ولادت باسعادت ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

(مولاناکی یہ تقریر سرورکائنات ﷺکی ولادت کے مبارک موقع پر لکھنؤریڈیواسٹیشن سے ۱۹؍اپریل ۱۹۴۸ء کو نشرکی گئی ۔اس میں آنحضرت ﷺکی مبارک زندگی اورپیام صادق کووالہانہ اندازمیں پیش کیا گیا ہے۔)
آگے کچھ سننے سنانے سے قبل ذہن کے سامنے نقشہ تاریخ کی بڑی بڑی ضخیم و مستندکتابوں کی مددسے چھٹی صدی عیسوی کے آخر اورساتوی صدی عیسوی کے شروع کی دنیاکا خصوصاً مہذب ومتمدن دنیاکالے آئیے۔ دنیاکی زبردست اورنامور طاقتیں اس وقت دوتھیں جن کے نام سے سب تھراتے تھے اورجن کالوہا مشرق ومغرب مانے ہوئے تھے۔مغرب میں رومن امپائر یا شہنشاہیِ روم ، اورمشرق میں پرشین امپائر یاشہنشایِ ایران ۔ دونوں بڑی بڑی فوجوں اور لشکروں کے مالک ،دونوں میں زرودولت کی افراط، اور دونوں کا تمدّن عروج پر۔ لیکن دونوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ، عیش وعشرت نے مردانگی کی جڑیں کھوکھلی کرڈالی تھیںاور روح وقلب کے روگ ہرقسم کے پھیلے ہوئے، انسان کارشتہ اپنے خالق سے بالکل ٹوٹاہوا،توحیدکا چراغ گویابالکل بجھاہوا۔ اوریہی حال کم وبیش ساری دنیاکا ۔ تفصیل کاوقت کہاں ورنہ ہندوستان ،چین، مصروغیرہ ایک ایک ملک کانام لے کر اس وقت کے اخلاقی زوال کی تصویر آپ کے سامنے پیش کردی جاتی ۔
اس وبائے عام میں ملکِ عرب کانمبرخاص، شاعری کے آرٹ میں یہ قوم یقینا طاق، اورتجارت کے کاروبار میں بھی بہت ممتاز ۔چنداوراخلاقی جوہربھی ان کے اندرخوب چمکے ہوئے۔ بہادری اورسپہ گری، فیاضی مہمان نوازی میں ان کاسکہ قرب وجوار ہی میں نہیں دوردورتک بیٹھاہوا۔ لیکن اس سے آگے چلیے تویہ لوگ بالکل کورے، آج اسے لوٹ لیاکل اُسے ختم کردیا، بے حیائی فیشن میں داخل اوربے ستری جزوعبادت،۱؎ شراب کی محفل جمی توشام کی صبح ہوگئی، جوئے کی بازی لگی توجسم سے کپڑے تک اترگئے، اورخون کے انتقام در انتقام کاسلسلہ جوچلا توکہناچاہیے کہ صدی کی چھٹی ہوگئی عمریں ختم ہوگئیں، پشتیں گزرگئیں اورجھگڑاچکائے نہیں چکتا۔ تویہ تھا چھٹی صدی عیسوی کی آخری تہائی کاملک عرب ،جس کے مشہور ترین اورمقدس ترین شہرمکہ میں ۵۷۰ء میں ایک روز صبح صادق کے وقت قوم کے شریف ترین گھرانے میں ایک جیتا جاگتاچاندعالمِ ظہورمیں آیا، جس کی نورانیت سے کہنے والے کہتے ہیں کہ ان کے گھرکے درودیوار تک جگ مگ کرنے لگے۔ زچہ خانہ کے مادّی حدود کی بساط ہی کیا، یہ نورانیت تواس غضب کی تھی کہ مشرق ومغرب کے سرے اس سے جگمگااٹھنے والے تھے۔
عرب کی جغرافیہ کاخاکہ توآپ کے ذہن میں ہوہی گا، طول البلد ۱۲اور۳۲،عرض البلد ۳۵اور۶۰،ایک طرف مصراورحبشہ اور طرابلس اورسارابراعظم افریقہ، دوسری طرف ملک روم وشام وفلسطین اورسارایورپ، تیسری جانب عراق اورایران اورساراایشیا، اورچوتھی سمت میں سمندرہی سمندر۔۲؎گویامعمورئہ عالم خصوصاً اس وقت کی دنیاے مہذب کاعین چوراہہ اور پھرجوتجارتی شاہراہ مشرق کومغرب سے ملارہی تھی اوربحرِ ہند وخلیج فارس کے تجارتی مال کو خشکی کے راستہ مصروروم وشام تک پہونچارہی تھی، وہ بحراحمر کے برابربرابر گویا ایک خط مستقیم بتاتی ہوئی ٹھیک اسی عرب ہی کے مغربی کنارے پر توتھی !تاریخ اورجغرافیہ دیکھیے دونوں کی شہادت کیا گزری ہے، یہی نہ کہ اکیلے عرب ہی کی نہیں دنیاکی اصلاح کے لیے اس سے بڑھ کر ضروری وقت وزمانہ اور کون ہوسکتاتھا، اورمقام اس کے لیے عرب سے موزوں ترکون ساہوسکتاتھا۔ زمان ومکان دونوں کے لحاظ سے ولادت ایسی ’’باسعادت ‘‘ اورکون سی ہوگی؟ والدماجد کانام عبداللہ، توحید وعبودیت کی طرف کتناصاف اشارہ۔ والدہ ماجدہ بی بی آمنہ ، امن وامان کے حق میں ایک مستقل فالِ نیک ! آنکھ یتیمی میں کھلی، والد ماجد نورعین کے دیدار جمال سے قبل ہی سفرآخرت پرروانہ ہوچکے تھے۔جس کوسارے عالم کا سہارا بنایاجانے والا تھا، حق تھا کہ قدرت اسے وجودمیں بغیرظاہری سہارے کے لائے، اوراس کا سہارا روزِازل سے بجزذات حق کے اورکوئی ساجھی نہ رکھے!
نام نامی داداعبدالمطلب نے ’’محمد‘‘ رکھا۔ لفظی معنی’’بہت حمد کیے گئے‘‘۔ ذات ستودہ صفات کے لیے اسم بامسمّیٰ ۔دوسرانام ’احمد‘ پڑا،جس کی زندگی حمدمیںکٹی اورجسے اٹھنا بھی مقامِ حمد میں ہے، اس کے لیے اس سے بہترنام اورہوہی کیاسکتاتھا!پلے بڑھے کھیلے، چلے پھرے،ملے جلے بچپن یوں گزرا کہ خودمعصومیت اس بچپن پرفخر کرنے لگی۔ جوان ہوئے تونیکی اورپارسائی طاعتِ حق اور خدمتِ خلق بلائیں لینے لگیں۔ جوانی یوں بھی دیوانی ہوتی ہے اورپھر ایسے ملک وقو م میں جہاںعیش پرستی اورلذت کوشی کی ہرراہ کھلی ہوئی، قدم کی ہرلغزشِ مستانہ پر رواج اورفیش کی مہرلگی ہوئی۔ اسی ماحول میں اورسن وسال میں محلہ اوربستی والوں نے کنبہ اورقبیلہ والوں نے لقب دیایہی توکیا؟ ’’امین‘‘ !امین کالفظ بڑا وسیع اورجامع ہے۔ انگریزی میں اس کاترجمہ Virtuous ہی کیاجاسکتاہے۔ یعنی محمدؐ دیانت دار بھی ہیں اورراست بازبھی، نظریں نیچی رکھے والے بھی اورسب کی خدمت کرنے والے بھی ۔ کتنے ایسے ہیں جن کی قسمت میں ہروقت دیکھنے والوں کی زبان سے یہ شہادت آتی ہے!
لڑکپن بھرگلہ بانی کی، جس کے نصیب میں آگے چل کرقوموں اورامتوں کاگلّہ بان ہوناتھا اس کے لیے کتنی اچھی تعلیم ۔جوان ہوئے توتجارت اختیارکی،جس کاکام آگے بڑھ کرجنت کے تمسکات Share certificatesہلکے پھلکے داموں خرید وانا ہوناتھا،اس کے لیے کتناموزوں اورپرمعنی پیشہ! امانت ودیانت اورکاروبارمیں مہارت دیکھ کرایک دولت مند بیوہ نے شادی کی درخواست ازخودکی، اور ۲۵سال کے سن میں اس جوان رعناکی خانگی زندگی بھی شروع ہوگئی۔ سن کے چالیسویں سال میں تھے کہ مرتبۂ نبوت سے سرفراز ہوئے، ساری تیاریاں اسی لیے تھیں، اور۲۳سال تک اپنے خالق ومالک کاپیام بندوں کوسناتے رہے۔ نکاح کئی فرمائے، اولادیں بھی متعدد ہوئیں۔ لڑائیاں باربارسخت اور خوں ریز اپنے ہم وطنوں اورہم قوموں سے لڑناپڑیں۔ ہم سایہ ملکوں سے معاہدے بھی کیے،ملک کے انتظام ۔۔۔۔(کذا)ہرطرح کے فرمائے۔ دیوانی فوج داری قانونی فیصلے ہرقسم کے کرنے پڑے۔غیرمسلم تاجروں سے نامہ وپیام رکھا۔بے شمار نمازیں پڑھیں اور پڑھائیں۔ خطبہ یابرجستہ تقریریں خدامعلوم کتنی کرڈالیں۔ غرض یہ کہ دنیا کوہرہر پہلو پر خوب برتا۔ لیکن دنیا میں ایک باربھی نہ پڑے، جیسے غوطہ خورنے سمندرمیں گرکرغوطہ لگایا اور جسم کاایک رویاں بھی بھیگنے نہ پایا۔ اور جب ۶۳سال کی عمر شریف میں جون ۶۳۳ء میں اس فانی دنیاکوچھوڑا ۳؎، تودل میں تمنااپنے رفیق اعلیٰ کے دیدارکی بسی ہوئی تھی اورپاک اور معصوم ہونٹوں سے آواز اللّٰھمَّ بِالرَّفیقِ الْاَعلیٰ ۴؎کی چلی آرہی تھی!۔
تعلیم یہ لائے کہ اپنی عقلوں اورذہنوں کومادیات کے جنجال میں نہ پھنسائو۔ اسباب ظاہری کے دھوکے میں نہ آئو۔ ان سے کام یقینا لواورپوری طرح لو، لیکن اصلی سہارا اور حقیقی بھروسہ ایک اَن دیکھی ذات ہی کارکھو، وہی سب کاپیداکرنے والا ،وہی سب کو پالنے جلانے والااوروہی سب کوآخرمیں مارنے اٹھانے والاہے، اس کاکوئی شریک نہ ذات میں نہ صفات میں۔ زندگی کے چھوٹے بڑے ایک ایک عمل میں اپنی ذمہ داری محسوس کرو۔ اورمادی وجسمانی زندگی کوسلسلہ ہستی کا ایک جزواوربہت ہی محدودجزوسمجھو، تنگ نظری سے کام لے کر اسی کوکل سمجھ لینے کے دھوکے میں نہ پڑو۔ اس ’’آج ‘‘کاعنقریب ’’کل‘‘ ہونے والاہے، ہردودھ کا دودھ اور پانی کاپانی الگ ہو کر رہے گا، ساری تیاریاں اس یومِ حساب کے لیے رکھو۔
قانون یہ بنایاکہ کوئی کسی حال میں کسی پرظلم نہ کرے۔ بڑائی اورچُھٹائی اس عالمِ آب وگِل کابنیادی قانون ہے۔ کوئی امیر رہے گاکوئی غریب، لیکن بڑے کوچھوٹے کے دبانے کااورامیرکوغریب کے پیسے کا،حاکم کومحکوم کے ستانے کاقطعاً کوئی حق نہیں۔ میاں اور بیوی ،بادشاہ اوررعایا، زردارونادار، ادائے حقوق کے لحاظ سے اللہ کی عدالت میں سب بالکل برابر ہیں۔ دھیان اپنے فرائض کارکھو، اپنی ذمہ داریوں کوایک دوسرے کے حق میں ادا کرو۔ مطالباتِ حقوق کانام لے کرغل غپاڑہ نہ کرو، دنیاکو ہنگامہ وفسادکے تہلکہ میں نہ ڈالو۔ تلوارہاتھ میں اٹھائو بھی تودنیامیں امن قائم کرنے کو،اللہ کی حکومت کاسکّہ ازسرنو چلانے کو۔ سودکا ،رشوت کا ،خیانت کا،ایک ایک پیسہ حرام سمجھو۔ بے حیائیوں کے قریب نہ جائو۔ننگے ناچ کی قدردانی نہ کرو۔ نشہ کی چیزوں کوہاتھ بھی نہ لگائو۔ ترکہ سب وارثوں کوان کے حصّۂ رسدی کے مطابق تقسیم کرو۔ یہ نہ ہوکہ سب کچھ بڑالڑکا پاگیااوردوسرے لڑکے لڑکیاں منہ دیکھتی ہی رہ گئیں۔ جوئے کی کمائی چوری کے مال کی طرح گندی سمجھتے رہو۔ بیگانی عورت کی طرف نظربھی نہ اٹھائو۔ ہاں جائز شادیاں اگرضرورت یامصلحت سمجھو تو ادائے حقوق کے ساتھ ایک سے زائدبھی کرسکتے ہو۔
غرض ان ساری ہدایتوں کو اپنے پروردگار سے سیکھ کر جب وہ رہبراعظم اس دنیا سے رخصت ہواتووہ دنیاکے ہاتھ میں ایک مکمل ہدایت نامہ اورجامع ومفصل دستورالعمل دے کرگیا۔ اوراُس کی یہ ساری تعلیمات محض مخفی نہ تھیں، وہ ان سب کی مشق سالہاسال تک اپنے سامنے کراکرگیا۔ اس کی قوم کے جاہلوں اورفاسقوں نے اس کاپیچھالیا اسے اپنے مشن کے تحفظ کے لیے مکہ معظمہ سے جلاوطن ہوکرڈھائی پونے تین سومیل کی منزلیںطے کرکے مدینہ جابسنا پڑاتھا، اوربے رحمانہ سختیوں کی کوئی قسم ایسی نہ تھی جواسے اوراُس کے وفادار ساتھیوں کوجھیلنا نہ پڑی ہو۔ ساری مشکلات پروہ اپنی معجزانہ ہمت وتدبیر سے غالب آیا۔ ملکوتی اورلاہوتی قوتیں پہاڑوں کواس کے سامنے پانی کرتی گئیں۔ اس نے اپنے پیجھے اپنے شاگردوں کی ایک جماعت ایک لاکھ سے اوپرکوئی سوالاکھ چھوڑی۔ اورعرب کے کوئی ۱۰لاکھ مربع میل پروہ اپنی عادلانہ حکومت کانقش قائم کرگیا۔ اس کی ہمہ گیر،بے نظیر، اور جمال وجلال اور کمال سب کی جامع شخصیت کے لیے ہم کوآپ کونہیں یورپ کوآج تک اعتراف ہے کہ ’’وہ دنیاکے تمام انبیا اورمذہبی شخصیتوں میں کامیاب ترین ثابت ہوئے۔‘‘
The most succesful of all Prophetsand religiouspers
(ALITIS) اسی حوالہ کے ساتھ ملاحظہ کیجیے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے ۱۱ویں ایڈیشن کی جلد ۱۵صفحہ ۸۹۸،اوراس کے لائے ہوئے لاجواب اوربے مثال خدائی کلام کے لیے بھی آج اسی یورپ کو اقرار ہے کہ اس سے زیادہ کثیرالاشاعت دنیاکے پردہ پر کوئی کتاب نہیں۔
The most widly ready book inexistance
اس حوالے کے لیے ملاحظہ فرمائیے اس انسائیکلو پیڈیا کے اسی ایڈیشن کی اسی جلد کا وہی صفحہ۔
یہ خراج عقیدت منکرین کی زبان سے کس کے حصّہ میں آیاہے؟ اللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلَیْہِ ۔
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

علم وکتاب واٹس ایپ گروپ

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے