کتاب The Art of Laziness (سستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ قسط 5:

پرفیکشنسٹ (کمال پسندی کے عادی) نہ بنیں

از: اظہارالحق قاسمی بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد

"پرفیکشنزم (ہرچیز میں کمال پسندی کا عادی ہونا) ایک بیماری ہے۔ ہرچیز کا کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر لینا ایک بیماری ہے۔ عمل ہی علاج ہے۔” – رچی نورٹن

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ کمال پسندی خطرناک یا بری چیز ہے لیکن اس کی اہمیت آپ کی زندگی کے ہر حصے میں نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ بہت سی خوب صورت چیزیں اس لیے خوب صورتی کے ساتھ موجود ہوتی ہیں کیوں کہ کوئی گھنٹوں اور مدتوں انھیں خوب صورت بناتا اور ان کے حسن کو باریکی سے نکھارتا ہے۔ اگر کمال پسندی بالکل نہ پائی جائے تو دنیا بہت اچھی نہیں دکھے گی اور ہم صرف بے رنگ و بے کیف ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کمال و عدم کمال دونوں کی وجہ سے خوب صورت ہے۔

لیونارڈو نامی شخص کو چھوٹی چھوٹی تفصیلات اور معمولی باریکیوں کے اہتمام کا جنون تھا۔ وہ ایک ہی پینٹنگ کو خوب صورت سے خوب صورت ترین بنانے کی کوشش میں برسوں گزارتا۔ میلان کے کیتھیڈرل (گرجا گھر) کو ڈیزائن کرتے وقت اس نے سینکڑوں ڈیزائن بنائے۔ مونا لیزا کو پینٹ کرنے میں اسے دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ Cathedral of Milan یا Mona Lisa کی پینٹنگ کی تصویر گوگل پر دیکھی جا سکتی ہے۔

سٹیو جابس کو بھی باریکیاں برتنے کا جنون تھا۔ میکنٹوش کا پہلا کمپیوٹر ڈیزائن کرتے وقت اس نے اصرار کیا کہ سرکٹ بورڈ کے تار سیدھے اور خوبصورت لگنے چاہئیں اگر چہ کہ ان تاروں کو اندر سے کوئی دیکھنے والا نہیں تھا؛ کیونکہ صرف ٹیکنیشین (مستری) ہی کمپیوٹر کو خصوصی اوزاروں سے کھول اور دیکھ سکتا تھا۔
اگر آپ پینٹنگ بنا رہے ہیں یا کسی چیز کی تزئین و تعمیر یا تخلیق کر رہے ہیں تو پھر ہاں، آپ اسے ممکنہ حد تک پرفیکٹ بنائیں۔ مگر آپ اگر کچھ یوں ہی کر رہے ہیں مثلاً آپ اگر (گارڈن کی) گھاس کاٹ رہے ہیں جو کہ چند ہفتوں میں دوبارہ بڑھ جائے گی تو آپ کمال پسندی کے چکر میں کہ گھاس کی ایک ایک پتی برابر کٹے میں پورا دن نہ لگا دیں۔
یا مثلاً آپ اگر کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس کو پرفیکٹ اور نہایت اعلی اور سب سے بہترین بنانے کے چکر میں آپ بار بار اس میں تبدیلیاں کریں گے تو کبھی بھی اسے وقت پر یا بالکل ہی مکمل نہیں کر پائیں گے۔
اسی طرح اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں اور ہر پروجیکٹ کو 100 فیصد بہترین بنانے پر زور دیتے ہیں، تو آپ کے کام کی رفتار بہت سست ہو جائے گی اور آپ کی افادیت متاثر ہو گی۔
یا مثلاً اگر آپ گھر کی صفائی کر رہے ہیں اور ہر جگہ کو بے گرد و غبار اور چمکتا دمکتا رکھنا چاہتے ہیں، تو آپ کو بہت زیادہ وقت اور توانائی خرچ کرنا پڑے گی اور اس سے ذہنی دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔
اسی طرح اگر آپ اپنے دوستوں یا خاندان کے لوگوں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت بہترین ہوں اور کوئی غلطی نہ کریں، تو آپ کو سخت مایوسی کا سامنا ہوگا کیونکہ انسانوں سے غلطیاں ہونا فطری امر ہے۔ لہذا ہر چیز میں پرفیکشن تلاش نہ کریں۔

اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ بہترین اور کمال پسندی کا عادی بننے کی خواہش میں آپ خود کو غیر ضروری دباؤ میں نہ ڈال لیں اور عملیت و عقلیت پسندی سے کام لیں۔

آپ کو کمال پسندی کے سوئچ کو آن اور آف کرنے کا ہنر آنا چاہئے۔ کبھی کبھار پرفیکشن کی ضرورت ہوتی ہے، اور کبھی کبھار ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمیشہ پرفیکشنسٹ ہونے کی ڈیفالٹ سیٹنگ نہ بنائیں یعنی ہر چیز میں پرفیکشن اور کمال کے عادی نہ بنیں۔ اسے حالات کے مطابق بدلتے رہیں۔ اپنی سستی کو کمال و پرفیکشن کے نام پر نہ چھپائیں۔

"اگر کوئی فیصلہ تبدیلی قبول کرنے والا ہے (یعنی اس کو دوبارہ بدلا جا سکتا ہے) تو اس فیصلے کو کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرو۔ اگر فیصلہ ایسا ہو کہ اسے بدلا نہ جا سکتا ہو تو جتنی تاخیر سے ممکن ہو فیصلہ کرو۔ شین پیرش

یاد رکھیں کہ تمام کام مکمل پرفیکشن اور کمال مہارت سے نہیں کیے جا سکتے۔ پرفیکشن کے چکر میں آپ چند منٹ کا کام مکمل کرنے میں کئی دن لگا دیں گے۔ سست لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں کہ جب وہ آخر کار کسی پروجیکٹ پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو لے کر الجھ جاتے ہیں چناں چہ اس کام میں وہ ذیلی تفصیلات سے اس قدر مغلوب ہو جاتے ہیں کہ وہ پروجیکٹ پر کام کرنا شروع ہی نہیں کر پاتے۔
مثال کے طور پر ایک شخص کئی دنوں سے اپنے کمرے کی صفائی کرنے کا ارادہ بنا رہا ہے، لیکن جب وہ آخر کار صفائی شروع کرتا ہے تو وہ ہر چھوٹی چیز کی ترتیب میں بہت زیادہ وقت صرف کرتا ہے، جیسے کتابوں کو بالکل سیدھا رکھنا یا ہر شیلف کو بار بار صاف کرنا وغیرہ چناں چہ اصل صفائی کا بڑا کام رہ جاتا ہے۔

اسی طرح پرفیکشن کا عادی ایک ملازم جب آخر کار کام شروع کرتا ہے، تو وہ غیر اہم تفصیلات جیسے فائل کے فونٹ یا رنگوں کے انتخاب میں الجھ جاتا ہے، اور اصل پروجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
یا جیسے فرض کریں کہ کوئی شخص ایک نیا کاروبار شروع کرنا چاہتا ہے، لیکن مسلسل تاخیر کرتا رہا۔ جب وہ آخر کار پلاننگ پر کام شروع کرتا ہے تو وہ سب سے پہلے کاروبار کے نام اور لوگو (Logo)کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے کہ کون سا ڈیزائن بہتر ہوگا یا بزنس کارڈ کی ترتیب کیسے ہونی چاہیے۔ وہ کئی دن اس پر صرف کرتا ہے، لیکن کاروبار کی اصل اہم چیزوں جیسے کہ مارکیٹ ریسرچ، فائنانس پلاننگ، اور بزنس ماڈل پر کام نہیں کرتا۔ چناں چہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی توجہ اہم اور فوری فیصلوں پر مرکوز کرے، وہ اپنے زیادہ تر وقت ان جزئیات پر صرف کرتا ہے جو بعد میں بھی طے کی جا سکتی تھیں، اور یوں کاروبار کی شروعات تاخیر کا شکار ہو جاتی ہے۔
یہ مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ سست افراد پرفیکشن اور باریکیوں اور جملہ تفصیلات سے واقفیت کے نام پر اصل کام سے بچنے کے لیے چھوٹی چھوٹی اور غیر اہم چیزوں میں الجھ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے کام میں تاخیر ہو جاتی ہے اور پروجیکٹ یا کاروبار کی اہمیت کے مطابق صحیح سمت میں پیشرفت نہیں ہو پاتی۔
اس لیے کام کی رفتار کو برقرار رکھیں۔ جہاں پرفیکشن کی ضرورت ہو وہاں اسے بھرپور استعمال کریں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں اس سے صرف نظر کریں۔ ہر چیز میں پرفیکشنسٹ اور کمال پسندی کا عادی بننا درست رویہ نہیں ہے۔

جاری

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے