حضرت مولانا شاہ محمد عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ

بسم الله الرحمن الرحيم

بقلم: مولانا عمرین محفوظ رحمانی
اک مسیحا، اک عالم،اک انساں، اک فقیر
خمار بارہ بنکوی کا شعر ہے؎
یہ کیسی ہوائے ترقی چلی ہے
دیے تو دیے، دل بجھے جارہے ہیں
جب مادیت کی یلغار ہوتی ہے، شبہات و شہوات کے فتنے دل پر اثر انداز ہوتے ہیں،اور مال و اسبابِ دنیا سے تعلق بڑھ جاتا ہے تو کچھ اور ہو یا نہ ہو انسان کا دل بجھ جاتا ہے ،مرجاتا ہے ،اور دل کی یہ موت جہانِ عشق میں غیر معمولی سانحہ ہے، بڑا نقصان اور نا قابل تلافی خسران ہے ،دل کی موت انسان کو بے ضمیر بنادیتی اور خلق وخالق کے یہاں بے وزن کردیتی ہے ،اسی لئے اہل اللہ ہمہ وقت دل کو زندہ کرنے کی فکر فرماتے ہیں،اسے زندہ بنائے رکھنے کے سو جتن کرتے ہیں،ذکروفکر کے ذریعے یاد الٰہی کے کوچے سے گزر کر مجاہدہ اور ریاضت کے مرحلے عبور کرکے ایک ہی مقصد کے حصول کی کوشش ہوتی ہے کہ دل زندہ رہے،آباد رہے اور اسی ذات عالی سے جڑا رہے جس نے اسے وجود بخشا ؎
مجھے ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
دل زندہ ہے تو پھر ہر چیز میں زندگی ہے، تازگی ہے، روشنی اور تابندگی ہے ،ہاں!جب معصیت کی سیاہی دل کو زنگ آلود کردیتی ہے تو پھر سب کچھ ہوکر بھی سکون غارت اور زندگی بے کار ہوجاتی ہے ،بجلی کے قمقمے نہ دل کو روشن کرسکتے ہیں اورنہ تب وتاب زندگی نہاں خانۂ دل کو آباد کرسکتی ہے، شہرت کی بلندیاںدل کی تابندگی کا سبب بن سکتی ہیں اور نہ دولت کی فروانیاں!محلوں میں رہنے والے اور عیش و مستی میں جینے والے لذتیں پالیتے ہیں دل کی تازگی نہیں،مرغن غذائیںکام و دہن کو لذت بخشتی ہیں مگر دل کی غذا نہیں بنتیں،عمدہ سواریاں جسم وجان کو راحت دیتی ہیں ذہن و دل کو اطمینان اور سکینت نہیں!دل کی زندگی آسان نہیں،دل کا’’دل‘‘ بننا سہل نہیں، لاکھ رگڑے دیئے جائیں،ظلمتِ شب میں ذکر کے نور سے اکتسابِ فیض کیاجائے ،کسی صاحب دل کی خدمت میں رہ کر اور ریاضت کی بھٹی میں تپ کر دل کی آلودگیوں کو دور کیاجائے، تب کہیں جاکے دل”دل“ بنتا ہے ،قرآن میں یہ جو کہا ہے کہ”اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰى لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ “اس میں یہی اشارہ پنہاں اور یہی حقیقت مضمر ہے کہ ہر انسان کے پاس ظاہری دل تو ہے مگر حقیقی دل نہیں، بہت سے ایسے ہیں جو اپنے پہلوئوں میں دل کے بجائے پتھر کی سل لئے پھر رہے ہیں،ظلم،معصیت،سختی،شقاوت اور روحانی بیماریوں نے ان کے دل کا جنازہ نکال دیا ہے اور وہ دل کی حقیقت ، اس کے مقام اور اصل کام سے محروم ہوچکے ہیں، لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۔
باطن ہیں بہت ایسے جو مشتعل نہیں ہیں
سب کے پہلو میں دل ہے سب اہل دل نہیں ہیں
آدمی ہر بستی میں مل جاتے ہیں مگر اہل دل مشکل سے ملتے ہیں،یہ حقیقت یاد رکھنے کی ہے کہ اہل دل بنتے بھی مشکل سے ہیںاور ملتے بھی مشکل سے ہیں،تقدس کی چادر لیے کتنے ایسے افراد پھر رہے ہیں جن کا ظاہر بہت اجلا اور باطن نہایت گندہ ہوتا ہے ،سراپا صوفی کا ،اندرون ابلیس کا، دور سے دیکھیں تو جنید بغدادی ، قریب سے سلمان رشدی،جس دورسے ہم لوگ گزر رہے ہیں، بازاروں میں اصل سامان سے زیادہ اس کی نقل بک رہی ہے،”نوبت بایں جا رسید“ کہ جو چیز دکھ رہی ہے وہ بک رہی ہے، ہر شعبہ انحطاط کا شکار، ہر میدان جعلی شہسواروں کی آماجگاہ،اصل مشائخ طریقت قلیل،نقلی اور جعلی مشائخ گلی گلی،کوچہ بہ کوچہ کوبکو موجود۔صوفیا ءبھی ”میڈ اِن مدینہ “کم،”میڈ اِن چائنا“زیادہ،ایسے دور میں اگر کہیں حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ جیسا شیخ طریقت اور صاحب نسبت مل جائے تو کیا کہنا، ایک ایسا صاحب دل جس نے ذکر و مراقبے کی کثرت، پیرانِ کبار کی صحبت اور ذاتی ریاضت و محنت سے دل کی زندگی پالی،خود اپنے دل کو آباد کیا اور پھر دوائے دل کی دکان سجالی،ایک ایسا صاحب علم جس نے اپنے سینے کوعلم دین سے منور کیااور اس دولت کو عام کرنے کے لئے ایک نئے اور وسیع تخیل کے ساتھ ایک بڑی درسگاہ کی بنیاد رکھی اور اسے خون جگر سے سینچا،ایک ایسا مرد مجاہد جس نے اپنے قائم کردہ ادارے کے گلوں کو ہی نہیں خاروں کو بھی اپنا لہو دیا ؎
آغشتہ ایم ہر سرِ خارے بخونِ دل
قانونِ باغبانی صحرا نوشتہ ایم
دین کی صیانت و حفاظت کے سلسلے میں جو کارنامہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے انجام دیا، ہر صاحب نظر اس سے واقف ہے اکبر شاہی فتنے کے خلاف جس ہمت و حکمت،توازن و اعتدال،اورتسلسل ودوام کے ساتھ انہوں نےکام کیااور دین متین اور شریعت محمدیہ کے تحفظ کا فریضہ انجام دیا وہ غیر معمولی بھی ہے اور بے نظیر بھی!ان کے حکیمانہ طرز عمل کا ہی نتیجہ تھا کہ اکبر جیسےدین بیزار کے تخت پر اورنگ زیب عالمگیر جیسا دیندار شخص بیٹھا ،اول الذکر مایہ دین سے نادار تھاتو آخر الذکر دولت دین سے سرشار!واقعی ہند میں”سرمایۂ ملت کی نگہبانی“ کا کام حضرت مجدد کے حصے میں آیا،اللہ پاک نے انہیں ان کی مخلصانہ خدمت کا یہ انعام دنیا میں عطا فرمایا کہ ان کے سلسلے میں ایسے بابرکت،جواں ہمت،اولوالعزم اور بالغ نظر افراد پیداہوئے جو ”خاک کی آغوش“ میںتسبیح مناجات کے ساتھ ”وسعت افلاک“ میں ”تکبیر مسلسل “کے قائل بلکہ اس پر عامل تھے ،وہ صرف ؎
دل میں بسی ہے تصویر یار کی
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
کے عادی نہیں ہوتے، بلکہ مشکل حالات میں یہ نعرہ مستانہ بلند کرتے ہیں کہ ؎
ادھر آ ستم گر ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
یا پھر یہ کہ ؎
اس بحر حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک
جو موجِ بلا کا خوگر ہو رخ پھیر سکے طوفانوں کا
حضرت شاہ محمد عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ بھی سلسلۂ مجددیہ کے فرد فرید اور حضرت مجدد الف ثانی کی روحانیت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی عظیم خدمت کےوارث تھے،اسی لئے ان کی زندگی اقدام وعمل سے لبریز تھی، وہ جہد مسلسل پر یقین رکھتے تھے،اور عام رواج سے ہٹ کر انقلابی کاموں کے عادی تھے؎
کوئی مرحلہ ہو، کوئی معرکہ
نظر عارفانہ ، قدم غازیانہ
خانقاہی کاموں کو ملک کے طول و عرض میں پھیلا نا ،دینی درسگاہ ایک نئے تخیل کے ساتھ قائم کرنا اسی اقدام و عمل کا ایک حصہ ہے ،وہ صرف نسبت کے اعتبارسے مجددی نہیں تھے، عمل و اقدام اور مزاج و منہاج کے لحاظ سے بھی مجددی تھے،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اصلاح و تربیت کے ساتھ ملک و ملت کی بھلائی کے متعددکام کیے،اور ایک مثال قائم کی،صوفی صافی ہونے کے باوجود انہوں نے بڑی اور وسیع عصری تعلیم گاہوں کا خواب دیکھا،ایک عظیم الشان میڈیکل کالج کا قیام ان کے منصوبے میں شامل اور شریک رہا ہے ،بہت سے تعلیمی، رفاہی اور سماجی اداروں کو ان کے ذریعے کھاد میسر آئی، وہ فریق بننے کے قائل نہیں تھے، رفیق بن کر کام کرتے تھے،وہ نرم خو اور دلنواز انسان تھے، اللہ پاک کی یاد نے ان کے دل کو صاف وشفاف بنادیا تھا، کدورت کا وہاںگزر نہیں تھا، تحاسد اور تباغض کا جذبہ دور دور تک موجود نہیں تھا،ذہن ودل پر بس ایک ہی فکر چھائی ہوئی تھی کہ ملت کو سرخروکرنا ہے، سرفراز کرنا ہے،جو اللہ پاک سے دور ہیں انہیں قریب کرنا ہے، جو پچھڑے ہوئے ہیں انہیں آگے بڑھانا ہے ،جو محروم ہیں انہیں مالا مال کرنا ہے ،جو بہکے ہوئے ہیں انہیں صراط مستقیم پر لانا ہے ،اور جو صراط مستقیم پر ہیں انہیں داعی اور مبلغ بنانا ہے ،اسی راہ پر وہ چلے اور چلتے گئے ، صوفیوں کو ایمان کے بعد جو سب سے پہلا سبق سکھایاجاتا ہے وہ استقامت کا ہے ،چنانچہ وہ بھی جمے تو جم گئے ، مسند ارشاد و ہدایت پر متمکن ہونے کے بعد انہوں نے زندگی کے ۴۴؍برس گزارے،اس پورے عرصے میں نہ ان کی سوچ بدلی ،نہ راہ بدلی،نہ طریقہ بدلا،نہ سلیقہ میں کمی آئی، نہ خوئے دلنوازی میں کوئی فرق آیا، اور نہ ادائے دلبری میں کوئی تغیر واقع ہوا،انہوں نے زندگی کا مقصدجان لیا تھا، پہچان لیا تھا، چنانچہ بڑھے اور بڑھتے چلے گئے،اور عشق کی دیوانگی میں ہوش والوں کی فرزانگی کو مات دے دی ؎
ہوش والوں کو خبرکیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
انسان ”جو ہرِ قابل ہو“ مگر اسے مرشد کامل میسر نہ آئے تو وہ بہک جاتا ہے، بھٹک جاتا ہے ، روح کو سیراب کرنے کی بجائے جسم کی راحت پر توجہ دینے لگتا ہے،مادیت کی راہ پر چل پڑتا ہے اور روحانیت سے رشتہ ناطہ توڑ لیتا ہے ، بہت سے اچھی صلاحیت کے حامل صرف اس لئے ضائع ہوگئے کہ انہیں مرشد کامل کی صحبت نہیں ملی،کسی رہبر ورہنما کی معیت میسر نہ آئی۔عشق کی بازی میں وہی فتحیاب ہوتے ہیں جو جان و تن سب مرضئ مولی پر نچھار کردیتے ہیں اور یہ ذوق بغیر تربیت کے میسر نہیں آتا، کتاب کے ورق آگہی بڑھاتے ہیں معرفت نہیں،فقہ و فلسفہ کی موشگافیاں معلومات میں اضافہ کرتی ہیں، ذوق عبادت و عبدیت میں نہیں،دین متین پر نچھار ہونے اور وصال حق کے لئے اپنا سب کچھ لٹانے کا جذبہ عام طور پر صاحب دل کی نگاہ کیمیا اثر سے ابھرتا ہے،  پروان چڑھتا ہے، اگر کوئی شعیب میسر آجاتا ہے تو صحرائے مدین میں بکریاں چرانے والا” کلیم وقت“ بن جاتا ہے ،حضرت شاہ محمد عبدالرحیم مجددی صاحب خوش نصیب تھے کہ انہیں اپنے جدمحترم حضرت شاہ ہدایت علی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ جیسامرشد و رہنما ملا، وہ صاحب علم و ذوق تھے،اور سلوک و معرفت کی راہوں سے پوری طرح واقف اور آشنا! ان کی تصانیف ان کے علم کی غماز ہیں، اور ان کے تربیت یافتہ افراد ان کے روحانی کمالات کےآئینہ دار!برتن میں جو ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے،مرشد میں جیسی روحانی کیفیات و صفات ہوتی ہیںوہ اس کے مریدوں اور زیر تربیت افراد کی طرف منتقل ہوتی ہیں، حضرت شاہ ہدایت علی مجددی قدس اللہ سرہ جیسے باکمال انسان کی صحبت میں رہنے اور سفرو حضر کی معیت پانے کی وجہ سے شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں نکھار پیدا ہوا،مرشد کی ان پر نگاہ تھی،اور خاموشی مگر تیز رفتاری کے ساتھ وہ اپنے حفید رشید اورمریدو محب صادق کو آگے بڑھارہے تھے، یہاں تک کہ ان کی نگاہ میں ہمارے شاہ صاحب ؒ کو ایسا وقار و اعتبار حاصل ہوا کہ اپنی جانشینی کے لئے انہیں کو نامزد فرمایااور صاف صاف یہ کہا کہ ”میرے بعد میرا عبدالرحیم ہے ،“اس جملے میں اپنائیت بھی ہے،اعتماد بھی ہے،جانشینی کا اقرار بھی ہے اورشاہ صاحب کے روحانی کمالات کا اعتراف بھی!چار چار بیٹے ہونے کے باوجود اپنے پوتے کو جانشین نامز د کرنے میں کچھ تو حکمت تھی،پھر جب حضرت شاہ ہدایت علی مجددی رحمۃ اللہ علیہ دنیا سے رخصت ہوگئے اور حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ مسند نشیں ہوئے تو دنیا نے دیکھا کہ مرشد کا انتخاب لاجواب تھا،اورمرید نے جو کچھ پایا وہ بے مثال تھا۔ ؎
دل میں سما گئی ہیں قیامت کی شوخیاں
دو چار دن رہا تھا کسی کی نگاہ میں
حضرت شاہ ہدایت علی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے شفیق جد امجد بھی تھے، اور آپ کے مربی ومرشد بھی، انہوں نے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر کس طرح توجہ رکھی اور ان کی تربیت کے لیے کس درجہ متفکر رہے، کامل مرشد نے کیا کیا عطا کیا اور قابل مرید نے کیا کیا پایا؟ اس کا کچھ اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے، جو خود شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا:
”گودھرا (گجرات) کے سفر کے دوران حسب معمول ایک روز بوقت سحر میں دادا صاحب کے ساتھ ساحلِ دریا پر ٹہل رہا تھا، پل عبور کرتے وقت جب ہم نیچے پہونچے تو اچانک دادا صاحب ٹھہر گئے اور میری جانب رخ کرکے فرمانے لگے: ”عبد الرحیم! ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرح اسی وقت دریائے راوی کے ساحل پر ٹہل رہے تھے، اس وقت محبت پدری جوش میں آئی اور حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت خواجہ معصوم رحمۃ اللہ علیہ کو ایک لمحے میں منصبِ قیومیت کی توجہ سے مشرف فرمایا، اور فرمایا کہ ولایت معصومیہ میں فقیر کا گذر مثل ایک مسافر کے ہے، حضرت نے فرمایا کہ اس واقعے کو بیان فرماکر حضرت دادا صاحب نے مجھ پر ایسی توجہ فرمائی کہ میری کیفیت عجیب وغریب ہوگئی۔“ (مولانا شاہ عبدالرحیم مجددی:حیات وخدمات، جلد دوم، صفحہ۵۵)

ندا فاضلی کا مشہور شعر ہے؎
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہی کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو
شاعر کی زندگی خواب اور امید کے سہارے چلتی ہے،صوفی کی زندگی ”قدرقلیل“ اور”فکر جلیل“ کے سائے میں بسر ہوتی ہے ،اس کا جینا مرنا اللہ کے لئے ہوتا ہے ،تعلق قائم کرنے یا توڑنے کی بنیاد بس ایک ہی ذات ہوتی ہے ،قرآن مجید میں سورتوں کے نام ان میں آئے ہوئے مضامین کے پیش نظر مقرر کیے گئے ہیں،”قُلْ ہُوَاللہُ اَحَدٌ “کو سورۂ اخلاص کہا گیا ،حالانکہ اس میں توحید کا مضمون ہے، اس لحاظ سے اس کا نام سورہ توحید ہونا چاہئے تھا لیکن اسے سورہ ٴاخلاص کہا گیا، اصل میں اشارہ اس طرف ہے کہ جب ہر چیز کی ابتدا اور انتہا ذات باری سے ہے تو پھر نگاہ بھی اسی پر رہنی چاہئے،جو ہو صرف اس کے لئے ہو،قال ہو یا حال ،مقال ہویا مآل،سب کا سرا اسی ایک ذات سے مربوط رہے ، متصل رہے،صوفی کا سفر شروع ہی ہوتا ہے”انما الاعمال بالنیات“ سے، پھر جب نیت کا قبلہ درست ہوجاتا ہے تو سمت سفر بھی متعین ہوتی ہے اور منزل کا نشان بھی نگاہ کے سامنے ہوتا ہے،شاہ ہدایت علی مجددی ؒ کی صحبت میں رہ کر للہیت کا جو سبق حضرت شاہ عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے سیکھا تھاوہی ان کی پوری زندگی پر محیط نظر آتا ہے ، طول طویل اسفار ہوں یا مریدوں اور طالبین کی تربیت، مہمانوں کی خدمت ہو یا”جامعۃ الہدایہ“ کی تعمیر کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھانا، یا پھر اپنوں اور بیگانوں کی یلغار اور یورش کے صبر آزما مرحلے جھیلنا ،ہر جگہ خلوص کی چادر ان پر تنی رہی،اور قدم صراط مستقیم پر جمے رہے،جو کیا اللہ کے لئے کیا ، جو جھیلا اللہ کے لئے جھیلا،یہ بھی ہوسکتا تھا کہ زبان پر شکوہ آتا، دل میں شکایت پیدا ہوتی، اور کسی وقت صبر کا پیمانہ جھلک پڑتا اور زبان یوں گویا ہوتی ؎
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
مگر انہوں نے شکایت کے بجائے شکر کا راستہ اپنایا،بڑے بڑے حادثے گزرے مگر وہ راضی برضا رہے، ایک سفر کے دوران لفٹ میں اونچائی سے گرجانے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی پر سخت چوٹ آئی،دردوکرب اور اذیت وکلفت کی حالت تا دیر رہی ،اسی طرح جامعۃ الہدایہ کی تعمیر کے دوران ایک مزدور کو بچانے کے خاطر پتھر کی بڑی سل کو اپنے جسم پر روک لیا، جس کی وجہ سے کمر کو سخت جھٹکا لگا اور زندگی بھر کے لئے درد کا عارضہ لاحق ہوا،مگر نہ تکلیف کا اظہار تھا اور نہ شکایت کے الفاظ زبان پر ،ایسا موقع بھی آیا کہ ایک بڑی رقم حرمین شریفین کے سفر میں چوری ہوگئی،کوئی اور ہوتا تو گھبراجاتاپریشان ہوجاتا،زبان پر واہی تباہی الفاظ آجاتےمگر انہوں نے کہا تو صرف یہ کہ” ہوسکتا ہے چوری کرنے والا ہم سے زیادہ ضرورتمند رہا ہو، اچھا ہے اس کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور اسے راحت نصیب ہوگی،“یہ صبر جمیل،ذکر رب جلیل کی کثرت کے بغیر ہاتھ نہیں آتا،شاہ محمد عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے یادِالٰہی سے خانۂ دل کو آباد کیا تھا،اسی لئے بہترین اوصاف و کمال کے وہ حامل ہوئے،اور ایک دنیا ان کی گرویدہ رہی۔
ہجوم کیوں زیادہ ہے شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرمغاں ہے مردِ خلیق

شیخ سعدی نے فرمایا تھا ؎
آدمی را آدمیت لازم است
عود را گر بو نباشد ہیزم است
یعنی انسان کے اندر انسانیت ،شرافت،تہذیب اور آدمیت ہونی چاہئے،عود میں اگر خوشبو نہ ہو تو وہ بس لکڑی کا ایک ٹکڑا ہے،اشارہ اس طرف ہے کہ جس طرح عود کو اس کی خوشبو ممتاز بناتی ہے،انسان کو اس کے کمالات، اوصاف و صفات نمایاں کرتے ہیں،بڑے بول سے انسان بڑا نہیں بنتا، عمدہ صفات اور بڑے کارنامے اسے بڑا بناتے ہیں،حضرت شاہ عبدالرحیم مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے والا بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ مومنانہ اوصاف و صفات کے حامل تھے، ان میں نرم گفتاری،خوئے دلنوازی،مرحمت وشفقت ،محبت و رأفت،دلجوئی اور مہمان نوازی، خوش خلقی اور خوش اطواری تھی،صاحب علم ،صاحب معرفت اور صاحب نسبت ہونے کے باوجود ان کا حال یہ تھا کہ مہمانوں کی چھوٹی سے چھوٹی خدمت کرنا بھی اپنے لئے باعث شرف و سعادت سمجھتے تھے، آج کون یقین کرے گا کہ خانقاہ میں آنے والے مریدوں اور طالبین حق کو لینے کے لئے خود مرشد ریلوے اسٹیشن پر موجود ہوتے،گاڑی چلاکر اپنے مہمانوں کو خود خانقاہ تک لے آتے، چائے ناشتہ اپنے ہاتھ سے پیش کرتے، کھانے کا وقت ہوتا تو برتن میںکھاناخود لے کر آجاتے،اور ایسا کوئی اتفاقی طور پر نہیں ہوتا تھا، یہ ان کے معمولات کا حصہ تھا، شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ مولاناعلی احمد ندوی صاحب کی آپ بیتی سنتے چلئےجو طالب علم بن کر ندوۃ العلماء میں داخلے کے لئے جارہے تھے، احمد آباد سے جے پور حاضر ہوئے تاکہ حضرت شاہ صاحب کی زیارت سے مشرف ہوں،اب آگے کا واقعہ ان کی زبانی سنیے :
”ایک روز (جے پور) میں قیام کے بعد دوسرے روز صبح سویرے آگرہ کا سفر تھا، حضرت شاہ صاحب اذان فجر سے قبل مہمان خانہ تشریف لائے،ناشتہ پیش کیا، بڑی محبت وشفقت کا معاملہ کیا اور خود جیپ ڈرائیو کرکےبس اڈے پہونچایا، پہنچتے ہی اپنی نفیس شال شانے سے اتار کر پلیٹ فارم پر بچھادی تاکہ نماز ادا کرلوں،میری نمازادا کرنے کے دوران حضرت نے بنفس نفیس خو د بس کی چھت پر چڑھ کر اس طالب علم کا بستربند اور سامان باندھا،یہ ماجرا دیکھ کر میں تو ششدر رہ گیا،لیکن قبل اس کے کہ احساس شرمندگی کے اظہار یا شکروامتنان کے لئے کوئی جملہ تلاش کروں، اپنی دلنواز مسکراہٹ اور حسن ادا کے ساتھ ”اچھا بیٹے خدا حافظ“ کہتے ہوئے بس میں بٹھا کر رخصت ہوگئے، اس واقعے کا مجھ پر غیر معمولی اثر پڑا۔“
بات نکلی ہی ہے توایک دوسرا واقعہ بھی سنتے چلیے،یہ جناب سید محمد صابر مجددی صاحب کی آپ بیتی ہے،جو ماہنامہ ہدایت، جے پور کے نومبر ۱۹۹۴ءکے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
”میں ایک مرتبہ رمضان کے مہینے میں بس کے ذریعے صبح آٹھ بجے آگرہ سے جے پور روانہ ہوا، میرے بیٹے نے فون پر حضرت صاحب کو روانگی کی اطلاع دیدی، ٹھیک ایک بجے بس گھاٹ گیٹ جے پور پہنچی، میں کھڑکی کے کنارے کی سیٹ پر بیٹھا تھا، باہر نظر پڑی تو دیکھا کہ حضرت صاحب باہر موجود ہیں، اور اترنے والے حضرات کو غور سے دیکھ رہے ہیں، احقر فوراً اتر گیا، بغل گیر ہوا مصافحہ کیا،حضرت صاحبؒ نے ڈرائیور کو پیچھے بٹھایا اور خود اسٹیرنگ سنبھالا،مجھے اپنے برابر اگلی سیٹ پر بٹھایا اور گھر لاکر مہمان خانہ میں قیام کرایا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت صاحبؒ درد گردہ میں مبتلا ہیں، کئی دن سے بستر پر تھے، آج ہی باہر قدم نکالا ہے، میں نے شرمندگی کے ساتھ عرض کیا’’آپ نے کیوں زحمت فرمائی؟‘‘ فرمانے لگے’’اسی بہانے طبیعت بہل گئی ورنہ تین یوم سے بستر مرض پر دراز تھا۔“
جن لوگوں نے حضرت شاہ صاحب کی زندگی کو قریب سے دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ شاہ صاحب مجسم حسن خلق تھے، ہر ایک کی خدمت کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے، امیر غریب میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے تھے،غریب ،مسکین اور کم حیثیت لوگوں کی دعوت بھی قبول فرماتے،جہاں جاتے تمام زائرین اور محبین سے مصافحہ معانقہ فرماتے،مریدوں کی مجلس میں بھی عام طریقے پر مؤدب بیٹھتے،ٹیک لگاکر آرام سے بیٹھنے کی فرمائش کے باوجود عام طور پر دو زانو بیٹھ کر ہی گفتگو فرماتے اور علم و عرفان کے موتیوں سے مالا مال کرتے تھے،اصلاح وتربیت کے لئے سختی ،درشتی اختیار کرنے کے بجائے نرمی اور محبت کا راستہ اپناتے، غرباء ،مساکین اور پچھڑے لوگوں کی مدد میں کبھی دریغ نہ کرتے ،حق کی ادائیگی کے سلسلے میں ہمیشہ فکر مند رہتے،طالبانِ علم اور طالبان معرفت دونوں کی خدمت کرکے خوشی و مسرت محسوس فرماتے،سلام میں پہل کرتے،اپنے چھوٹوں اور عزیزوں کو بھی آگے بڑھاتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے،جاں نثاروں پر خود بھی جان نچھاور کرتے تھے، اس سلسلے کا ایک مؤثر واقعہ یہ ہے کہ علاج کے سلسلے میں حضرت شاہ صاحب بمبئی کے ہاسپٹل میں شریک تھے ،محبت کرنے والے سب ان کی صحت کی طرف سے متفکر اور پریشان تھے، ظاہر ہے کہ یہ مرحلہ دشوار گزار تھااور صبر وشکیبائی کی آزمائش کا بھی! لیکن بیماری اور علالت کے مرحلے میں بھی حضرت شاہ صاحب کی محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ وفات سے صرف چند دن پہلے آپ کے نہایت محبوب خلیفہ جناب مولانا عبدالقادر فاتی والا اپنے بھانجے جناب شبیر بھائی فاتی والا کے ساتھ گجرات سے بمبئی عیادت کے لئے حاضر ہوئے،تو ان کی آمد کی اطلاع پاکر اس علالت کی شدت میں بھی حضرت شاہ صاحب نے اپنے فرزند جلیل حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحیم مجددی صاحب مد ظلہ العالی کو حکم دیا کہ بلساڑ سے عبدالقادر بھائی اور شبیر بھائی آرہے ہیں ان کے کھانے کے لئے مچھلی بنوالیجئے،اس سے آگے کا واقعہ مولانا عبدالقادر فاتی والا کے الفاظ میں سنیے:
’’ہم دونوں صبح دس بجے اسپتال پہنچ گئے، عیادت کے بعد پھر بلساڑ واپسی کا ارادہ کرنے لگے، لیکن بہ اصرار روکا گیا، اور بطور خاص مچھلی کا اہتمام کروایا گیا۔ اس کمرے میں ایک یا دو افراد سے زیادہ لوگوں کو بیٹھنے کی قطعاً اجازت نہ تھی، باہر برآمدے میں بیٹھنے کی جگہ تھی چنانچہ ہم لوگ وہاں بیٹھ گئے ، حضرت کے حکم کے مطابق ملاقات کرنے والوں کے لئے برآمدے میں چائے وغیرہ کا نظم تھا، ادھر حضرت کا یہ حال تھا کہ وقفہ وقفہ سے آپ پر غشی طاری ہوتی تھی اور گھنٹہ آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد دوبارہ ہوش آتا تھا، دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے آپ کو افاقہ ہوا، حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحیم دامت برکاتہم اور جناب محمد سمیع خاں صاحب حضرت کی خدمت کے لیے کمرے جاتے، حضرت نے ہم لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا ، اس پر عرض کیا گیا کہ باہر برآمدے میں بیٹھے ہوئے ہیں ، اس کے بعد حضرت نے کھانے کے نظم کے بارے میں معلوم کروایا، اس پر عرض کیا گیا کہ آپ کے حکم کے مطابق کھانے میں مچھلی بنوائی گئی ہے ، حضرت نے فرمایا کہ مجھے بٹھادو، تکیہ لگاکر آپ کو اس کے سہارے بٹھادیا گیا، آپ نے حکم فرمایا کہ اس کمرے میں آپ کے سامنے کھانا لگایاجائے، چنانچہ وہیں دسترخوان پر کھانا لگایا گیا اور ہمیں کمرے میں بلاکر حضرت نے کھانا کھانے کا حکم دیا، ہم دم بخود تھے ، آنکھوں میں آنسو آگئے، اس شفقت و محبت کو دیکھ کر عجیب حالت ہوگئی، اگر کھانا کھانے سے انکار کریں تو حضرت کے حکم کی خلاف ورزی تھی اور حضرت کی بے انتہا شفقت اور جذبات محبت کو ٹھیس پہنچانا ہوتا، ہم اس مہرومحبت کے برتائو کے سامنے مجبور تھے۔جیسے ایک شفیق ماں اپنے پیارے بچوں کو گود میں بٹھاکر نہایت شفقت و محبت سے کھلاتی ہے اسی طرح بستر مرگ پر بیٹھ کر حضرت نے ہمیں بہ صرار کھانا کھلایا۔“(مقامات رحیمی صفحہ ۱۲۷/۱۲۸)
حضرت شاہ ہدایت علی نقشبندی مجددی نور اللہ مرقدہ وسیع النظر شیخ طریقت تھے، انہوں نےاپنے آپ کو صرف اصلاح وتربیت کے میدان تک محدود نہیں رکھا تھا، ان کی یہ چاہت تھی کہ ایک معیاری دینی دانش گاہ قائم ہو جس میں تازہ واردان بساطِ علم کے لیے تعلیم وتربیت کا وسیع پیمانے پر انتظام رہے، ان کی یہ چاہت ان کی زندگی میں پوری نہیں ہوسکی، البتہ ایک مریدِ صادق کی حیثیت سے حضرت شاہ عبد الرحیم مجددی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور بے سر وسامانی کے باوجود ”جامعۃ الہدایہ“ کی بنیاد رکھی، ابتدا میں بہت سی دشواریاں پیش آئیں،  مشکلات وموانع کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ عزم محکم اور جہد مسلسل کے ساتھ آگے بڑھے اور راہ کی ہر رکاوٹ کو اللہ کے فضل وکرم سے عبور کرتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہونچے، پہاڑوں کے بیچ انہوں نے جامعۃ الہدایہ کی خوبصورت، دلکش اور جاذبِ نظر عمارتیں بنوائیں، جنہیں دیکھ کر ان کے جلیل القدر دوست،مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ بھی مولانا اسلم جیراج پوری مرحوم کا یہ شعر پڑھنے پر مجبور ہوئے ؎
عزمِ راسخ ہے نشانِ قیس وشان کوہ کن
عشق نے آباد کرڈالے ہیں دشت وکوہسار
جامعۃ الہدایہ اپنی کئی خصوصیات کے اعتبار سے دوسری درس گاہوں سے منفرد اور مثالی ادارہ ہے، یہاں کا نصاب ونظامِ تعلیم بھی ایک نئے تخیل کے ساتھ قائم کیا گیا، درسیات کی تعلیم کے ساتھ صنعت وحرفت سکھانے کابھی یہاں اہتمام رہا ہے، یہاں کے طلبہ کا منفرد یونیفارم بھی نگاہ ودل کے لیے کشش رکھتا ہے، یہاں کی عمارتیں بھی حسن، جاذبیت، سلیقہ اور ترتیب کے اعتبار سے خوب سے خوب تر ہیں، اور ان عمارتوں میں معماروں کی محنت کے ساتھ حضرت شاہ صاحب کا نفیس ذوق اور خونِ جگر بھی شامل ہے، مرشد گرامی حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی خصوصیت پر خوبصورت پیرایہٴ بیان کے ساتھ یوں روشنی ڈالی ہے:
”جامعۃ الہدایہ کا نظام تعلیم نگاہ کو اپنی طرف مائل کرتا ہے اور دل میں جگہ بناتا ہے، ساتھ ہی اس کی عمارت بھی دل پر گداز اثر چھوڑتی ہے، کوئی نہیں بتائے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ بوریہ نشینوں کا مرکز اور مدرسے کی عمارت ہے، حسن اور سلیقہ جامعہ کی ہر ایک عمارت سے ظاہر ہے، عمارتوں کی فنی آرائش وزیبائش دیکھنے والی اور خراجِ تحسین حاصل کرنے والی ہے، جامعہ کی مرکزی عمارت میں سرخ پتھروں کا بڑے سلیقے کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے، نئے عہد میں لال قلعے کا عکس جمیل یہاں بام ودر سے جھانکتا ہے، یہ تعمیری حسن ووقار، سادگی وپرکاری، ترتیب ونظافت بانیٴ جامعہ کے حسن انتخاب اور حسنِ عمل کا نمونہ ہے، ان عمارتوں پر جب میری نظر پڑی تو دل سے آواز آئی کہ ”ہمارے حضرت شاہ صاحب علماء میں شاہجہاں ہیں، علمائے کرام سے مدارس کی عمارتوں میں جو کمی کوتاہی ہوئی ہے ان سبھوں کی طرف سے یہ بہترین کفارہ ہے“ ۔ (مولانا شاہ عبدالرحیم نقشبندی مجددی: حیات وخدمات، جلد اول، صفحہ ۴۱)
خلوص کی برکت اور للہیت کا کرشمہ ایک زندہ حقیقت ہے، جب نگاہ صرف ذاتِ الہی پر ہو اور ہر کام میں اس کی رضا مطلوب ہو، جب رات کی تاریکیوں اور دن کے اجالوں میں ایک ہی نعرہ لب پر ہو: ”إلہي أنت مقصودي ورضاک مطلوبي“، تو پھر نصرت الہی عجیب وغریب شکل میں ظاہر ہوتی ہے، ایسے مرحلے پیش آتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور دنیا محو حیرت ہوجاتی ہے، ”جامعۃ الہدایہ“ کی پہلی اینٹ ہی خلوص وتقوی کے ساتھ رکھی گئی، مقصد نہ ما ل تھا نہ شہرت، نہ عزت نہ وجاہت، نہ جذبہٴ مسابقت، نہ ارادہٴ منافست! طلب تھی تو بس ایک؛مالک ومولی کی رضا مل جائے، خدمت دینِ متین کا ایک معیاری مرکز قائم ہوجائے، تربیت کے لیے ایک موزوں جگہ بن جائے، اس خلوص کی یہ برکت ظاہر ہوئی کہ صحراء آباد ہوا، ریگستان گلستان میں تبدیل ہوا، جنگل میں منگل کا سماں قائم ہوا، لق ودق چٹیل میدان میں مرکزِ دین تیار ہوا، بے سر وسامانی کے عالم میں قائم کیے گئے ادارے کو قبولِ عام حاصل ہوا، اور ایک ننھا سا پودا تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا، نصرت الہی نے کہاں کہاں کس کس صورت میں حوصلہ بخشا اس کی تفصیل نہ مکتوب ہے نہ معلوم! البتہ جو چند واقعات علم میں ہیں ان میں یہ واقعہ حیرت انگیز بھی ہے، حوصلہ افزا اور فرحت بخش بھی، سب جانتے ہیں کہ انسانوں کی معیاری ضرورت پانی ہے، یہ نہ ہو تو انسانی زندگی موت سے دو چار ہوجائے، راجستھان کی ریتیلی زمینوں میں پانی کے ذخائر کم ہیں، پھر اداروں کے لیے پانی کافی بڑی مقدار میں درکار ہوتا ہے، جب جامعہ کی تعمیر شروع ہوئی تھی تو اور ضرورتوں کے علاوہ پانی کی یہ ضرورت اہم ترین تھی، تعمیر کے لیے بھی پانی درکار تھا، ظاہر ہے کہ دیگر احباب ومخلصین کے علاوہ حضرت شاہ صاحب بھی اس کے لیے متفکر ومضطرب رہے ہوں گے، اور بار بار اللہ پاک کی بارگاہ میں دست دعا دراز ہوئے ہوں گے، اللہ پاک کی نصرت اس طرح ظاہر ہوئی کہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کسی منامی بشارت یا کشف والقاء کی بنا پر زمین کا ایک ٹکڑا کنویں کی کھدائی کے لیے مختص کیا، خود اپنے دست مبارک میں کدال لے کر اس جگہ پر کھدائی شروع کی، پھر جب کھدائی کا سلسلہ مزدوروں کے لیے ذریعے بڑھا تو اچانک زمین دھنسنے لگی، کھدائی شروع رکھی گئی اور قدرت الہی کا کرشمہ اور خلوص وللہیت کا ثمرہ یوں ظاہر ہوا کہ زمین کے اندر سے ایک کنواں بر آمد ہوا، پختہ سیڑھیاں بھی، باؤلی بھی، اور کنواں بھی، اور کنواں بھی ایسا جس میں وافر مقدار میں پانی موجود تھا، پتہ نہیں کس عہد میں یہ کنواں کھودا گیا ہوگا، پھر مرورِ زمانہ سے یہ زمین میں دفن ہوگیا، پھر خلوص کی برکت سے ایک صاحبِ دل کی کرامت کے طور پر ظاہر ہوا، کنویں کا پانی بھی شیریں اور صاف شفاف، بالکل جامعہ کے بانی کی نیت کی طرح! رب کریم کی عنایت کا کیا کہنا! قدم قدم پر سہارا بخشتی ہے، اور سخت اندھیریوں میں اجالے کی کرن ظاہر کرتی ہے!
حضرت شاہ محمد عبدالرحیم نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ باکمال شیخ طریقت تھے، ان کا حلقہ بہت وسیع تھا، ہزاروں افراد ان سے ذکر وفکر کی تعلیم لیتے رہے، اہلِ علم اور ممتاز اور نمایاں افراد نے بھی ان کی طرف رجوع کیا اور ان سے فیض حاصل کیا، مزاج میں حد درجہ نرمی اور طبیعت میں فیاضی اور سیر چشمی ہونے کے باوجود یہ ان کی احتیاط تھی کہ انہوں نے صرف چھ افراد کو اپنے سلسلے کی اجازت وخلافت دی، سننے والوں کو شاید تعجب ہو کہ ۴۴سال تک مسند ارشاد وہدایت پر متمکن رہنے والے شخص نے وسیع حلقہ ارادت ہونے کے باوجود صرف چھ افراد کو اجازت وخلافت سے نوازا، یقینا یہ ان کی امانت ودیانت اور اعلی درجے کی احتیاط تھی، آج کل اس باب میں بڑی بے احتیاطی در آئی ہے، خلافت شب برات کے بتاشوں کی طرح لٹائی جارہی ہے، ایسے ایسے خلفاء بھی دستیاب ہیں جنہوں نے بیعت سے خلافت تک کا سفر ہفتے عشرے میں پورا کرلیا، یہ ان کے کمال کی دلیل ہو یا نہ ہو، ان کے شیخ ومرشد کی بے احتیاطی اور عجلت پسندی کی نظیر ضرور ہے، خلافت کا گھٹتا ہوا معیار تصوف وسلوک کے اس نظام کو داغدار کر رہا ہے اور حسین وجمیل چہرے پر آڑی ترچھی سیاہ لکیریں ابھار رہا ہے، فیاضی اور سخاوت ہر جگہ پسندیدہ ہے، مگر اس شعبے میں نہیں، غیر تربیت یافتہ لوگوں کو صرف دنیا طلبی کی غرض سے جلد از جلد اجازت وخلافت سے نوازا جاتا رہے گا تو وہ دن دور نہیں جب کہ خلافت، خلافت نہیں رہے گی، بلکہ کھلی آفت ہوجائے گی، جس کاشر دیر تک اور دور تک پھیلے گا، وقت رہتے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، مرشدِ گرامی مرحوم فرمایا کرتے تھے: ”پہلے لوگ مرید کی اہلیت کی بنیاد پر اسے اجازت وخلافت سے نوازتے تھے، اب ایسا دور ہے کہ پیر ومرشد سے اس کی لیاقت کی بنیاد پر مریدین خلافت وصول کرلیتے ہیں“، تنزل وانحطاط کا یہ نظارہ دل کو دکھ دینے والا ہے، مگر کہیں تو کس سے کہیں؟ اور سمجھائیں تو کسے سمجھائیں؟ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا طرزِ عمل ہمارے بڑوں، بزرگوں اور مشائخ کے طریقہ کار کا عکاس وآئینہ دار ہے، ویسے بھی سلسلہ نقشبندیہ میں عام طریقے پر تکمیل سلوک کے بعد ہی اجازت دینے کا معمول رہا ہے اور بزرگانِ سلسلہ نقشبندیہ کے یہاں ہر دور میں احتیاط کا پہلو ملحوظ رہا ہے، مگر اب نقشبندی سلسلے کے بعض مشائخ بھی اجازت وخلافت عطا کرنے کے سلسلے میں حاتم طائی کی قبر پر لات مار رہے ہیں، ہوسکتا ہے ان کا یہ عمل حسنِ نیت پر مبنی ہو، مگر اسے کیا کیجیے گا کہ حسنِ نیت عمل کے درست ہونے کی دلیل نہیں ، کتنی ہی اچھی نیت اور کامل خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھی جائے مگر سمتِ قبلہ درست نہ ہو تو نماز ادا نہیں ہوتی، ویسے ہی اور اعمال میں بھی حسنِ نیت کے ساتھ عمل کا درست ہونا بھی لازم ہے۔
اور خوبیوں کے علاوہ حضرت شاہ صاحب میں اولو العزمی، بلند ہمتی اور وسیع النظری تھی، وہ جس کام کا بیڑا اٹھالیتے تھے اسے پایہٴ تکمیل تک پہونچانے کی کوشش کرتے، تعلیمی اور اصلاحی کاموں کے علاوہ سماجی اور رفاہی کاموں میں بھی حصہ لیتے تھے، یہ ان کی اولو العزمی اور وسیع النظری ہی تھی کہ پہلے مرحلے میں انہوں نے رابطہٴ ادب اسلامی کا اجلاس ”جامعۃ الہدایہ جے پور“ میں حسنِ انتظام اور سلیقہ وترتیب کے ساتھ منعقد کروایا اور پھر ۱۹۹۳ء میں ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“ کے گیارہویں اجلاس کی میزبانی قبول فرمائی، اگرچہ کہ اپنی آخری علالت کی وجہ سے وہ اس اجلاس میں خود شریک نہیں ہوسکےاور ان کی طرف سے نیابت کرتے ہوئے ان کے فرزندان حضرت مولانا ضیاء الرحیم مجددی اور حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحیم مجددی نے اجلاس کا انتظام وانصرام سنبھالا اور ملک کے طول وعرض سے آنے والے اکابرین اور دانشوران قوم وملت کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کسے اندازہ تھا کہ ”آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ“ کےاجلاس کے انعقاد کا فیصلہ ان کا آخری بڑا اقدام ہوگا اور یہی ان کے لیے سفرِ آخرت کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا، وہ علیل ہوکر گجرات سے ممبئی پہونچے اور وہاں ڈیڑھ مہینے تک زیرِ علاج رہ کر اللہ کو پیارے ہوگئے۔حضرت شاہ صاحب تو عمر طویل گزار کر اور اپنے حصے کا کام کرکے رخصت ہوگئے، البتہ ان کی یاد گار ”جامعۃ الہدایہ“ کی شکل میں نگاہ کے سامنے ہے، یہ ادارہ ان کی حسنِ نیت، حسن ِ عمل اور حسنِ خدمت کا شاہکار ہے، اسی طرح ان کے فرزندِ جلیل اور جانشین حضرت مولانا شاہ محمد فضل الرحیم مجددی بھی ہمارے درمیان جلوہ افروز اور فروکش ہیں، وہ اخلاق واخلاص اور مزاج ومنہاج کے اعتبار سے اپنے والدِ ومرشد گرامی کے سچے جانشین ہیں اور اس وقت جامعۃ الہدایہ کی سربراہی کے ساتھ مسلمانانِ ہند کے سب سے متحدہ، مشترکہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی بھی بحیثیت جنرل سکریٹری قیادت فرمارہے ہیں، ان کی تواضع ، انکساری، للہیت، بے نفسی اور او لو العزمی دیکھ کر ہر کوئی اندازہ لگاسکتا ہے کہ کیسے مبارک آغوش میں ان کی تربیت ہوئی ہے، اللہ تعالی حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت فرمائے اور ان کے اخلاف کی عمر میں برکت نصیب فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)

بشکریہ: علم وکتاب واٹسایپ گروپ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے