نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ اور پُر بَہار سیرت طیبہ پر اب تک معلوم دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں، مضامین اور مقالات لکھے گئے ہیں ، اور یہ سلسلہ صبح قیامت تک جاری و ساری رہے گا ان شاء اللہ ،دوسری طرف نبی آخرالزماں ﷺکے مقابلہ میں دنیا کے بڑے بڑے قائدین ،مذہبی پیشواؤں اور انبیاء علیہم السلام تک کے حالات کا ہزارواں حصہ بھی نہیں لکھا گیا ہے۔
آپﷺ کی حیات طیبہ پر ہر ناحیے اور بولی لکھی جانے والی ہر زبان و ادب کے ہر صنف میں ان گنت کتابیں لکھی گئی ہیں انہیں میں ایک کتاب ناول کے انداز میں "دریتیم”بھی ہے، اس کے مصنف اپنے زمانہ کے مشہور شاعر اور اردو زبان وبیان کے ادیب کامل مولانا ماہر القادری رحمہ اللہ(المولود:1906/ء المتوفی:1978/ء،مدفن جنت المعلیٰ،مکہ مکرمہ) ہیں ۔کتاب کا نام ہی کتنا انوکھا”دریتیم” ہے، جس میں جاذبیت و کشش ہے، اندرون کتاب سید الکونین ،شفیع المذنبین ،رحمۃ للعالمین ﷺ کی ولادت سے رحلت تک کا ذکر جمیل اس حسین و جمیل انداز میں ہے کہ قارئ کتاب مکمل مطالعہ کے بغیر اس سے جدا نہیں ہوسکتا ۔
ماہر القادری رحمہ اللہ جس طرح عشق رسول ﷺ سے سرشار ہوکر "دریتیم” کے نثر میں موتی رولنے میں کامیاب ہیں ٹھیک اسی طرح نظم میں بھی کامیاب رہے ہیں ان کا نعتیہ اشعار بھی عشق رسول سے لبریز ہے ،پڑھئے چار مصرعے
کچھ کفر نے فتنے پھیلائے ،کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی ،انسان سے انساں ٹکرائے
اے نام محمد صل علی ماہر کے لئے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
آخر الذکر مقطع اس قدر اہم ہے کہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ ایک مرتبہ کسی پروگرام میں تشریف لے گئے ،راستہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے تھک کر چور ہوگئے ،نشاط نہ ہونے کی وجہ سے پختہ عزم کرچکے تھے کہ بیان سے معذرت کرلوں گا لیکن جب پروگرام میں نعت خواں نے مقطع پڑھا تو مولانا ندوی رحمہ اللہ کا سارا تکان دور ہوگیا حضرت مولانا ندوی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:
–وہاں پہنچا تو ایک نعت پڑھی جارہی تھی ،یہ نعت کچھ ایسی مؤثر اور دل آویز تھی کہ تکان جاتا رہا ،اور جسم میں ایک نئی طاقت محسوس ہوئی ،میں نے یہ نعت پہلے کبھی نہیں سنی تھی ،اور ابھی مقطع نہیں آیا تھا کہ دل نے کہا یہ نعت ماہر صاحب کی ہے ،بالآخر خوش الحان پڑھنے والے نے مقطع پڑھا
اے نام محمد صل علی ماہر کے لئے تو سب کچھ ہے
ہونٹوں پہ تبسم بھی آیا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
میں نے دیکھا کہ مجھ میں تقریر کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے تازہ دم ہوں یہ اس نعت کی مسیحائی تھی کہ سارا تکان بھول گیا اور میں نے پورے جوش و نشاط کے ساتھ تقریر کی۔(پرانے چراغ:182/2)
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہٗ کو ماہر القادری رحمہ اللہ کا نعتیہ اشعار سن کر تکان دور ہوگیا ،تو آئیے ہم اور آپ بھی ماہر القادری رحمہ اللہ کے نثر "دریتیم”پڑھ کر اپنے ایمان کو تازگی بخشیں۔
راقم الحروف اس کتاب کو بالاستیعاب تین مرتبہ پڑھ چکا ہے لیکن اس کا اسلوب نگارش اس قدر دلچسپ و مزیدار ہے کہ ہر دفعہ دل سے یہی صدا آتی ہے”هل من مزيد، ھل من مزید”
اس کے چند پیراگراف آپ بھی ملاحظہ فرمائیں جو عشق رسول ﷺ میں اضافہ کا سبب ہوگا، اور شاید اس کے مطالعہ سے آپ کی آنکھیں اشکبار ہو جائیں، مصنف کتاب جہاں خود بھی رویا ہے آپ بھی رو لیں! لکھتے ہیں:
"میرے بہت سے ناول اور افسانوں کے مجموعے چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں، لیکن یہ ناول(در یتیمﷺ) میرے لئے ذخیرہ عقبی اور توشہ آخرت ہے، نہ جانے کتنی بار خود ہی لکھتے لکھتے بے اختیار رو دیا ہوں، یہی آنسو میری زندگی کا سرمایہ اور میری خوشیوں کی گراں قدر متاع ہیں "
نبی کریم ﷺ کی والدہ بی بی آمنہ اپنے شوہر نام دار جناب عبداللہ کے سفر سے واپسی کا انتظار کس طرح کررہی تھی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے مولانا ماہر ،زبان و بیان کی مہارت دکھاتے ہوئےلکھتے ہیں:
” جس راستہ سے عبداللہ گئے تھے وہ آمنہ کی نگاہ میں تھا، وہ دل ہی دل میں خوش ہو کر کہتی کہ انہی کھجوروں کی اوٹ سے وہ آفتاب کی طرح طلوع ہوتے دکھائی دیں گے، سرخ اونٹ اس کی گردن میں گھنٹی پڑی ہوئی، خوبصورت کجاوہ، پانی کی وہ چھاگل جس کا تسمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے باندھا تھااور پھر وہ! قریش انہیں بڑھ کر "اہلا وسہلا” کہیں گے اور عبدالمطلب بیٹے کے لائے ہوئے درہم و دینار خوشی خوشی گنتے ہوں گے۔” نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت کا ذکر خیر کرتے ہوئے صاحب دریتیم الفاظ کی موتیوں کو لڑی میں پروتے ہیں:”ابھی دن رات ملے جلے تھے، اس لئے کہ دونوں کی تقدیروں کو ایک ساتھ چمکنا تھا، سپیدۂ سحر نمودار ہوہی رہا تھا، غنچوں کی نازک پتیوں پر شبنم کے موتی ڈھلک رہے تھے، سرو شمشاد نے پھولوں کی مہک پاکر انگڑائی لی، طائران خوشنوا کی چہکاروں سے تمام فضا نغمہ زار بن گئی جنت آج سچ مچ زمین پر اتر آئی تھی، منی کی وادی، مروہ کے سنگریزے، قبیس کی چوٹیاں اور عرفات کا میدان نور کی جھلکیوں میں جھم جھم کر رہا تھا، ستارے جھلملا رہے تھے، کلیاں چٹک رہی تھیں اور پھول مہک ہی رہے تھے کہ اتنے میں گھر کی عورتیں خوشی سے بے تاب ہوکر پکاریں: _"کوئی عبدالمطلب کو جاکر مبارک باد دو”
عبدالمطلب اس مژدہ کو سنتے ہی تیزی کے ساتھ آئے، خوشی کے مارے پاؤں بہکے بہکے سے پڑ رہے تھے، عبدالمطلب کے رخساروں کی جھریوں میں مسرت جھل مل کر رہی تھی، آمنہ نے فرط غیرت سے چادر منھ پر ڈال لی، عبدالمطلب نے پوتے کو دیکھا، پیشانی کو چوما، ان کی آنکھوں میں بجلیاں سی چمک رہی تھیں۔
جاری__
ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
moinuddinmusleh88@gmail.com