کتاب The Art of Laziness (سستی کا ہنر) کا حاصل مطالعہ قسط: 3

ذاتی نظم و ضبط (Self-discipline)

از: اظہارالحق قاسمی بستوی
پرلس اکیڈمی اورنگ آباد

سیلف ڈسپلن (Self-Discipline) کا مطلب ہے بہتر مستقبل اور اپنا نصب العین حاصل کرنے کے لیے جب جس چیز کے کرنے کی ضرورت ہے اس کے لیے خود کو تیار کرنا اور اپنے اوقات اور اپنی ذات کو منظم کرنا تاکہ انسان اپنے طے کردہ مشن و اہداف کو حاصل کر سکے۔ سیلف ڈسپلن کے ذریعے انسان اپنی زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے، وقت کی پابندی کرتا ہے اور مشکل حالات میں بھی استقامت سے کام لیتا ہے۔
(ہمارا مذہب اسلام سیلف ڈسپلن پیدا کرنے کے اصول کے حوالے سے طاق ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ زندگی کا ایک بھی لمحہ ضائع نہ کیا جائے؛ چناں چہ وقت ضائع کرنے کا افسوس جنت میں جانے کے بعد بھی ہو گا۔ اسلام بتلاتا ہے کہ بامقصد اور آزاد زندگی گزاری جائے۔ آزادی کی ایک بہت اہم شکل مالی آزادی بھی ہے۔ اسلام نے اپنا کام کرنے اور مالی اعتبار سے خود کفیل ہونے کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رض کی اکثریت تاجروں کی تھی۔ کب سونا ہے اور کب جاگنا ہے اس کی بھی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ زندگی گزارنے، پیسے کو کمانے اور خرچ کرنے کے حوالے سے بھی ڈسپلن کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ اس لیے اسلام ڈسپلن کے اصول کے حوالے سے ممتاز اور طاق ہے)
سیلف ڈسپلن حاصل کرنے کے طریقے:
واضح اہداف کا تعین: اپنے مقاصد کو واضح اور متعین رکھیں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ترجیحات مقرر کریں: وہ کام جو سب سے اہم ہیں، ان پر پہلے توجہ دیں۔
مخصوص روٹین بنائیں: ایک منظم اور مرتب روزانہ کا شیڈول بنائیں تاکہ آپ باقاعدگی سے کام کر سکیں۔
موٹیویشن (حوصلہ مندی) کو برقرار رکھیں: اپنی موٹیویشن کو بڑھانے کے لیے اپنے مقاصد کے بارے میں مثبت سوچیں۔
صبر اور استقامت: بعض اوقات مشکلات پیش آئیں گی، لیکن آپ استقامت سے کام جاری رکھیں۔

سیلف ڈسپلن اچھے مستقبل کا ضامن ہوتا ہے حالانکہ کہ حال میں خود کو اس کا عادی بنانے میں دشواری ہوگی۔ مثال کے طور پر ورزش کرنے یا واک پر جانے کی عادت ڈالنا حال میں تکلیف دہ ہے لیکن مستقبل میں اس کی وجہ سے اچھی صحت اور بہتر زندگی کی ضمانت ہے؛ جب کہ ابھی سست پڑے رہنا مزے کی چیز ہے مگر مستقبل میں بہت سے امراض و عوارض کو جھیلنا مقدر ہو گا۔
یا مثال کے طور پر کوئی کاروبار کرنا اور اس کے لیے اپنے کو تیار اور منظم کرنا حال میں تکلیف دہ ہے کہ اس میں بڑا جوکھم اور محنت و مشقت ہے مگر مستقبل میں مالی آسودگی سے اطمینان نصیب ہوگا؛ جب کہ ابھی کاروبار شروع نہ کرنا تکلیف سے بچانے والا ہے مگر مستقبل میں ہمیشہ مالی اعتبار سے پریشانی رہے گی یا دوسروں کے رحم و کرم پر جینا ہوگا۔ اس وقت کاروبار شروع نہ کرنے کے ہمارے پاس ہزار بہانے ہیں۔ یا مثال کے طور پر ابھی کتاب پڑھنے کی عادت ڈالنا اور اس کا ایک وقت فکس کرنا مشکل کام ہے جب کہ سوشل میڈیا پر ریل دیکھنا اور ٹائم پاس کرنا بہت آسان ہے۔ یا صبح جلدی اٹھنے کا عادی بننا مشکل کام ہے جب کہ گرم بستر پر پڑے رہنا مزے کی چیز ہے۔
یاد رکھیں کہ جو چیز بھی آپ کی زندگی کو بہتر بنانے والی ہے وہ مشکل ہے۔ اسی وجہ سے اپنے آپ کو نظم و ضبط میں لانا ،کھانے، سونے اور جاگنے کا نظام الاوقات بنانا اور اس پر عمل کرنا مشکل کام ہے۔ ایک مفکر کہتا ہے: ہم کو دو تکلیفوں میں سے ایک کو تو سہنا ہی ہے۔ یا تو نظم وضبط کی تکلیف یا کچھ نہ کرپانے کی تکلیف۔ (جم روھن)
اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ: کیا اگر میں یہ کام نہیں کروں گا تو مجھے آئندہ افسوس ہوگا؟ اگر جواب نفی میں ہے یعنی یہ کہ مجھے افسوس نہیں ہو گا تو آپ اسی طرح چلتے رہیے۔ اور اگر جواب اثبات میں ہے یعنی یہ کہ ہاں اگر یہ نہیں کروں گا تو مجھے افسوس ہو گا تو آپ وہ کام کرنا شروع کر دیں وہ چاہے جتنا مشکل کام ہو۔ نظم و ضبط کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ کام کیا جائے جس کے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہے محنت طلب کام کرنے کی تو بھرپور محنت کی جائے، اگر ضرورت ہے ہشیاری سے کام کرنے کی تو بھر پور ہشیاری سے کام کیا جائے۔ کسی کام کو اس وجہ سے چھوڑ دینا کہ وہ مشکل ہے مناسب رویہ نہیں ہے۔

زبردستی کے اعذار پیش کرکے کسی کام کو کرنے سے رک جانا Procrastination (پروکریسٹینیشن) کہلاتا ہے جو کہ ڈسپلن اور نظم و ضبط کا دشمن ہے۔ آپ اگر ہر مشکل کام کا کوئی نہ کوئی عذر پیش کرنے میں ماہر ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ زندگی کو کبھی بھی منضبط اور مفید نہیں بنا سکیں گے۔ ویسے ہمیں اصلی عذر بتاتے ہوئے اچھا نہیں لگتا اس لیے ہر مشکل کام سے بچنے کے لیے ہر بار ہم کوئی نیا بہانہ تلاش کر لیتے ہیں اور ان میں سب سب سے خوب صورت بہانہ ہے کہ: ابھی میں مناسب وقت کا انتظار کر رہا ہوں۔ مان کے چلیں کہ وہ مناسب وقت شاید کبھی بھی نہیں آئے گا جب سب کچھ آپ کے حساب سے چلے۔ آپ کی راہ میں مشکلات تو ہمیشہ ہی درپیش ہوں گی۔ بہت ساری چیزیں آپ کو بہانے کا موقع فراہم کریں گی مگر آپ کوشش کریں اور ان سب پر غالب آکر اپنے ہدف پر توجہ مرکوز رکھیں۔
اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ آپ اپنا حال صرف مشکلات سے بھرلیں بل کہ یہ ہے کہ حال میں بھی انجوائے کریں مگر مستقبل کی قیمت پر نہیں۔ لہذا حال میں اتنا مجاہدہ کرلیں کہ آپ کا مستقبل تابناک ہو۔ اس لیے جو کرنا ہے ابھی شروع کریں۔ پیبلو پکاسو کہتا ہے کہ: کل پر صرف اس کام کو ڈالو جس کو چھوڑ کر اور کیے بغیر تم مرجانے کے لیے تیار ہو۔
آپ جس پرفیکٹ اور موزوں ترین وقت کا انتظار کر رہے ہیں وہ شاید کبھی نہیں آئے گا اور اگر آئے گا بھی تو شاید تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اگر آپ انتظار ہی کرسکتے ہیں تو کرتے رہیں اور اگر شروع کرسکتے ہیں اور یقیناً کر سکتے ہیں تو بسم اللہ کریں اور اپنے بہتر مستقبل کی طرف اقدام کریں۔ آپ پرفیکٹ ٹائم، بہتر ذرائع اور مکمل تجربہ کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہ سکتے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کے پاس اپنے مستقبل کے ہدف کی منصوبہ بندی ہے مگر اس کی جملہ اور باریک تفصیلات سے واقف نہیں ہیں تب بھی شروع کریں۔ کام کے ساتھ ساتھ جملہ باریکیوں کا بھی علم ہو جائے گا۔
ممکن ہے کہ آپ کو جملہ باریکیوں کا علم ہو مگر یہ کافی نہیں ہے۔ آپ کو کام کرنا ہوگا۔ بہت سے لوگ کچھ کرنے سے زیادہ اسے سیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ سیکھنا اچھی چیز ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ آپ کو اسے روبہ عمل لانا ہوگا۔ شروع کرنے سے پہلے آسانیوں اور تیز رفتاری کی تلاش نہ کریں بل کہ پہلے کرنا شروع کریں پھر چیزوں کو آسان اور تیز تر کرنے کا بھی علم آپ کو ہو جائے گا۔

ناکامیوں کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں۔ کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ ابھی تک نہیں کیا تو اب کیا کروں گا یا کر سکوں گا۔ یا ایک بار ٹرائی کیا فیل ہو گیا اب ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ نا گزیر ہے۔ ہر ناکامی پر اس بات سے تسلی لیں کہ ان شاءاللہ یہ وقت گزر جائے گا اور نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھیں۔

جاری

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے