حضرت مولانا عبد الرب صاحب اعظمی علیہ الرحمہ کا سانحۂ ارتحال

*رب کا بندہ اپنے رب کے حضور*

(ولادت : ١١ اکتوبر ١٩٥٤ء/وفات: ٧دسمبر ٢٠٢٤ء شنبہ)

بقلم *ضیاء الحق خیرآبادی ( حاجی بابو)*

آج دوپہر دو بجے ایک طویل علالت کے بعد حضرت مولانا عبدالرب صاحب اعظمی اپنے رب سے جاملے ، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اخیر حیات میں انھوں نے جس صبر وشکر کے ساتھ امراض وشدائد کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اس کے بدلے میں ان کو جنت الفردوس میں بلند سے بلندتر درجات عطا فرمائے ۔

مولانا عبد الرب صاحب نہایت متحرک وفعال اور سراپا جہد وعمل شخصیت کے مالک تھے ،لوگوں کے مسائل حل کرنے اور سماجی وملی امور میں بیحد دلچسپی رکھتے تھے ، سب کو ساتھ لے کر چلنا مولانا کا خاص وصف تھا ، وہ جمعیة م سے وابستہ تھے بلکہ اس کے صوبائی صدر تھے ، لیکن اس کے باوجود ملنا جلنا اور تعلقات سب سے بڑے قریبی اور مخلصانہ تھے ، کسی مسئلہ میں سب کو اکٹھاکرلینا ان کے لئے معمولی بات تھی۔

مولانا موصوف کا آبائی وطن قصبہ جہانا گنج ضلع اعظم گڈھ ہے ، مولانا کے والد مولانا اقبال احمد صاحب قاسمی ( م: ١٩٨٦ء) حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے شاگرد اوردارالعلوم دیوبند کے قدیم فضلاء میں سے تھے ، تقریباً٤٥ سال تک مدرسہ انوار العلوم جہاناگنج کے ناظم رہے ۔ مولاناکے بتانے کے اعتبار سے ان کی ولادت ١٩٥٢ء (١٣٧١ھ)میں ہوئی، (سرکاری کاغذات میں تاریخ پیدائش ١١ اکتوبر ١٩٥٤ء درج ہے)

مولانا کی ابتدائی تعلیم مدرسہ انوار العلوم جہاناگنج میں ہوئی ، اس کے بعد مشرقی یوپی کی ممتاز درسگاہ جامعہ مفتاح العلوم مئو تشریف لے گئے جہاں انھوں نے ہدایہ اولین تک تعلیم حاصل کی ، ان کے اساتذہ میں مولانا عبد اللطیف صاحب نعمانی جیسی عبقری شخصیت شامل ہے ، آپ کا شمار وہاں کے ذہین وذکی اور ممتاز طلبا میں ہوتا تھا، چھ ماہ دارالعلوم مئو میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ وہاں سے شوال ١٣٨٩ھ ( جنوری ١٩٧٠ء) میں دارالعلوم دیوبند گئے ، جہاں جلالین شریف کی جماعت میں داخلہ لیا۔ تین سال وہاں رہ کر شعبان ١٣٩٢ھ ( ستمبر ١٩٧٢) میں ممتاز پوزیشن کے ساتھ دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی ۔بخاری شریف کا کچھ حصہ آپ نے مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادی سے، ان کے انتقال کے بعد کچھ حصہ مولانا قاری محمد طیب صاحب سے ،پھر مولانا شریف الحسن صاحب اور مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی سے پڑھا۔ ٍ آپ کے ساتھیوں میں مولا نا مجیب اﷲصاحب گونڈوی، مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ، مولانا بدرالحسن صاحب قاسمی ( مقیم کویت )مولانا نثار احمدصاحب بستوی اور مولانا حیات اﷲ صاحب بہرائچی (سابق صدر جمعیۃ علما یوپی)وغیرہ ہیں ۔

فراغت کے بعد ایک سال تبلیغی جماعت میں لگایا، اور کچھ دنوں تجارت سے بھی شغل رہا ۔ استاذی حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی علیہ الرحمہ سے آپ کے نہایت گہرے مراسم تھے ۔ حضرت الاستاذ کہتے تھے کہ میں نے دیکھا کہ اتنے ذہین وذکی اور باصلاحیت شخص کی ذہانت وصلاحیت تعلیم و تدریس سے ہٹ کر کہیں اور صرف ہورہی ہے تو میں نے اس کا رخ موڑا ۔چنانچہ مولاناہی کی ایما پر آپ مدرسہ وصیة العلوم الہ آباد تشریف لے گئے اور ١٩٧٨ء تک وہاں رہے ۔ مولانا ایک بہترین مدرس تھے اور بوقت ضرورت شاندار مقرر وخطیب بھی۔ الہ آباد کے بعد مدرسہ دینیہ غازی پور تشریف لائے ، اور یہاں سالہاسال شب وروز استاذ محترم کی معیت حاصل رہی جس کا ذکر مولانا عبد الرب صاحب بڑے والہانہ انداز میں کرتے تھے ، غازی پور میں تدریس کے ساتھ افتاء اورقضا کی ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد تھیں ، ان کے لکھے ہوئے سیکڑوں فتاوے وہاں موجود ہوں گے۔ آپ کے تلامذہ آپ کی تسہیل وتفہیم کے بڑے مداح اور قائل ہیں ۔

١٩٨٦ء میں والد محترم مولانا اقبال احمد صاحب قاسمی کے انتقال کے بعد جہاناگنج کے لوگوں کے اصرار پر یہاں آئے اور والد صاحب کی جگہ مدرسہ انوار العلوم کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالی اور اس کو اپنی اخیر حیات تک پورے ٣٨ سال نہایت حسن وخوبی کے ساتھ انجام دیا، نظامت کے ساتھ ایک دو گھنٹی پڑھانے کا سلسلہ بھی رہا۔ البتہ جہاناگنج آنے کے بعد مدرسہ کے انتظام کے ساتھ دوسری سماجی ورفاہی مشغولیات کی وجہ سے تدریس کا وہ تسلسل باقی نہ رہا جو مدرسہ دینیہ غازی پور میں تھا۔

میں نے اوپر لکھا کہ مولانا موصوف سراپا جہد وعمل اوردھن کے پکے تھے ، کسی کام کا ارادہ کرلیتے ہیں تو پھر اپنی پوری توانائی اس میں صرف کردیتے تھے ، میں جس سال شیخوپور عربی پنجم میں تھا ، ایک بار مولانا موصوف استاذ محترم سے ملنے تشریف لائے ، دورانِ گفتگو یہ بات نکل آئی کہ ایک ایسا رسالہ ہونا چاہئے جو بالکل عام فہم ہوجسے عوام بھی بآسانی سمجھ سکیں، اس وقت حضرت الاستاذ کی ادارت میں مئو مجلہ المآثر نکل رہا تھا ، لیکن وہ خالص علمی رسالہ تھا ، اس لئے یہ لوگ ایک ایسے عام فہم رسالہ کی ضرورت محسوس کررہے تھے ۔ مولانا عبدالرب صاحب نے کہا کہ میں اس خدمت کے لئے تیار ہوں ، مضامین کااکٹھا کرنااور اس کی ترتیب آپ کے ذمہ، اور اس کی نشر واشاعت کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں ،چنانچہ ماہنامہ انوار العلوم کے نام سے ڈیڑھ دو سال تک یہ رسالہ نکلا،جس کے مدیر مولانا عبد الرب صاحب تھے، اس کے بعد یہ جہاناگنج سے شیخوپور منتقل ہوا، اور ضیاء الاسلام کے نام سے بارہ تیرہ سال تک پوری آب وتاب کے ساتھ نکلتا رہا ، اس کی اساس اور بنیادمیں مولانا عبد الرب صاحب کا ہی جذبۂ عمل شامل تھا۔

جمعیة علماء ہند سے مولانا کی ذہنی وابستگی تو ابتدائے شعور سے ہی تھی ، سرگرم عملی وابستگی بھی کئی دہائیوں سے تھی۔ اس کے تمام پروگرام میں پیش پیش رہتے تھے۔ بنارس میں حضرت محدث اعظمی سیمینار کے کامیاب انعقاد اور اس کے بعدمئو میں مولانا محمود مدنی صاحب کے پروگرام کی کامیابی میں ایک بڑا حصہ مولانا موصوف کا بھی ہے۔مولانا گزشتہ چند سال سے جمعیة علماہند مشرقی زون کے صدر تھے، اس دوران ان کی اعلیٰ کارکردگی اور بے لوث خدمات کا عملی مظاہرہ سامنے آیا ،تین ژون میں منقسم جمعیة علماء اترپردیش میں سرگرم وفعال ترین مشرقی ژون ہی مانا گیا، مرکزی جمعیة کے بڑے ذمہ داروں نے مولانا عبد الرب صاحب کی اعلیٰ کارکردگی کو سراہا بھی، اسی تجربہ کی بنیاد پرمولانا متین الحق اسامہ کے انتقال کے بعد٤ ستمبر ٢٠٢١ء کو اتفاق رائے سے صوبہ اترپردیش کا صدر منتخب کیا گیا ،جس پر وہ اخیر حیات تک فائز رہے۔

باوجودیکہ مولانا کی عمر ٧٠ سال سے زائد ہوچکی تھی اور اس پر گوناگوں قسم کے امراض مستزادتھے،پھربھی مولانا کی جو طبعی افتاد اور غیر معمولی ہمت و جذبہ تھاانھوں نے جمعیة کے کاموں میںوسعت پیدا کرنے اور اس کے کاز کو فروغ دینے میں ایسی انتھک محنت کی جو نوجوانوں کے لئے باعث رشک تھی۔ وسط جولائی میں یہ انکشاف ہوا کہ ان کے منہ میں کینسر ہے، آناًفاناً اس کا علاج شروع ہوا،ممبئی میں آپریشن ہوا،اس کے بعد کیموتھراپی کا جو کورس تھا وہ بھی مکمل ہوا۔ دس بارہ روز پہلے تک ہلکی ہی رفتار سے سہی روبہ صحت تھے ، اسی دوران کمر میں تکلیف ہوئی اور جانچ کے بعد پتہ چلا کہ مرض جسم کے دوسرے حصوں میں پھیلتا جارہا ہے، اس کے چند روز بعد غذا وغیرہ موقوف ہوگئی اور آج دوپہر میں تمام دنیاوی تکالیف وکشاکش سے آزاد ہوکر رب کا بندہ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگیا۔

دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ وہ رب کریم اپنے اس بندہ وغلام کی خدمات ومساعی کو قبول فرمائے اوراس کی رحمت ومغفرت اس کی ہمدم ورفیق ہو اور یوماً فیوماً اس کے درجات میں ترقی ہوتی رہے۔ آمین

ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد

May be an image of 1 person and beard

All reactions:

11

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے