بقلم : حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ
نقل وجمع : مولانا ضیاء الحق خیرآبادی

اساتذہ نائب رسول ہیں ، اور طلبہ مہمان رسول ہیں ، اب یہ سوچئے کہ اگر یہ طالب علم حضور اکرم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے ، بلکہ انھیں الگ کرکے خود اپنے بارے میں سوچئے کہ ہم اگر طالب علم بن کر رسول اﷲ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوتے تو ہم آپ کی طرف سے کیا سلوک پاتے ۔ یا ہم آپ سے کیا سلوک چاہتے ، رسول اﷲ ﷺ کا برتاؤ تو اپنے شاگردوں اور صحابۂ کرام کے ساتھ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ، دنیا جانتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا ہے ، حضرت انس جنھوں نے حضور اکرم ﷺکی خدمت دس سال کی عمر سے کی ہے ، نہ جانے کتنا کتنا کام بگڑتا رہا ہوگا ، مگر فرماتے ہیں کہ مارنا تو درکنار حضور اکرم ﷺنے کبھی مجھے ڈانٹا اور گھڑکا تک نہیں، اگر کوئی دانٹتا تو اسے منع کردیتے ، رسول اﷲ انے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد تمہارے پاس دوردراز سے آدمی علم حاصل کرنے آئیں گے ، ان کے سلسلے میں خیر اور بھلائی کی نصیحت کرتاہوں ، اس کو تم قبول کرو، حضور اکرم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، جب اپنے مہمان کا اکرام کرنا ایمان کا تقاضا ہے تو رسول اﷲ ﷺکے مہمانوں کا کس قدر ضروری ہوگا ، ان کو ایذا ہوگی ، تو رسول اﷲ ﷺکو ایذا ہوگی ، اور ان کو راحت ملے گی تو رسول اﷲ ﷺ خوش ہوں گے ۔
اس سلسلے میں اساتذہ سے بہت کوتاہیاں ہوتی ہیں ، اول تو طلبہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، یہ بدترین جرم ہے ، یہ گو بچے ہیں ، نادان ہیں ، ناواقف ہیں ، لیکن دل میں ان کی تحقیر ہرگز نہیں ہونی چاہئے ، یہ جس کام کیلئے آئے ہیں ، اس نے ان کا مرتبہ بڑھا دیا ہے ، رسول اﷲ ﷺنے بچوں کے ساتھ جو شفقت کی ہے ، ہم جو طلبہ کے ساتھ برتاؤ کریں تو وہی شفقت اس میں جھلکنی چاہئے ، ورنہ نیابت چھن جائے گی ، نائب رسول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے جو اصل اور منیب کے منشاء کے مطابق ہو ، ہمارے بزرگوں نے اس کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔
واقعات تو بے شمار ہیں لیکن میں صرف ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں ، جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارے اکابر طلبہ کو کس نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دیوان عبد الرشید جونپوری قدس سرہ سلسلۂ قلندریہ کے بہت بڑے شیخ ہیں اور بہت بڑے عالم بھی ، انھوں نے زندگی بھر خانقاہ کے ساتھ مدرسہ کا بھی سلسلہ بھی جاری رکھا ، انتقال کے وقت وصیت کی کہ ان کی قبر میں وہ پتھر رکھ دیا جائے جس پر طلبہ اپنے جوتے اتارا کرتے تھے ، مجھے اس کی برکت سے نجات کی امید ہے ، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، خیال فرمائیے ان کے دل میں طالب علم کی کیا وقعت تھی ؟
ایک واقعہ اور سن لیجئے ! حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ طلبہ کو پڑھارہے تھے ، صحن مسجد میں سبق ہورہا تھا کہ اچانک بارش شروع ہوگئی ، سب طلبہ کتابیں لے کر اندر بھاگے ، اندر پہونچ کر تپائیاں درست کرکے دیکھا تو ایک عجیب منظر نظر آیا ، وقت کا یہ محدث اعظم ، استاذ العلماء ، مرجع الخلائق ، شیخ طریقت ، ولی کامل اپنے طالب علموں کے جوتے اٹھا اٹھا کر سائے میں رکھ رہا ہے کہ وہ بھیگنے نہ پائیں ، اﷲ اکبر کس قدر تواضع تھی ، اور دل میں کیسی طلبہ کی عظمت تھی ، یہ نمونے اگر عام ہوجائیں تو ہماری کتنی خرابیاں دور ہوجائیں ۔
دوسرے یہ کہ طلبہ سے ان کے تحمل سے زیادہ کام نہ لیا جائے ، نہ علم کے سلسلے میں اور نہ خدمت کے سلسلے میں ، ان سے کوئی ایسی فرمائش نہ کی جائے جس کو وہ نہ سمجھ سکیں ، یا سمجھ لیں تو کرنے میں انھیں دشواری ہو ۔ وہ ہمارے غلام نہیں ہیں ، عموماً حضرات اساتذہ کو اس کا اہتمام نہیں ہوتا ، کبھی طلبہ سے ناصاف گفتگو میں کوئی فرمائش کردیتے ہیں ، وہ اسے سمجھ نہیں پاتے ، اور مارے ڈر کے پوچھ نہیں پاتے ، اور بعد میں انھیں زجر وتوبیخ اور بعض اوقات ضرب وتنبیہ کا نشانہ بننا پڑتا ہے ، یاد رکھئے کہ طلبہ کی غلطیوں کو آپ معاف کریں گے تو اﷲ تعالیٰ آپ کی غلطیوں کو معاف کریں گے ، اور اگر آپ ان کی ہر غلطی پر گرفت کریں گے اور سزا دیں گے تواﷲ تعالیٰ بھی ایسا ہی کریں گے ، طلبہ کی تعلیم میں بے حد تحمل ہونا چاہئے ، مارنا بالخصوص نابالغ بچوں کو بہت ناپسندیدہ امر ہے ، بچوں کو زدوکوب سے نہیں پیار ومحبت سے پڑھانا چاہئے ، زدوکوب کا انجام یہ ہوتاہے کہ ان کا دل تعلیم سے اچاٹ ہوجاتا ہے ، نہ جانے کتنے لوگ اپنے اساتذہ کی مارپیٹ کی وجہ تعلیم سے بھاگ نکلے ، اس کا حساب کون دے گا ، میں مطلقاً مارنے کا انکار نہیں کرتا ، لیکن بقدر ضرورت ہواور بے تحاشا مارنے کی ضرورت میں تسلیم نہیں کرتا ، اور میں کیا ، اﷲ اور رسول تسلیم نہیں کرتے، ہم انھیں تعلیم دیتے ہیں ، اور ثواب کی امید رکھتے ہیں، ہم انھیں مارتے ہیں اور بے تحاشا مارتے ہیں ، اور تمام ثواب کو آگ لگا دیتے ہیں ،ا وپر سے ظلم کا گناہ لاد لیتے ہیں ، ان بچوں کی طرف سے کوئی ہم سے سوال کرنے والا نہیں ہے ۔ یاد رکھئے کہ ان کا وکیل اﷲ ہے ، اﷲ کا رسول ہے ، اﷲ کے دربار میں اگر رسول نے دعویٰ دائر کردیا تو بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی ، اگر ہم کو یہ خیال ہوکہ یہ بچے رسول اﷲا کے مہمان عزیز ہیں تو ہمیں ہرگز جرأت نہ ہوگی کہ ان پر ہاتھ اٹھائیں ، اگر کوئی طالب علم ہماری شفقت کے باوجود نہیں پڑھ سکا تو انشاء اﷲ ہم سے اس کا مواخذہ نہ ہوگا ، اور اگر ہماری سختی اور مار پیٹ کی وجہ سے تعلیم سے ہٹ گیا تو دوہرا مواخذہ ہوگا ، ایک بے جا سختی کا ، دوسرے اس کی تعلیم کے خراب ہونے کا ، اور اساتذہ ہرگز یہ خیال نہ کریں کہ ان کا بے تحاشا پیٹنا کسی ہمدردی کی وجہ سے ہوتا ہے ، عموماً ایسا شفائے غیظ کیلئے ہوتا ہے ، اس چیز سے میں بہت خطرہ محسوس کرتا ہوں ۔
مشہور شاعر علامہ اقبال مرحوم نے مثنوی ”رموزِ بے خودی ” میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک سائل بھیک مانگتاصدا لگاتا ہواان کے دروازے پر آیا ، یہ گدائے مبرم یعنی اڑیل فقیر تھا ، دروازے سے ٹلنے کا نام ہی نہ لیتا تھا ، اس کے باربار چیخ کر صدا لگانے پر علامہ اقبال نے طیش میں آکر اسے مارا ، اور اس مارپیٹ میں فقیر کی جھولی میں جو کچھ تھا ، زمین پر گرگیا ، علامہ کے والد اس حرکت پر بہت آزردہ اور کبیدہ خاطر ہوئے ، اور دل گرفتہ ہوکر بیٹے سے کہا کہ قیامت کے دن جب خیر الرسل اکی امت سرکار کے حضور جمع ہوگی تو یہ گدائے درد مند تمہارے اس برتاؤ کے خلاف حضور رسالت مآب اسے سے فریاد کرے گا ، اس وقت
اے صراطت مشکل از بے مرکبی
من چہ گویم چوں مرا پُرسد نبی
حق جوانے مسلمے باتو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
درملامت نرم گفتار آں کریم
من رہین خجلت وامید وبیم
باز این ریش سفیدِ من نگر
لرزہ ٔ امید وبیمِ من نگر
از تو ایں کارِ آساں ہم نشد
یعنی آں انبار ِ گل آدم نشد
اندکے اندیش ویاد آر اے پسر
اجتماع امت خیر البشر
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیش مولیٰ بندہ را رسوا مکن
یعنی اے اقبال! بغیر سواری کے راستہ قطع کرنا مشکل ہے ۔ مجھ سے نبی ا پوچھیں گے ، تو میں کیا کہوں گا ، وہ پوچھیں گے کہ حق تعالیٰ نے تم کو ایک جوان مسلمان بیٹا سپرد کیا تھا ، لیکن اسے میرے دبستان سے کوئی حصہ نہیں ملا ۔ (تم سے اتنا آسان کام بھی نہ ہوسکا کہ ، یعنی مٹی کا ڈھیر تمہاری تربیت میں رہ کر آدمی نہ بن سکا ) نبی کریم اتو نرم گفتاری سے مجھے ملامت کریں گے ، لیکن میں شرمندگی اور امید وبیم میں غرق ہوں گا ، میرے بیٹے ! ذرا اس وقت کو سوچو توسہی ، جب خیر البشر اکی امت اکٹھا ہوگی ، پھر میری سفید داڑھی کو دیکھو اور امید وبیم کے درمیان میرے لرزنے کو دیکھو ، باپ کے اوپر یہ نازیبا ظلم مت کرو ، مولیٰ کے سامنے اس بندہ کو رسوا مت کرو۔
واقعی معاملہ سخت ہے ، یہ بچے اگر کل قیامت کے دن دامن گیر ہوں گے تو جان مشکل میں پڑ جائے گی ، ان کے ساتھ طاقت کا استعمال کم سے کم کرنا چاہئے ، ہاں! روحانی طاقت ، یعنی اخلاق وانسانیت سے زیادہ کام لینا چاہئے ۔
اس سلسلے میں حضرت مولانا فضل حق خیرآبادی کا قصہ بھی بہت عجیب ہے۔ یہ مولانا فضل حق ،ہدیہ سعیدیہ کے مصنف ، زبردست عالم ہیں ، منطق وفلسفہ اور ادب کے امام ہیں ، ان کے والد گرامی مولانافضل امام صاحب بھی بڑے عالم تھے ۔ منطق کی مشہور کتاب ”مرقات” انھیں کی تصنیف ہے ، طلبہ پر بے حد شفقت فرماتے تھے ، ان کے ایک شاگرد مولانا غوث علی شاہ تھے ، بڑے آزاد مزاج اور دنیا جہاں کے سیاح ! وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رامپور گئے تو مولانا فضل حق صاحب سے ملاقات ہوئی ، ایک روز پچھلی باتوں کا ذکر آگیا ، اپنے والد بزرگوار (مولانافضل امام صاحب)کو یاد کرکے روتے رہے ، ہم نے کہا ، مولوی صاحب ، آپ کو وہ دن بھی یاد ہے کہ مولوی صاحب نے تھپڑ مارا تھا اور آپ کی دستارِ فضیلت دور جاگری تھی ، ہنسنے لگے اور فرمایا کہ خوب یاد ہے ، وہ عجیب زمانہ تھا ، اور وہ قصہ اس طرح تھا کہ مولانافضل امام صاحب نے ایک طالب علم سے فرمایا کہ جاؤ فضل حق سے سبق پڑھ لو ، وہ تھا غریب آدمی ، بد صورت ، عمر زیادہ علم کم ، ذہن کند ، یہ نازک طبع ، ناز پروردہ ، جمال صورت و معنیٰ سے آراستہ ، چودہ برس کا سن وسال ، نئی فضیلت ، ذہن میں جودت ، بھلا میل ملے تو کیسے ملے ، اورصحبت راس آئے تو کیوں کر آئے ، تھوڑا سبق پڑھا تھا کہ بگڑ گئے ، جھٹ اس کی کتاب پھینک دی ، اور برا بھلا کہہ کر نکال دیا ، وہ روتا ہوا مولانافضل امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور سارا حال بیان فرمایا ، فرمایا: بلاؤ اس خبیث کو ، مولوی فضل حق صاحب آئے اور دست بستہ کھڑے ہوگئے ، مولانا صاحب نے ایک تھپڑ دیا اور ایسے زور سے دیا کہ ان کی دستار فضیلت دور جاپڑی اور فرمانے لگے،تو ظالم عمر بھر بسم اﷲ کے گنبد میں رہا ، نازونعمت میں پرورش پائی ، جس کے سامنے کتاب رکھی اس نے خاطر داری سے پڑھایا ، طالب علموں کی قدرومنزلت تو کیا جانے ، اگر مسافرت کرتا ، بھیک مانگتا اور طالب علم بنتا تو حقیقت معلوم ہوتی ارے طالب علمی کی قدر ہم سے پوچھو ، خیر بھلا جانو گے ، اگر ہمارے طالب علموں کو کچھ کہا ، یہ چپ کھڑے روتے رہے ، کچھ دم نہیں مارا ، خیر قصہ رفع دفع ہوا ، لیکن پھر کسی طالب علم کو کچھ نہیں کہا ۔
میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت کا برتاؤ کیا جائے ، انھیں خوفزدہ نہ کیا جائے ، نہ جانے ان میں کل کون کیا ہونے والا ہے ، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے ایک استاذ نے طالب علمی کے زمانہ میں انھیں تھپڑ رسید کیا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد کسی نے دیکھا کہ ان کا وہ ہاتھ سوکھا ہوا ہے ، دریافت کرنے پر انھوں نے بتلایا کہ عبدا لقادر کو اس ہاتھ سے تھپڑ مارا تھا ، اس کی یہ سزا ملی ہے ۔ اس نے شیخ سے جاکر عرض کیا ، شیخ ان کی قبر پر تشریف لے گئے ، اور بارگاہ الٰہی میں بہت کچھ مناجات کی ، جب ان پر سے یہ سزا ہٹی ، بچپن میں بسا اوقات اندازہ نہیں ہوتا کہ کل اس طالب علم کا کیا رتبہ ہوگا ، یہاں بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے ، بات ذرا لمبی ہوگئی ، لیکن دیکھتا ہوں کہ حضرات اساتذہ اس باب میں بے اعتدالی کا شکار ہوجاتے ہیں ، اسی لئے ذرا تفصیل کے ساتھ عرض کردیا اور بعض لوگ تعلیم وتربیت کے حق میں دوسری کوتاہی کرتے ہیں ، وہ یہ کہ طلبہ سبق یاد کریں یا نہ کریں ، نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں ، اخلاق خواہ ان کے کیسے ہی ہوں ، وہ سرے سے روک ٹوک کرتے ہی نہیں ، یہ بھی غلط ہے ، انھیں اپنی اولاد کی طرح پالنا پوسنا چاہئے ، ان سے غلطی ہورہی ہو تو روکنا چاہئے اور باربار چاہئے ، یہ نہیں کہ ایک دو مرتبہ روکا پھر اکتا گئے ، نہیں بلکہ جتنی بار ان سے غلطی ہو اتنی بار ٹوکئے ، مگر نرمی سے اور ایسا بھی نہ ہو کہ بالکل پیچھے پڑجانا محسوس ہو ۔ تربیت کا مسئلہ ذرا نازک ہے ، تاہم روک ٹوک کرتے رہنا چاہئے ، اس سے برائی سمٹتی ہے ، اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو برائی کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے گا۔

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے