آزادیِ وطن کے 75 سال بعد بھی ہندوستانی مسلمان مرکزی قومی سیاست میں اچھوت کیوں ہیں؟

نایاب حسن

وہ 150سے زائد پارلیمانی حلقوں اور 600سے زائد ریاستی اسمبلی حلقوں میں مؤثر انتخابی پوزیشن میں ہیں، اس کے باوجود 543 سیٹوں والی پارلیمنٹ میں ان کی سیاسی نمایندگی 4 سے 5 فیصد اور 4123 سیٹوں والی ریاستی اسمبلیوں میں 6 سے 7 فیصد کے درمیان کیوں جھول رہی ہے؟

بی جے پی کی مسلم دشمنی تو عیاں ہے، مگر سیکولرزم کا دم بھرنے والی مرکزی سیاسی جماعت کانگریس اور درجنوں ریاستی جماعتیں انتخابی سیاست میں مسلمانوں کو نظرانداز کیوں کر رہی ہیں؟

ان جماعتوں اور ہندوستانی مرکزی حکومتوں کی وہ کونسی پالیسیاں رہی ہیں،جنھوں نے سیاست میں مسلم نمایندگی کو منفی طورپر متاثر کیا ہے ؟

زمینی اور سماجی سطح پر وہ کیا عوامل ہیں،جو مقننہ و انتظامیہ میں مسلم نمایندگی کی راہ روکے کھڑے ہیں؟

ان چیلنجز سے نمٹنے کی تدبیریں کیا ہیں؟

مسلمان آج کے مسموم ترین فرقہ وارانہ ماحول میں اپنی متناسب سیاسی نمایندگی کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

کیا مسلم سیاسی پارٹی یا مسلم پارٹیوں کا اتحاد مسلمانوں کو ان کے سیاسی حقوق دلوا سکتا ہے؟

مجلس اتحاد المسلمین،اے آئی یو ڈی ایف،ایس ڈی پی آئی اور ویلفیئر پارٹی آف انڈیا وغیرہ جیسی مسلم اساس سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہے؟

کیا مسلمانوں کی سیاسی محرومی میں مسلم سیاسی لیڈروں کے ساتھ ہندوستانی علما اور مذہبی تنظیموں کا بھی کردار رہا ہے؟

کیا موجودہ حالات میں عام آدمی پارٹی مسلمانوں کے لیے سیاسی متبادل ہوسکتی ہے؟

ہندوستان میں دلت-مسلم اتحاد کی ضرورت کیوں ہے اور اس کے امکانات کیا ہیں؟

پسماندہ مسلمانوں کی سیاست کیا ہے اور کیوں ہے؟

…یہ اور ان جیسے مزید درجنوں سلگتے سوالات کے جوابات ہمیں ستمبر 2023 میں منظر عام پر آنے والی آئی پی ایس جناب عبدالرحمن کی غیر معمولی تحقیقی و تجزیاتی کتاب Absent in Politics and Power: Political Exclusion of Indian Muslims میں ملتے ہیں۔پچھلے دس گیارہ برسوں کے دوران ہندوستانی سیاست میں جو ہوش ربا انقلابات رونما ہوئے ہیں،ان کے دیدہ ورانہ جائزے کے ساتھ ان انقلابات کی تاریخی جڑوں کی تلاش و جستجو میں بھی مصنف نے غیر معمولی محنت،دقت نظری و ژرف نگاہی سے کام لیا ہے۔ یہ کتاب جہاں آج کے عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کسی بھی ملک کی اقلیت کی سیاسی بااختیاری کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتی ہے، وہیں ہندوستان کی دوسری اکثریت یا سب سے بڑی اقلیت کی سیاسی نمایندگی کے مطالبات کے تاریخی حقائق کا سراغ لگاتے ہوئے بتاتی ہے کہ کس طرح دستور ساز اسمبلی میں پہلے تو مقننہ و انتظامیہ میں مسلمانوں کے لیے آبادی کے تناسب سے ریزرویشن کی تجویز پاس ہوئی اور اسے دستورِہند کے مسودے میں بھی جگہ ملی،مگر پھر آزادی و تقسیمِ ہند کے بعد اسے مسترد کرکے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا دستوری فراڈ کیا گیا۔یہ کتاب بتاتی ہے کہ آزادی کے اتنے عرصے بعد بھی مسلمانوں کی سیاسی بے وقعتی کی بنیادی وجہ وہی دستوری فریب دہی ہے۔مصنف نے 1952سے اب تک کے پارلیمانی و ریاستی اسمبلیوں کے انتخابی نتائج کا اعدادوشمار کی روشنی میں جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ پچھلی پون صدی کے دوران مسلمان کب، کتنی سیاسی محرومیوں کے شکار رہے اور ان کے اسباب کیا تھے؟ان میں سے کچھ کا تعلق تو حکومت اور سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں اور اکثریتی طبقے کے تعصبات سے ہے،مگر بہت سے اسباب خود مسلمانوں میں بھی موجود ہیں؛چنانچہ انھوں نے غیر معمولی حقیقت پسندی کے ساتھ ان کا تجزیہ کرتے ہوئے جہاں حکومت اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی پالیسیوں کی شمولیت و جامعیت پر زور دیا ہے، وہیں مسلمانوں کی سیاسی کوتاہ اندیشی، باہمی انتشار، منتخب مسلم نمایندگان کی ناکارگی اور بعض نیم سیاسی علما اور مسلم تنظیموں کی اغراض پسندیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ان سے جان چھڑانے کی بھی تلقین کی ہے۔

مصنف کا تعلق انڈین پولیس سروس کے مہاراشٹر کیڈر سے رہا ہے،جہاں مختلف شہروں میں انھوں نے متعدد اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں اور 2019میں مودی حکومت کے ذریعے لائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انھوں نے استعفا دے دیا تھا۔اس کتاب سے پہلے بھی سچرکمیٹی و رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹس کے مبسوط مطالعے پر مبنی انگریزی و ہندی میں ان کی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔

زیرنظر کتاب چوں کہ موضوع و مشمولات کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی؛اس لیے راقم الحروف کو مطالعہ کرتے ہوئے اس کے اردو ترجمے کی ضرورت کا شدت سے احساس ہوا،کہ اس کے اصل مخاطب، یعنی مسلمانوں کا اکثریتی طبقہ اردو قارئین کا ہے۔حسنِ اتفاق کہ اسی دوران مصنف نے بھی اس کے ترجمے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا ، اس طرح ان کی خواہش نے میرے شوق و احساس کو مہمیز کیا اور نتیجتاً اس اہم تحقیقی و تجزیاتی کتاب کا ترجمہ پایۂ تکمیل کو پہنچ کر پریس میں جاچکا ہے۔ ترجمے میں غیر معمولی کد و کاوش سے کام لیا گیا ہے اور توقع ہے کہ یہ ترجمہ بطور ترجمہ بھی قارئین کو پسند آئے گا، ساتھ ہی آج کے نہایت نازک سیاسی حالات میں مسلمانوں، خصوصاً مسلم نوجوانوں کو اپنا ایک مضبوط سیاسی موقف تشکیل دینے میں اس کتاب سے خاطر خواہ مدد ملے گی۔

کتاب آٹھ ابواب اور تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ہے، طباعت ان شاء اللہ مرکزی پبلی کیشنز نئی دہلی کے زیرِ اہتمام نہایت معیاری اور دیدہ زیب ہوگی۔ اس کی عمومی قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے،مگر ہمارا ارادہ ہے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچے؛ اس لیے کتاب شائع ہونے کے بعد چالیس اور پیشگی آرڈرز پر پچاس فیصد تک کی خصوصی رعایت دی جائے گی اور صرف 300 روپے میں ان شاءاللہ 25-20 اکتوبر تک کتاب آپ کی خدمت میں پہنچ جائے گی۔خواہش مند حضرات فون پے،گوگل پے،پے ٹی ایم وغیرہ کے ذریعے اس نمبر 9811794822 پر قیمت کی ادائیگی کے ساتھ بذریعہ واٹس ایپ اپنا ایڈریس ارسال فرما سکتے ہیں۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے