آج مورخہ 22 ستمبر 2024, اتوار کو اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے جنرل سکریٹری اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم کا مذکورہ بالا عنوان پر اکیڈمی کے سیمینار ہال میں اہم محاضرہ ہوا جو 11:30 بجے شروع ہوا اور تقریبا ڈیڑھ گھنٹوں سے زائد تک جاری رہا. الحمد للہ کاتبِ سطور احقر کو بھی اس پروگرام میں حاضری کا موقعہ ملا.
حضرت مولانا نے اپنے طویل محاضرے میں بہت اہم نکات پر ملت کی رہنمائی فرمائی.
حضرت مولانا نے فرمایا کہ ملک میں مسلمان بہت سارے مسائل سے دو چار ہیں. شریعت کے مقاصد پانچ ہیں جن میں ایمان کی حفاظت، مال کی حفاظت، عزت وآبرو کی حفاظت شامل ہیں. مسلمانوں کو اپنے ایمان، تشخص اور تہذیب وثقافت کی حفاظت کرنی چاہیے. انہیں قانونی دائرے میں اپنے دفاع اور تحفظ کی بھی فکر کرنی چاہیے. دفاع کا یہ انتظام ظلم کرنے کے لئے نہیں بلکہ ظلم کو روکنے کے لئے ہونا چاہیے. نیز، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے، انہیں مدارس کے پروگراموں میں اور مساجد میں مدعو کرنا چاہیے تاکہ وہ مانوس ہوں اور مدارس اور مساجد کے بارے میں اپنے غلط تصورات سے آزاد ہوسکیں.
مولانا نے مسلمانوں میں قانون کی تعلیم کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور اچھے وکلاء تیار کرنے اور لاء کالجز قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا.
حضرت مولانا نے جان، ایمان اور تہذیب وثقافت کے تحفظ کے پیشِ نظر مسلم علاقوں میں رہنے کو بہت مفید بتایا اور فرمایا کہ مسلمانوں کو اپنی محفوظ آبادیاں بنانی چاہئیں. شہروں میں ایسی کالونیاں بسانی چاہیے جہاں مسلمانوں کے ایمان اور جان ومال کا تحفظ ہو. آج مسلم لڑکیوں کا ارتداد اور غیروں کے ساتھ شادیوں کے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے بھی تحفظ ہوگا.
حضرت نے مسلمانوں میں تعلیم اور روزگار کی رہنمائی کے مراکز کے قیام کی ضرورت بھی اجاگر کی. آپ نے حدیثِ نبوی المومن القوي خير من المومن الضعيف پڑھ کر فرمایا کہ طاقتور اور باصلاحیت مسلمان کمزور اور بے صلاحیت مسلمان سے بہتر ہے.
مسلمانوں کے معاشی مسائل کے ذیل میں مولانا نے فرمایا کہ ملک میں معاشی ادارے تین طرح کے ہیں. بینک، انشورنس اور اسٹاک ایکسچنج. بینک کا نظام مکمل طور پر سود پر مبنی ہے لہذا وہ مسلمانوں کے لئے درست نہیں ہے. انشورنس میں یہ ہوتا ہے کہ وہ نقصان جس کا تحمل ایک فرد نہیں کرسکتا ہے اس کا تحمل کئی لوگ مل کر کرتے ہیں. انشورنس کی اصل اسلامی طریقے سے قریب ہے مگر اس میں غیر اسلامی چیزوں کی بھاری آمیزش کی وجہ سے یہ بھی مسلمانوں کے لئے صحیح نہیں رہا. جہاں تک اسٹاک اکسچنج اور شیئر مارکیٹ کی بات ہے تو یہ مسلمانوں کے لئے جائز اور مفید ہے. شیئر مارکیٹ کے نظام سے مسلمانوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے اور شرعی ہدایات کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں چاہئے کہ وہ بینکوں میں اپنے پیسے جمع کرنے کی بجائے انہیں شیئر مارکیٹ میں انویسٹ کریں، اس میں تجارت کریں اور معاشی طاقت حاصل کریں.
مولانا نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کے لئے دینی مکاتب کو اور ایسے عصری تعلیمی اداروں کو مزید قائم کرنے پر بھی زور دیا جہاں بیسِک (بنیادی) اسلامی تعلیم شامل ہو.
حضرت نے مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ ہر حال میں اور موت تک اپنے ایمان واسلام پر ثابت قدم رہیں ولاتموتن إلا وأنتم مسلمون.
اخیر میں سوال کے جواب میں حضرت نے فرمایا کہ اوقاف کے تحفظ کے لئے کئی محاذوں پر بھر کوششیں جاری ہیں. دعاؤں کی بھی ضرورت ہے.
پروگرام کے اختتام پر اکیڈمی کی طرف سے تمام حاضرین کے لئے عمدہ کھانا اور بریانی کا انتظام تھا.
اللہ تعالی حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب، صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور فقہ اکیڈمی کے ذمہ داران کو اس اہم موضوع پر پروگرام منعقد کرنے اور ملتِ اسلامیہ کی اچھی رہنمائی کرنے پر جزائے خیر دے!
محمد عبید اللہ قاسمی، دہلی
مورخہ 22 ستمبر، 2024