مولانا مفتی ریاست علی قاسمی رام پوری: سوانحی احوال

نوٹ:- یہ تحریر مفتی صاحب نے بندہ (محمد روح الامین قاسمی، ضلع میُوربھنج، اڈیشا) کے سوال نامے اور اس کی درخواست کے جواب میں قلم بند فرمائی ہے۔

میرا نام ریاست علی ہے اور والد محترم کا اسم گرامی نثار احمد مرحوم ہے، میرا وطن اصل احمدپور شکارپور، ڈاکخانہ سید نگر، تحصیل ٹانڈہ بادلی ، تھانہ ٹانڈہ بادلی ، ضلع رام پور، صوبہ اترپردیش ہے جس گاؤں میں میری ولادت ہوئی وہ دراصل دو جڑواں گاؤں کا مجموعہ ہے اور سرکاری کاغذات میں دونوں کو ایک ساتھ ہی لکھا اور بولا جاتا ہے، ہمارے تعلیمی زمانہ میں ہماری تحصیل صدر یعنی شہر رام پور تھی، بعد میں ضلع رام پور میں ایک جدید تحصیل کا اضافہ ہوا اور ٹانڈہ بادلی کو تحصیل کا درجہ حاصل ہو اور ہماری تحصیل ٹانڈہ قرار دی گئی، ہمارے سرکاری کاغذات اور تعلیمی اسناد میں تحصیل صدر رام پور لکھی ہوئی ہے۔
ہماری برادری ترک کہلاتی ہے جو ہندوستان کی مشہور و معروف قوم ہے، بڑے بڑے علماء و مشائخ اور سلاطین اس قوم میں پیدا ہوئے۔ ہندوستان کے اولین محدث شیخ عبدالحق محدث دہلوی، شیخ الاسلام محدث، شیخ نورالحق محدث اور سلطان الاولیاء خواجہ شمس الدین ترک اور بعد کے ادوار میں مجاہد اسلام مشہور محدث حضرت مولانا اسماعیل صاحب سنبھلی، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب سنبھلی (سابق استاد دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا ابرارالحق حقی، مناظر اسلام اور معروف عالم دین حضرت مولانا منظور احمد نعمانی نور اللہ مرقدہ اس برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں مشہور عالم دین اور داعیٔ اسلام حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحب سجادنعمانی سنبھلی مدظلہ، حضرت مولانا محمد زکریا صاحب قاسمی سنبھلی مد ظلہ شیخ الحدیث دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ کا تعلق بھی اسی برادری سے ہے۔ ضلع رامپور، ضلع مرادآباد، سنبھل، امروہہ اور پورے خطہ روہیلکھنڈ میں اس برادری کی کثیر تعداد موجود ہے۔

ہمارا خاندان ١٩٤٧ء سے پہلے ضلع رام پور کے مختلف دیہاتوں میں آباد رہا؛ لیکن آخر میں احمدپور، شکارپور اور پہاڑپور میں مستقل آباد ہو گیا۔
میری تاریخ پیدائش آدھار کارڈ اور تعلیمی اسناد کے اعتبار سے یکم مارچ ١٩٦٨ء ہے۔ والد محترم مرحوم اور خاندان میں کوئی پڑھا لکھا نہیں تھا، اس لیے متعین طور سے تاریخ پیدائش بتانا مشکل ہے، جب والد صاحب مرحوم نے مدرسہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی ضلع رام پور میں میرا داخلہ کرایا تو ذمہ داران مدرسہ نے والد محترم سے میری تاریخ پیدائش کے بارے میں معلوم کیا تو والد محترم سے ذمہ داران مدرسہ کو جواب دیا کہ ہندوستان پاکستان کی پہلی جنگ کے تقریباً تین سال بعد پیدا ہوا ہے، اس لیے مدرسہ والوں نے اپنے انداز سے یکم مارچ ١٩٦٨ء لکھ دی اور اب تمام کاغذات میں یہی تاریخ پیدائش درج ہے۔

تعلیم و تربیت
ہمارے خاندان اور پورے علاقہ میں تعلیمی ماحول نہیں تھا؛ بلکہ پورا علاقہ جہالت زدہ اور بدعت زدہ تھا، ہم نے اپنے گھر میں بچپن میں تمام اعمال بدعت اور رسوم جاہلیت ، تیجا، دسواں، بیسواں، چالیسواں، جمعرات کے دن کھانے پر فاتحہ اور عاشورہ کے موقع پر تعزیہ وغیرہ خوب دیکھا ہے۔
ہمارے خاندان میں صرف ہمارے ماموں حاجی احمد سعید مرحوم جو میرے والد محترم کے تایازادا بھائی بھی ہوتے تھے اور والد محترم سے عمر میں بڑے تھے، ناظرہ قرآن کریم پڑھے ہوئے تھے۔ ان کے منجھلے صاحب زادے میرے ماموں زاد بھائی جناب حاجی نزاکت علی صاحب بھی ناظرہ پڑھے ہوئے تھے اور اردو بھی کچھ پڑھا تھا، علاقہ میں میلاد شریف وہی پڑھا کرتے تھے۔
ہمارے والد محترم اگرچہ خود پڑھے ہوئے نہیں تھے مگر اپنی اولاد کو پڑھانے کا شوق تھا اور ہم چھ بھائی تھے، سبھی بھائیوں کو پڑھانے کی کوشش کی؛ لیکن سبھی بھائی ناطرہ قرآن کریم سے آگے نہ بڑھ سکے، ایک بھائی اسرار احمد نے نصف قرآن کریم حفظ کیا تھا؛ لیکن درمیان میں انھوںنے بھی پڑھنا چھوڑ دیا، میں بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور میں ناظرہ قرآن کریم کے بعد بھی تعلیم میں مصروف رہا اور والدین کی مستجاب دعاؤں اور رب ذوالجلال کے فضل وکرم سے والد محترم کی امیدوں سے زیادہ پڑھا۔

تعلیم کا آغاز
میری بھائی حاجی محمد رفیع صاحب لالپور کلاں پڑھنے جاتے تھے جو ہمارے گاؤں سے دو ڈھائی کلومیٹر کے فاصلہ پر جانب مشرق میں واقع ہے اور اچھی تعداد میں وہاں مسلمان آباد ہیں، مولانا محمد احمد صاحب مرحوم فاضل مدرسہ شاہی مرادآباد ہمارے ہی خاندان کے ایک بزرگ وہاں مدرسہ چلاتے تھے، اب موصوف کے وصال کے بعد وہ مدرسہ ختم ہو گیا۔

بھائی صاحب جب رات کو اپنا سبق یاد کرتے تھے تو میں بھی بھائی صاحب کے ساتھ طالب علمانہ ہیئت اختیار کرکے بیٹھ جاتا تھا اور بھائی جو پڑھتے تھے اس میں سے کچھ نہ کچھ زبانی یاد کر لیا کرتا تھا۔ چند روز کے بعد بھائی صاحب نے مجھ کو بغدادی قاعدہ لاکر دے دیا اور اس کو بھائی صاحب سے میں نے ایک ہفتہ کے اندر پڑھ لیا اور یاد بھی کر لیا۔ بعدازاں گاؤں میں نگلیا عاقل کے ایک حافظ صاحب ہمارے گاؤں کی دوسری مسجد میں امام بن کر تشریف لائے اور انھوںنے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا تو والد صاحب نے مجھ کو حافظ صاحب کے پاس بٹھا دیا ان حافظ صاحب کا نام حافظ محمد رضا صاحب تھا۔ موصوف نے مجھ کو یسرنا القرآن پڑھایا، اس کے فوراً بعد ہی پارہ الم سے حفظ شروع کر دیا حالانکہ میں نے ناظرہ قرآن کریم بالکل نہیں پڑھا تھا؛ لیکن حافظ صاحب موصوف نے میری ذہانت پر اعتماد کرتے ہوئے میرا حفظ شروع کرا دیا۔ ابھی میرے پہلے پارہ کے آٹھ رکوع ہی حفظ ہوئے تھے کہ حافظ صاحب گاؤں چھوڑ کر اپنے وطن نگلیا عاقل چلے گئے۔

لالپور کلاں کے مدرسہ میں تعلیم
حافظ محمد رضاء صاحب مرحوم کے گاؤں سے چلنے جانے کے بعد والد محترم مرحوم نے مجھ کو لالپور کلا ں مدرسہ بھیجنا شروع کر دیا؛ جبکہ میری عمر چھ سال سے کچھ زائد رہی ہوگی۔ وہاں ہمارے خاندان کے بزرگ جناب حضرت مولانا محمد احمدصاحب قاسمی نوراﷲ مرقدہ کے مدرسہ میں مچھ کو داخل کرا دیا اور حافظ مقبول احمد صاحب عرف حافظ چھوٹے کے پاس مجھے بٹھایا دیا۔ لالپور پہنچ کر حافظ صاحب مرحوم نے میرا ناظرہ قرآن شروع کرا دیا؛ چنانچہ چند ماہ میں میراناظرۂ قرآن کریم مکمل ہو گیا اور پھر دوبارہ حافظ کر دیا۔لالپور کلاں میں میرے بنیادی استاذ حافظ مقبول احمد صاحب ہی رہے اور زیادہ تر قرآن کریم انہی کے پاس پڑھا۔ اگرچہ حافظ صاحب کی غیر موجودگی میں بعض مرتبہ قاری محمد اعظم صاحب حافظ محمد عرفان صاحب ردرپوری اور حافظ مقبول احمد صاحب قطب پوری سے سبق پڑھنے کا اتفاق ہوا؛ البتہ سورۂ آلِ عمران قاری عبدالعزیز صاحب سرادہ والوں سے پڑھی؛ نیز لالپور کلاں میں میری تعلیم کا مرکز توجہ حافظ مقبول احمد صاحب لالپوری ہی رہے۔ اگر حافظ صاحب لالپور کے کسی اور مدرسہ میں چلے جاتے تو ناچیز بھی حافظ صاحب کے ساتھ اسی مدرسہ میں چلا جاتا، اس طرح ڈیڑھ دو سال میری تعلیم لالپور میں جاری رہی۔
جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ بادلی میں داخلہ
میرے ماموں حاجی محمد نبیہ صاحب عرف حاجی منگل والد صاحب کے پاس کثرت سے تشریف لاتے تھے اور وہ والد صاحب مرحوم سے برابر میرے بارے میں کہتے تھے کہ اس کو ٹانڈہ میں داخل کرا دیں؛ تاکہ وہاں سکون سے پڑھے کیونکہ موسم برسات میں لالپور کے راستے مسدود ہوجاتے تھے اور میری تعلیم کا حرج ہوتا تھا؛ اس لیے ماموں میرے بارے میں والد صاحب کو ٹانڈہ پڑھانے کا مشورہ دیتے تھے؛ لیکن والد صاحب میری کم عمری کی وجہ سے تیار نہ ہوتے تھے؛ لیکن ایک دن ارادہ کر لیا اور مجھ کو لے کر ماموں کے گھر پہنچے اور پھر صبح کو وہاں سے پیدل ہی ٹانڈہ پہنچے جبکہ میری عمر آٹھ سال کے قریب رہی ہوگی، ٹانڈہ لے جانے میں ماموں بھی ساتھ تھے اور وہاں جاکر ٹانڈہ بادلی کے سب سے قدیم ادارہ جامعہ رحمانیہ میں میرا داخلہ کرا دیا اور استاذالاساتذہ قاری انتظام علی صاحب نوراللہ مرقدہ کی درس گاہ میں مجھے پڑھنے کے لیے بٹھا دیا۔

میرا داخلہ جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ میں غالباً جمادی الاولیٰ ١٣٩٦ھ مطابق ١٩٧٦ء میں ہوا تھا اور پھر شعبان ١٤٠٢ھ تک اسی مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتا رہا، اولاً استاذ الاساتذہ الحاج قاری انتظام علی صاحب نوراﷲ مرقدہ کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی اور ٹانڈہ آنے کے بعد ڈیڑھ سال میں قرآن کریم حفظ مکمل کیا، اس کے بعد اردو، ہندی تا درجہ پنجم، فارسی اور ابتدائی عربی درجات سال سوم عربی جماعت کافیہ تک تعلیم اسی مدرسہ میں حاصل کی۔
ٹانڈہ بادلی میں میرے خصوصی استاذ اور مربی استاذالاساتذہ حضرت الحاج قاری انتظام علی صاحب تھے، حفظ مکمل ہونے کے بعد عام طور سے طلبہ اپنے حفظ کے استاذ سے رابطہ کم کر دیتے ہیں؛ لیکن الحمد للّٰہ حضرت الاستاذ سے میرا رابطہ علی حالہ نہ صرف قائم رہا؛ بلکہ اس میں روزبروز اضافہ ہوتا رہا اور حضرت الاستاذکی توجہ میری جانب برابر مبذول رہی اور میری مکمل نگرانی فرماتے رہے اور حقیقت یہی ہے کہ حضرت الاستاذ کی توجہات، دعائے نیم شبی کی بدولت ہی ناچیز علم دین کی دولت سے بہرہ ور ہوسکا اور دین کی خدمت کی توفیق حاصل ہو رہی ہے۔
جامعہ رحمانیہ ٹانڈہ کے دیگر اساتذہ کرام میں حضرت مولانا عبدالواجد صاحب قاسمی مدظلہ، حضرت مولانا محمد عتیق صاحب مدظلہ، حضرت مولانا عبدالغنی صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا مفتی عبدالوہاب صاحب سہارن پوری ، حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب عالی مدظلہ، حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی مدظلہ، حضرت مولانا محمد طاہر صاحب مفتاحی مدظلہ، حضرت مولانا عبدالسلام صاحب مفتاحی مدظلہ، حضرت حافظ محمد شفیع صاحب، حضرت مولانا عبدالحمید صاحب، ماسٹر محمد حنیف صاحب، ماسٹر خیرالدین صاحب، ماسٹر حامد حسین صاحب قابل ذکر ہیں۔

حضرت مولانا عبد الواجد صاحب مدظلہ سے سال اول عربی سے سال سوم تک عربی کی زیادہ تر کتابیں پڑھیں۔ حضرت مولانا محمد عتیق صاحب مدظلہ سے کتب فارسی کے علاوہ کافیہ اور شرح جامی بحث فعل پڑھی۔ حضرت مولانا عبد الرؤف صاحب عالی سے شوال سے ششماہی امتحان تک سال اول عربی کی کتابیں پڑھیں، اس کے بعد موصوف نے جامعہ رحمانیہ سے استعفیٰ دے دیا اور مولانا عبد الواجد صاحب اس کے بعد تقرر ہوا اور موصوف نے سالِ اول کی تمام کتابیں پڑھائیں۔ حضرت مولانا عبد الغنی صاحب سے شرح تہذیب، قطبی تصدیقات اور سراجی پڑھی، حضرت مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی سے شرح مأة عامل، نور الایضاح، قدوری تا کتاب الحج، مشکوة الآثار، نفحۃ الیمن، القراءة الواضحہ ثانی اور ثالث پڑھی، مولانا عبدالسلام صاحب مفتاحی سے معرفۃ التجوید اور جمال القرآن پڑھی؛ نیز قرآنِ کریم کی مشق کی۔ حضرت مولانا مفتی عبد الوہاب صاحب سے القراءة الوضحہ ثالث کے چند اسباق پڑھے، حضرت مولانا عبد الحمید صاحب مفتاحی سے تیسیر المنطق چند ماہ پڑھی، حضرت حافظ محمد شفیع صاحب سے خوشخطی سیکھی۔ حضرت مولانا محمد طاہر صاحب سے اردو پڑھی، ماسٹر محمد حنیف صاحب، ماسٹر خیرالدین صاحب، ماسٹر حامد حسین صاحب سے ہندی، انگریزی پڑھی، مدرسہ رحمانیہ میں مقیم رہتے ہوئے خارج میں قاری محمد اسحق صاحب لکھنوی سے، مدرسہ روضۃ العلوم میں تجوید پڑھی۔

جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں داخلہ
حضرت الاستاذ قاری انتظام علی کے مشورہ سے شوال ١٤٠٢ھ مطابق ١٩٨٢ء میں میرا داخلہ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ میں ہوگیا۔ اس عظیم ادارہ میں بندہ کا قیام دو سال رہا، پہلے سال شرح جامی، کنز الدقائق، شرح وقایہ، نور الانوار، تلخیص المفتاح، ترجمۃ القرآن، قطبی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ اس کے علاوہ جدید عربی کی مشق و تمرین اور تجوید و قرأت بھی خارج میں پڑھی۔ دوسرے سال جلالین شریف، الفوزالکبیر، ہدایہ اولین، مختصر المعانی، سلم العلوم، میبذی، مقامات حریری وغیرہ کتابیں پڑھیں۔ گنگوہ کے اساتذہ کرام میں شیخ الحدیث حضرت مولانا وسیم احمد صاحب سنسارپوری، حضرت مولانا شمس الدین صاحب گنگوہی، حضرت مولانا رئیس الدین صاحب بجنوری، حضرت مولانا محمد انور صاحب گنگوہی مدظلہ، حضرت مولانا محمد سلمان صاحب گنگوہی مدظلہ، حضرت مولانا مفتی عبدالستار صاحب سہارن پوری، حضرت مولانا صلاح الدین صاحب سیتامڑھی اور مولانا قاری نثار احمد صاحب قابل ذکر ہیں۔ حضرت مولانا وسیم احمد صاحب مختصر المعانی، شرح جامی اور خارج میں سراجی پڑھی، حضرت مولانا شمس الدین صاحب، جلالین شریف جلد اول اور ہدایہ ثانی از کتاب الحدود تا ختم کتاب پڑھی۔ حضرت مولانا رئیس الدین صاحب سے نورالانوار، تلخیص المفتاح، سلم العلوم پڑھی، حضرت مولانا محمد انور صاحب گنگوہی سے جلالین شریف جلدثانی، الفوزالکبیر، قطبی، میبذی پڑھی۔ حضرت مولانا محمد سلمان صاحب سے کنزالدقائق، ہدایہ اول پڑھی، حضرت مولانا مفتی عبد الستار صاحب سے ترجمہ القرآن نصف اول، ہدایہ ثانی از ابتداء تا کتاب الحدود پڑھی، مولانا صلاح الدین صاحب سے شرح وقایہ اول پڑھی اور جدید عربی کی مشق کی، قاری نثار احمد صاحب سے تجوید پڑھی اور قرآن کریم کی مشق کی۔ اس طرح دو سال مدت تعلیم گنگوہ میں مکمل ہوئی۔

ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخلہ
شوال ١٤٠٤ھ مطابق ١٩٨٤ء میں ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا۔ داخلہ امتحان کی کارروائی کے بعد سال ہفتم عربی میں داخلہ تجویز ہوا، پہلے سال ہفتم عربی موقوف علیہ کی کتابیں پڑھیں، دوسرے سال دورۂ حدیث شریف کی کتابیں پڑھ کر درس نظامی کی تکمیل ہوئی۔ تیسرے سال دارالافتاء دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوکر افتاء کی نصابی کتابیں پڑھیں اور فتویٰ نویسی کی مشق و تمرین سیکھی، شعبان ١٤٠٧ھ میں دارالعلوم دیوبند میں تعلیمی سلسلہ مکمل ہوا۔

سال ہفتم عربی میں مشکوٰة شریف جلد اول، شرح نخبةالفکر نصف اول حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی دامت برکاتہم سے پڑھی۔ مشکوٰة شریف جلد ثانی اور شرح نخبةالفکر نصف ثانی حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی سے پڑھی، ہدایہ ثالث حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی، ہدایہ رابع حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری، بیضاوی شریف حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری اور شرح عقائد نسفی حضرت مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری، سراجی حضرت مولانا مفتی محمدامین صاحب پالنپوری مدظلہ سے پڑھی۔

دورۂ حدیث شریف کے سال، بخاری شریف جلد اول حضرت مولانا نصیر احمد خاں صاحب بلندشہری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے پڑھی، بخاری شریف جلد ثانی حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی سے پڑھی۔ ترمذی شریف جلد اول اور طحاوی شریف حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ترمذی شریف جلد ثانی حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ سے پڑھی؛ البتہ ترمذی شریف کا آخری سبق کتاب العلم کی دو احادیث شریفہ حضرت مولانا معراج الحق صاحب صدیقی دیوبندی سے پڑھی۔

مسلم شریف جلد اول، مؤطا امام محمد حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی سے پڑھی۔ مسلم شریف جلد ثانی حضرت مولانا قمرالدین صاحب گورکھپوری مدظلہ سے پڑھی۔ ابوداؤد شریف مکمل دونوں جلدیں اور مؤطا امام مالک حضرت مولانا محمد حسین صاحب بہاری سے پڑھی۔ نسائی شریف حضرت مولانا زبیر احمد صاحب دیوبندی سے پڑھی۔ ابن ماجہ شریف حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ شمائل ترمذی شریف کے ابتدائی دس صفحات حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ سے پڑھی اور آخری بیس صفحات حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب اعظمی مدظلہ سے پڑھے۔

افتاء کے سال الاشباہ والنظائر، فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس کے علاوہ قواعد الفقہ حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سے پڑھی؛ نیز شرح عقود رسم المفتی حضرت مولانا مفتی کفیل الرحمن صاحب نشاط عثمانی سے پڑھی۔ درمختار نکاح و طلاق حضرت مولانا مفتی ظفیر الدین صاحب مفتاحی سے پڑھی۔ درمختار (مقدمہ، قضاء اور وقف) اور سراجی مکمل حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب خیرآبادی مدظلہ سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
دارالعلوم دیوبند میں مزید دلچسپیاں
دارالعلوم دیوبند میں تین سال قیام کے دوران تقریر، تحریر، مناظرہ وغیرہ سے بھی دلچسپی رہی۔ ضلع رام پور کی انجمن بزم آزاد کے علاوہ مدنی دارالمطالعہ، انجمن تقویۃ الاسلام، شعبۂ مناظرہ سے بھی وابستگی رہی۔ انجمن تقویۃ الاسلام کے اندر ناظم کی حیثیت سے بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے تعلیمی زمانہ میں مناظرہ کی انجمن میں وسعت پیدا ہوئی، اسی دور میں دارالعلوم کے ذمہ داران نے عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت دارالعلوم دیوبند میں انعقاد کا فیصلہ کیا تو طلبہ دارالعلوم نے ختم نبوت کے مسئلہ کو اپنی دلچسپی کا موضوع بنایا اور طلبہ نے کثرت سے اس موضوع پر مطالعہ کیا، انجمن مناظرہ نے بھی اس موضوع پر دارالحدیث تحتانی کے اندر مناظرہ کا عظیم الشان پروگرام رکھا، جس میں فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نور اللہ مرقدہ، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند، بہ نفس نفیس تشریف لائے اور مذکورہ دونوں حضرات کی وجہ سے کبار اساتذہ کرام دارالعلوم دیوبند بھی بھاری تعداد میں تشریف لائے اور طلبہ دارالعلوم دیوبند کی حوصلہ افزائی فرمائی؛ نیز دارالعلوم دیوبند کی جانب سے منعقدہ عالمی اجلاس میں بھی بندہ کو مقالہ خوانی کا موقع ملا اور اس دور کے تمام ہی اخبارات میں عالمی اجلاس کی رپورٹیں شائع ہوئں، دارالعلوم دیوبند میں قیام کے زمانہ میں دارالافتاء کے سال مضمون نگاری کا شوق بھی بندہ کو رہا، مضمون نگاری کی جانب خاصی توجہ حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی صاحب بجنوری نور اللہ مرقدہ نے احقر کو دلائی تھی، حضرت والا کے توجہ دلانے پر بندہ کی مضمون نگاری کی جانب توجہ ہوئی؛ چنانچہ دیواری پرچوں کے علاوہ آئینہ دارالعلوم دیوبند میں بندہ کے متعدد مضامین زمانۂ طالب علمی میں شائع ہوئے۔

درس و تدریس
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نور اللہ مرقدہ اور حضرت مولانا نصیر احمد خان صاحب نور اللہ مرقدہ کے مشورہ سے احقر کا تقرر مدرسہ امدادالاسلام کمال پور ضلع بلندشہر میں ہوا اور یہاں مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھانے کا موقع ملا، جن میں بیضاوی شریف، ہدایہ ثالث، شرح عقائد نسفی، مختصر المعانی، سلم العلوم، نورالانوار اور شرح وقایہ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، یہاں احقر کا قیام دو سال سے کچھ زیادہ رہا۔
مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں تقرر
ماہ صفر المظفر ١٤١٠ھ میں حضرت فقیہ الامت نور اللہ مرقدہ اور حضرت مولانا مرغب الرحمن صاحب بجنوری مہتمم دارالعلوم دیوبند کے مشورہ اور مولانا ناظر حسین صاحب قریشی مہتمم مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کے حسن طلب پر بندہ کا تقرر مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں ہوا، یہاں ناچیز کا قیام تقریباً بیس سال رہا اس ادارہ میں ابتداء سال سے دورۂ حدیث شریف تک متعدد علوم و فنون کی کتابوں کی تدریس کا موقع ملا جن میں ہدایہ مکمل چاروں جلدیں، مرحلہ وار ہر سال پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی، اور بفضل خداوند ہر جلد اختتام کتاب تک پڑھائی، اس کے علاوہ سلم العلوم، شرح عقائد نسفی، حسامی، نورالانوار، شرح وقایہ، مراح الارواح، شرح جامی بحث فعل و حرف وغیرہ کے ساتھ دورۂ حدیث شریف کی تمام کتابیں، بخاری شریف، ابن ماجہ شریف کے علاوہ متعدد مرتبہ پڑھیں۔ محرم الحرام ١٤١٢ھ میں مرشدی فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حصن گنگوہی نور اللہ مرقدہ کی توجہات عالیہ سے دارالافتاء میں طلبہ افتاء کے داخلہ کا سلسلہ شروع ہوا اور افتاء کی کتابوں کی تدریس کا آغاز ہوا تو افتاء کی نصابی کتابیں بھی باربار پڑھائیں، اور تمرین فتاویٰ کا کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی؛ جبکہ فتویٰ نویسی کا سلسلہ تقرر کے وقت ہی سے قائم تھا۔

مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ کا دور دراصل احقر کا جوانی کا دور تھا جس میں خوب خوب کام کرنے کا موقع ملا۔ فقہی اجتماعات کے موقع پر فقہی موضوعات پر مقالہ نگاری اور فقہی اجتماعات میں شرکت کے مواقع میسر آئے؛ نیز دیگر علمی پروگراموں میں شرکت کا بھی موقع ہاپوڑ کے دور قیام میںملتا رہا، اس کے علاوہ جمعیة علماء ہند کے تعلق سے رفاہی، ملی امور کو سمجھنے اور اس میں کام کے مواقع بھی حاصل رہے، جمعیة علماء ہند کی اصلاحی تحریک سے وابستگی ہوئی اور ملک کے مختلف حصوں میں اصلاحی جلسوں میں شرکت کے مواقع حاصل ہوئے۔ فقہی مقالات کے علاوہ متعدد سوانحی، اصلاح مضامین لکھے گئے جو ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، ماہنامہ ندائے شاہی اور ملک کے دیگر جرائد و مجلات میں چھپتے رہے۔ ہاپوڑ ہی کے زمانۂ قیام میں” البیان المحقق فی شرح مقدمة الشیخ عبدالحق” اور ”قرآن کریم ایک عظیم دولت” کتاب مرتب ہوئی اور زیور طبع سے آراستہ ہوکر طبقہ اہل علم کے لیے سرمۂ بصیرت ثابت ہوئی۔

مدرسہ خادم الاسلام ہاپوڑ میں ١٤٢٩ھ تک درس و تدریس اور افتاء کا سلسلہ رہا، اس دور میں مدرسہ کے دارالافتاء کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور ملک کے طول و عرض سے شائقین جید الاستعداد طلبہ کشاں کشاں ہاپوڑ آتے رہے، پھر بعض ناگریز اور ناگفتہ حالات کے تحت ہاپوڑ سے سلسلۂ درس و تدریس منقطع ہو گیا۔فإلی ﷲ المشتکیٰ

جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں تقرر
شوال ١٤٢٩ھ میں حجةالاسلام قاسم العلوم والخیرات بانی دارالعلوم دیوبند کی قائم کردہ عظیم دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں ذمہ داران جامعہ کی طلب پر احقر کا تقرر عمل میں آیا اور درس و تدریس کے ساتھ شعبۂ افتاء کی خدمت تفویض ہوئی اور تادم تحریر تقریباً سولہ سال سے ادارہ میں مذکورہ خدمات کی توفیق بحمد اللہ حاصل ہے، رب ذوالجلال سے استقامت فی الدین اور استقامت فی التدریس کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت سے نوازے جانے کی عاجزانہ درخواست ہے۔
جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں شعبۂ افتاء میں درمختار، سراجی کے علاوہ ترمذی شریف، طحاوی شریف، مشکوٰة شریف، شرح عقائد نسفی، کنزالدقائق، ہدایہ اولین (دونوں جلدیں) نورالانوار ، قطبی، اصول الشاشی، دروس البلاغة، قدوری، ترجمةالقرآن (آخری منزل از سورۂ ق تا سورةالناس) نورالایضاح وغیرہ کتابیں پڑھانے کی سعادت حاصل رہی۔ اس کے علاوہ کسی نہ کسی درجہ میں تحریری کام بھی جاری رہتا ہے؛ چنانچہ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور ان کے خلفاء عالی مقام کی دو جلدیں اور کاروانِ اہل حق، نامور شخصیات امروہہ قیام کے زمانہ ہی میں معرض وجود میں آئیں اور زیور طبع سے آراستہ ہوکر قارئین کرام کے لیے سرمۂ بصیرت ثابت ہوئیں۔ اول الذکر کتاب دو جلدوں میں ایک ہزار ستر صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی تیسری جلد زیر ترتیب ہے، کاروان اہل حق چھ سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے۔نامور شخصیات کتاب مختصر ہے، اس میں صرف ایک سو چار صفحات ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف موضوعات پر تحریری کام جاری ہے۔ امروہہ قیام کے زمانہ میں بھی علی حالہ فقہی مقالات تحریر کرنے اور فقہی اجتماعات میں شرکت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ متعدد اسلامی و دینی شخصیات پر منعقد سمیناروں میں بھی شریک ہونے اور مقالات پڑھنے کی سعادت ہوئی۔

دینی، دعوتی اسفار
رب العالمین کی توفیق سے بندہ کو ملک کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں دینی و اصلاحی جلسوں میں شرکت کی سعادت ہوتی رہی ہے، بیرون ممالک میں تین مرتبہ بنگلہ دیش کا سفر ہوا ان اسفار میں مرشدی حضرت مولانا محمدابراہیم صاحب پانڈور افریقی دامت برکاتہم کے ہمراہ عشرہ اخیرہ کے اعتکاف کی توفیق اور سعادت حاصل ہوئی، اعتکاف سے فراغت کے بعد شوال کے اوائل میں حضرت مخدوم کے ساتھ بنگلہ دیش کے مختلف مقامات پر حاضری کی توفیق ہوئی اور حضرت والا کے حکم سے بعض مقامات پر دینی و اصلاحی گفتگو کا موقع بھی ملتا رہا، مختلف مدارس میں تعلیمی آغاز کے پروگرام میں بھی شرکت کا موقع ملا؛ نیز رب ذوالجلال کے فضل و کرم سے پانچ مرتبہ زیارت حرمین شریفین کی توفیق و سعادت میسر آئی، تین اسفار میں حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل ہوئی اور دو مرتبہ عمرہ کی نیت سے سفر کیا گیا اور عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی۔ دعاء ہے کہ رب دو جہاں بابار تاحیات زیارت حرمین شریفین کی سعادت سے بہرور فرمائیں۔

فرق باطلہ کی تردید اور دفاع الدین
بندہ کو فرق ضالہ اور فرق باطلہ کے سلسلہ میں کتابیں پڑھنے اور اس سلسلہ میں معلومات حاصل کرنے کا بھی طالب علمی کے زمانہ ہی سے ذوق رہا ہے، بندہ کا پورا خاندان اور عزیز و اقارب اکثر بریلویت اور رضاخانیت سے متاثر تھے، پروردگار عالم نے اپنی خاص توفیق سے کسی طرح بندہ کو اس دلدل سے نکال کر دارالعلوم دیوبند تک پہنچایا اور علم دین کے حصول کی توفیق سے نوازا، اس لیے فرق باطلہ کے سلسلہ میں کتابیں پڑھنے اور معلومات حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا، گنگوہ قیام کے زمانہ میں امام ربانی قطب ارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی کے پوتے حضرت مولانا حکیم عبدالرشید محمود عرف حکیم ننو میاں کی مجالس میں شرکت کی برکت سے مودودیت اور جماعت اسلامی سے شناسائی ہوئی، اور اس سے متعلق دلچسپی پیدا ہوئی، حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کی مجالس مبارکہ میں شرکت کی برکت سے متعدد فرق باطلہ اور فرق ضالہ، رضاخانیت، مودودیت، غیر مقلدیت، شیعیت اور قادیانیت سے متعلق معلومات حاصل ہوئیں تو فرق باطلہ وضالہ سے متعلق مطالعہ کرنے کے ذوق میں اضافہ ہوتا رہا، اسی ذوق کو پروان چڑھانے کے لیے دارالعلوم دیوبند میں طالب علمی کے زمانہ میں انجمن تقویةالاسلام شعبہ مناظرہ سے وابستگی ہوئی اور دارالعلوم دیوبند قیام کے تینوں سال اس انجمن سے وابستہ ہوکر مناظرہ کی مشق و تمرین اساتذہ کرام کی نگرانی میں سیکھی اور باطل فرقوں کے سلسلہ میں خوب خوب مطالعہ کا موقع ملا، ہمارے ہی زمانہ میں دارالعلوم دیوبند میں تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے عالمی اجلاس منعقد ہوا جس میں بیرون ملک سے بھی بھاری تعداد میں علماء اور زعماء ملت نے شرکت فرمائی، اس موقع سے قادیانیت کے دجل و فریب کو سمجھنے کا موقع ملا اور پھر دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے دفاع عن الدین اور تحفظ دین کا جذبہ ترقی پذیر ہوتا رہا پھر دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اس جذبہ میں ترقی ہوتی رہی؛ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے زیر اہتمام حضرت الاستاذ مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری قدس سرہ کی سرپرستی میں مختلف جگہ پر مناظرہ میں شرکت کا موقع ملا اور اسلام کے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع کا موقع ملا۔ دارالعلوم دیوبند اور دوسرے علاقوں میں تحفظ ختم نبوت کے موضوع منعقدہ تربیتی کیمپوں میں شرکت بھی ہوتی رہی، امب ضلع اوناچل پردیش، بٹھور ضلع اجمیر صوبہ راجستھان، فیروزآباد، کیتھانی باغ فیض آباد وغیرہ مناظروں میں شرکت اسی دفاع عن الدین کے جذبہ سے وجود پذیر ہوئی اور آج بھی الحمد للّٰہ اس کام کے لیے بندہ ہر وقت تیار رہتا ہے، جہاں بھی فرق باطلہ ضالہ کی جانب سے کوئی اطلاع ملتی ہے توبندہ اکابرین کے حکم کی تعمیل کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے۔ آمین

بیت و سلوک
بندہ گنگوہ میں طالب علمی کے دور میں حضرت الاستاذ مولانا محمد سلمان صاحب گنگوہی مدظلہ استاذ حدیث مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ کی توجہ سے اصلاح نفس اور تزکیہ باطن کے ارادہ سے فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوا اور یہ بندہ کا شرح جامی کا سال تھا اور پھر تاحیات حضرت فقیہ الامت سے ہی وابستہ رہا اور حضرت کے تلقین کردہ معمولات پر بھی عمل کی توفیق ہوتی رہی۔ حضرت نے ذکر کی اجازت بھی مرحمت فرمائی، ذکر کی بھی توفیق ہوئی، اس زمانہ میں حضرت فقیہ الامت دارجدید مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور میں قیام پذیر تھے، گنگوہ قیام کے زمانہ میں ہفتہ، دو ہفتہ کے فرق سے حضرت الاستاذ مدظلہ کے ساتھ سہارن پور جاکر حضرت کی مجلس میں شرکت کرتا تھا، جب بندہ دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوگیا تو حضرت بھی دارالعلوم دیوبند چھتہ مسجد تشریف لے آئے اور پھر باربار مجلس میں حاضری کی توفیق ہوتی رہی، فراغت کے بعد ماہ رمضان کے عشرہ اخیرہ میں اعتکاف کی سعادت میسر آئی؛ لیکن افسوس ہے کہ دیگر متعلقین کی طرح بندہ اپنی نااہلی، کمزوری کی وجہ سے حضرت فقیہ الامت سے بھرپور فائدہ نہ اٹھا سکا جس کا برابر افسوس رہے گا۔

حضرت فقیہ الامت کے وصال کے بعد بندہ نے جانشین فقیہ الامت حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب افریقی دامت برکاتہم سے رجوع کیا اور تادم تحریر حضرت افریقی مدظلہ سے ربط و تعلق برقرار ہے اور ماہ رمضان المبارک کا عشرہ عام طور سے حضرت والا کے ساتھ اعتکاف میں گزرتا ہے اور حضرت والا ہی سے رابطہ رہتا ہے اور انہی کے مشورہ سے زندگی کی گاڑی چل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے اور اپنے محبوب بندوں میں شامل فرمائیں اور نفس و شیطان کے شرور سے حفاظت فرمائے۔ آمین
بندہ کو برکةالعصر پیر طریقت صاحب زادۂ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی قدس سرہ اور شیخ طریقت حضرت الحاج شیخ محمد ذکی صاحب بھوپالی ثم المدنی قدس سرہ خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی نیز مولانا مفتی شبیر احمد صاحب مفتی و شیخ الحدیث مدرسہ شاہی مرادآباد کی جانب سے خلافت اور اجازت بیعت و ارشاد حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی لاج رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نکاح اور اولاد
شوال ١٤٠٨ھ مطابق ٧ مئی ١٩٨٨ء کو بندہ کا نکاح قاری غلام حسین صاحب ساکن ہریٹہ ضلع رام پور کی دختر سے عمل میں آیا۔ دو سال کے بعد ایک لڑکی کا تولد ہوا جس کی فوراً وفات ہوگئی۔ اس کے بعد مسلسل نرینہ اور غیر نرینہ اولاد میں چھ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں، سب سے چھوٹا لڑکا عزیزم محمد احمد اب سے سات سال پہلے تقریباً پانچ سال کی عمر میں ایک حادثہ کے اندر انتقال کر گیا، پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں الحمدللہ موجود ہیں، بڑی لڑکی شادی شدہ ہے اور باقی دونوں لڑکیاں ابھی زیر تعلیم ہیں۔

لڑکوں میں بڑے لڑکے مولوی حافظ محمد ارشد سلمہ، ماشاء اللہ حافظ قرآن، دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل، عالم، فاضل ہیں، اس وقت ایک مدرسہ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔

دوسرے فرزند مولوی حافظ محمد اخلد سلمہ بھی حافظ قرآن، بہترین قاری و مجود، دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل عالم فاضل ہیں فراغت کے بعد دارالعلوم دیوبند ہی سے متعدد تکمیلات و تخصصات کے درجات بھی پڑھے ہیں، اس وقت مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے شعبۂ افتاء میں زیر تعلیم ہیں۔

تیسرے فرزند عزیزم محمد اسجد سلمہ نے عصری تعلیم حاصل کی ہے، بی.اے. تک تعلیم حاصل کرکے کمپیوٹر بھی سیکھا ہے، اس وقت روزگار کی تلاش میں ہے۔

چوتھے لڑکے حافظ قاری محمد اسعد سلمہ ہیں یہ بہترین حافظ قرآن اور قاری قرآن ہیں، اس وقت دارالعلوم دویبند میں دورۂ حدیث شریف پڑھ رہے ہیں۔

پانچویں فرزند عزیزم حافظ محمد ازہد سلمہ بھی ماشاء اللہ اچھے حافظ قرآن ہیں، اس وقت جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ میں سال چہارم عربی میں زیر تعلیم ہیں۔

رب العالمین میری تمام اولاد کو صلاح و فلاح دارین نصیب فرمائے اور دینی و دنیوی، ظاہری و معنوی ترقیات سے ہم کنار فرمائے۔ آمین

تصنیفات و تالیفات
رب العالمین کی توفیق اور اس کے فضل و کرم؛ نیز اساتذہ کرام کی مستجاب دعاؤں کے طفیل بندہ کو مضامین لکھنے اور تحریری لائن سے کام کرنے کی بھی توفیق و سعادت حاصل ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں بھی مضامین لکھنے کا موقع ملا، متعدد مضامین دیواری پرچوں اور ماہانہ آئینہ دارالعلوم دیوبند میں اشاعت پذیر بھی ہوئے، دارالعلوم دیوبند میں منعقدہ عالمی اجلاس تحفظ ختم نبوت میں، مسئلہ ختم نبوت کتاب سنت کی روشنی میں، کے عنوان سے مقالہ پڑھنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد بھی مختلف اجتماعات و سیمیناروں اور کانفرنسوںمیں شریک ہونے اور مقالات پڑھنے کی توفیق ہوئی، ماہنامہ دارالعلوم دیوبند، پندرہ روزہ آئینہ دارالعلوم دیوبند، ماہانہ ندائے شاہی مرادآباد، ہفت روزہ الجمعیة اخبار دہلی میں متعدد مضامین شائع ہوئے۔

درجنوں فقہی مقالات لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی جو ادارۃ المباحث الفقہیہ جمعیۃ علماء ہند، اسلامک فقہ اکیڈمی کی جانب سے ارسال کردہ طویل سوالناموں کی روشنی میں تحریر کیے گئے، اس کے بعد فقہی اجتماعات اور سمیناروں میں ان مقالات کو پڑھنے کی بھی توفیق میسر آئی۔

بندہ کے شخصیات پر تحریر شدہ مضامین الحمد للہ ”کاروان اہل حق“ کے نام سے شائع ہوگئے ہیں جو چھ سو سے زائد صفحات میں پھیلے ہوئے ہیں، دو درجن کے قریب شخصیات پر تحریر شدہ مضامین کی ابھی اشاعت باقی ہے۔
اس کے علاوہ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کے خلفاء عظام کے تذکرہ پر مشتمل کتاب دو جلدوں میں ”حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی اور ان کے خلفاء عالی مقام” شائع ہو چکی ہے؛ نیز قرآن کریم ایک عظیم دولت، نامور شخصیات، البیان المحقق فی شرح مقدمة الشیخ عبد الحق بھی بندہ کی تصانیف ہیں، البیان المحقق اتحاد بک ڈپو دیوبند سے شائع ہوئی ہے اور بازار میں دستیاب ہے۔

(اللہ تعالیٰ مولانا موصوف کی عمر و صحت میں برکت عطا فرما کر ان سے خوب عوام و خواص کو مستفیض ہونے کی توفیق عطا فرمائے!! آمین۔ محمد روح الامین)

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے