس کے علماء کی طرف متوجہ ہوتی ہے. نکاح طلاق، نماز روزے وغیرہ کے مسائل جب اسے پوچھنا ہوتا ہے تو سرکاری مدارس یا سرکاری اداروں کے اسلامک اسٹڈیز میں بھاری بھرکم ڈگری برداروں اور ایم اے وپی ایچ ڈی ہولڈروں کے پاس وہ نہیں جاتی ہے بلکہ آزاد دینی مدارس کے علماء کے پاس ہی جاتی ہے، ان عوام کو بھی دینی رہنمائی کے بارے میں انہی آزاد مدارس کے علماء پر اعتماد ہوتا ہے.

لہذا تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص ذمہ دارانِ مدارس کو مدارسِ دینیہ اور ملت کے ان قیمتی اثاثوں کو سرکاری امداد اور مداخلت سے بچائے رکھنا چاہیے. اسی میں عافیت ہے اور فتنوں سے حفاظت ہے. اگر دینی مدارس کو آزاد نہیں رکھا گیا تو ان کے لب بولنے کے لئے آزاد نہیں رہ سکینگے اور سب کچھ تباہ ہوجائے گا.

محمد عبید اللہ قاسمی
مورخہ 20 دسمبر، 2024

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے