علماء اپنی اولاد کے دین کی فکر کریں

قدیم زمانے میں علماء کی اولاد عموماً حافظ وعالم ہوتی تھی اور یہ بات معقول بھی تھی مگر موجودہ زمانے میں علماء کی اولاد بہت کم عالم وحافظ بنتی نظر آرہی ہے. ان کے اندر بگاڑ بہت زیادہ پیدا ہورہا ہے. اور اس کی وجہ دینی تعلیم اور دینی صحبت کا نہ ہونا ہے. دینی تعلیم نہ ہونے اور اچھی صحبت نہ ملنے کی وجہ سے اور محض عصری تعلیم کی وجہ سے بڑے بڑے علماء اور مشائخ کی اولاد کو پہچاننا بھی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم. دینی تعلیم اور صحبت وتربیت کے فقدان کی وجہ سے بسا اوقات ان کے عقائد بھی بگڑ جاتے ہیں، دوسروں کے شکار بن جاتے ہیں اور اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. کسی بھی مسلمان شخص کی اولاد کے ساتھ یہ معاملہ ہو تو انتہائی افسوسناک بات ہے لیکن اگر ارتداد یا نیم ارتداد کے واقعات علماء کی اولاد میں پیش آنے لگیں تو یہ بہت زیادہ صدمے کی بات ہے اور لمحہِ فکریہ ہے. علماء عموماً دوسروں کی تعلیم وتربیت اور اصلاحی ودعوتی اسفار کی کثرت کی وجہ سے اپنے گھر سے بیگانہ ہوتے ہیں اور اولاد کی دینی حالت سے ناواقف ہوتے ہیں مگر ایسا ہونا نہیں چاہیے. یہ صورتحال كلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيته کے تقاضے کے خلاف ہے. "…إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ. اپنی اولاد کے ایمان کی فکر کرنا اور مرنے سے پہلے توحید وایمان پر ان کی تربیت کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے اور علماء کے لئے تو بدرجہِ اولی فریضہ ہے. علماء کے گھروں میں ان کی اولاد اگر صریح دینی احکامات کی خلاف ورزی میں مصروف ہے، نماز روزے سے غافل ہے اور عقائد میں بگڑ رہی ہے تو یہ بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے. لہذا ضرورت ہے کہ علماء دوسروں کی اصلاح اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور اپنی اولاد کو فراموش نہ کریں، ان کو دینی تعلیم دیں اور ان پر نگاہ رکھیں ورنہ بہت پچھتانا پڑ سکتا ہے اور عند اللہ مواخذہ ہوسکتا ہے.

محمد عبید اللہ قاسمی

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے