بقلم : اشتیاق احمد قاسمی مدرس دارالعلوم دیوبند
حضرت مولانا واصف حسین "ندیم الواجدی” رحمۃ اللہ علیہ دارالعلوم دیوبند کے ممتاز فرزند ارجمند ، ” آل انڈیا مسلم پرسن لا بورڈ "کے رکن ، "معہد عائشہ صدیقہ للبنات دیوبند ” کے مہتمم اور” دار الکتاب” کے مالک تھے ۔ اپنے اندر بے شمار خوبیاں رکھتے تھے، وہ صرف کتابوں کے تاجر نہیں تھے ، بلکہ ایک ممتاز باوقار شخصیت کے حامل تھے ، مترجم ، شارح ، مدیر ، سوانح نگار ، مصنف ، مدرس اور اوقات کے حسنِ ضبط میں نہایت ممتاز شخصیت کے حامل تھے ۔
دفاعِ اسلام میں ان کی تحریر سے حمیتِ اسلامی خوب ٹپکتی ہوئی نظر آتی ہے ، وہ "دیوبندیت” کے بے باک ترجمان تھے ، دفاعِ وطن میں بھی بڑے باغیرت واقع ہوئے تھے ۔ ڈھیر ساری خوبیوں کے مالک تھے ، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ 14 اکتوبر 2024 عیسوی کو شکاگو میں وفات پا گئے ۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون ، اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائیں اور سارے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائیں ! ) ۔
لگتا نہیں تھا کہ اتنی جلدی وہ داغِ مفارقت دے جائیں گے ۔ کافی صحت مند نظر آتے تھے ، امریکہ جانے سے پہلے پابندی کے ساتھ "دارالکتاب” میں بیٹھتے . جاتے آتے ملاقات ہوتی ، میں سلام کرتا اور وہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیتے ۔ معلوم ہوا کہ امریکہ پہنچنے کے بعد علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیے گئے ، دل کا آپریشن طے تھا ، آپریشن کے بعد ہوش میں نہ آ سکے اور اپنی جان جانِ افرین کے سپرد کر دی ۔ حضرت مولانا سے مجھے بڑی عقیدت تھی ، محبت تھی ، اس لیے ان کی وفات کا غم بہت زیادہ ہوا ۔ اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرمائیں اور ان کے کارناموں کا بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائیں !
امتیازی اوصاف:
ناچیز کے نزدیک حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب بڑے امتیازی اوصاف کے حامل تھے، ذیل میں ان کے اوصاف کو لکھنے کی کوشش کررہا ہوں :
1- نرم دم گفتگو گرم دم جستجو :
حضرت مولانا نہایت کم گو تھے ،لیکن وہ اپنے مشن میں ہمیشہ سرگرم رہتے تھے ، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی سے بھی سخت لہجے میں گفتگو کی ہو یا کرخت آواز نکالی ہو جب بھی گزر ہوتا تو وہ کچھ نہ کچھ لکھنے کے لیے اپنے قلم کو حرکت دیتے ہوئے نظر آتے ، ان کو دیکھ کر رشک آتا ، تاجرِ کتب ہونے کے ساتھ اتنا بڑا مصنف نہ تو مجھے اردو عربی میں کوئی ملا اور نہ ہی دوسری زبان کا کوئی اتنا بڑا مصنف سنا گیا ۔ وہ ایک طرف بے شمار کتابوں کے طابع اور ناشر تھے ، ایک کشادہ کتب خانے کے بیچوں بیچ اپنی نشست رکھتے ، دسیوں ملازمین کام پر لگے رہتے ، کوئی بنڈل باندھ رہا ہے ، کوئی آرڈر لکھ رہا ہے ، کوئی حساب کتاب کر رہا ہے ، کوئی کمپیوٹر پر ان کی تصانیف کی کتابت کر رہا ہے ، کوئی کسی اور کام میں ہے ، کوئی کسی اور کام میں ۔ ہر ایک کی نگرانی رکھتے دوسری طرف اپنی یکسوئی میں کبھی فرق نہیں آنے دیتے ۔ ملازمین کہتے کہ مولانا کی یکسوئی میں کبھی فرق نہیں پڑتا ہے، وہ ہمیشہ اپنی تصنیف میں لگے رہتے ہیں ، ملازمین کے لیے چائے ناشتے کا بھی انتظام رہتا ، لیکن وہ کچھ نہ کھاتے ، سارا کام اپنے وقت پر ہر ایک متعلق انجام دیتا رہتا اور مولانا کرسی پر بیٹھے ہوئے سب کی نگرانی کا فریضہ انجام دیتے رہتے تھے ۔ انہوں نے کتب خانے میں بیٹھ کر تقریباً تین درجن کتابیں تصنیف کیں ، ایسا کوئی تاجرِ کتب مصنف مجھے نظر نہیں آتا ، میرے نزدیک مولانا کے جملہ اوصاف میں یہ وصف سب سے نمایاں ہے ۔
2- قابلِ رشک ضبطِ اوقات :
مولانا ندیم الواجدی صاحب اپنے معمول میں اتنے پختہ تھے کہ ان کو دیکھ کر گھڑی ملائی جا سکتی تھی ، جب میں محلہ خانقاہ دیوبند میں رہتا تھا ، تو وہ اپنے گھر سے کتب خانے کی طرف آتے جاتے مل جاتے ، میں سبق پڑھانے کے لیے دارالعلوم چلا جاتا ، یا اپنے گھر کی طرف ہو لیتا اور وہ کتب خانہ چلے جاتے یا اپنے گھر چلے جاتے ہوتے ۔ میں نے ان کو وقت کا بہت پابند پایا کبھی بھی وہ اپنے وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوتے ۔
کتب خانے میں کام کرنے والے مولوی محمد مستقیم سالک قاسمی نے مجھے بتایا کہ حضرت مولانا جب گھر سے آتے ہیں تو اپنی جگہ بیٹھ جاتے ہیں ، سوائے نماز کے وہاں سے ہلتے تک نہیں ، نہ تو انھیں ضروریاتِ بشریہ کے لیے جانا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی اور کام کے لیے ، جیسے ہی وقت ختم ہوتا ہے، وہ یہاں سے اٹھتے ہیں اور اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور اللہ کا فضل ہے کہ ان کی صحت بھی بڑی مستحکم ہے اور وہ بڑے مضبوط ہیں ، الحمدللہ ! بیمار بھی نہیں ہوتے ، اپنے کام میں لگے رہتے ہیں ، سارے ملازمین پر کام بٹے ہوئے ہیں ، وہ سب مشین کے پرزوں کی طرح اپنے اپنے کام انجام دیتے رہتے ہیں ، تنخواہ کی ادائیگی بھی وقت پر کر دیتے ہیں ، کسی ملازم کا کوئی بقایا ان کے ذمے نہیں رہتا ۔
عموماً ظہر ، عصر ، اور مغرب کی نماز دارالعلوم کی مسجد قدیم میں پڑھا کرتے تھے ، جیسے ہی نماز کا وقت قریب ہوتا قلم کاغذ پر رکھتے اور اٹھ کر مسجد کا رخ کرتے ، نماز کے بعد واپس کتب خانے آ کر قلم اٹھاتے اور لکھنے لگتے ، یہ پابندی کسی” کرامت” سے کم نہیں ۔
نماز با جماعت کا ان کو بڑا خیال رہتا ، نہایت خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھتے کہ دیکھنے والا رشک کرنے لگتا کہ کاش مجھے بھی اس طرح سے اطمینان و سکون کی نماز نصیب ہو جائے !
3- ملازمین پر اعتماد:
حضرت مولانا کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ملازمین پر اعتماد کیا کرتے تھے ، کسی پر شک و شبہ نہیں کرتے اور نہ ہی خُوردہ گری میں پڑتے ، مجھے ان کے قریب رہنے والے قدیم ترین ملازم جناب سہیل احمد صاحب نے بتایا کہ پورے دن کی بِکری ہو جاتی اور سارے پیسے یہیں رہتے ، حضرت مولانا اپنے ساتھ نہیں لے جاتے اور مجھے کہتے کہ تم ہی لے کر آ جانا ، لاکھوں روپے ہوتے ، مگر وہ میرے اوپر اطمینان رکھتے تھے اور ان کو اعتماد تھا کہ میرا قابلِ اعتماد ملازم ہے ، خیانت نہیں کرے گا ، یہ بات امتیازی صفت کی حیثیت سے مولانا کے اندر موجود تھی ، عام طور سے لوگ اپنے ملازمین پر اتنا زیادہ اعتماد نہیں کرتے ہیں ، اسی وجہ سے ان کی تجارت میں ترقی ہوئی ، بھائی سہیل احمد نے بتایا کہ حضرت مولانا نے ایک دن مجھ سے کہا کہ میں نے کتاب کی تجارت ڈیڑھ سو روپے سے شروع کی تھی اور میرے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ میں اتنا بڑا تاجر کتب بن جاؤں گا ۔
مولانا نے ساری درسی کتابیں بھی چھاپیں ، غیر درسی کتابیں بھی چھاپیں ، شروحات بھی چھاپے ، اپنا "پریس” لگایا ، جس میں کتاب چھاپنا آسان تھا ، کتاب لکھتے ، اپنا کاتب بازو میں بیٹھا رہتا ، وہ کمپیوٹر پر کتابت کرتا رہتا تھا اور پریس میں کتاب چھنے چلی جاتی اور کتب خانے میں آ کر بکتی ، اتنی زیادہ کتابوں کی اشاعت تنہا حضرت مولانا کا امتیاز ہے ، اتنی بڑی تجارت کو سنبھالنا تنہا کسی ایک آدمی کے بس کی بات نہیں ۔
4- ناچیز کو نصیحت :
حضرت مولانا ندیم الواجدی سے روزانہ محلہ خانقاہ دیوبند کے مکان سے آتے جاتے ملاقات ہوتی رہتی تھی ، ناچیز راقمِ حروف کا یہ معمول تھا کہ گھر میں موبائل نہیں کھولتا ، گھر سے دارالعلوم آتے ہوئے ، راستے میں جتنے لوگوں کے فون آئے ہوئے ہوتے ، ان کو جواب دیتا ، فون کرتا اور کچھ میسج کا جواب بھی راستے میں ہی دے دیتا تھا ، پھر اطمینان سے سبق پڑھانے میں یا مطالعے میں لگ جاتا تھا ، حضرت مولانا نے ایک مرتبہ راستے میں مجھے بڑی شفقت سے روکا اور کہا کہ میں تم کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں ، میں ہمہ تن گوش ہو کر متوجہ ہوا ، تو مولانا نے فرمایا کہ اگر کر سکو تو میری ایک نصیحت پر عمل کرو ! ” راستے میں جیب سے موبائل مت نکالا کرو ! ” میں نے ان کی نصیحت کو سر آنکھوں پر لیا ، اس کے بعد سے احتیاط کرنے لگا اس لیے کہ راستے میں موبائل پر بات کرنے سے حادثات بھی ہوتے ہیں ۔ پھر کچھ دنوں بعد موبائل سے دور رہنا معمول بن گیا ۔ موبائل کے ساتھ مطالعے اور تصنیف میں حرج ہوتا ہے ۔ ایک بار حضرت استاذ محترم مفتی سعید احمد پالن پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ” وسطیٰ اور ادنیٰ ” کے اساتذہ کو جمع کر کے اپنے گھر میں نصیحت فرمائی کہ "اگر علم میں رسوخ پیدا کرنا چاہتے ہو تو کتاب میں پڑھا کریں موبائل میں نہ پڑھا کریں،اس لیے کہ موبائل کا پڑھا ہوا دل میں راسخ نہیں ہوتا ” ۔
5- "سب سے آسان ترجمۂ قرآن مجید حافظی "پر مبارکبادی:
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جب قرآنِ پاک کا ترجمہ ناچیز کے ذریعے مکمل ہوا اور چھپ کر سامنے آیا تو حضرت مولانا بہت خوش ہوئے اور بڑے اونچے الفاظ میں مبارکبادی دی اور بڑے اچھے خوش کن کلمات سے حوصلہ افزائی کی، کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے تم سے یہ بہت بڑا کام لیا ہے ، اللہ تعالی اسے قبولیت سے نوازیں ! علمائے دیوبند کی طرف سے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے ، اس لیے کہ اپنے یہاں کے قابلِ اعتماد تراجم پر کافی زمانہ گزر گیا ہے ، زبان میں کافی تبدیلی آگئی ہے ، تم نے بہت اچھا کیا کہ اپنے اکابر کے محتاط دائرے میں رہتے ہوئے آسان سے آسان الفاظ کا انتخاب کر کے ترجمۂ قران کی خدمت انجام دی ۔
اس پر میں نے کہا کہ حضرت! آپ نے تو ما شاء اللہ کتب خانہ بھر دیا ہے ۔ اللہ تعالی نے آپ کو بہت سی کتابوں کا مصنف بنایا ہے ، آپ نے تین درجن سے زائد کتابیں لکھی ہیں ، مضامین لکھے ہیں ، مقالات لکھے ہیں اور آپ کی تحریر پر اہلِ علم کافی اعتماد کرتے ہیں، قارئین آپ کی نگارشات کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں ۔ اس پر فرمایا کہ یہ محنت تو قرآن پاک سے مربوط محنت ہے اور دونوں میں ایسی نسبت ہے جیسے سنا اور لوہا ۔ سونا سونا ہوتا ہے اور لوہا لوہا !
حضرت مولانا کی مبارکبادی سے ناچیز راقمِ حروف کا دل بہت خوش ہوا ۔
6- تصنیف و تالیف کی تربیت :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تربیت حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کی تھی ، طالبِ علمی کے زمانے میں ہی مضامین لکھنے کا سلیقہ ان کو آگیا تھا ، پاکستان سے شائع ہونے والے "نقوش” کے خاص نمبر میں بھی مضمون شائع ہوا تھا ، اس لیے ان کی تحریر بڑی عمدہ ہوتی تھی ، فراغت کے بعد ” دارالعلوم رحمانیہ حیدراباد” تشریف لے گئے ، وہاں مدرس ہوے ، چند دنوں بعد دارالعلوم دیوبند کے "صد سالہ اجلاس” سے پہلے دارالعلوم دیوبند کو اچھے لکھنے والے فضلاء کی ضرورت پیش آئی ، چنانچہ حضرت مولانا کو ان کے استاد محترم مولانا کیرانوی نے بلایا اور "شعبۂ تصنیف و تالیف "میں تقرر ہوا ، اس شعبے میں مولانا دو سال رہے اور اردو عربی زبان میں چند کتابیں لکھیں ، اکابر اساتذہ کی نگرانی میں رہ کر انہوں نے لکھنا سیکھا تھا مزید دو سال میں اور بھی مشق ہو گئی قلم رواں دواں ہو گیا ، جس کی برکت پوری زندگی ان کے اندر دکھتی رہی اور اسی بنیاد پر انہوں نے تین درجن تصانیف کے ذریعے قوم و ملت کی خدمت انجام دی ۔
مقالات ومضامین میں سے اکثر بروقت لکھے گئے اور اکثر تصانیف ضرورت کے وقت ضرورت کو سامنے رکھ کر وجود میں آئیں ۔
7- فکری تربیت :
حضرت مولانا کی فکری تربیت کے سلسلے میں بس اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ بچپن سے دارالعلوم دیوبند میں رہے اور یہاں کی چہار دیواری میں دس سال رہ کر انہوں نے اکابر اساتذہ سے کسب فیض کیا ، اپنی فکر کو روشن کیا ، اور کیوں نہ ہو ؟ یہ تو ایسے خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے جہاں علم کا غلغلہ تھا ، ان کے دادا حضرت مولانا احمد حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ "مفتاح العلوم جلال آباد "کے” شیخ الحدیث” تھے ، اور والدِ محترم بھی بڑی اونچی شخصیت کے حامل تھے ، حدیث شریف سے انہیں خاص لگاؤ تھا ، یعنی حضرت مولانا واجد حسین صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ "جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل "میں "شیخ الحدیث” تھے اور موصوف کے مامو جناب مولانا شریف حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ "دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث” رہے ۔ 1972م سے 1977 م تک انہوں نے اس عہدے کو رونق بخشی ۔
8- عربی زبان و ادب میں امتیاز :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو عربی اور اردو دونوں زبانوں میں امتیازی مقام حاصل تھا ، عربی زبان تو انہوں نے حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی تھی ، جو دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز ادیب اور ادیب گر تھے اور جنہوں نے عربی زبان میں اور لغات کی تصنیف میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے ، دارالعلوم دیوبند کی تاریخ میں مولانا کیرانوی خدمات کے پیشِ نظر ان کا مقابلہ کسی ادیب اور مصنف سے نہیں کیا جا سکتا ، حضرت مولانا کیرانوی ، مولانا ندیم الواجدی کو بہت چاہتے تھے ، مولانا نے ایک دن خود مجھ سے فرما کہ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے عربی اخبار دیتے اور اس کا ترجمہ کرنے کہتے اور اخبار میں سے عربی جملے اور تعبیرات نکلواتے اور پھر اس کے مطابق جملے بنواتے ، اس طرح حضرت مولانا وحید الزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے میرے اوپر بڑی محنت کی ہے ، اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائیں !
مولانا ندیم الواجدی نے دارالعلوم دیوبند میں 1967 م میں داخلہ لیا اور فراغت 1974م میں ہوئی ، فضیلت کے بعد 1975 م انہوں نے عربی زبان پڑھی ۔ اگلے سال 1976 م میں "عربی زبان و ادب میں تخصص” کیا ، اس دوران 10 سال حضرت مولانا کیرانوی سے انہوں نے بیش بہا استفادہ کیا ، دیو بند میں مولانا ندیم الواجدی صاحب نے ” عربک ٹیچنگ سینٹر” بھی قائم کیا تھا، بہت سے طلبہ نے اس سینٹر سے استفادہ کیا ، عربی زبان و ادب کی تربیت دینے اور سکھانے کے لیے حضرت مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں ۔
ان کتابوں میں ” معلم العربیہ” کے تین حصے "عربی بولیے” "عربی زبان کے قواعد نئے اسلوب میں” ” عربی میں ترجمہ کیجئے” ” عربی میں خط لکھئے” "جدید عربی زبان ایسے بولیے” "عربی انگلش اردو بول چال” "التعبیرات المختارۃ” اور” خطب الجمعہ و العیدین” ۔ ۔۔۔۔۔ معروف و مشہور ہیں۔
9- سہ لسانی لغت :
"القاموس الموضوعی” یہ سہ لسانی لغت ہے ، عربی، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں میں یہ لغت ، حضرت مولانا نے مرتب کی ہے ۔
10- بحیثیت مترجم :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مترجم کی حیثیت سے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ، سب سے بڑا کارنامہ امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ” احیا علوم الدین” کا ترجمہ ہے ، اس کتاب کا ترجمہ مولانا نے اپنے عنفوانِ شباب میں کیا تھا ،جو چار جلدوں میں چھپا ، اس کا ترجمہ بہت مشکل تھا اس میں علمی ، فقہی اور تصوف کے رموز و اسرار اور اصطلاحات بہت ہیں ، لیکن اس کام کو حضرت مولانا نے نہایت سلیقے سے انجام دیا ، اہلِ علم کے درمیان یہ معروف ہے ، پڑوسی ملک میں اس ترجمے کو” مذاق العارفین” کے نام سے چھاپا گیا ہے ۔ اس کتاب کے علاوہ بہت سے مقالات و مضامین کے ترجمے حضرت مولانا نے کیے ہیں ۔
11- بحیثیت شارح :
حضرت مولانا نے” شمائل ترمذی” کی شرح” جمع الخصائل” کے نام سے لکھی ، شارح ہونے کی حیثیت سے ، ان کی یہ کتاب ان کی عظمت کا نشان ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی علامت ہے ، اس کتاب میں شارحِ حدیث ہونے کی حیثیت سے بھی حضرت مولانا کو اچھی طرح پہچانا جا سکتا ہے ۔
12- بحیثیت مصنف گر :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب کے اندر اللہ تعالی نے لکھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ لکھوانے کی صلاحیت بھی خوب رکھی تھی ، چنانچہ انہوں نے بہت سے لوگوں سے کتابوں کی شروعات لکھوائیں ، صاحبِ ذوق طلبہ اور علماء کو قریب کرتے اور انہیں لکھنے کا ڈھنگ سکھاتے ، چند ہی دنوں میں وہ لکھنے کے میدان میں آگے بڑھ جاتے اور کتاب سامنے آ جاتی ، میری نظر میں بہت سی کتابیں ایسی ہیں جو انہوں نے متعدد اہلِ علم سے لکھوائی ہیں ، ان میں اکثر شروحات ہیں ۔
13- امتحان کے لیے طلبہ کی رہنمائی :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب طلبۂ کرام کے لیے کافی شفیق تھے ، طلبہ کو ایک طرف وہ کتابیں سستی دیا کرتے تھے ، دوسری طرف مشہور سوالوں کے جواب لکھوا کر اپنے کتب خانے سے چھپواتے ، تاکہ طلبہ کو امتحان میں آسانی ہو ، اس عنوان سے بھی بہت سی کتابوں کے ” نوٹس” مولانا نے لکھوائے اور وہ دیوبند میں عام ہوئے ، یہ بات الگ ہے کہ کون سے نوٹس میں جامعیت ہے اور کس میں نہیں ۔ یہ تو لکھنے والے کے اوپر ہے کہ لکھنے والا جامع لکھتا ہے یا اس کی تحریر ہلکے پھلکے مواد پر مشتمل ہوتی ہے ۔
14- بحیثیت خاکہ نگار:
حضرت مولانا ندیم الواجدی رحمۃ اللہ علیہ نہایت عمدہ ،جامع ، خاکہ لکھا کرتے تھے ، اکثر شخصیات کے انتقال کے بعد وہ ضرور لکھتے ، جو خوبیاں شخصیات کی ان کو معلوم ہوتیں ، ان کو نہایت اچھے اسلوب میں ادا کرتے ، ایسے خاکے مختلف مجلات ، رسائل ، اخبار اور ماہ ناموں میں بکھرے ہوئے ہیں ، سب سے عمدہ خاکہ حضرت مولانا نے اپنے والد جناب واجد حسین دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لکھا تھا ، جس کا نام ” بے مثال شخصیت باکمال استاذ ” ہے ۔
15- دفاعی تصانیف :
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے باغیرت اور صاحبِ حمیت شخصیت تھے ، مولانا نے دفاعِ اسلام میں ، دفاعِ وطن میں ، دفاعِ مسلک و مشرب میں کئی کتابیں ایسی لکھی ہیں جن کی ضرورت تھی ، بروقت انہوں نے قلم اٹھایا اور تصانیف کے ذریعے دفاعِ کا فریضہ انجام دیا ، ان میں ان کی کتاب "اسلام ….. حقائق اور غلط فہمیاں "معروف ہے ۔
دفاعِ ملت کے اسٹیج سے بھی مولانا نے بہت سے مضامین اور مقالات لکھے ، ان میں ان کی کتاب ” لہو پکارے گا آستین کا "
اور”آزادی سے جمہوریت تک ” معروف ہیں ۔
"قیامت کی نشانیاں اور مولانا وحید الدین خان کے نظریات ” یہ دفاعِ اسلام میں اور دفاعِ مسلک و مشرب کی حیثیت سے معروف ہے ۔
16- مقالات ومضامین :
مقالات و مضامین کے ذریعے سے بروقت سلگتے مسائل پر حضرت مولانا کی خامہ فرسائی ہوتی رہتی تھی ، ” ترجمان دیوبند” کے نام سے انہوں نے ایک ماہنامہ 2001 م میں شروع کیا تھا جو 2022 م تک جاری رہا اور اس میں مقالات و مضامین خود لکھتے رہے اور دوسرے اہم مضمون نگاروں کے مضامین بھی شامل کرتے رہے ، ناچیز کے مضامین کو بھی جگہ دیا کرتے تھے ، ایک مرتبہ ” عصر حاضر میں سیرتِ نبوی کی رہنمائی” کے عنوان سے میرا ایک مقالہ ماہنامہ "عائشہ صدیقہ حیدراباد "میں چھپا تھا حضرت مولانا نے اپنے ماہ نامہ "ترجمانِ دیوبند” میں بھی اس مقالے کو شامل فرما کر حوصلہ افزائی کی تھی ، مولانا کے مقالات و مضامین کے بہت سے مجموعے شائع ہوئے ہیں ،
ان میں ” نگارشات” "رشحاتِ قلم ” "مقالات و مضامین” کے عنوان سے مجموعے مشہور و معروف ہیں اور کتب خانوں میں دستیاب ہیں ۔
اللہ تعالی بال بال مغفرت فرمائے بڑے چھ آدمی تھے ۔