مشتاق خان علیگ Mushtaq Khan
مجسّم نجابت و شرافت ، علم و فضل ، اخلاق و کردار ، خلوص و محبت ، اقدار و معیار ، قناعت و غنا ، اعلٰی ظرفی و شیریں زبانی و جملہ ہائے خوبیوں کے مالک خُوبصورت ترین پُر جاذب شخصیت کہ گر ایک بار راہ چلتے ملاقات ہو جاۓ تو شاید زِندگی بھر نہ بھولئے۔
اپنے مزاج کے عین مطابق اوائل دسمبر یعنی خنک سردیوں اور ہلکی معتدل سردیوں کی دھوپ کی نرمی کی شام کو اپنے مالک حقیقی سے مِلنے کو ترجیح دیا ۔
عارضہ قلب تھا لیکن وه قلب ایسا بھی نہیں کہ انکی دھان پان کایا کو سنبھالنے اور مزید دو عشرے عُمر رواں کو جاری رکھنے سے معذور ہوتا . لیکِن مشیت ایزدی کے اپنے کاروبار ہیں ، اپنا ہی انداز ہے ، کِسی کو کیا خبر کہ یزداں کب کسی پر فریفتہ ہو جائے ۔
لمبائی مائل درمیانہ قد ، گیہواں رنگ ، ہلکی خشخشی شرعی داڑھی ، سر کے بال بہُت چھوٹے ، کرتا ، پایجامہ ایک خاص انداز کا جو اُنہی کے ساتھ مخصوص رہا ، دو پلی ٹوپی ، چشمہ بوقت ضرورت ، ایک اُنکی سائیکل جو کبھی کبھی ۳۰ ، ۴۰ کیلومیٹر کی دوریاں بآسانی طے کر لیتی ۔ ورنہ پانچ وقت اسٹیشن والی مسجد اور اپنے مدرسے معین الاسلام میں آنے جانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی . راستے میں کوئ مِلنے والا ضرور مِل جاتا ۔ کبھی صرف سلام کر کے گزرتے جاتے کبھی چند لمہوں کو رک کر کلام فرماتے ۔ پھر وہ چھوٹی سی کلائی گھڑی مسجد بوقت پہنچنے کی ضرورت کا اشارہ کرتی ۔
ملاقات کی توقع لئے لوگ اسٹیشن والی مسجد میں بوقت کِسی بھی نماز میں معتکف رہتے یاں تک کہ شرف مُلاقات حاصل نہ ہو جاۓ ۔ ہر کس و ناکس سے خوب ہی خندہ پیشانی سے ملتے ، قریب کے ہوٹل میں تواضع فرماتے ۔ ہر ایک شخص کی جملہ خوبیوں کا اُنھیں علم ہوتا ورنہ ایسی ایسی خوبیاں بیان فرماتے کہ اُسے بھی خبر نہ ہوتی اور بے شک اسمیں مبالغہ نہ ہوتا . یہ شخصیت کے جاذبیت کی انتہا تھی کہ کوئی آدمی اُنھیں نظر انداز کر کے نِکل جانے کی ہمت ہی نہ کر پاتا . بلکہ اگر دو دن کیلئے شہر آیا ہے تو ایک دن تو ضرور حضرت مولانا سے مِلنے کو فارغ رکھتا ۔ خُدا نے اپنے چند چنندہ بندوں میں یہ خوبی ضرور رکھی ہے کہ اُن کا قرب پا کر وہ خوشی سکون محسوس ہوتی ہے کہ وہ زِندگی کے تجربات میں شامل ہو جاتا ہے ۔
خُدا جانے کتنے ہزار جوڑوں کے نکاح ناموں میں حضرت کی دستخط و مہر ثبت ہے ۔ وہ ہزاروں خطبے و تقاریر ۔ ہزاروں فارغین جامعہ کے اسناد پر بطورِ مہتمم دستخط کنندہ ۔ لوگوں کے ارمان رہتے بلکہ شرط رہتی کہ نکاح حضرت مولانا قاسمی صاحب ہی پڑھاینگے۔ قرب و جوار کے اضلاع تک میں یہ بات پھیلی ہوئی تھی .
بہُت سارے مواقع ملے کہ بُلند و بالا پوزیشن حاصل کی جا سکتی تھی لیکن خُدا جانے اُس مٹی سے کیا انس تھا کہ کبھی طویل عرصے کیلئے اُس سر زمین کو نہیں چھوڑا جہاں پہلی سانس لی تھی ۔ اُسی سرزمیں کو مرقد نورانی سے آراستہ کیا .
خاندان کے افراد کو ساتھ لےکر ، اُنکو تمامی خوبيوں ، علم فضل عمل و شخصیت سازی سے آراستہ کرنے ، صحیح رہنمائی ، رہبری فرمانا جسکے نتیجے میں مولانا ریاض الحسن قاسمی صاحب کے گھرانے سے چندے آفتاب و چندے مہتاب ، صاحبِ علم و دانش ، مشہور و مقبول و معروف لوگ نکلے اور وہ آزاد نگر کا چھوٹا سا گھر علم کا گہوارہ بنا ۔
کِسی زمانے میں گھر تشریف لاتے کِیُونکہ والد صاحب جناب شمشاد احمد صاحب سے بہُت گہرا برادرانہ تعلّق تھا ۔ سال میں ایک بار ہفتے بھر کی ملاقات ضرور ہوتی ، گھنٹوں باتیں ہوتیں ، پھر مدرسے کے کام سے کہیں کہیں نِکل جاتے ، شام میں مُلاقات ہوتی ، وفور شوق میں والد ہمیں آگے کرتے ، قرآن ، دعائیں ، سورتیں جو یاد ہوتیں سناتے ، بہُت خوش ہوتے ، پتہ نہیں کِس ادائے خاص پر نہایت ذہین ہونےکی داد دیتے اور اِسکا تذکرہ تمام دور و قریب کے عزیزوں سے کرتے . علیگڑھ میں داخلہ پانے پر بہُت زیادہ خوش تھے ، ایک بار ہاسٹل ملاقات کو بھی تشریف لائے ۔ علیگڑھ کے اکابرین کے ساتھ اُنکی بدولت اچھی ملاقات رہی اور ہم مولانا ریاض صاحب کے بھتیجے کے طور پر جانے گئے .
مسرت و انبساط ہمیشہ چہرے پر چھائی ہوتی ، تکالیف کا ، نا آسودگیوں کا ، وقتي پریشانیوں کا اِظہار کِسی سے بھی نہ کرتے ۔ حالانکہ زِندگی اپنے حصّے کے دکھ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔
اسی درمیان گھر میں کب شادی بیاہ ، ختنہ ، عقیقہ کے رسوم گذر جاتے اُنکی اپنی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہ ہوتی ۔ اللہ نے معتدد بار اپنے دربارِ خاص مکہ و کعبہ میں حاضری کی توفیق عطا فرمائی ۔ وہاں عرب میں مقیم اپنی ہمشیرہ کے بچّوں کی عربی دانی ، طفلانہ حرکات کا خوب ذِکر کرتے ۔
کسر نفسی اور عمومیت کے قائل رہے ۔ حضرت نظام الدین میں تشریف آوری پر ہمیشہ ملاقات رہتی ، کہیں بیٹھ کر چائے لسی پی جاتی ، یہاں وہاں کے تذکرے ہوتے پھر مغرب کی اذان ہوتی محفل برخواست ، کُچھ موقعوں پر گھر تشریف لائے ، آرام کیا پھر واپسی فرمائی ۔ والد صاحب سے آخری مُلاقات فروری 2001 میں رہی 10 اور 11 تاریخ کو پھر مبينہ صحتوں نے دوبارہ ملاقات کی اجازت نہیں دی ، والد صاحب 20 نومبر 2010 کو سفر عدیم آباد کو روانہ ہوئے اب زيارت صبح کے کچے خوابوں میں ہوتی ہے جب یا تو نا آسودہ تمنائے دید جہاں کی فرمائش ہوتی ہے یا ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کہ بالکل اکیلا ہوں ، باتیں کرینگے لیکن پتہ نہیں کیا سوچ کر دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے بہُت دن یہ جُدائی نہیں رہےگی ، ایک دن ہمراہ ضرور لے جائینگے اور وہ اِس زِندگی کا آخری لمحہ ہوگا .
کل صبح تو دونوں بھائی مع ایک اور بزرگ کے خواب میں تشریف لائے اور کہا ایسا کُچھ نہیں ہے جِس سے لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں ۔ ہم لوگ بالکل آرام و سکون سے رہتے ہیں ۔ بس وقت بہُت ہوتا ہے جو آسانی سے کٹتا نہیں ۔ اِس دُنیا میں موت کا اِنتظار و کھٹکا لگا رہتا تھا ، وہاں تو وہ بھی نہیں ۔ بس جئے جاؤ جئے جاؤ ۔
موت کا بھی علاج ہو شاید
زِندگی کا کوئی علاج نہیں
اوائل عمری سے شہر میں رہنا شروع کر دیا تھا لیکن گاؤں سے ہمیشہ ناطہ بنا رہا اُنکی والدہ فاطمہ امّاں بڑی بڑی خوبیوں کی مالک تھیں نہایت ذی وقار ، با عزت ، نرم مزاج ، با عمل خاتون رہیں ، والد صاحب دادا منہاج زمینداری ، شہروں میں بڑی کمپنیوں میں ملازمت وغیرہ میں مصروف رہے .
شعر و سخن مولانا کی پسند ہمیشہ رہے لیکِن کبھی ایسی کِسی محفل میں با قاعدہ شریک نہیں ہوتے ، اُنکے بہترین شعراء اور شائقین سُخن اُنکے پاس ضرور آتے ، مُلاقات کرتے ، تخلیقات سے نوازتے اور مولانا زیرِ لب مُسکرا کر تحسین فرماتے .
سیا سیا ت سے کوئی علاقہ نہیں لیکِن سرکاروں کے ذریعے اِنسانی جانوں کی تلفی ، بالخصوص مسلمانوں پر حد سے زیادہ ظلم و سِتم کبیدہ خاطر بنائے رکھتی ، بڑی مسرت کے ساتھ اس دُنیا کا ساتھ چھوٹا ہوتا اگر ان نمونوں سے چھٹکارے کی کہیں سے نوید مِل جاتی .
بہترین چنندہ کتابیں و رسائل ضرور زیرِ مطالعہ رہتے ، کئی مذہبی جماعتوں سے قلبی و عملی تعلّق رہا لیکِن بوقت ضرورت ہلکے الفاظ میں تنقید بھی ضرور فرماتے ۔
زِندگی جینے کی ، اصول پسندی کی ، اخلاقیات کا جو معیار اوائل عُمر میں بنایا تھا وہ زمانہ اخیر تک یکسانیت سے قائم رہا . اپنے جائز حقوق سے دوسروں کی خوشی کی خاطر دست بردار ہو جاتے اور کمال یہ کہ کہیں ذِکر تک نہیں کرتے ۔
اُنکے کئی ہم جماعت علی گڑھ یونیورسیٹی میں ائمہ و خطیب ہاسٹلوں کی مختلف مسجدوں میں بنے اور اُنسے حضرت کے بارے میں گُفتگو ہوتی تو بہترین القاب سے یاد کرتے . اب تو انمیں سے بہُت سے ساکن عدیم آباد ہوۓ اور اگر جو موجود بھی ہوں تو قہر پیرانہ سالی سے نبرد آزما ہونگے .
جِس دور میں مولانا طالبعلمی سے فارغ ہو کر تشریف لائے تھے وہ ایسا وقت قطعی نہیں تھا کہ ہر سو تعلیم و تعلم کا دورِ دورہ ہو ، لوگ آسودہ خاطر ہوں اور زِندگی خراماں خراماں اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہو ۔ یقین مانیں نہائت کسمپرسی ، بہُت زیادہ تکالیف کا دور تھا ۔ علم و عالم تو کوسوں ڈھونڈنے سے نہ ملتا . سخت محتاجی کی زندگیاں تھیں ۔ اُس دورِ تاریک میں آپکی شخصیت ایک نعمت غیر مترقبہ تھی ۔ لوگ ترسے ہوئے تھے ۔ آپکی آمد سے بہُت مثبت ہلچل ہوئی ، لوگوں کو پتہ چلا کہ وہ راستے کونسے ہیں جو جامعات کی طرف جاتے ہیں ۔ پھر ایک مدت کے بعد تعلیم نسواں کی طرف بھی لوگ چلے . اور آج معلمہ تک بچیاں پہنچ رہی ہیں ۔ ایک خطے میں تعلیمی ہلچل کی کاوش کیلئے مولانا کو ضرور یاد رکھنا چاہیے ، گو کہ یہ نہیں ہؤا پھر بھی مکافات عمل کے طور پر اب ہو سکتاہے . کُچھ یادگار شایان شان کی ضرور پیشقدمی کرنی چاہئے۔ مولانا سلمان بن ریاض الحسن قاسمی سے اُمیدیں وابستہ ہیں۔
اِس خاک وطن کا ہر رواں تیرا بہُت مقروض ہے
اے فرشتے تُو اِس خاک کو اوڑھ کر جو سو گیا ہے
