مبلغ دیوبند مولانا ارشاد احمد فیض آبادی اور بھٹکل

تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)

بنگلور سے ہمارے مولانا خلیل الرحمن قاسمی برنی صاحب نے دارالعلوم دیوبند کے ایک قابل فخر سپوت حضرت مولانا ارشاد احمدؒ مبلغ دیوبند کا تذکرہ چھیڑا ہے، آج کی نسل تو مولانا کو بھول سی گئی ہے، لیکن جب آپ زندہ تھے تو آپ کا توتی چار سو بولتا تھا، آپ کے مناظروں کی بڑی دھوم تھی،اورآپ کے مخالفین کو دئے جانے والے دندان شکن دلائل کا ایک دبدبہ تھا، لیکن جیسا کہ ہماری تاریخ میں دوسرے عظیم المرتبت مناظرین کے ساتھ جو سلوک ہوا کہ ان کی بیانات ومناظرے فضاؤوں میں گھل جاتے ہیں، اور پھر صرف ان کا نام رہ جاتا ہے، آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا، آپ کے مجلسیں، آپ کے علمی نکات جو مخالفین کی زبانین گنگ کردیتے تھے، وہ لوگوں کو یاد بھی نہ رہے۔ اور انہیں دیکھنے والوں کی زبانی یاد کرنے کے لئے آپ کا صرف نام رہ گیا۔

1954ء میں بھٹکل کے ایک تاجر جناب محمد اسماعیل کوبٹے مرحوم نے جو حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب رحمۃ اللہ علیہ کے زبردست عقیدت مند تھے،اور ہبلی (کرناٹک) میں ایک ہوٹل چلاتے تھے، یہاں پر اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے اور جہالت وبدعات کو ختم کرنے کے لئے ادارہ انجمن درس قرآن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، اور حضرت حکیم الاسلامؒ سے رابطہ کرکے یہاں پر دیوبند کے ایک ترجمان عالم دین کی ضرورت سے آگاہ کیا تھا، جس پر آپ دیوبند سے مولانا ارشاد احمد کےچھوٹے بھائی مولانا ریاض احمد فیض آبادی کو اپنے ساتھ ہبلی لے آئے تھے، اس وقت ہبلی میں مسلم قبرستان میں قادیانیوں کی تدفین کا مسئلہ زور وشور سے اٹھا تھا، جس کے خلاف مولانا ریاض احمد صاحب نے محاذ قائم کرکے ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا، اس وقت ہبلی میں آپ کی طرف منسوب ریاض العلوم در اصل اسماعیل کوبٹے صاحب کے قائم کردہ انجمن درس قرآن ہی ہے ، جس کا نام بدل دیا گیا ہے، بعد میں مولانا ریاض احمد کے بھائی اعجاز احمد بھی جامع ازہر سے پڑھ کر آپ کے ساتھ یہاں آگئے تھے۔ یہیں سے مولانا ارشاد احمد کی ہبلی اور کرناٹک کے اس علاقے میں آمد کا سلسلہ شروع ہوا تھا بھٹکل تک دراز ہوا۔

حکیم عزیز الرحمن اعظمی مرحوم (بانی طبیہ کالج دیوبند) فرمایا کرتے تھے کہ آزادی ہند سے کچھ قبل تقسیم ہند کے ہنگامے اور اس وقت کے جذباتی ماحول میں جب حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی علیہ الرحمۃ نے دارالعلوم کی سرپرستی سے استعفا دے دیا تھا، تو اس سیاسی ماحول میں دیوبند سے تھانہ بھون طلبہ و مدرسین کی مختلف اسباب سے آمد و رفت کچھ کم ہوگئی تھی، اس طرح آپ سے بیعت وارشاد کا وہ تعلق بھی نہ رہا تھا،حضرت حکیم الامتؒ کی وفات اور تقسیم ہند کے کچھ عرصہ بعد حکیم صاحب کا تعلق حضرت مصلح الامت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری خلیفہ حضرت حکیم الامت علیہ الرحمۃ سے ہوگیا، تو اچانک ایک روز حضرت نے حکیم صاحب کو بلا کر اپنی خلافت سے نوازا، اس وقت حکیم صاحب نے حیرانی سے آپ سے کہا کہ میں تو ایک ہنسوڑ قسم کا غیر سنجیدہ سا آدمی ہوں، مجھے بیعت وخلافت سے کیا کام؟۔ تو حضرت مصلح الامت علیہ الرحمۃ نے جواب دیا کہ اللہ تعالی آپ سے بڑا کام لے گا، اور واقعتاً اللہ تعالی نے مجھ سے بہت بڑا کام لیا، کیونکہ حضرت تھانویؒ کے ساتھ تعلق کو ازسر نو مضبوط کرنے اور اسے جوڑنے کا میں ذریعہ بن گیا، اس واقعے کے بعد ہی حضرت شاہ صاحب کے استاد علامہ ابراہیم بلیاوی رحمۃ اللہ علیہ صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند نے اپنے اس شاگرد سے بیعت وارشاد کا تعلق قائم کیا تھا ، اسی طرح حضرت مولانا معراج الحق رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب مہتمم ، اور مبلغ دیوبند مولانا ارشاد احمد علیہم الرحمۃ وغیرہ نے بھی آپ سے بیعت وارشاد کے تعلق سے وابستہ ہوئے تھے۔اور یہ سنہری سلسلہ پھر سے چل پڑا۔ حکیم صاحب بتاتے تھے کہ پھر ایسا بھی ہوا کہ اصلاح کی غرض سے مولانا ارشاد احمد جیسی عظیم شخصیت حضرت مصلح الامتؒ کی مجلس میں آتی تھی، تو باہر حاضرین مجلس کی جوتیاں سیدھی کرتی نظر آتی تھی۔

مولانا ارشاد احمد علیہ الرحمۃ کا بھٹکل کے ساتھ بھی خاص تعلق تھا، ایک تو اسماعیل کوبٹے صاحب انہیں اور ان کے بھائیوں کو اس علاقے میں لانے کا ذریعہ بنے تھے، دوسرے حضرت ڈاکٹر علی ملپا صاحب ؒ جنہوں نے حضرت حکیم الامت علیہ الرحمۃ کے خلفاء میں سے یکے بعد دیگرے مولانا عیسی الہ آبادی (ف ۱۹۴۴ء) حاجی حقداد خان لکھنوی (ف ۱۹۵۰) علامہ سید سلیمان ندوی (ف ۱۹۵۳ء) سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے بعد علامہ ہی کے مشورے سے مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری (ف ۱۹۶۷ء) سے مربوط ہوئے تھے، مولانا ارشاد احمد فیض آبادیؒ کے حضرت مصلح الامت علیہ الرحمۃ سے تعلق ، آپ سے بھی خاص تعلق کا سبب بنا۔اور جب ۱۹۶۲ء میں بھٹکل میں جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا تو بانی جامعہ ڈاکٹر ملپا صاحب نے اس کے آغاز اور بسم اللہ خوانی کے لئے آپ کو دعوت دی تھی، جس کی دلچسپ روداد ہم استاد محترم مولانا ملا محمد اقبال ملا ندوی مرحوم پر ہمارے مضمون میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جامعہ آباد کی نئی بستی میں جامعہ کی منتقلی ہوئی تو اس اہم موقعہ پر بھی آپ کو یاد کیا گیا۔

۱۹۷۴ء میں آپ کی بھٹکل آمد پر آپ کی شخصیت کے چند ایک پہلو خاص طور پر کھل کر سامنے آئے، مثلا شکر کی وجہ سے روٹی اور چاول سے پرہیز،اور ڈاکٹروں کی نصیحت پر سو فیصد عمل، جس نے بعض موقعون پر ہمارے معاشرے میں میزبانی کی ایک خامی کو خاص طور پر اجاگر کردیا، ہمارے لوگوں میں میزبانی کا عمومی تصور یہ ہے کہ مہمان کو اس کے مزاج اور طبیعت کو دیکھے بغیر خوب کھلایا پلایا جائے،اس مناسبت سے اس وقت کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ بھٹکل سے کوئی تیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے ولکی، جو دریائے شراوتی کے کنارے آباد ہے،اس زمانے میں وہاں آمد ورفت کے ذرائع محدود تھے، مکانات بھی کم تھے، اور ضروریات زندگی کے لئے چھوٹی سی ایک دو دکانیں پائی جاتی تھیں ، اس زمانے میں وہاں عام لوگوں کو جانے کا واحد ذریعہ ہناور سے ہاتھ کے چپو اور بانس کے زور سے چلنے والی کشتیاں تھیں، جو کئی گھنٹوں میں ولکی گاؤں تک پہینچاتی تھی، کوئی بس اڈہ نہیں تھا، اور کاروں سے پہنچنے کے لئے یہاں ایک کچی سی سڑک تھی، مولانا رات نوبجے کے بعد یہاں پہنچے تھے، گاؤں کے لوگوں نے اپنی بساط سے زیادہ آپ کی میزبانی کے لئے بریانی وغیرہ مرغن چیزیں پکا رکھی تھیں، لیکن مولانا کو چونکے چاول سے پرہیز تھا لہذا وہاں آپ نے ابلے انڈوں کا تقاضا کردیا، اور اس وقت انہیں فراہم کرنے کی کوئی گنجائش یہاں نہیں موجود نہیں تھی، جس سے میزبانوں کی بڑی سبکی ہوگئی۔

مولانا شریعت کی پابندی کے معاملات میں سخت تھے، میز اور ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا نہایت ناپسند کرتے تھے، علاوہ ازیں جائےنماز پر کعبہ کی تصویر کو یہودیوں کی سازش اور کعبہ کی عظمت دل سے نکالنے کا سبب سمجھتے تھے۔ جس کا تذکرہ آپ نے اس وقت جگہ جگہ کیا تھا۔

مولانا کی رحلت کے بعد پھراس مرتبہ کے کسی مناظر اور مسلک دیوبند کے ترجمان کا تذکرہ سننے میں نہیں آیا، ویسے دنیا کبھی ایسوں سے خالی نہیں ہوتی، لیکن کم ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی صلاحیتوں اور محنتوں کی خوشبو مشک کی طرح چار سو پھیل جائے، مولانا بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں تھے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں مولانائے مرحوم کا اچھے لفظوں میں تذکرہ ہو، مناظروں ، مجلسوں میں مخالفین کو دندان شکن جواب دے کر منہ بند کرنے والے افادات کو محفوظ کرکے انہیں نئی نسل تک پہنچانے کا کوئی نظم کیا جائے، یہی ان کے لئے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔

2024-11-30

بشکریہ: علم و کتاب واٹس ایپ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے