معجم المصنفین 60 جلدوں میں لکھنے والی شخصیت: مولانا محمود حسن خان ٹونکیؒ

راقم :- سلمان ندیم قاسمی

صاحب نزہۃ الخواطر کہتے ہی ذہن مولانا عبد الحی حسنی رائے بریلی کی طرف منتقل ہوجاتا ہے
مولانا محمود حسن ٹونکی کو کون جانتا ہے؟
لوگ مولانا محمود حسن دیوبندی کو جانتے ہیں۔مفتی ولی حسن ٹونکی کو جانتے ہیں۔ محدث کبیربحیدر حسن ٹونکی کو جانتے ہیں۔
علامہ محمود حسن ٹونکی آپ محدث کبیر مولانا حیدر حسن خان ٹونکی کے بڑے بھائی ہیں۔ اور مفتی اعظم ولی حسن خان ٹونکی کے دادا ہیں۔(والد کے چچا)
صاحب نزہہ نے آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ذکر کیا ہے
محمود حسن بن أحمد حسن بن غلام حسين الحنفي الأفغاني النجيب آبادي ثم الطوكي

آپ ٹونک میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم قاضی امام الدین اور قاضی دوست محمد کے پاس حاصل کی۔پھر آپ نے حصول علم کے لئے رامپور کا سفر کیا جہاں علامہ اکبر علی اور علامہ عبد العلی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ پھر حصول علمِ حدیث کے لئے بھوپال تشریف لائے۔جہاں قاضی حسین بن محسن الانصاری الیمانی سے اجازتِ حدیث لی۔اور قاری عبد الرحمن پانی پتی سے قرات کی سندیں لیں۔ ملک کے مشہور بڑے شہروں کا سفر کیا۔ اور بیرونِ ملک قاہرہ وبیروت وغیرہ کے بھی اسفار کئے۔ (نزہۃ الخواطر ج 8ص 1377)

محمد عامر صدیقی ٹونکی نے محمود حسن خان ٹونکی کے شاگرد عمران خان ٹونکی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ آپ کا بے مثال ذہانت و حافظے کے مالک تھے ۔ 6 ہزار عربی مصنفین کے احوال و کتب کا علم تھا۔ رواۃ حدیث کے سلسلے میں ائمہء جرح و تعدیل کے اقوال ازبر تھے۔(حیاۃ العلامہ حیدر حسن خان الطونکی ص 69)

مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ پرانے چراغ میں لکھتے ہیں۔
مولانا محمود حسن خان تو ان سب بھائیوں میں واسطۃ العقد اور بیت القصید کا درجہ رکھتے ہیں۔نہ صرف ہندوستان بلکہ اپنے عہد کے اکابر علماء میں شمار ہونے کے قابل ہیں۔ ان کی کتاب معجم المصنفین ایک تصنیفی کارنامہ ہے۔(کتاب کا تعارف آگے آتا ہے)
علی میاں صاحب نے البعث الاسلامی (يوليو واغسطس 1982م ص 50-51)کے ایک مضمون میں عنوان باندھا ہے
افراد يقومون بدور المجامع العلمية
جسکا حاصل یہ ہے کہ
کہ ہندوستان کے بعض افراد نے تنِ تنہا گوشوں میں بیٹھ کر توکلا علی اللہ وہ کام کئے ہیں جو بڑی بڑی اکیڈمیاں کمیٹیاں جنہیں سرکاری ہشت پناہی حاصل ہو کرتی ہیں۔ (ملخصا)
اور اپنے والد سے بھی پہلے جس شخصیت کا ذکر کیا وہ شخصیت علامہ محمود حسن خان ٹونکی کی ہے۔
معجم المصنفین کیا ہے ؟

صاحب نزہہ نے آپ کی دو تصنیفات کا ذکر کیا ہے پہلے ہم معجم المصنفین کا تعارف کروائیں گے۔

(1) یہ کتاب 60 جلدوں پر مشتمل ہے جس میں 20 ہزار صفحات ہیں۔ اور 40 ہزار مصنفین کا تعارف کروایا گیا ہے۔
جمع فيه شيئاً كثيرا, واستوعب المصنفين من علماء الإسلام في الشرق والغرب, فأحاط بهم إحاطة, وذكر منهم جمعا عظيما من المتأخرين و المتقدمين
کتاب کی خصوصیت ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
ويبلغ عدد من سمى منهم بأحمد ألفين
احمد نام کے 2 ہزار مصنفین کا تذکرہ کیا ہے۔

مولانا علی میاں صاحب فرماتے ہیں۔
*ويدل على إستيعاب الكتاب أن من جاء إسمه ممن إبراهيم يبلغ إلى ٣٤٨ إسما۔
ابراہیم نام مصنفین ہی 348 ہیں۔(البعث)

کتاب معجم المصنفین کے بارے میں خود علامہ محمود حسن فرماتے ہیں۔
فمن الله علي بخزانة الكتب ببلدنا فلزمت وعملت ماعملت ثم سافرت إلى البلاد البعيدة والنواحي النائية وصادفت بها الخزائن وأشتغلت بإستكمال تلك المسودة
ان سطور سے پہلے علامہ نے مقدمے میں کتاب کی وجہِ تالیف بیان کی ہے اوپر مکتوبہ سطور کے بعد فرماتے ہیں۔
فبذلك جاء كتابنا هذا شرحا للكشف (كشف الظنون )واستدراكا عليه في باب المصنفات ولم آل جهدي في الإستقصاء فبالغت في إحراز تراجم العلماء
گویا یہ کتاب کشف الظنون پر اصلا تو استدراک ہے مگر اتنا زبردست کہ 60 جلدوں میں پھیل گیا۔اور علامہ نے پوری کوشش کی کہ کوئی مصنف رہ نہ جائے۔
کتاب کی ترتیب کے بارے میں فرماتے ہیں۔
على ترتيب حروف المعجم ا ب ت ث ج ح خ على الطريق المعروف من الاعجام فعقدت الترجمة بالإسم وذكرته في حروفه وراعيت الترتيب في أحرف الأسامي وأسماء آبائهم واستيمنت بذكر الأئمة الأربعة
تیمنا وتبرکا ائمہء اربعہ کے تراجم سے ابتدا کی ہے۔ اور اطلت تراجمهم.. سيما ترجمة الإمام الأعظم أبي حنيفة لما حساد الناس يزدرونه ويعيبونه بما كان هو بريئا منه (ملخصا من مقدمة الكتاب معجم المصنفين مطبعة وزنكوغراف طبارة في بيروت ١٣٤٤ھ)
راقم کے پاس چار جلدیں pdf میں ہیں۔پہلی جلد مختلف علوم و فنون کی تقسیم موضوعات پر مشتمل ہے ۔دوسری جلد میں ائمہء اربعہ کے تراجم ہیں۔تیسری اور چوتھی جلد اسماء و تراجم پر مشتمل ہے جن میں 4 ہزار تک علماء کے تراجم ہیں۔ تراجم آدم کے نام سے شروع کئے گئے 7 نام آدم اور 6 نام ابان کے تراجم ہیں۔ہیں۔ 381 ابراہیم نام کے علماء و مصنفین ہیں۔
یہی چار جلدیں چھپی ہیں۔صاحب نزہہ بھی فرماتے ہیںوقد طبعت منه اربعة أجزاء على نفقة الحكومة الآصفية في حيدراباد في بيروت
یہ الکٹرونک نسخے غالبا وہی ہیں۔
باقی جلدیں مسودوں کی شکل میں حیدرآباد میں ہی موجود ہیں۔
علی میاں صاحب فرماتے ہیں۔
ومع الأسف بقي هذالكنز الثمين دفينا في أحدى المكتبات الخطية في حيدراباد
بعد میں پتہ چلا کہ یہ عظیم الشان ذخیرہ جامعہ ازہر کے کتب خانے محفوظ ہیں۔عبد المتین منیری نے اپنے مضمون میں اسکا ذکر کیا۔وقار شیرانی جو کہ علامہ کے پر نانا تھے انہوں نے اس سرمائے کی زیارت کی ہے۔
اتنا تو اطمینان ہے کہ یہ عظیم سرمایہ محفوظ ہے ضرورت ہے کہ اس عظیم دائرۃ المعارف کی تحقیق وتفتیش کرکے اسکے نسخے حاصل کرکے اسے چھپوایا جائے ۔
گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی۔

(2)رسالۃ الصید
یہ بھی pdf میں راقم نے دیکھا ہے۔ 118 صفحے کا رسالہ ہے۔اس رسالے سے آپ کے درک فی التفقہ کا اندازہ ہوتا ہے۔
یہ رسالہ اصلا بیرم تونسی کے رسالے پر رد ہے جس میں بیرم صاحب نے بندوق سے کئے گئے شکار کو حلال قرار دینے پر دلائل دئے ہیں۔جس کے رد میں یہ عجالہء نافعہ کے طور لکھا جس میں ثابت کیا ہے کہوالحاصل أن المرمى بالبندوق لايحل إلا أن تدرك فيه الحياة المستقرة ويذكى وأن الرمى جائز على التفصيل المذكور (ص 6 رسالة الصيد)
عامر صدیقی ٹونکی ان چند رسالوں کا ذکر کیا ہے۔
(3) رسالة الأوائل
(4) رسالة في تحقيق اثر ابن عباس ردا على تحقيق عبد الحي الفرنكي محلي.
(5) رسالة في تحقيق الصبح الصادق
(6) رسالة في التعامل
(7) رسالة في أصول التوارث
(8) رسالة معيار السنة
(9) رسالة تصديق السنة
ان میں سے کچھ رسالے فقہی تحقیقات (فقہِ حنفی کے مطابق) پر ہیں۔ کچھ رسالے رد قادیانیت پر ہیں۔
آپ کی وفات صاحب نزہہ کے مطابق 7 شوال 1366 ھ میں ٹونک میں ہوئی اور غالبا یہ گمنام عظیم مصنف موتی باغ قبرستان ٹونک میں آسودہء خاک ہیں۔
رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃ واسعۃ۔۔۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے