80/20 کا اصول
از: اظہارالحق قاسمی بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد
80/20 کے اصول کو اس کے تخلیق کار اطالوی ماہر اقتصادیات ولفریڈو
پریٹو کے نام پر پریٹو اصول بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کام کا 20 فیصد آپ کو 80 فیصد نتائج دے گا۔
بہت ساری چیزیں ہیں جو آپ ہر روز کرتے ہیں، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو زیادہ اہم ہوتی ہیں اور نتائج کا بیشتر حصہ انھیں کے سبب وجود پذیر ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کم اہم ہوتی ہیں اور ہمارے مقاصد کو حاصل کرنے میں ہماری مدد نہیں کرتیں۔ اس لیے اگر آپ اپنے کاموں میں اہم ترین اور غیر اہم میں ترجیح و عدم ترجیح کا رویہ اپنائیں یعنی اہم ترین کام کو کریں تو آپ کا بیس فیصد کام اسّی فیصد نتائج دے گا۔
جیسے طلبہ جب امتحان کی تیاری کرتے ہیں تو اکثر وہ پورے نصاب کی ایک ایک چیز باریکی سے پڑھنے میں کافی وقت ضائع کرتے ہیں۔ 80/20 اصول کے مطابق، آپ کو 20 فیصد اہم موضوعات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو 80 فیصد امتحان میں آئیں گے۔ اس طرح آپ کی تیاری زیادہ مؤثر ہو سکتی ہے۔
یا فرض کریں کہ آپ دفتر میں 8 گھنٹے کام کرتے ہیں، چناں چہ 80/20 اصول کے مطابق، آپ کا 20 فیصد وقت ہی 80 فیصد اہم کام کو مکمل کرسکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو ان مخصوص کاموں کی شناخت کرنی چاہیے جو سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہوں اور ان پر پہلے توجہ دینی چاہیے، بجائے اس کے کہ آپ پورے دن غیر ضروری کاموں میں مصروف رہیں۔
اسی طرح آپ کی روزمرہ کی عادات کا 20 فیصد حصہ آپ کی زندگی کے 80 فیصد نتائج کو تشکیل دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ روزانہ صرف چند اہم عادات جیسے ورزش، مطالعہ یا کوئی ہنر سیکھنے پر توجہ دیتے ہیں تو آپ اپنی زندگی میں اسی فیصد بہتری دیکھیں گے۔
کاروباری افراد کو اکثر 20 فیصد کلائنٹس سے 80 فیصد منافع حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں ان اہم کلائنٹس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جو ان کے کاروبار کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، بجائے اس کے کہ وہ ہر کلائنٹ کے ساتھ یکساں سلوک کریں چاہے وہ خاص ہو یا عام۔
اگر چہ کہ آپ بہانے بازی نہ کریں تب بھی آپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ آپ کیا کر رہے ہیں کیوں کہ اگر آپ ایسی چیزیں کر رہے ہیں جو قیمتی نہیں ہیں اور آپ کو آپ کے اہداف حاصل کرنے میں مدد نہیں کر رہی ہیں تو آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ وہ سب سے اہم کام کیا ہے جو آپ اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کر سکتے ہیں!
یہ کام شاید مشکل ہو مگر یہی اصل کام ہے جو کیے جانے کے لائق ہے۔مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ مصروف رہیں بل کہ یہ ہے کہ آپ وہ کریں جو کرنے کی ضرورت ہے۔
کاموں کے لیے وقت متعین کرنے کے سلسلے میں پارکنسن کا قانون (اصول)
اس لاء (قانون) کو سیرل نارتھ کوٹ پارکنسن نے متعارف کرایا تھا۔ اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ کام اپنی تکمیل کے لیے مقررہ اور مختص پورے وقت میں پھیلتا ہے۔ لہذا اگر آپ کسی کام کو مکمل کرنے کے لیے اپنے آپ کو دو گھنٹے دیتے ہیں، تو اس میں پورے دو گھنٹے لگیں گے، لیکن اگر آپ کے پاس صرف ایک گھنٹہ ہے، تو آپ کو اپنا کام ایک گھنٹے میں مکمل کر لینے کی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آئے گی۔ اگر آپ کوئی پروجیکٹ شروع نہیں کر سکتے یا اسے مکمل ہونے میں بہت زیادہ وقت لگ رہا ہے تو آپ کے لیے یہ ایک بہترین قانون ہے کہ آپ ایک قریبی وقت مقرر کریں اور اس میں کام شروع کردیں یا اگر شروع ہو چکا ہے تو اس متعینہ وقت میں اس کو مکمل کریں۔
فرض کریں آپ نے گھر کی صفائی کے لیے 4 گھنٹے مختص کیے ہیں، تو آپ کا کام لازماً 4 گھنٹے میں مکمل ہو گا۔ لیکن اگر آپ کو صرف 2 گھنٹے ملیں تو آپ 2 گھنٹے میں بھی صفائی کر لیں گے، کیوں کہ آپ تیز رفتاری سے کام کریں گے اور غیر ضروری کاموں پر کم وقت ضائع کریں گے۔ اسی طرح اگر آپ کو کوئی پروجیکٹ مکمل کرنے کے لیے ایک مہینہ دیا جائے تو آپ پورا مہینہ لے لیں گے، لیکن اگر وہی کام ایک ہفتے میں کرنے کو کہا جائے تو آپ اسے ایک ہفتے میں مکمل کرنے کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے کام کریں گے۔ پارکنسن کا قانون بتاتا ہے کہ وقت کی کمی کام کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
لہذا آپ کا جو بھی ہدف ہے اس کے لیے ایک معقول اور محدود ڈیڈ لائن (تکمیل کا متعینہ وقت) طے کریں اور اس کو پیش نظر رکھ کر نتیجے اور منزل کے حصول کے لیے جم کر محنت کریں۔ ان شاءاللہ اپنی محدود زندگی میں بہت کچھ کر سکیں گے۔
جاری