یمین الدین احمد
یوں سمجھ لیجیے کہ آپ اس وقت ایک دو راہے پر کھڑے ہیں۔
ایک طرف کو راستہ مشکل اور مشقّت والا ہے اور اوپر کی طرف جاتا ہے، جو آپ سے سخت محنت، قربانی اور ہمت کا مطالبہ کرتا ہے۔ البتہ آگے چل کر یہ راستہ ہموار ہو جائے گا اور مشقّت کم ہو جائے گی۔
دوسرا راستہ ہموار، کشادہ، اور فوری طور پر آرام دہ لگتا ہے۔ لیکن خبر یہ ہے کہ یہ راستہ آگے چل کر مشکل تر ہوتا جائے گا اور مشقّت بڑھ جائے گی۔
آپ اپنے لیے کون سا راستہ چنیں گے؟
زیر نظر تصویر ایک گہری حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔
اگر آپ آج مشقّت اٹھاتے ہیں، تو آپ آگے چل کر بلندی پر پہنچتے ہیں، جہاں راستہ آسان ہوتا جاتا ہے اور آپ اپنی محنت کا پھل حاصل کرتے ہیں۔
لیکن اگر آپ آج آسانی چنتے ہیں، تو زندگی آخرکار آپ سے اس کی قیمت طلب کرے گی، اور اس آسانی کی قیمت بہت زیادہ ہوگی—انتہائی زیادہ—اور بعض اوقات اس قیمت کی ادائیگی بہت مشکل ہو سکتی ہے۔
صلاح الدین ایوبی کے بارے میں پڑھ رہا تھا۔ بچپن میں انہیں آرام اور آسائش سے نہیں پالا گیا۔ ان کے والدین کا ایک بڑا وژن تھا—القدس کو کفر سے آزاد کرانا۔ اسی لیے انہوں نے انہیں غیر متزلزل نظم و ضبط، فوکس اور مشقّت کے ساتھ پروان چڑھایا۔
شروع میں، انہوں نے حکمت عملی سیکھنے، خود پر قابو پانے، اور آسانیوں کی قربانی دینے کے معاملے میں کافی مشقّت اٹھائی۔ لیکن اسی ابتدائی جدوجہد اور مشقّت کی بدولت وہ تاریخ میں زندہ ہیں۔
آپ تاریخ میں کسی بھی ایسے انسان کو دیکھ لیں جس نے شروع میں مشقّت اٹھائی، بعد میں ان کے لئے راستہ آسان ہوا۔
آج بھی کسی ایسے انسان کو دیکھ لیں جو آپ کو زندگی میں کامیاب نظر آتا ہے اور لوگ اس سے کچھ کرنے کی تحریک لیتے ہیں، سیکھتے ہیں، اور جاننا چاہتے ہیں،
تو آپ کو نظر آئے گا کہ اکثر ابتدا میں مشقّت والی زندگی گزری ہوگی بلکل ایسے جیسے اوپر کی طرف چڑھ رہے ہوں۔ لیکن بالآخر اللہ ان کے لئے بعد میں آسانی پیدا فرما دیتے ہیں۔
اور آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو اپنا وقت جب بہت ہوتا ہے تو تفریح اور کھیل تماشوں میں صرف کر دیتے ہیں، لیکن پھر زندگی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، مشقتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
خود پر محنت نہیں کی ہوتی اور اب ذمہ داریوں کا بوجھ کاندھوں پر آ چکا ہوتا ہے، راستہ جیسے دشوار تر ہو چکا ہوتا ہے اور چڑھنا مشکل تر معلوم ہوتا ہے۔
اب اپنی زندگی پر غور کریں۔
آپ فوری آرام کی تلاش تو نہیں کرتے؟
فوری حاصل ہونے والے مزے کے پیچھے تو نہیں بھاگتے؟
موبائل کی اسکرین پر گھنٹوں ضائع تو نہیں کرتے؟
عارضی لذتوں میں تو نہیں کھو جاتے؟
یا مشکل فیصلوں کو ٹالتے تو نہیں ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ آج آپ جو آسانی یا تفریح یا مزہ چنتے ہیں، غالب امکان ہے کہ وہ کل کے لیے ایک بڑی مشکل بن کر سامنے آئے گا۔
میرے والد صاحب رحمہ اللہ ایک بات کہا کرتے تھے:
"بیٹا، تمہیں زندگی میں دو میں سے ایک تکلیف تو اٹھانی ہی ہوگی: آج نظم و ضبط، محنت اور مشقّت کی تکلیف یا کل پچھتاوے کی تکلیف، زندگی میں سمجھداری سے انتخاب کرنا۔”
یہ آج اپنے آپ میں سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کرنا ہے، چاہے ہم اس وقت ایسا محسوس نہ کریں، تاکہ ہم کل کے لیے تیار ہو سکیں۔
یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ۔۔۔
آرام ایک نشہ آور چیز کی مانند ہے، اور آرام کوشی کے ساتھ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ آپ ایک شاندار انسان بن سکیں اور ایک بھرپور زندگی جی سکیں۔
جبکہ مقصدیت کے ساتھ محنت اور جدوجہد آپ میں مضبوطی، کردار، اور ایک بھرپور زندگی جینے کا امکان پیدا کرتی ہے۔
تو آج خود سے یہ سوال کریں:
کیا میں آج ایک بہتر کل کے لیے محنت کر رہا ہوں؟
صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے، اس امّت کے لیے اور اپنی آخرت کے لیے؟
کیا آپ اپنے بچوں میں ہمّت اور استقامت کی صفات پیدا کرنے پر محنت کر رہے ہیں یا انہیں ان مشقّتوں سے بچا رہے ہیں جو ان کا پوری زندگی پیچھا کریں گی؟
کیا آپ عارضی مزوں کو ترک کرنے کے لیے تیار ہیں تاکہ زندگی زیادہ بامعنی اور پر اثر بن سکے؟
یاد رکھیں، زندگی کی ڈھلوان بے رحم ہے۔ آج چڑھائی نہ چڑھنا، کل اسے اور زیادہ مشکل کر دے گا۔
تو آج ہی مضبوط ارادے اور وژن کے ساتھ اپنا سفر شروع کریں۔
زندگی کے چیلنجز کو سوچ سمجھ کر اور شعوری طور پر قبول کریں۔
سوال یہ نہیں ہے کہ، "کیا آپ کو محنت اور جدوجہد کرنی ہوگی؟”
وہ تو بہر کیف کرنی ہی ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ، "آپ کب اور کیسے یہ محنت اور جدوجہد کریں گے؟”
اپنے راستے کا سمجھداری سے انتخاب کریں، کیونکہ زندگی آپ کے لیے دوبارہ سے شروع نہیں ہوگی۔
یمین الدین احمد
Source: Facebook