اپنے آپ کو صحیح لوگوں کے گھیرے میں رکھیں
از: اظہارالحق قاسمی بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد
"آپ ان پانچ افراد کا اوسط (اوریج) ہیں جن کے ساتھ آپ سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔” جم روہن
اگر آپ کے دوست سست ہیں، تو آپ سست ہوں گے۔
اگر آپ کے دوست بہانے باز ہیں تو آپ بھی بہانے کریں گے۔
اگر آپ کے دوست محنتی ہیں تو آپ بھی محنت کریں گے۔
اگر آپ کے دوست کتابیں پڑھتے ہیں تو آپ بھی کتابیں پڑھنا شروع کر دیں گے۔
ہو سکتا ہے کوئی بہت ہی الگ ہو، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ لوگوں کے سست ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس کے ساتھ اپنا زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ بھی سست ہیں۔ آپ اس شخص کی عادات کو اپناتے ہیں جو آپ کے بہت قریب ہوتا ہے۔ ان کی اچھی یا بری عادتیں آپ کی عادتیں بن جاتی ہیں۔ اگر آپ کا دوست وقت ضائع کرنا پسند کرتا ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ وقت ضائع کرنے میں شامل ہوجائیں گے۔ ایسا ہونا بہت مشکل ہے کہ آپ دوسروں سے متاثر نہ ہوں۔
تو، آپ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ واحد چیز جو آپ کر سکتے ہیں یہ ہے کہ آپ اپنے کاموں سے آگاہ اور بیدار رہیں۔ بیداری اور آگاہی سے ہی آپ اپنی سستی اور بہانہ بازی پر قابو پا سکتے ہیں۔ آپ کو اپنے کاموں سے مکمل آگاہ ہونا چاہئے۔ آپ کو نہیں کہنا (منع کرنا) سیکھنا چاہیے۔
دوسری طرف اگر آپ کے دوست سست نہیں ہیں، وہ بہانے بازی نہیں کرتے اور اچھی عادات والے ہیں تو آپ بھی ان کے جیسے ہو جائیں گے۔
انتخاب آپ کا ہے۔ جو لوگ مسلسل آپ کے ارد گرد رہتے ہیں ان کا آپ کی زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑ کر رہتا ہے۔ وہی لوگ آپ کے خیالات و افکار، اعمال و افعال اور آپ کی زندگی کو تشکیل دیتے ہیں۔ صحیح لوگ آپ کی زندگی کو بہتر بنائیں گے، اور غلط لوگ آپ کی زندگی برباد کردیں گے۔
(صحبت صالح ترا صالح کند)
اگر آپ ہمیشہ منفی ذہنیت کے لوگوں کے ساتھ رہیں گے تو وہ آپ کو بھی منفی انسان بنا دیں گے۔ اس لیے اپنے آپ کو مثبت لوگوں سے گھیرے رکھیں تاکہ آپ ایک مثبت شخص بنیں۔ آپ کو اس کے بارے میں ضرور غور و فکر کرنا چاہئے کہ آپ کے ارد گرد مسلسل کون لوگ رہتے ہیں۔
اپنی سوچ بدلنے کے لیے اپنا حلقہ و دائرہ بدلیں
اگر آپ اپنے خیالات و افکار کو بدلنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی ہر وہ چیز بدلنا ہوگی جو آپ کرتے ہیں۔ آپ کو ان لوگوں کو تبدیل کرنا ہوگا جن کے ساتھ آپ گھومتے پھرتے ہیں۔ جن لوگوں کے ساتھ آپ سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں اگر وہ سست اور منفی ذہنیت کے ہیں اور وہ کسی بھی درجے میں آپ کی زندگی کو بہتر نہیں بناتے، تو پھر آپ کے لیے یہ نہایت مناسب و ضروری ہوگا کہ آپ اپنے حلقے کو تبدیل کر دیں یا ان کے مشوروں کو سننا کم بل کہ بند کردیں۔
کسی کہنے والے نے کہا ہے:
"اس کھڑکی کو بند کر دو جو آپ کو تکلیف دیتی ہے، چاہے اس کے پیچھے کا منظر کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو،”
ہر ایک سے مشورہ نہ مانگیں۔
کسی ایسے شخص سے اپنے امور کے سلسلے میں ہر گز مشورہ نہ لیں جس کی حالت آپ کی کیفیت کے ہم آہنگ نہ ہو۔ مثال کے طور پر آپ خوش رہنے کے طریقے کے بارے میں مشورہ لینا چاہتے ہیں۔ آپ کی نگاہ میں وہ آخری شخص جس سے آپ یہ مشورہ لینا چاہتے ہیں اگر وہ خود ہی ایک ناخوش شخص ہے تو وہ کیا مشورہ دے گا! ذرا سوچیں: اگر اس کی نصیحت کسی کام کی ہوتی تو وہ خود کیوں ناخوش رہتا؟ کوئی بھی انسان ناخوش رہنا پسند نہیں کرتا۔
آپ جن لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں در اصل وہی لوگ طے کرتے ہیں کہ آپ زندگی میں کیا کرنے جا رہے ہیں۔
ناخوش لوگوں سے مشورے لیں، آپ بھی ناخوش رہنے لگیں گے۔
غیر صحت مند لوگوں سے مشورے لیں، آپ بھی ایک غیر صحت مند انسان بن جائیں گے۔
غصہ والے لوگوں سے مشورہ لیں، آپ میں بھی غصے کی کیفیات ترقی پذیر ہو جائیں گی۔
"اگر لوگوں کے پاس آپ کی مرضی کی چیز نہیں ہے تو آپ ان کے مشوروں اور آراء سے بے پرواہ ہو جائیں۔” – ایلکس ہرموزی
جن لوگوں کے جیسا آپ بننا نہیں چاہتے ان لوگوں سے مشورے لینا بند کر دیں۔ آپ کو اپنی زندگی کیسے گزارنی چاہئے اور آپ کو زندگی میں کیا کرنا چاہئے اس بارے میں ہر ایرے غیرے کی رائے سننا بند کردیں۔ ایسے لوگوں کے مشورے بالکل بیکار ہیں۔
یہ آپ کی زندگی ہے؛ اسے اپنے حساب سے گزاریں۔ ہر کسی کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ اچھے اور مثبت لوگوں کو اپنے ارد گرد رکھیں یا اچھے اور مثبت لوگوں کے ارد گرد رہیں۔ زندگی میں بہت کچھ تبدیلی اور بہتری کا مشاہدہ کریں گے۔
(اسلام میں بھی اس نظریے کی اہمیت کا جگہ بہ جگہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، چناں چہ ہر ایک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے”
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ انسان پر اس کے دوستوں اور قریبی لوگوں کا گہرا اثر پڑتا ہے، اور وہ ان کے عادات اور نظریات کو اپنا لیتا ہے۔
حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نبی کریم ﷺ کے ساتھ صحبت نے انھیں نمایاں مقام عطا کیا اور انھوں نے وہ کارنامے کر دکھائے جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔
قرآن مجید میں بھی ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے دن لوگ اس بات پر افسوس کریں گے کہ انہوں نے غلط لوگوں کے ساتھ دوستی کی۔)
اس لیے اپنے آپ کو اچھے اور مثبت لوگوں کے درمیان رکھنا چاہیے اور برے اور منفی ذہنیت کے افراد سے دور رہنا چاہیے۔
جاری