نئی کتاب: اجالے اپنی یادوں کے (مبارک پور نامہ)

مصنف : ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی
صفحات : 176 . قیمت 200 روپے
اشاعت : 2024 م
ناشر : مرکزی پبلی کیشنز ، نئی دہلی ۔
رابطہ :
+91 97189 21072

تعارف نگار: ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند


یہ جناب ڈاکٹر فاروق اعظم قاسمی کے بچپن کی ان یادوں کی دستاویز ہے جو ان کے حافظے میں محفوظ و مرتسم تھی ۔ "مبارک پور "میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی ، قرآن پاک پڑھا ، ” حفظ "کیا ۔ "مبارک پور "مردم خیز بستی ہے ،میں نے اس کے بارے میں اپنے دوست جناب ڈاکٹر مفتی سعد مشتاق حصیری قاسمی اور جناب مولانا سعود عالم قاسمی سے بہت کچھ سنا تھا ، سن سن کر عقیدت دل میں بیٹھ گئی تھی ، اس بستی میں "شیوخ "کی آبادی ہے اور یہ شیوخ "جون پور "،یوپی ، سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے ، ایسے دسیوں گاؤں ہیں ، جہاں جونپور سے آنے والے شیوخ قیام پذیر ہوئے ۔ میرے ہمنام حضرت مولانا اشتیاق احمد قاسمی ، "رکنِ مجلس شورٰی” دارالعلوم دیوبند، موصوف کے چچا ہیں ، حضرت شیخ زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں ، جامع العلوم مظفر پور میں "شیخ الحدیث "ہیں ، حضرت مولانا اقبال احمد قاسمی یہ ان کے دوسرے بھائی ہیں ، مولانا نثار احمد حصیری قاسمی سے حیدآباد میں ملاقات ہوئی ، ان کی زبان ، بیان ، صحافت اور اسلوبِ نگارش سے واقف ہوا ، دارالعلوم حیدراباد کے سابق صدر المدرسین مولانا فضل الرحمن قاسمی ، ڈاکٹر عبدالباسط حمیدی اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاد مولانا حفظ الرحمن ندوی وغیرہ شخصیات کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ اسی مردم خیز بستی کے آفتاب و ماہتاب ہیں ۔ یہ ساری باتیں سنی سنائی تھیں ، لیکن جب "مبارک پور نامہ” میرے سامنے آیا تو اس نے اس بستی کا اچھا خاصا تعارف کرادیا ، پڑھ کر معلومات میں اضافہ ہوا ۔
یہ مجموعہ ایک” سرگزشت” ہے ایسے ذہین ترین طالب علم کی جس نے حیرت انگیز حافظے سے اپنی مادر علمی کا شش جہتی تعارف کرایا ، مصنف کا حافظہ قابلِ داد ہے کہ انہوں نے محض اپنے حافظے سے بہت سی ایسی باریکیوں کو لکھا جو عام طور سے بھول جاتی ہیں ، اسلوبِ نگارش بھی خوب دلچسپ ہے ۔
"میتھلی زبان” کا بے تکلفی سے استعمال نے بڑا لطف دیا ، اس میں جب علاقائی زبان کو بالکل اسی علاقے کے لہجے میں جگہ جگہ کامیابی کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا تو بڑا مزہ آیا اور حضرت مولانا عبدالماجد دریا بادی کی نگارشات یاد آنے لگیں ۔ مثلاً : بھینٹ (پانی کا پھل ) ، گوئیٹھا ، کھپڑی ، چینگا (مچھلی) اِچنا (مچھلی) بورسی ، نر کٹ ،سک دم ، کچیا ،اینوس مولی ساہیب وغیرہ ۔ اس طرح کے بہت سے الفاظ اور اسلوبِ سے روشناسی ہوئی ، اس میں میتھلی زبان کے ایسے مفردات بھی خوب ملے جو اردو لغات نے نہیں لیے ہیں ، مولانا دریابادی کی نگارشات میں بھی "پوربی یو پی "کے بہت سے علاقائی اور دیہاتی الفاظ بلا تکلف استعمال ہوئے ہیں، کوئی دوسرا اتنی کامیابی کے ساتھ استعمال نہیں کرتا ، مجھے کسی کی تحریر میں ایسی برجستگی کے ساتھ استعمال نظر سے نہیں گزرا ، مصنف عزیز نے بڑا لطف دیا ۔
البتہ بعض الفاظ اور تعبیرات پر راقم کو تأمل ہوا ، مثلاً "سیکڑوں ” میں "ی” کے بعد” ن” ( ص 25) لکھنا ۔ ایک جگہ "ہنروراں” (ص 81) لکھا ہے ، اگر اس کی جگہ” ہنرمنداں ” لکھتے تو اچھا لگتا ۔ اسی طرح ایک جگہ لکھا ہے :
"۔۔۔۔۔۔۔ دم میں ہاتھ لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔” (ص 48) اگر اس طرح لکھتے :
"۔۔۔۔۔۔۔ دم پر ہاتھ رکھ دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ” تو بہتر ہوتا ۔
اس طرح کی تعبیرات میں لکھنے والے کے اختیاری تمیزی کو بڑا دخل ہوتا ہے ، اس لیے یہ کوئی عیب کی بات نہیں۔
ادنی سی فرو گزاشت کے باوجود اگر عزیز القدر کی نگارشات کا زبان و بیان اور لسانی زاویے سے جائزہ لیاجائے تو متعدد انفرادیت نکھر کر سامنے آئے گی ۔
موصوف کی "منظر نگاری” بھی بڑی عمدہ ہے ، اس میں ان کا قلم بہت کامیاب ہے ، واقعہ کو ویسے ہی لکھتے ہیں جیسا پیش آیا ہوا ہوتا ہے ، ایسا لگنے لگتا ہے کہ واقعہ سامنے ہے اور قاری خود مشاہدہ کر رہا ہے ۔
"دہقانی کلچر” کی منظر نگاری ہر صاحبِ قلم پسندیدہ اسلوب میں نہیں کر سکتا ، یہ فاروق اعظم قاسمی کا ہی کمال ہے ۔
"وقائع نگاری ” میں بھی موصوف کا امتیاز مسلم ہے ۔ "ٹرین "کی چھت پر سفر اور ٹرین میں سامان "بیچنے والوں” کی حکایت "کھانٹی میتھلی” زبان میں پڑھ کر بڑا مزہ آیا ۔
"طنز "نویسی و” مزاح” نگاری میں فاروق اعظم قاسمی نے بھی بڑا عمدہ پیرایہ اختیار کیا ہے ۔ "رحل کی شہادت” کا پُر درد بیان اور پھر اس کی تدفین ۔ ” تراویح” پڑھنے والے طلبہ کا حافظ صاحب کو تابڑ توڑ لقمہ دینا اور پھر سزا پا کر بھگایا جانا اور انتقام میں نمازیوں کے چپل جوتوں کو” پوکھر” میں پھینک دینا ، اس کو پڑھ کر اتنا مزہ آیا کہ میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گیا ، اہلیہ پوچھتی رہی کہ کیا بات ہے کہ آپ اکیلے ہنستے جا رہے ہیں ۔
"مبارک پور نامہ ” شروع ہوتا ہے” باتیں اپنی” سے ، "مقدمہ "اور "پیش نامہ "کے بعد مبارک پور کا "تعارف” اور اس کا "جغرافیہ” بیان کیا گیا ہے ،
"مدرسہ اسلامیہ محمودیہ” جو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے نسبت رکھتا ہے ، اس کا تعارف پیش کیا ہے ، مدرسہ کے نامور اساتذہ کا ذکرِ خیر بڑے اچھے انداز میں کیا ہے ، مجاہدِ آزادی مولانا عبدالوحید رحمانی کا ذکرِ خیر بھی بڑے عمدہ اسلوب میں کیا ہے ، گاؤں کے سربر آوردہ حضرات کا تذکرہ بھی خوب ہے ، اس گاؤں کے "اصحابِ علم و کمال ” کو بھی موصوف نے الگ الگ نمایاں انداز میں متعارف کرایا ہے ، مقدمہ میں مبارک پور کی خوبیوں پر جناب ڈاکٹر ابو صالح نے بھی خوب لکھا ہے ، اس سے مبارک پور کا اچھا خاصا تعارف ہو جاتا ہے ۔ فاروق اعظم قاسمی نے گاؤں کے کلچر کو ، شادی بیاہ کو ، دولہے کی ہیئت کو ، بارات کو ، مدرسے کے جلسے ، گاؤں والوں کی دعوت ، گاؤں والوں کا طلبہ مدارس سے محبت شفقت ، گاؤں کی عورتوں کی کارکردگی ، بلکہ کارنامے خوب بیان کیے ہیں ، انہوں نے اپنے دوستوں کی بھی لمبی تفصیل لکھی ہے ، ان کا اچھا خاصہ تعارف کرایا ہے ۔
غرض یہ ہے کہ مبارک پور نامہ مجھے پسند آیا ، مختلف اہلِ قلم کی تائیدات کتاب کے مقام و منزلت کے سمجھنے کے لیے کافی ہیں ۔ اللہ تعالی مصنف کو خوب خوب لکھنے کی توفیق نصیب فرمائیں اور ان کی تحریروں کو ذخیرہ دنیا و آخرت بنائیں!

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے