بقلم : ڈاکٹر مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی مدرس دارالعلوم دیوبند
انسانی زندگی میں خرید و فروخت ایک لازمی ضرورت ہے ،ضروریات کی فراہمی کے لیے چیزیں خریدی جاتی ہیں ، خریدنے کے لیے زرِ متبادل کی ضرورت پیش آتی ہے ، اس کو پا کر بیچنے والا مطمئن ہو جاتا ہے ، ہر زمانے میں انسانوں نے "زرِ متبادل” بنایا ہے ، سونا اور چاندی کے "زرِ متبادل” ہونے پر پوری دنیا کا اتفاق ہے، اس لیے فقہائے کرام نے دونوں کو ” ثمنِ خلقی” سے تعبیر کیا ہے ، "ثمن عرفی” کی مختلف قسمیں رہی ہیں ، کبھی کوڑی (چھوٹا سنکھ) زرِ متبادل تھا ، کبھی سیپی ، درخت کی چھال اور روٹی چاول کو بھی زرِ متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ، علاقے اور زمانے کے اعتبار سے ” ثمن عرفی” میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، کاغذ کو کرنسی کے طور پر سب سے پہلے چین نے استعمال کیا ، سرکاری مہر کے ساتھ کاغذ زر متبادل ہوتا تھا ، بعد میں وہ ، "چیک اور نوٹ "کہلانے لگے ، اس کے محرکات میں سے سونے اور چاندی کو منتقل کرنے کی پریشانی تھی ، ڈاکو اُنہیں چھین لیتے تھے ، سونے اور چاندی کے سکوں کو زمین میں گاڑنے کی وجہ بھی یہی تھی ، نوٹوں کے بعد بینکوں نے پلاسٹک کے کارڈ جاری کیے اور برقی ایجادات نے اور آگے کی طرف چھلانگ لگائی اور "کرپٹو کرنسی ” وجود میں آگئی ، اسے "ورچوئل” یعنی معنوی کرنسی بھی کہا جاتا ہے ۔
کرپٹو کرنسی کی حقیقت:
کرپٹو کرنسی متعدد ناموں سے چل رہی ہے ، اسے "ورچوئل "، "بٹ کوائن "، "ایتھرائم” ، "بائننس کوائن ” بھی کہا جاتا ہے ، یہ ایک ایسا زرِ متبادل ہے ، جو ہندسوں کی شکل میں انٹرنیٹ پر موجود ہوتا ہے ،الگ سے اس کا وجود نہیں ہوتا ،جیسے ہم کاغذ کے نوٹ اور سونے چاندی اپنے پاس رکھتے ،اس طرح یہ رکھا نہیں جاتا ،اس کا استعمال بھی انٹرنیٹ پر ہی ہوتا ہے ، اس کو کمپیوٹر اور موبائل پر منتقل کیا جاتا ہے ،اس پر قبضہ ممکن ہے ،یعنی اس کے مالک اپنے پوشیدہ رموز کے ذریعے اس پر قابض ہوتے ہیں ،حفاظت کے لیے چوکنا رہتے ہیں ،اس سے انتفاع ممکن ہے ،بلکہ مارکیٹ میں اس کے ذریعے خرید و فروخت ہو رہی ہے ،یہ ایک کی ملکیت سے دوسرے کی ملکیت میں منتقل کیا جاتا ہے ،کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والے "بلاک چین” ( الیکٹرانک رجسٹر یا بہی کھاتے )پر اپنا ریکارڈ محفوظ رکھتے ہیں ۔
بلاک چین:
"
بلاک چین” میں بلاک کے معنی کھاتا اور چین کے معنی سلسلہ ، یہ ایسے سلسلۂ کھاتا بہی کو کہتے ہیں ، جس میں ریکارڈ محفوظ کیا جاتا ہے ، مثلاً زمینوں اور مریضوں کے دستاویزات ، الیکشن اور تعلیم سے متعلق دستاویزات کو "بلاک چین "میں محفوظ کیا جاتا ہے ،گویا بلاک چین ٹکنالوجی معلومات محفوظ رکھنے کا ترقی یافتہ الیکٹرانک طریقہ ہے ، کرپٹو کرنسی کو "والیٹ "(کھاتے) میں رکھتے ہیں ، اس کے لیے ایک پاسورڈ (رمز )ہوتا ہے، جسے "پرائیویٹ کی "کہا جاتا ہے ، "اے ٹی ایم” کے "پاسورڈ” کی طرح اِسے اپنے پاس رکھا جاتا ہے اور ایک "پبلک کی "ہوتی ہے ، جو ایک دوسرے کو دی جاتی ہے ، تاکہ اس کے ذریعے کرنسی منتقل کی جائے ، یہ چند حروف اور عدد کا مجموعہ ہوتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ” بلاک چین "کی ٹیکنالوجی جس طرح دوسرے دستاویزات کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے ،اسی طرح کرپٹو کرنسی کے لیے استعمال ہوتی ہے ، اس کے جان کار بتاتے ہیں کہ اس میں خرد برد تقریباً ناممکن ہے ، یہ محض انٹرنیٹ پر ہوتا ہے ، کسی ادارے یا کسی فرد کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہوتا ۔
یہی اس کا حساس پہلو ہے ،اس معنی کر خطرناک بھی ہے کہ اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے ، نہ تو کوئی ادارہ ہے اور نہ کوئی فرد بشر ، لیکن لین دین کا خوب رواج ہو رہا ہے ۔
کرپٹو کرنسی میں مائننگ کا عمل :
"
مائننگ” کو عربی میں "تعدین "کہتے ہیں ، یعنی معدنیات نکالنے کے لیے کان کھودنا ، اس عمل کے بدلے انعام ملتا ہے ، اس کی تفصیل یہ ہے
:
"بلاک چین” سے سسٹم سے جڑے ہوئے بہت سے کمپیوٹر ہوتے ہیں ، جن میں” ٹرانزیکشن” کا ریکارڈ ہوتا ہے ، ہر کمپیوٹر والا اس کو اختتام تک لے جاتا ہے ،اخیر تک جاتے جاتے ان کے سامنے ایک ریاضی” معمہ” آتا ہے ، سب کے سب مل کر اسے حل کرتے ہیں ، جو پہلے حل کرتا ہے ، اس کا عمل پہلے پورا ہو جاتا ہے اور اسے انعام کے طور پر کچھ "کوائن” ملتے ہیں ۔
یہ عمل کرپٹو کرنسی کا لازمی جز ہے ، بلاک چین میں شامل ہونے کے لیے ضروری ہے ،اس پر چونکہ کوئی رقم ہار جیت کے لیے شرط کے طور پر لگانا ضروری نہیں ہے ، اس لیے اس پر قمار کی تعریف صادق نہیں آتی ،لہذا اس کو ناجائز کہنے کی کوئی وجہ نہیں ۔
کرپٹو کرنسی کاغذی کرنسی کی طرح ثمن عرفی ہے :
"ثمن خلقی” سونا چاندی ہے اور یہ دونوں مسلم ہیں ،ان میں بھی سونے کو آج عالمی سطح پر ثمن کی حیثیت حاصل ہے ،مگر شریعتِ اسلامی میں دونوں "ثمنِ خلقی” ہیں "ثمنِ عرفی "کا مدار انسانوں کے عرف عام پر ہے ،اگر انسانوں نے المونیم اور تانبے کو مان لیا تو وہ "ثمن عرفی” ہو گئے ، کسی زمانے میں سیپی اور درخت کی چھال کو "ثمن عرفی” کی حیثیت دی گئی، کبھی روٹی اور چاول کو بھی زرِ متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا ۔
اور یہ بھی مسلم ہے کہ پہلے عرف ، خاص ہوتا ہے ،چند لوگوں کے درمیان اس کا رواج مانا جاتا ہے ،پھر اس میں عموم آ جاتا ہے تو عرفِ عام کی وجہ سے "ثمن عرفی” کی حیثیت اسے دے دی جاتی ہے، سب سے پہلے چین نے کرنسی کے لیے کاغذ کا استعمال کیا ، سرکاری مہر کے ساتھ کاغذ کے ٹکڑے کو "زرِ متبادل” بنایا، پھر وہ "چیک” اور بعد میں” نوٹ” کہلانے لگے ۔
” کرپٹو کرنسی” کا رواج چل پڑا ہے ، تاجرین اس کو زر متبادل مان رہے ہیں ، دنیا کی بہت سی مشہور کمپنیاں کرپٹو کو ثمن کے طور پر قبول کر رہی ہیں ، مثلاً : "مائکروسافٹ، اے ایم سی ، سب وے ، ڈل ، لوش ،کوکا کولا ، برگر کنگ ، ورڈ پریس ،شوپی فائی ، وغیرہ ۔ ( کرپٹو کرنسی ایک تجزیاتی مطالعہ: مفتی رشید الدین معروفی قاسمی صفحہ 118 ۔ 123) ۔
بعض ممالک نے "زرِ قانونی” قرار دیا ہے ، جیسے سینٹرل امریکہ کا ایک ملک ” اِل سلوڈر ” اور "سینٹرل افریقی جمہوریہ” اور بہت سے ممالک میں تجارت کی اجازت ہے ۔ یعنی کرپٹو کرنسی کے ذریعے لین دین کر سکتے ہیں ،اگرچہ زرِ قانونی کی حیثیت انہوں نے ابھی نہیں دی ہے ، ہمارا ہندوستان بھی انہیں میں سے ہے ، امریکہ ،جاپان ، جرمنی ، کناڈا ، برطانیہ اور سنگاپور بھی اسی زمرے میں ہیں ۔
یہ تفصیل اس بات کی دلیل ہے کہ کرپٹو کا رواج ہو گیا ہے ، اور اس کو ” عرفِ عام” کی وجہ سے” ثمنِ عرفی” کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے ، پہلے کاغذ پر لکھے رموز کو ” زر "مانا جاتا تھا ، اس لیے کہ لکھنا حسی چیز پر ممکن تھا ، پیتل ،تانبے پر لکھے رموز کو زر مانا گیا اور اب زمانہ ترقی کر گیا ہے ،ڈیجیٹل رموز کی صورت میں کرپٹو کرنسی وجود میں آگئی ہے ، اس لیے اس کے ” ثمنِ عرفی” ہونے کا شبہ نہیں رہا ۔
کرنسی ہو نے کے لیے حکومت کا تسلیم کرنا:
ثمن اور زرِ متبادل ہونے کے لیے تجار کے درمیان قابلِ تسلیم ہونا اور رائج ہونا ضروری ہے ، مثال کے طور پر فلوس کے بارے میں علامہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
فالفلوس الرائجه بمنزلة الأثمان لاصطلاح الناس على كونها ثمناً للأشياء فإنما يتعلق العقد بالقدر المسمى منها في الذمة ويكون ثمناً عُيّن او لم يُعَين كما في الدراهم والدنانير . ( بحر 4/534 ) .
ترجمہ : چنانچہ رائج پیسے ثمن کے درجے میں ہیں ، اس کے چیزوں کی قیمت ہونے پر لوگوں کے راضی ہونے کی وجہ سے اس کی متعین مقدار کے ذمے میں لازم ہونے کی وجہ سے لین دین ہو جاتا ہے اور وہ متعین ہو یا نہ ہو ہر صورت میں ثمن مانا جاتا ہے ، جیسا کہ درہم و دینار میں یہی وجہ موجود ہے ۔
آگے علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اگر تجار درہم و دینار پر کھوٹ کے غالب ہونے کی وجہ سے لین دین پر راضی نہ ہوں تو ایسے درہم و دینار کو ثمن نہیں مانا جا سکتا ۔ ( بحر 4/534) ۔
علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی کو مدلل کیا ہے کہ اصل تجار کے درمیان قبول اور عدمِ قبول ہے ۔ جسے تجار مان لیں اس کو ثمن مانا جائے گا اور جسے رد کر دیں اس کی ثمنیت رد ہو جائے گی ۔
زرِ متبادل کی شرعی حیثیت متعین ہونے کے لیے تجار کے درمیان کا رواج کافی ہے ، حکومت کے تسلیم کرنے اور نہ کرنے پر کسی فقیہ نے اس کا مدار نہیں رکھا ہے ،اس لیے جن ممالک نے کرپٹو کرنسی کو کرنسی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے اور تجارت کی اجازت بھی نہیں دی ہے ، ان ممالک میں بھی اگر تجار کرپٹو کرنسی سے لین دین کرتے ہیں تو بیع و شراء شرعاً درست ہوگی ، جیسے : چین، روس، سعودیہ ،قطر ، بحرین، اس لیے کہ ان ممالک میں کرپٹو چاہے کرنسی نہیں ہے ،مگر ثمن اور زر تو ہے ہی ۔
اگر کرپٹو کو کرنسی تسلیم کر لیا جائے تو ایک سوال باقی رہ جائے گا کہ چونکہ کرپٹو میں "لا مرکزیت” ہوتی ہے ، اس لیے اگر ملک اور ملک کا ادارہ ذمہ دار نہیں ہے تو اس کا اگر کوئی دیوالیہ ہو جائے تو ایسی صورت میں ذمہ دار کون ہوگا ؟ اس لیے جن ممالک میں تجارت کی اجازت نہیں ہے ،یا حکومت نے زر تسلیم نہیں کیا ہے ، ان میں کرپٹو کے ذریعے تجارت میں احتیاط کرنا بہتر ہے ، اس لیے کہ کرپٹو کے ذریعے ٹیکس کی چوری کا شدید خطرہ ہے ،اس سے ملک کمزور ہوگا ، اس کے ساتھ ایک اور خطرہ ہے کہ ملک کی دولت کرپٹو میں منتقل ہو کر ملک کو کمزور کر دے گی ، جرائم پیشہ لوگ اس کے ذریعے ملک و قوم کو نقصان پہنچائیں گے ، اسمگلنگ کی شرح میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ حکومت کی پشت پناہی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے خدشات کا سامنا ہوگا ،اس لیے جن ممالک نے تجارت کی اجازت دی ہے یا تسلیم کر لیا ہے ، انہیں ممالک میں تجارت کیا جانا بہتر ہے ، اگرچہ جائز سب جگہ ہے ۔
کرپٹو کرنسی شرعاً مال ہے:
قرآن و سنت میں مال کی تعریف نہیں کی گئی ہے ، فقہائے کرام نے جو مال کی تعریف کی ہے ، اس کا حاصل یہ ہے کہ مال ایسی چیز کو کہتے ہیں جو
"قابلِ انتفاع” ہو اس پر” قبضہ ممکن” ہو اور مال ہونے اور نہ ہونے کا مدار فقہائے کرام نے عرف اور تعامل پر رکھا ہے ، جب کہ شرعاً حرام نہ ہو عرف اور تعامل کا تعلق زمانے سے بھی ہے کہ کوئی چیز ایک زمانے میں مال ہوگی تو دوسرے زمانے میں تعامل نہ ہونے کی وجہ سے مال نہیں ہوگی اور جب سارے لوگ چھوڑ دیں گے تو مالیت خود بخود ختم ہو جائے گی ۔
علامہ ابن نجیم لکھتے ہیں :
المال ما يميلُ اليه الطبعُ ويمكن اِدخاره لوقت الحاجة والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاعِ شرعاً . ( البحر الرائق 5/277) .
ترجمہ: مال اسے کہتے ہیں جس کی طرف طبیعت مائل ہو اور ضرورت کے وقت کے لیے اس کا ذخیرہ کرنا ممکن ہو اور مال ہونا سارے لوگوں یا بعض لوگوں کے مال ماننے سے ثابت ہو جاتا ہے اور قیمتی ہونا مالیت کے ذریعے ثابت ہوتا ہے اور شرعاً اس سے فائدہ اٹھانے کے جائز ہونے کی وجہ سے بھی ثابت ہوتا ہے ۔
مال کے لیے عین ہونے کی قید بعض فقہائے احناف کے یہاں ملتی ہے ، مگر راجح قول کے مطابق احناف کے یہاں غیر عین بھی مال ہو سکتا ہے ، حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی نے اس پر تفصیلی بحث کی ہے ۔ (فقہی مقالات 1/138۔ فقہ البیوع 1/26,27)۔
کرپٹو کرنسی کو ثمن کے طور پر بہت سی کمپنیاں قبول کر رہی ہیں اور بعض کمپنیوں میں صرف کرپٹو کرنسی تسلیم کرنے کی بات سنی جا رہی ہے ۔ تجار کے درمیان اس کا لین دین رائج ہے ، دو ملکوں نے کرنسی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے ،ہندوستان اور امریکہ جیسے ممالک نے صرف تجارت کی اجازت دی ہے ،اس لیے بلا شبہ یہ مال ہے ۔
اس کے قابلِ انتفاع ہونے میں شبہ نہیں ہے ،اس پر قبضہ بھی اطمینان کی حد تک ہو جاتا ہے ،اس کا ادخار بھی ممکن ہے ، بہت سے لوگ اپنی جائیداد کو کرپٹو میں منتقل کر کے رکھنے لگے ہیں ،اس لیے یہ مال ہے ،اس پر مال کے سارے احکام جاری ہوں گے ۔
کرپٹو کرنسی پر زکوۃ :
اگر کرپٹو کرنسی کی مالیت نصابِ زکوۃ کو پہنچتی ہے تو زکوۃ واجب ہوگی اور ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ ادا کرنی ہوگی ۔
فریقین کے تسلیم کرنے کی وجہ سے اثاثے کا حکم :
کرپٹو کرنسی کو لین دین میں تجار قبول کرتے ہیں رواج ہو چکا ہے عرف اور تعامل کی وجہ سے یہ مال ہے ، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ،اس لیے اس کا اثاثہ ہونا مسلم ہے، اس کی ذخیرہ اندوزی بھی درست ہے ، اگر اس کو کسی دوسری کرنسی سے بدلا جائے تو کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ جائز ہوگا ۔
کرپٹو میں سرمایہ کاری:
کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری بلا شبہ جائز ہے ، جب کہ اس کے لینے دینے میں دھوکہ نہ ہو اور سود اور جوئے کی شکل نہ بنے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔
بٹ کوائن کا اپلیکیشن استعمال کرنا :
"
بٹ کوائن اپلیکیشن” کو اگر کوئی استعمال کرتا ہے اور اس سے پوائنٹ جیت کر بٹ کوائن حاصل کرتا ہے تو دیکھا جائے گا کہ کیا اس کے لیے الگ سے کوئی فیس لی جاتی ہے یا نہیں ؟ اگر فیس لی جاتی ہے یا کسی طرح سے رقم حاصل کی جاتی ہے اور اس میں ہار جیت کی شکل ہے تو اس پر ملنے والا بٹ کوائن قمار کی وجہ سے حرام ہوگا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے میسر کو حرام فرمایا ہے ۔ ( مائدہ 90) ۔ اور جب حرام ہوگا تو چاہے اس کو روپیہ میں تبدیل کرے یا ڈالر میں سب حرام ہوگا ۔
اور اگر جیتنے ہارنے کی شکل نہیں ہے محض انعام کی شکل ہے تو جائز ہوگا ۔
کرپٹو کرنسی میں سود قمار اور سٹہ :
روپیہ پیسہ میں جس طرح سود کی صورت نکلتی ہے اور اس کی وجہ سے لین دین میں حرمت آتی ہے ، اسی طرح کرپٹو میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی نقل نے سودی قرض کا نظام بنایا ہے ، اس کو اصطلاح میں ” ڈیفائی” کہا جاتا ہے، لیکن بینک کے سودی لین دین سے کچھ مختلف ہے ، کرپٹو کرنسی میں سود دینے اور اضافے کے ساتھ واپس لینے کی تاریخ متعین ہوتی ہے اور معاہدے کے مطابق اس تاریخ میں اضافے کے ساتھ سودی قرض لینے والے کے کھاتے سے دینے والے کے کھاتے میں کرپٹو کرنسی منتقل ہو جاتی ہے ۔ ( کرپٹو کرنسی ایک تجزیاتی مطالعہ صفحہ 63 اور 88) ۔
قمار اور سٹے سے بھی کرپٹو کرنسی پاک نہیں ہے جس صورت میں قمار اور سٹہ پایا جائے گا ، وہ صورت حرام ہوگی ۔
خلاصۂ بحث :
” کرپٹو کرنسی ” اور اس طرح کی ساری ڈیجیٹل کرنسیاں نئے زمانے کی ایجاد ہیں ، ان پر قبضہ اور ان سے انتفاع ممکن ہے ، تاجروں کے درمیان لین دین کا رواج ہے ، بہت سی کمپنیاں اس میں لین دین کرتی ہیں ، عالمی خیراتی ادارے اس کو قبول کرتے ہیں ۔ ایک گونا بینکوں سے زیادہ شفافیت کرپٹو میں نظر آتی ہے ، بین الاقوامی ٹرانزیکشن میں بڑی سہولت ہے ، اس لیے یہ بلا شبہ مال ہے اور اس پر "ثمن عرفی” کی تعریف صادق آتی ہے ،اس لیے اس کے ذریعے لین دین کرنا جائز ہے ، شرعاً کوئی قباحت نہیں ، جب کہ سود کی نوبت نہ آئے ، ہار جیت اور جوئے کی شکل نہ بنے ، غرر اور دھوکہ نہ ہو ۔ جب یہ مال ہے تو اس پر زکوۃ بھی واجب ہوگی ۔
جن ممالک نے کرپٹو کرنسی میں تجارت کی اجازت دے دی ہے ، یا اس کو کرنسی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا ہے ، ان میں بلا تکلف لین دین کر سکتے ہیں اور جن ممالک نے ابھی اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے ، وہاں لین دین کرنا اگرچہ جائز ہے ، مگر احتیاط کے خلاف ہے ، اس لیے کہ اس کا کوئی ذمہ دار نہیں ، خدانخواستہ دیوالیہ کی صورت پیش آگئی تو تلافی کی کوئی صورت نہ رہے گی ۔ واللہ اعلم بالصواب