سو سال سے زیادہ عمر پانے والے حافظ "حبیب اللہ” جھگڑوا کے امتیازی اوصاف

بہ قلم : اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند

5/ دسمبر 2024عیسوی مطابق 3/ جمادی الثانی 1446 ہجری ، روز جمعرات ، گیارہ بجے دن کو یہ اندوہناک خبر ملی کہ دربھنگہ کے کرتپور بلاک کے ہمارے گاؤں :” جھگڑوا” کے سب سے معمر بزرگ جناب حاجی حافظ” حبیب اللہ ” رحمۃ اللہ علیہ ، اس دنیائے فانی میں نہ رہے ! – انا للہ وانا الیہ راجعون !
گاؤں کے لوگ اُنہیں” حبو حافظ جی” یا "حبو حاجی صاحب "کہتے تھے اور ہم لوگ ان کو” حبو دادا "کہتے تھے ، اگرچہ وہ میرے نسبی دادا نہیں تھے ، مگر شفقت و محبت میں اپنے دادا سے کم بھی نہ تھے ، اس لیے ان کی وفات سے بڑا غم ہوا ، فوراً ہی ان کے فرزندان کو "تعزیت مسنونہ” کا میسج بھیجا یعنی حضرت مولانا علاؤ الدین قاسمی اور جناب مولانا حسین احمد قاسمی اور جناب مولانا حافظ صلاح الدین صاحب دامت برکاتہم العالیہ کو میسج کیا اور زبانی بھی تعزیتِ مسنونہ پیش کی۔
اللہ تعالی نے ان کے اندر بہت ساری خوبیاں رکھی تھیں ، وہ متعدد امتیازات کے حامل تھے ، ایسی خصوصیات عام طور سے ایک آدمی میں یکجا جمع نہیں ملتیں ، اس مضمون میں کوشش ہوگی کہ ان کے امتیازی اوصاف و کمالات جو مجھے معلوم ہیں ، الگ الگ عنوان سے لکھ دوں ، اللہ تعالی توفیق عطا فرمائے !

1- قرآن پاک سے عشق :

اللہ تعالی نے ان میں سب سے اچھی صفت یہ رکھی تھی کہ وہ اکثر اوقات کو تلاوت قرآن پاک میں گزارتے تھے ، قرآن پاک پڑھنے سے اکتاتے نہ تھے ، انہیں اللہ تعالی نے قرآن پاک سے والہانہ لگاؤ اور عشق عطا فرمایا تھا ، اُنہیں قرآن پاک سے جدا رہنا کبھی گوارہ نہ تھا ، جب قرآن کی تلاوت سے ان کی طبیعت سیر ہو جاتی تو استراحت کے لیے لیٹ جاتے یا مزہ بدلنے کے لیے کسی "دینی کتاب "مطالعہ کرنے لگتے ۔
جب تک بدن میں طاقت اور قلب و جگر میں ہمت تھی رمضان المبارک میں محراب سناتے رہے ، اور جب طاقت نہ رہی تو تراویح میں سننے پر اکتفا فرمانے لگے ۔

2- اولاد کو دین کی تعلیم :

قران پاک سے عشق و محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو قرآن پاک پڑھایا ،بڑے لڑکے نے صرف ناظرہ پڑھا اور ابتدائی درجے میں پڑھنے کے بعد تعلیم سے انقطاع کی نوبت آ گئی ،بقیہ تینوں کو حفظ قران کی تعلیم دی ۔ اور علم دین سے آراستہ پیراستہ کرنے کی ساری تدبیریں کیں ، چنانچہ تینوں بچوں نے عالمیت اور فضیلت کی سند بھی حاصل کی ، دو نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سند حاصل کی اور ایک نے دارالعلوم دیوبند میں "عربی زبان ” کو خصوصی طور پر پڑھا اور ایک نے حفظ قرآن مجید کے بعد مراد آباد کے مدرسہ "حیات العلوم "سے فضیلت کی سند حاصل کی ۔ حضرت مفتی حبیب الرحمن خیرابادی دامت برکاتہم سے بخاری شریف جلد ثانی پڑھی ۔
حبو دادا اپنی نسل میں سب کو دین سے قریب رکھنے کا انتھک جذبہ رکھتے تھے ۔ اور اس میں کافی حد تک کامیاب ہوے ، پوتوں اور نواسوں کا قرآن پاک "جامع مسجد” میں سنتے رہتے تھے ۔

3- مساجد کی تعمیر سے دلچسپی :

انھیں مساجد کی تعمیر سے بھی قلبی لگاؤ تھا ، گاؤں میں کسی مسجد کی تعمیر کی تحریک شروع ہوتی تو اس میں ضرور حاضری دیتے اور لوگوں سے تعمیر میں حصہ لینے کی درخواست کرتے اور انہیں وہ حدیث شریف یاد دلاتے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خوشخبری دی کہ
” مَن بنىٰ للّه مسجدًا بنى اللهُ له بيتًا في الجنة .
ترجمہ : جو بندہ اللہ کے لیے مسجد بنائے گا ، اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیں گے .
بڑے شوق و ذوق سے مسجد میں چندہ دیتے اور تعمیر کی تکمیل تک نگرانی کرتے ، دلچسپی لیتے ، مزدوروں کو مشورے دیتے اور اپنے تجربے سے فائدہ پہنچاتے ۔

4- فکری پختگی :

اللہ تعالی نے ان میں فکری پختگی عطا فرمائی تھی ، وہ اپنے ذہن میں جو صالح فیصلہ رکھتے تھے ، اس پر اٹل رہتے ، اس کے خلاف کسی کی نہیں سنتے تھے اور بولنے کا اسلوب یہ ہوتا تھا کہ "آپ چپ رہیں ، پہلے سنیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ” اور وہ اپنی بات نہایت اطمینان اور پختگی سے سامنے والے کو پوری طرح سنا دیتے اور اپنے موقف کے خلاف سامنے والے کی بات بالکل نہ سنتے ۔ اور ایسا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنا موقف غیر شرعی رکھتے ، وہ اللہ تعالی کے دیوانے تھے ، اللہ کے دین کے مطابق شریعت کے مطابق جو بات انہیں معلوم ہوتی اسی پر جمے رہتے ، یہی پکے مؤمن کی علامت اور مضبوط ایمان والے کی یہی شان ہے ۔ جو آدمی بھی غیر شرعی رائے پیش کرتا ، وہ اس سے ناراض ہو جاتے اور ایسا محسوس ہوتا کہ
"یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے” ۔

5- وعظ سننے کا شوق :

ان کی شخصیت میں ناچیز نے یہ بات بھی دیکھی کہ وہ علماء کرام کے وعظ کو بڑی اہمیت دیتے اور نہایت غور سے سنتے ، اور سنی ہوئی باتوں کو یاد رکھتے اور اہلِ مجلس کو بتاتے تھے۔
ناچیز جب وطن پہنچتا تو ان کی خواہش ہوتی کہ میں بیان کروں جمعہ میں بھی اور رمضان المبارک کے دنوں میں بھی ، ان کی خواہش ہوتی کہ میں پورے رمضان قرآن پاک کی تفسیر ان کو سناؤ ، چنانچہ ان کے اور چند دیگر بزرگوں کے حکم اور ان کی تجویز کے مطابق میں نے ” جامع مسجد” میں سات سال تک لگاتار رمضان المبارک میں” قران پاک کی تفسیر” بیان کی ان دنوں مرحوم کبھی غیر حاضر نہ رہے ،حاضر رہ کر حوصلہ افزائی کرتے اور بڑی دلچسپی لے کر تفسیر سنتے اور کیوں نہ ہو وہ قرآن پاک کے عاشق تھے ، قرآن پاک انہیں یاد تھا ، وہ قران پاک کے مضمون کو سن کر اپنے دل میں بڑی فرحت محسوس کرتے ، کہتے کہ ہم عربی زبان نہیں جانتے ہیں، اس لیے اللہ کا کلام نہیں سمجھتے ہیں اور جب کسی عالم سے اللہ کے کلام کی تفسیر سنتے ہیں تو بڑا مزہ آتا ہے ، خوب دعا دیا کرتے تھے، اللہ تعالی ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں اور قرآن پاک کو ان کے لیے ذریعے نجات بنائیں !

6- رمضان میں دعوت :

رمضان المبارک میں جب تفسیر کا سلسلہ موقوف ہوتا تو وہ نا چیز کی دعوت کرتے اور اپنی پسند کی عمدہ عمدہ چیزیں پکواتے ، خاص طور سے مچھلی پکواتے کہتے کہ تمہیں مچھلی بہت پسند ہے ، اس لیے تلوائی ہے ، خوب کھاؤ ، بہت ضد کر کے کھلاتے اور کھلا کر بہت خوش ہوتے ، سخی آدمی کی یہی علامت ہے ، آج جب کے مرحوم کا انتقال ہو گیا ہے ، ان کی یاد آتی ہے تو ساتھ ہی ان کا دسترخوان بھی یاد آتا ہے اور ان کی محبت بھی یاد آتی ہے ۔
یہ بات میں نے ان کی اولاد میں بھی دیکھی ، وہ بھی بڑے سخی ہیں ، حضرت مولانا حافظ حسین احمد قاسمی اور حضرت مولانا صلاح الدین صاحب کے اندر مشاہدہ ہوا ، یہ چیز وراثت کے طور پر اولاد میں موجود ہے ۔ بارہا کا تجربہ اس پر شاہدِ عدل ہے ۔

7- بزرگوں کی قدردانی :

ان کے اندر جو امتیازی صفات تھیں ، ان میں بزرگوں کی قدر دانی کی صفت بہت واضح تھی ، جب میں گھر جاتا اور ملاقات کرتا تو دیوبند کی محبت ، یہاں کے سفر کی یاد” صد سالہ "کے موقع سے دارالعلوم کے منظر کو خوب بیان کرتے ، علمائے دیوبند کا ذکرِ خیر خوب کیا کرتے تھے حضرت قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ مہتمم دارالعلوم دیوبند ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے فرزند حضرت مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر بہت زیادہ کیا کرتے تھے کہ آخر الذکر حضرت اپنے گاؤں آئے تھے ، حضرت مولانا منت اللہ رحمانی اور حضرت مولانا ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہما کا ذکر خیر بھی خوب کرتے ، مولانا محمد عارف ہر سنگھ پوری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمد عثمان قاسمی گرولوی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر خیر سے مجلس کو منور کر دیتے ، اگر انہیں معلوم ہوتا کہ میں گاؤں پہنچ گیا ہوں اور ان سے ملاقات میں تاخیر ہو رہی ہے تو خود ہی لاٹھی ٹیکتے ہوئے گھر تشریف لاتے اور ملاقات کرتے اور کچھ بھی نہیں کھاتے ضد کرنے کے باوجود بھی کچھ نہیں کھاتے کہ میں خالص ملاقات کے لیے آیا ہوں اور میرا کوئی مقصد نہیں ، بہت ضد کرنے پر ایک آدھ گھونٹ پانی پی لیتے ، اس سے زیادہ کچھ نہ لیتے اور پھر واپس ہو جاتے تھے اور علم اہل علم سے متعلق اور ان کی قدردانی سے متعلق باتیں کہتے اور سناتے جس سے ناچیز کا دل بہت متاثر ہوتا تھا ۔

8- مسجد ان کا مسکن تھی :

ان کی عمر جوں جوں بڑھتی رہی ، اسی طرح سے انہوں نے اپنی زندگی کی مصروفیت کو محدود کرنا شروع کیا ، پہلے تو کھیت وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے اور دوسرے وہ کام جو کسانوں کے لیے دیہات میں کرنا لازم رہتا ہے ، سب میں مصروف رہتے تھے ، لیکن بعد میں انہوں نے اپنا مسکن مسجد کو بنا لیا "جامع مسجد ” میں اپنا بستر ایک طرف ڈال دیا اور عبادت و ریاضت میں یکسوئی کے ساتھ لگ گئے اور پوری زندگی اسی طرح سے گزار دی ، مسجد میں اذان دیتے اور نماز پڑھاتے ، اذان دینے اور نماز پڑھنے کی کوئی اجرت نہیں لیتے اور جب مؤذن متعین ہو گئے تو بھی گاہے گاہے ، اذان دیا کرتے تھے ، ان کی اذان کا ایک خاص لحن تھا ، بڑے اچھے انداز میں اذان دیتے ، اللہ تعالی کی تکبیر کا ، اللہ کے نام کے بلند کرنے کا جذبہ ان کے اندر بہت تھا ، ایک دن انہوں نے نا چیز کو روکا کہ اذان کے کلمات کی تفصیل سمجھو اور اس میں جو اللہ کی توحید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اللہ کی بڑائی بیان کی گئی ہے ، اس کو سمجھو اور سنو جو میں کہہ رہا ہوں ، اگر وہ غلط ہو تو مجھے بتاؤ اور صحیح ہو تو اس کو اپنے دلوں میں بساؤ !اس کو سن کر میں بہت متاثر ہوا ، اندازہ ہوا کہ دادا کا ایمان بہت مضبوط ہے ۔

9- مرضِ وفات کی ایک ویڈیو :
وفات سے چند دنوں پہلے کی ایک ویڈیو میرے موبائل پر آئی جس کو سن کر دل بڑا متاثر ہوا ، اس میں دادا اپنی مضبوط ایمان کی وضاحت کر رہے تھے:

الف – کلمہ طیبہ ” لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ” پڑھ رہے تھے اور اس کا ترجمہ بھی کر رہے تھے ۔ قریب میں بیٹھے ہوئے کسی عزیز کے سسکنے کی آواز بھی آ رہی ہے ۔
ب- سارے انبیاء پر ایمان کی صراحت اور وضاحت کر رہے تھے کہ سب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے آخری نبی ہیں ۔
اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنا منظور نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ یہ دنیا پیدا نہ فرما تے ۔
اور اللہ تعالی نے تقریباًً سوا لاکھ انبیائے کرام بھیجے ، میں ان سارے انبیائے کرام پر ایمان رکھتا ہوں ۔
ج- جو لوگ دُرود شریف نہیں پڑھتے وہ پکے مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں ؟ کہہ رہے تھے کہ "پڑھتے نہیں دُرود ، مسلمان کیسے ہو” ؟
د- انہوں نے اس ویڈیو میں ” توبۂ نصوح” کی صراحت بھی کی کہ اے اللہ ! میں اپنے سارے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ، اے اللہ ! مجھے معاف فرما دیجیے ! اہلِ دل کے لیے یہ متاثر کن ویڈیو ہے ۔

10- زندگی میں جائیداد کی تقسیم :

ان کا یہ امتیاز بھی دیکھا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں ہی جائیداد کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کر دیا اور زندگی میں جھگڑا تمام کر دیا ، یہ بات مجھے بڑی اچھی لگی ، اس لیے کہ بہت سے لوگ صرف دل کے اندر تمنا رکھتے ہیں کہ ان کی اولاد قرآن پاک کے مطابق ترکہ تقسیم کرے ، لیکن انتقال کے بعد اولاد کے درمیان ترکہ شریعت کے مطابق تقسیم نہیں ہوتا ، اکثر لوگ بہنوں کو اور لڑکیوں کو ترکہ نہیں دیتے ہیں اور بھائیوں میں جو مضبوط ہوتا ہے ، وہ ترکہ زیادہ استعمال کر لیتا ہے ، انہوں نے اس طرح کے جھنجھٹ کی نوبت آنے ہی نہ دی ۔

11- صحت مندی :

ان کے اندر جو چیز متاثر کن تھی ، ان میں ان کی صحت مندی بھی تھی ، عموماً لمبی عمر والے بہت سی بیماریوں سے دوچار ہوتے رہتے ہیں ، دوائیں چلتی رہتی ہیں ، ڈاکٹر لگے رہتے ہیں ، مگر دادا کی عمر 100 سال سے تو یقیناً زیادہ ہوئی ، بعض لوگ سوا سو سال سے بھی زیادہ بتاتے ہیں ، صحیح اندازہ کسی کو نہیں ، اس لیے کہ اس زمانے میں تاریخ پیدائش لکھنے لکھانے کا رواج نہیں تھا ، صحت بڑی اچھی تھی ، ان کو کوئی بیماری نہیں تھی ۔

12- بیماری میں کھانا چھوڑ دیتے :

جب بھی تھوڑی موڑی بیماری ہوتی ، مثلاً بخار ہوتا یا پیٹ خراب ہوتا ، یا کوئی اور مرض محسوس ہوتا تو دواؤں اور ڈاکٹروں کے چکر میں نہ پڑتے ، دعائیں پڑھتے ، اپنے اوپر دم کرتے رہتے اور کھانا چھوڑ دیتے ، کوئی کتنا ہی ضد کرتا ، وہ کسی کی نہیں مانتے اور کھانا بالکل نہ کھاتے ، جب تک طبیعت ٹھیک نہ ہو جاتی تب تک اسی طرح رہتے ، جب وہ اپنے کو اندر سے اچھا محسوس کرنے لگتے تو پھر کھانا کھاتے ، یہ بات مجھے مرحوم کے فرزند ارجمند مولانا حسین احمد قاسمی ‌نے بتائی ، یہ طریقہ ان کا منفرد تھا ، وہ اپنے علاج کے لیے بھوکا رہنے کو ترجیح دیتے تھے ۔

13- لمبی عمر کی ظاہری وجہ :

ہرانسان کی عمر اللہ تعالی نے متعین کر دی ہے ، کون آدمی دنیا میں کتنا زندہ رہے گا ؟ اور کیا کیا کام کرے گا ؟اور کب اسے دنیا سے اللہ تعالی کی طرف جانا ہے ؟ سب متعین ہے ،اس کے حقیقی سبب کو کوئی انسان دریافت نہیں کر سکتا ، ظاہری طور پر لمبی عمر پانے والے لوگوں کا عام طور سے لوگ انٹرویو لیتے ہیں ، تو ہر آدمی اپنے تجربے سے کوئی بات بتاتا ہے ، حبو دادا مرحوم سے کسی نے انٹرویو نہیں لیا ، ظاہری طور پر جو چیز ہم سب کو محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے :
الف – وہ دواؤں سے دور رہتے تھے ۔
ب- کھانا بہت مختصر کھایا کرتے تھے ، جب کھانا ہضم ہو جاتا تب ہی اگلے وقت کا کھانا کھاتے تھے ۔
ج- بیمار ہونے پر دواؤں سے ہمیشہ دور رہتے ، اس لیے کہ یہ دوائیں ایک طرف ایک بیماری کو ٹھیک کرتی ہیں تو دوسری طرف دوسری بیماری پیدا کر دیتی ہیں ، دوا کھانے والے کو پتہ نہیں چلتا کہ کون سی نئی بیماری پیدا ہوئی ہے ۔
جب نئی بیماری سامنے آتی ہے تو پھر اس بیماری کی نئی دوا کھانی پڑتی ہے ، پھر یہ سلسلہ آگے بڑھ جاتا ہے اور آدمی دواؤں اور ڈاکٹروں کا محتاج ہو جاتا ہے اور وہ ڈاکٹروں کے چنگل سے چھٹکارا نہیں پاتا ،اس کا تجربہ ہر آدمی کر رہا ہے ، کوئی آدمی ایسا نہیں ملے گا جس نے کسی اہم بیماری کا علاج انگریزی دواؤں سے شروع کیا ہو اور وہ مکمل طور سے ہمیشہ کے لیے ڈاکٹروں کے چنگل سے دور ہو کر بچ گیا ہو !
مرحوم کی زندگی میں ہم لوگوں کے لیے سبق ہے ، ہمیں زندگی کو احتیاط سے گزارنا چاہیے ، اس لیے کہ یہ جسم اللہ تعالیٰ نے انسان کو امانت کے طور پر دی ہے ، اس امانت میں خیانت ہرگز نہیں ہونی چاہیے ! اور خیانت یہ ہے کہ جسم کو تکلیف پہنچانے والی چیزیں استعمال کی جائیں ، کھانے کے طور پر ، لگانے کے طور پر یا کسی اور طرح سے جسم کو تکلیف دی جائے ، جس سے زندگی کو پریشانی لاحق ہو ، ایسا کرنا شریعت میں جائز نہیں ، یہ امانت میں خیانت ہے ، اس لیے خودکشی کرنا جائز نہیں اور اپنے جسم کا کوئی عضو کاٹ کر ضائع کرنا یا کسی کو دینا بھی جائز نہیں ۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے