محبوبِ یگانہ ویکتائے زمانہ ﷺ

از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری

8 ربیع الاول 1446ھ 12 ستمبر 2024ء

آج خامۂ جنوں اپنی انا کی تسکین چاہتا ہے، طائر بے پر اعجاز نمائی پر بضد ہے، جذب وشوق وارافتہ ہے، شیفتگی خود سر ہے، وفورِ جذبات بندِ ضبط پر بھاری پڑ رہا ہے، عالمِ بے خودی میں عقل وخرد لاپتہ ہے، ذہن وقلم کے مابین خلیج گہری ہو گئی ہے، آئینۂ حسنِ ازل کی نقاب کشائی کا لمحہ سنسنی خیز ہے، ماہ رخ کی تقریبِ یاد ہیجان انگیز ہے، مقامِ محمدی کو خراج محبت پیش کرنا انسانی لیاقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس باب کی سرخ روئی آخری درجے کی سوغات ہے۔

عشاق کا مدحت کدہ نجدیوں کو راس نہیں آیا، ان کی یہ غلط فہمی روزِ ملاقات سنگین ثابت ہوگی، وجد سے محرومی نے سلفیوں کو برکتوں سے دور کر دیا ہے، وہ راہ ورسم وفا میں نا رسا ثابت ہوے، وہ ایک خشک اور بے رنگ علم متواتر لہرا رہے ہیں اور اس پر شریعت کے لیبل کا دھوکہ بھی رکھتے ہیں، نجد کے ساتھ وجد بھی درکار ہے، صحابہ کی ادائیں ہر دو وراثتوں کی امین ہیں، ان کا حسن صدائے ساز ہے، اس پر وجد و حال اور رقص وسرود کا طاری نہ ہونا منافی معرفت ہے۔

ہر تاثر کو مبالغہ آمیزی کہنا، ہر خراج میں حد سے تجاوز نظر آنا، ہر عقیدت پر اطراء کا انطباق؛ عرفان محبت میں تہی دامنی اور جاگیر عشق سے محرومی کی نشانیاں ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراء پر انتباہ دیا ہے؛ لیکن اسی حدیث میں تشبیہ کے ذریعے اطراء ممنوع کے خدوخال واضح بھی کیے ہیں، فرماتے ہیں کہ میرے ساتھ عیسی بن مریم والا برتاؤ نہیں کرنا، انھوں نے ابن مریم کو خدا اور ابن خدا قرار دیا، میری توصیف میں اس سرخ لکیر کا خیال رکھنا۔

آیتِ درود باب نعت میں مینارۂ نور ہے، خالق کون ومکاں نے بزم صلاۃ وسلام سجائی ہے، وہ رحمتوں کا سائبان پھیلاتا ہے، خصوصی بخششوں کو رم جھم کرتا ہے، فرشتوں کے درود وسلام کا مژدہ سناتا ہے، درود وسلام کی معطر فضا بنانے کے بعد تمام جن وانس کو مخاطب بنا کر کہتا ہے کہ اے امتِ ثقلین! افلاک و ارضین پر محیط گل زارِ درود میں اپنے گلوں اور پھولوں کو شامل کرو، گل دستے آراستہ کرو، پھر اسی محفل طرب میں نکہت ونور کے مزے لو۔

ان کی شان کا بیان ماورا ہے، ہم کیا مبالغہ کر سکتے ہیں؟ ہمارے مضامین کی معراج حضرت حسان کی مصوری کی خاکِ پا بھی نہیں، آج کے شاہانِ سخن قصیدہ بردہ نظم کر سکتے ہیں؟ علامہ بوصیری کی مدح سرائی کے جادو سے آنکھ ملانے کی ہمت کس نعت گو میں ہے؟ وہ تو نعت نگار کو چادروں اور کملیوں سے نوازیں اور آپ اس میں منکر دیکھتے پھریں! بعد از وفات بھی یہ معجز نمائی جاری رہے، انھوں نے خواب میں علامہ بوصیری کو چادر شفا عطا کی، صبح کو کملی بدستور موجود تھی اور وہ فالج سے صحت یاب ہو چکے تھے، لاریب وہ محبوبِ یگانہ اور یکتائے زمانہ ہیں، ان کا ہر خاکہ نا تمام اور ہر منظر کشی نارسا ہے، خواجہ تبریزی نے کیا ہی خوب کہا ہے:

ہزار بار بشویم دہن ز مشک و گلاب

ہنوز نامِ تو گفتن کمال بے ادبیست

All reactions:

117Shuaib Alam Qasmi, Usama and 115 others

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے