یہ سوال بھی یقینا آپ بہت سی مرتبہ سن چکے ہونگے کہ مطالعہ کیا ہوا یاد نہیں رھتا ؟؟؟

در حقیقت مطالعہ کی دو قسمیں ہیں ایک ذوقی دوسرا جبری

جبری مطالعہ یہ ہیکہ جس سے بہر حال آپ کو مفر نہ ہو بہر صورت بامر مجبوری مطالعہ آپ کو کرنا پڑے مثلا امتحانات کی شب درسی کتاب کا مطالعہ کرنا یا اس کتاب کی شرح کا مطالعہ کرنا جس کتاب کا امتحان آپ نے دینا ہو ؛

یہ مطالعہ آپ کو قطعا یاد نہیں رھیگا بلکہ اسے وقتی مطالعہ شمار کیجیے جو امتحانات کے ختم ہوتے ہی آپ سے رخصت ہوجانا ہے ؛

کیوں کہ جس وقت آپ نے یہ مطالعہ شروع کیا ہے وہ وقت نہ تو اس قدر زائد مطالعہ کا تھا اور نہ ہی آپ اپنے شوق و ذوق سے مطالعہ کیلیے بیٹھے ہیں بلکہ آپ کی نیت ہی یہی ہے کہ کس طرح صبح کے پرچے کو دھکا دیا جائے دماغ کو اس وقت وہ کیفیت میسر ہی نہیں جسے وہ محفوظ کر سکے اور دماغ کو آپ نے اس کے محفوظ کرنے کی مقدار سے زائد مطالعہ فراہم کیا ہے جو وہ یکسر محفوظ نہیں کر سکتا ایسا امتحانات میں ہم سب کرتے ہیں ہم تو بعد از مغرب بیٹھتے تھے اور فجر کی آذان ہی ہم سے کتاب چھڑاتی ؛

دوسرا ہے ذوقی مطالعہ جسے آپ اپنے ذوق و شوق سے کررھے ہیں کسی قسم کا کوئ جبر اپنے دماغ پر نہیں کہ اسے نا چاھتے ہوئے بھی آپ نے مطالعہ کرنا ہے مثلا ایک نحوی ذوق رکھنے والا طالب العلم جب درسی کتابوں کے بعد ابن جنی امام سیوطی امام زمخشری کو پڑھتا ہے اور آپ اسے اچانک بتاتے ہیں کہ ابن ھشام کو پڑھیے آپ ان مصنفین کو جہاں بھول جائینگے وہیں آپ کے ذہن میں جو نحوی اشکالات ابھر آئے ہیں وہ بھی رفع ہونگے سوچیے اب اس طالب العلم کا ذوق کیفیات کی کونسی سطح پر ہوگا اور ذہن کس قدر اپنی من چاہی غزا کی طلب میں سرگرداں ہوگا ؟؟؟

ایسے مطالعہ سے متعلق آپ کا سوال بجا ہے کہ یہ یاد کیوں نہیں رھتا جبکہ آرام دہ و پر سکون ماحول میں مطالعہ کیا گیا ہے اور ذہن بھی بھر پور اسکی جستجو رکھتا تھا ؟؟؟

اسکا جواب یہ ہیکہ آپ در اصل یہ چاھتے ہیں کہ جو کچھ پڑھا ہے و حرف بحرف ذہن میں رھے ایسا ممکن نہیں ثانیا آپ کو مطالعہ کرتے ہوئے حاصل مطالعہ کو محفوظ کرلینا چاھیے جسکے مختلف طریقے ہیں مختصرا و مفصلا ؛

مفصل طریقہ : ایک رجسٹر اپنے پاس رکھے اور اس رجسٹر کو ایک موضوع کے مطالعہ کیلیے متعین کریں مثلا علم النحو کا موضوع لیجیے اب جو مطالعہ کیا اس کو مختصرا اس میں لکھیں مثلا آپ کسی نحوی کتاب میں مبتداء خبر کی بحث پڑھی اور اصول گزرا نکرہ مبتدا واقع نہیں ہوسکتا اب اسکی استثنائ صورتوں کا بیان آیا جو عام درسی کتب میں چھ تک محدود ہے مگر آپ نے بائیس یا چھبیس پڑھے انہیں لکھ لیجیے پھر متقدمین کا نظری اس بابت پڑھا اسے بھی رقم کیجیے پھر آپ کو کسی کتاب میں چالیس سے اوپر رک مقامات ملے اسے بھی اس کے ساتھ درج کیجیے مزید مطالعہ کرنے سے آپ کو معلوم ہوا کہ صاحب کافیہ نے محض چھ ہی کو کیوں متعین کیا اسکو بھی لیجیے بعد میں آپ نے کہیں یہ پڑھا کہ یہ مذھب ہی مرجوح ہے اسے بھی لکھ لیجیے ؛؛؛

اب نہ صرف آپ کا مطالعہ محفوظ ہوگیا بلکہ ایک تقابلی مطالعہ بھی آپ کا تیار ہوگیا ساتھ ساتھ چند اشکالات کے جوابات بھی آپ کے پاس آگئے ؛؛

اب وقتا فوقتا آپ اسے ایک نظر دیکھ لیجیے جو طویل بھی نہیں اور کافی کتب کا ماحصل بھی ہے ایک نظر میں پورا مطالعہ دوبارہ آپکی نظر میں گھوم گیا ؛؛؛

مختصرا طریقہ : جو کتاب بھی آپ مطالعہ کررھے ہیں اس کا اول ورق جو بالکل صاف ہوتا ہے اسے آپ متعین کرلیں اور مختصرا اشارہ مطالعہ کے دوران لگاتے رھیں مثلا وہی مبتداء نکرہ کہاں واقع ہوتا ہے اسکے مقامات محض صفحہ نمبر لکھیں اور سامنے لکھ دیں نکرہ سولہ جگہ مبتداء واقعہ ہوتا ہے الخ یوں آپ پوری کتاب مطالعہ کر جائینگے اور اسکا خلاصہ اول کتاب پر درج ہوگا جسے دیکھتے ہی پوری کتاب کا نقشہ آپ کے سامنے آجائیگا ؛؛؛؛

آخری بات ! یہ نیت ہی مت کیجیے کہ جو کچھ پڑھونگا ذہن میں نقش رھیگا بلکہ ان دونوں طریقوں میں سے ایک طریقے کا تعین کریں اور مطالعہ کرتے رھیں وقت ضرورت ضرور آپ کو یاد آئیگا فلاں کتاب میں یہ درج ہے یا اس کتاب میں اس پر تفصیلی مبحث پڑھی ہے اور بارہا مطالعہ کیجیے جس سے مطالعہ یاد بھی رھتا ہے اور علم میں پختگی بھی پیدا ہوتی ہے ؛

آپ مطالعہ کیسے کرتے ہیں ضرور بتائیے ۔🌹

یونس یاسین

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے