صحابۂ کرامؓ کا مقام و مرتبہ

محمد روح الامین میُوربھنجی

آج چہار دانگ عالم میں اگر اسلام اور مسلمان نظر آتے ہیں، تو یہ صحابہ کرام – رضوان اللہ علیہم اجمعین – کی محنتوں ہی کا ثمرہ ہے، جنھوں نے تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کے لیے اپنی جان اور اپنے مال و دولت کی بازیاں لگا دیں، ان کی بیویاں بیوہ اور ان کے بچے یتیم ہو گئے، انھوں نے اپنے گھر بار اور اپنے ملک و وطن کو چھوڑ کر صحراؤں اور بیابانوں میں روز و شب بسر کیے؛ یہاں تک کہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اپنی جانوں کو نچھاور اور قربان کر دیا؛ تب جا کر ہم تک توحید کا پیغام اور دین اسلام پہنچا ہے۔

”صحابی“ کیسے کہتے ہیں؟

لغت میں لفظ ”صحابی“، ”صاحب“ یعنی ساتھی کے معنی میں آتا ہے، جس کی جمع ”صحابہ“ آتی ہے۔ (صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں، ص: 31–32)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (متوفی: 852ھ م 1449ء) نے اپنی کتاب ”الإصابۃ فی تمییز الصحابہ“ میں ”صحابی“ کی ایک جامع و مانع اصطلاحی تعریف یہ لکھی ہے: مَا وَقَفْتُ عَلَيْهِ مِنْ ذٰلِكَ أَنَّ الصَّحَابِي مَنْ لقيَ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – مُؤْمِنًا بِهِ وَمَاتَ عَلَى الْإِسْلَامِ (سب سے صحیح تعریف، جو مجھے معلوم ہوئی، وہ یہ کہ صحابی وہ ہے، جس نے بہ حالت ایمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور بہ حالت اسلام اُس کی وفات ہوئی ہو۔)

ابن حجرؒ کی صراحت کے مطابق، اس تعریف میں وہ شخص بھی داخل ہے، جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل ہم نشینی کا شرف حاصل ہوا ہو یا آپ کی معمولی صحبت سے بھی بہرہ ور ہوا ہو؛ وہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک رہا ہو یا نہ رہا ہو؛ اسی طرح جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایتِ حدیث کی ہو یا آپ سے کوئی حدیث روایت نہ کی ہو، نیز جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نظر بھی دیکھا ہو اور جو کسی مانع جیسے نا بینا ہونے کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دیدار سے محروم رہا؛ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنی مُجالَست اور ہم نشینی سے فیض یاب ہوا ہو؛ بہ شرطے کہ بہ حالت ایمان ہی دنیا سے اُس کا جانا ہوا ہو۔ (الإصابہ، ج: 1، ص: 6)

صحابۂ کرام کے فضائل و مناقب:

قرآن و احادیث میں جتنے بھی صیغہ ہائے خطاب ہیں، جتنے بھی احکام ہیں، سب کے اولین مخاطب، صحابۂ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین تھے، قرآن میں کہیں انھیں ”خیرِ امت“ کہا گیا، کہیں ”أمۃً وسطا“ کے خطاب سے نوازا گیا، کہیں انھیں مغفرت کا پیشگی پروانہ دیتے ہوئے انھیں ابدی رضوان و خوشنودیِ خداوندی کا مژدہ سنایا گیا: ”رضيَ الله عنهم ورضوا عنه“ یعنی صحابہ وہ ہیں، جن سے اللہ راضی ہو گیا اور وہ خود بھی اللہ سے یعنی اُس کے تمام احکام اور اُس کی تمام مرضیات سے راضی اور خوش ہو گئے۔ (صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں [صفحہ 119–136 سے مستفاد])

احادیث مبارکہ میں صحابۂ کرام کے زمانے کو سب سے بہتر بتلایا گیا ہے، اُن سے محبت رکھنے کو، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا؛ اُن سے بغض و عداوت رکھنے کو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عداوت رکھنا اور اُن کی ایذا رسانی کو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا رسانی قرار دیا گیا ہے، نیز صحابۂ کرام کو برا بھلا کہنے کو، موجبِ لعنت بتلایا گیا ہے؛ غرضے کہ صحابہ کرامؓ کے اتباع کو نجات اخروی کا ضامن اور ہدایت کا معیار قرار دیا گیا ہے۔ (صحابۂ رسول اسلام کی نظر میں [صفحہ 137–151 سے مستفاد])

ملاحظہ:- رب تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں متعدد مقامات پہ حضرات صحابہؓ سے خطاب اور الفاظ قرآنیہ میں رب تعالیٰ کا حضرات صحابہ کو مراد لینا یہ ایک قدرِ عظیم اور اعزاز ہے کہ دنیا کا کوئی اعزاز اس کی ہم سری نہیں کر سکتا۔

اسی طرح رب تعالی کے بعد جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے حضرات صحابہؓ کے لیے مذکورۂ بالا سطور جیسے مستند اور عظیم الفاظ کا استعمال اور اُن کو ہدایت و رضامندی کا معیار گرداننا؛ یہ ایسا وصف اور تمغا ہے، جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں۔

صحابۂ کرام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت:

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جان نثارانہ اور فداکارانہ محبت تھی، انھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ادنیٰ سنت کو بھی چھوڑنا گوارا نہ تھا، جس کے لیے وہ اپنی عزتِ نفس کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے، (شان صحابہ، ص: 33 و 34) حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی چیز کو نا پسند فرماتے یا کسی چیز سے منع فرما دیتے، تو صحابہؓ اُس چیز کو اپنے پاس پھٹکنے بھی نہ دیتے تھے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی صحابی کے، مرد ہو کر سونے کی انگوٹھی پہننے پر نکیر فرمائی؛ تو انھوں نے انگوٹھی ہی کو ہوا بُرد کر دیا اور صحابہؓ کے کسی اور مصرف میں لے آنے کے مشورے کے باوجود؛ اُس انگوٹھی سے استفادے کو گوارا نہ کیا۔ (مشكاة المصابيح، باب الخاتم، ص: 378؛ شان صحابہ، ص: 52 و 53)

ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر ایک صحابیہؓ کو – جن کے گھر کے کئی افراد شہید ہو گئے تھے – جب اُن کے بیٹوں، شوہر اور بھائی کی شہادت کی خبر سنائی جاتی ہے، تو وہ آگے بڑھ کر حضور علیہ الصلاة والسلام کی خیریت معلوم کرتی ہیں؛ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائے محبت کی دلیل ہی تو ہے۔ (شان صحابہؓ، ص: 54–56)

دین کی خاطر قربانیاں:

وہ کونسی قربانیاں ہوں گی، جو صحابہ کرامؓ نے پیش نہ کی ہوں، جان اور مال کی قربانیاں دیں، اسلام کی خاطر کفار و مشرکین کے ظلم و ستم سہے، ایمان کی خاطر اپنے گھر بار کو چھوڑا، اپنے گھر اور خاندان والوں کی نفرت و دشمنی مول لی، اب صحابۂ کرام کی متعینہ قربانیوں کی بات کی جائے، تو حکایات صحابہ اور واقعات صحابہ پر لکھی گئی کتابیں اُن سے بھری پڑی ہیں، مثلاً: اردو میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی ”حکایات صحابہ“ اور مولانا حنیف عبد المجیدؒ کی ”صحابہؓ کے واقعات“ وغیرہ۔

صحابۂ کرامؓ کے آپسی تعلقات، ایثار و قربانی:

صحابۂ کرامؓ کے آپسی تعلقات کو آیت قرآنی کے اس جزء ”رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ“ میں بیان کیا گیا ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے جذبۂ حمیتِ دینی اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی کا وہ حوصلہ رکھتے تھے، جس کی مثال پیش کرنے سے یہ نام نہاد اخوت و بھائی چارگی کے دعوے دار اور زعفرانیت کے نشان دار قاصر ہیں۔

ایک دو نمونے پیش کرتا ہوں کہ جب مہاجرین اصحابؓ، ہجرت مکہ کے بعد مدینہ تشریف لائے، تو انصار مدینہؓ نے مُواخات و بھائی چارگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنی جائیداد اور اپنے گھر بار تک کو نصف نصف کرکے، نصف اپنے مہاجر بھائی کے حوالے کر دیا تھا۔ سعد بن الربیعؓ جو عبد الرحمن بن عوفؓ کے بھائی قرار پائے تھے، انھوں نے تو حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو یہ پیشکش کی کہ میں اپنی ایک بیوی کو طلاق دیتا ہوں آپ اس سے نکاح کر لیجیے؛ مگر حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے اُن کی اِس پیشکش کو قبول نہ کیا۔ (سیرۃ النبی، ج: 1، ص: 284–292)

صحابہؓ کی ایثار و قربانی کا ذکر تو قرآن پاک میں بھی ہے: ”و يؤثرون علی أنفسهم ولو كان بهم خصاصة“ (سورۃ الحشر، آیت: 9) یعنی وہ (اصحابِ محمد) اپنی جانوں پر ان (دوسروں) کو مقدم رکھتے ہیں؛ اگرچہ اُن پر فاقہ ہو۔

ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے پاس خبر بھیجی کہ کیا کسی کے پاس ضیافت کے واسطے کچھ ہے؟ تو سب نے کہلا بھیجا کہ سوائے پانی کے کچھ نہیں ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرینِ صحابہؓ سے پوچھا کہ کون اِس مہمان کی ضیافت کرے گا؟ تو ایک صحابی نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! میں“، پھر وہ صحابی اُس مہمان کو لے کر اپنے گھر گئے، بیوی سے معلوم ہوا کہ سوائے بچے کے کھانے کے کچھ نہیں ہے، تو انھوں نے بیوی سے بچوں کو بہلا پھسلا کر سلا دینے کے لیے کہا اور مہمان کو وہ کھانا کھلایا اور ایک حیلہ یہ کیا کہ جب وہ مہمان کھانے لگے تو بیوی نے چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے سے چراغ بجھا دیا؛ تا کہ مہمان کو یہ معلوم نہ ہو سکے کہ میزبان نے کچھ نہیں کھایا۔ (زاد المسير في علم التفسير ج:8، ص: 214–215)

ایثار کا ایک اور واقعہ یہ ہے کہ ایک صحابیؓ کے پاس بکری کا بھنا ہوا سر آیا، تو انھوں نے سوچا کہ میرا فلاں بھائی زیادہ مستحق ہے اور اُس دوسرے ساتھی کو ہدیہ کر دیا، دوسرے نے اسی طرح تیسرے کو ہدیہ کر دیا اور اسی طرح ہوتے ہوتے وہ بھنا ہوا سر واپس پہلے ہدیہ کرنے والے کے پاس آپہنچا۔ (ایضاً ج: 8، ص: 215)

ایک تیسرا واقعہ یہ ہے کہ جنگ یرموک کے موقع پر حضرت عکرمہؓ اور ان کے ساتھیوں کو پانی پیش کیا گیا؛ جب وہ زخمی تھے، ایک کو پیش کیا گیا تو اُس نے دوسرے پیاسے ساتھی کو خود پر ترجیح دی، جب دوسرے کے پاس گئے، تو اس نے تیسرے کے پاس بھیج دیا، پھر تیسرے نے کسی اور کے پاس بھیج دیا، اس طرح ہوتے ہوتے پانی کوئی پی نہ پایا اور سبھی ایک دوسرے کے لیے ایثار و ہمدردی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔ (ایضاً ج: 8، ص: 214)

مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں شریعت کا حکم:

”مشاجرة“؛ ”شجر“ سے مشتق ہے یعنی جس طرح درخت کی شاخیں آپس میں ٹکراتی رہتی ہیں اور ایک دوسرے کی طرف بڑھتی ہیں، اُسی طرح صحابہ کے درمیان رونما ہونے والے اختلافات کو ”مشاجرات صحابہؓ“ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ایسا علماء نے از روئے ادب کیا ہے۔ (مقام صحابہ از مفتی محمد شفیع دیوبندی، ص: 87)

مشاجرات صحابہؓ کے تعلق سے مبنی بر اعتدال حکم یہ ہے کہ صحابہ سے جو کچھ سہو یا اجتہادی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ اُن کے باوجود؛ اُن سے حسن عقیدت رکھنا اور اُن کا احترام ملحوظ رکھنا، ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔

اس سلسلے میں مبنی بر اعتدال حکم کے طور پر مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کی کتاب ”مقام صحابہؓ“ کی اس عبارت کے نقل کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:

”مشاجرات صحابہؓ کے معاملے میں صحابہ و تابعین اور ائمۂ مجتہدین کا عقیدہ اور فیصلہ ہے کہ خواہ اِس وجہ سے کہ ہم اُن پورے حالات سے واقف نہیں، جن سے یہ حضراتِ صحابہؓ گزرے ہیں؛ یا اِس وجہ سے کہ قرآن و سنت میں اُن کی مدح و ثنا اور رضوانِ خداوندی کی بشارت اس کو مقتضی ہے کہ ہم اُن سب کو اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے سمجھیں اور اُن سب سے کوئی لغزش بھی ہوئی ہے، تو اس کو معاف قرار دے کر، اُن کے معاملے میں کوئی ایسا حرف زبان سے نہ نکالیں جس سے اُن میں سے کسی کی تنقیص یا کسرِ شان ہوتی ہو؛ یا جو اُن کے لیے سببِ ایذا ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ اُن کی ایذا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذا ہے، بڑا بد نصیب ہے وہ شخص؛ جو اِس معاملے میں محقق مفکر (بن کر) بہادری کا مظاہرہ کرے اور اُن میں سے کسی کے ذمے الزام ڈالے۔“ (مقام صحابہ، ص: 118–119)

مصادر و مراجع:

(1) صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی نظر میں، مولفہ: مولانا نور عالم خلیل امینی، ایڈیشن:سنہ 2019ء، ناشر: ادارہ علم و ادب، دیوبند۔

(2) الإصابة في تمييز الصحابة (مجلد اول)، مولفہ: حافظ ابن حجر عسقلانی، اشاعت: 2007ء، ناشر: المطبعة الشرفیة، مصر۔

(3) شانِ صحابہؓ (افاداتِ حکیم الاحت)، مولفہ: محمد اقبال قریشی خلیفہ مفتی محمد شفیع صاحب، اشاعت: 2003ء، ناشر: ادارہ اسلامیات، لاہور۔

(4) مشكاة المصابيح ( دار العلوم دیوبند میں رائج نسخہ)، ناشر: مکتبہ اشرفیہ دیوبند۔

(5) سیرۃ النبی (حصہ اول)، مولفہ: علامہ شبلی نعمانی، اشاعت ہشتم: 1974ء، ناشر: مطبع معارف، اعظم گڑھ۔

(6) زاد المسير في علم التفسير (جلد ہشتم)، علامہ ابن الجوزي، اشاعت: 1982ء، ناشر، المكتب الاسلامی (بیروت)۔

(7) مقام صحابہ، مؤلفہ: مفتی محمد شفیع صاحب، اشاعت: 1971ء، ناشر: ادارۃ المعارف، دارالعلوم کراچی۔

May be an image of text

All reactions:

8Md Farooque Azam and 7 others

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے