1990 میں ضلع اعظم گڑھ سے مئو کو علیحدہ کرکے ایک الگ ضلع بنایا گیا، اس وقت تک جمعیۃ علماء کا ضلعی دفتر مبارکپور میں ہوا کرتا تھا، ضلع کی تقسیم کے بعد جمعیۃ علماء ضلع اعظم گڑھ کا دفتر اعظم گڑھ شہر میں جامع مسجد سے متصل بابو عزیز الرحمان صاحب رح کے بیرونی مکان کے ایک کمرے کو بنایا گیا، ضلع جمعیۃ کی تشکیل کی گئی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا عبد الحمید نظام آبادی، مولانا عبد الستار مبارکپوری رحمھم اللہ کی نگرانی اور بابو عزیز الرحمان رح کی صدارت میں یہ نظام رواں دواں ہوا، مفتی اشفاق صاحب ،مولانا محمد شاھد صاحب اور مفتی شعیب صاحب مرحوم سرائے میر سے میٹینگوں میں تشریف لاتے اور ڈاکٹر عبد المنان چشتی انجان شہید سے، اسی وقت سے خاکسار بھی جمعیۃ سے منسلک ہوا، اور اسی زمانے کی کسی میٹنگ میں مولانا عبد الرب اعظمی نور اللہ مرقدہ سے پہلی ملاقات ہوئی، جو رفتہ رفتہ ایسے تعلق میں تبدیل ہوگئی کہ مولانا سے اعظم گڑھ کے قیام کے دوران جمعیۃ علماء کے پلیٹ فارم سے لیکر مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کے معاملات، اور گھریلو نوعیت کے مشوروں تک اس کا سلسلہ دراز ہوگیا،
اسی دور میں حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رح مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور سے بحیثیت صدر المدرسین وابستہ ہوئے تھے اور خاکسار مدرسہ کا ناظم تھا، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی رح کے تعلقات مولانا اعجاز صاحب اعظمی رح سے دیرینہ اور گہرے تھے، اس بنا پر ان کی آمد مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں اکثر رہا کرتی تھی،
مولانا عبد الرب اعظمی رح کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے انہیں مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کی مجلس شوریٰ کا رکن نامزد کیا گیا، مولانا موصوف نے تا حیات اس منصب کا حق ادا کیا اور پابندی سے اس کی میٹینگوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے، اور اہم امور و مسائل میں نہایت معتدل اور قابل قبول رائے پیش کرتے تھے، جس سے اراکین مجلس شوریٰ مطمئن ہوجاتے تھے، مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور کی مجلس شوریٰ کی متعدد میٹینگوں کی صدارت مولانا مرحوم نے فرمائی اور اختلاف و کشمکش کے ماحول میں حق صدارت ادا کرتے ہوئے میٹنگ کو نتیجہ خیز بنانے میں اہم کردار ادا کیا،
ایک زمانے میں حضرت مولانا مجیب اللہ ندوی رح نے اعظم گڑھ اور مئو دونوں اضلاع کے دینی مدارس کا وفاق بنانے کی کوشش کی، اس سلسلے کی چند میٹینگیں جامعۃ الرشاد میں منعقد ہوئیں اور ایک سہ نفری وفد مدارس کا دورہ کرنے اور اس وفاق کو مستحکم بنانے کی غرض سے بنایا گیا، اس موقع پر مولانا عبد الرب صاحب اعظمی رح نے بھی اس کوشش کا ساتھ دیا، اور اتفاق رائے سے وفاق کا کنوینر انہی کو منتخب کیا گیا، لیکن وہ اس میدان عمل میں آزادانہ طور پر کام نہ کرسکے اور رفتہ رفتہ وفاق کا معاملہ سرد خانے میں چلا گیا،
مولانا عبد الرب اعظمی صاحب رح اپنے وطن "جہاناگنج” کے لئے بالکل ایسی ہی شخصیت تھے جیسا کہ نصف صدی تک مبارکپور میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم کے ناظم حضرت مولانا عبد الباری رح ہوا کرتے تھے، یعنی
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
مولانا مرحوم عزم و ارادہ کے پختہ اور قوت فیصلہ کے حامل تھے، 2008 میں جب جمعیۃ علماء کا شیرازہ بکھرنے لگا تو ہم لوگ فطری طور پر تشویش میں مبتلا ہوئے، دو فریقی صورتحال دن بہ دن بنتی جا رہی تھی، ہم لوگ کشمکش کے شکار تھے، لیکن مولانا نے بالکل ابتدا میں یکسوئی اختیار کر لی اور تا عمر اسی راہ پر سرگرم رہے،
مولانا مرحوم کے دل میں خشیت الہی کا بے پناہ جذبہ تھا، کسی مخصوص موقع پر دعاء میں ان کی ہچکیاں بندھ جاتی تھیں، رخسار آنسوؤں سے تر اور چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھتا تھا، ایک دفعہ سفر حج کے تعلق سے دقت پیش آرہی تھی، خدا خدا کر کے مولانا کی منظوری ہوئ، اس موقع پر مسرت آمیز گریہ اور بارگاہ خداوندی میں تضرع و الحاح کی جو کیفیت میں نے دیکھی، تقریبا تیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود دل میں اس کی حلاوت تازہ ہے،
مولانا مرحوم کی مدرسی کا عہد میں نے نہیں دیکھا، البتہ قیادت کا زمانہ خوب خوب دیکھا ہے، اپنے علاقے کے ممبر اسمبلی جناب جسونت سنگھ سے بہت گہرے مراسم رکھتے تھے، صحیح معنوں میں وہ اعظم گڑھ میں جمعیۃ علماء کے مرد میدان تھے،
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولانا مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
محمد عارف عمری
مہتمم دار العلوم عزیزیہ میراروڈ ،ضلع تھانہ، مہاراشٹر
و رکن مجلس شوریٰ مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور ،ضلع اعظم گڑھ (یوپی)