عشقِ نبی: کمالِ ایمان کی لازمی شرط

محمد فہیم الدین بجنوری

7 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024ء

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو کچھ کنفیوژن تھا کہ وہ صراطِ حبِ رسول میں ایک قدم کوتاہ ہیں، کہنے لگے: حضور! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماں باپ اور آل و اولاد کی نسبت تو آپ ہی مقدم ہیں؛ لیکن عزیز از جان والی بات محل نظر ہے، جس صفائی سے حضرت عمر نے اپنی صورت حال رکھی تھی، سرکار کا جواب بھی اسی شان میں رونما ہوا، آپ نے واضح کر دیا کہ عزیز از جان بھی کمال ایمان کی لازمی شرط ہے، اس میں کوئی رعایت یا استثناء ممکن نہیں، یہ جملہ برق بن کر گرا اور حضرت عمر کا کنفیوژن دور ہو گیا، افاقہ اس تاثر پر ہوا کہ جان بھی قدموں میں ہے، سرکار نے مجلس ہی میں کمال ایمان کی سند عطا کی۔

دل متضاد کوائف کا متحمل نہیں، اس میں نجاست وطہارت دونوں بہ یک وقت فروکش ہوں ناممکن ہے، اسی لیے آلودہ قلوب کی صفائی کے نصاب واسباب کی نشاندہی کی گئی، حکیم ازل نے قرآن کو شفا سے تعبیر کیا، خود اپنے پاک ناموں کی تسبیح کو متاع صیقل بنایا، عشق نبی اس باب کا گوہر نایاب ہے، یہ جام جتنا پرکار ہے، اتنا ہی زود اثر بھی ہے، عاشق رسول براق کی رفتار لیتا ہے اور چشم زدن میں ایمان کی سیڑھیوں کو طے کرتا ہوا اوجِ کمال پر فائز ہو جاتا ہے، اس شراب طہور کا اثر دو آتشہ ہے، یہ بہ یک وقت مے خانے کی آلودگی کا تریاق بھی ہے اور اس کی آب وتاب کا طلسم بھی۔

صحابہ کی مسیحائی اسی عشق نبی کے ہاتھوں ہوئی، ان کے قلبی طاقچوں میں چراغ حب نبی فروزاں ہوا اور لوحِ دل پر داغِ غمِ عشق رقم کر گیا، وہ سب دریائے محبت کے ماہئ بے آب تھے، منظر کشی کرنے والوں نے ان کو مرغِ بسمل کے خاکوں میں پیش کیا، وہ شمع رسالت کے فدائی پروانے تھے، وہ جب یہ کہتے تھے کہ جنگ کی صورت میں ہم آپ کے چاروں سمت حصار نما لڑیں گے تو پھر وہ اس دعوے کی تصدیق اپنی جانوں کے نذرانوں سے کرتے تھے، وہ ہدفِ نبوت کے وقت مجسم ڈھال بن جاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ کے لیے وہ حفاظتی آلات کے بھی محتاج نہ تھے، ان کے سینے بذات خود استعارۂ دفاع تھے۔

عشق نبی کے اسی سیاق میں رب العزت کا مطالبہ آیا کہ ایمان کا دعوی رکھنے والو! یہ صحابہ معیارِ ایمان ہیں، اگر تم سچے ہو تو ان پروانوں کی ادائیں اختیار کرو، جس طرح شمع رسالت کے لیے وہ بیتاب تھے، تم بھی وہی صورت بناؤ، عشق نبی نے ان کے نہاں خانوں میں صور پھونکا تھا، تم بھی یہی نسخہ دہراؤ، وہ جام محبت پی کر سرشار ہوے تھے، دوہزار چوبیس والو! وہی جام پھر سے ٹکراؤ، درسِ عشق نے ان کے لیے عالمی طاقتوں کو تارِ عنکبوت بنا دیا تھا، اسلامیانِ ہند بھی اسی سبق کو پھر پڑھیں، محبت نے انھیں وہ جھاڑو ہم دست کی تھی جس کے سامنے افواج عالم مجرد جالے ثابت ہوے، اے ملت اسلامیہ ہند! وہی سرور عشق زندہ کرو، نظام سنگھ جالے سے بھی کم ثابت ہوگا، عشق شرط ٹھہری ہے؛ اس کے بغیر اگر عمر فاروق ناتمام تھے تو ہما شما کس شمار میں ہو سکتے ہیں؟ مسلمان کہلانے کے لیے آزاد ہو؛ مگر مؤمن کے لیے شرط عائد ہے، وہ فرماتے ہیں:

"لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أكونَ أحبَّ إليه من ولدِهِ ، ووالدِهِ ، والناسِ أجمعينَ” (بخاری: 15)۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے