معاذ حیدر کلکتوی, متعلم دارالعلوم دیوبند
جناب مولانا اسحاق صاحب بردوانی – رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً- مغربی بنگال کی خدا رسیده و محبت چسیده ، عالم با عمل و محدث دیدہ ور ، فقیہ نبض آشنائے شریعت مطہرہ ؛ شخصیت کا شمار دنیائے علم کے تاب ناک ترین ستاروں میں ہوتا تھا ، آپ کی ذات علوم نبوی کی ایک معتبر علامت تھی، حلقۂ فقہاء و محدثین و علمائے زاہدین کا گوہر شب تاب تھی۔
علمی گہرائی و گیرائی اور فرزانگی نے آپ کو اپنے اتراب کا مربع بنا دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ذوقِ عبادت و شوقِ اطاعت اور عملی ہمہ گیری نے اپنے اکابر کا منظورِ نظر بنا دیا تھا ۔
آپ کا درسِ حدیث انوری شان و شوکت سے معمور اور پند و نصائح تھانوی عکس کا پر تو ہوتا تھا ، پیدائش بردوان کے” کیتھین ” نامی گاؤں میں ہوئی ، حکیم الامت و مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا علوم و عرفان اور سلوک و احسان سے آپ کو وافر حصہ ملا تھا ۔
تعلیم و تربیت:
چار سال کی عمر میں آپ کی ابجد خوانی کی ابتداء ہوئی اور نو سال کی عمر تک اپنے علاقے میں ہی مولانا سید ممتاز حسین صاحب کے زیر نگیں گلستان بوستان ، انور سہیل،پند نامہ و دیگر فارسی کی کتابیں مکمل کیں ، اس کے بعد عربی تعلیم کا آغاز اپنے قصبہ کے قریبی علاقہ "منگل کوٹ” میں کیا ، وہاں مولانا محمد اور مولانا ممیز الحق صاحبان کی زیر سرپرستی کافیہ تک کی تعلیم مکمل کی ، اس کے بعد اپنے علمی سفر کو آگے بڑھانے کے لیے آرہ (بہار) کا سفر کیا ، اور وہاں دو سال رہ کر مختصر المعانی تک کا نصاب مکمل کیا ۔
اس کے بعد آپ نے مدرسہ جامع العلوم کان پور کا رخ کیا ، جہاں رہ کر وقت کے مجدد ، ملت اسلامیہ کے عظیم مربی، علوم شرعیہ کے رمز شناس ، حکیمِ وقت مولانا اشرف علی تھانوی -نور اللہ مرقدہ- سے خوب کسبِ فیض کیا ، آپ کی خوش نصیبی یہ رہی کے حضرت سے آپ نے مشکوۃ المصابیح کے علاوہ حدیث کی تمام کتابیں پڑھیں اور ١٣٠٩ھ میں فراغت ہوئی ۔
تدریس :
فراعت کے بعد ہی حضرت تھانوی علیہ الرحمہ نے اپنے زیرِ سایہ آپ کو مدرسِ دوم مقرر فرمادیا ، علمی پختگی بھی تھی اور فہم و ذکاء بھی اعلیٰ معیار کا نصیب ہوا تھا ، اس بنیاد پر شروع ہی زمانہ میں تفسیر، حدیث، ادب ِعربی اور فلسفہ و اقلیدس جیسے اہم مضامین بیک وقت آپ سے منسلک کر دیئے گئے ، اس کے ساتھ دار الافتاء کی پوری ذمہ داری بھی دے دی گئی ۔ ایک عرصہ تک مدرسِ دوم کی حیثیت سے آپ تدریس کی خدمات پوری کا میابی سے ادا کرتے رہے، جب حضرت حکیم الامت نے مدرسہ سے علیحدگی کا ارادہ فرمایا تو آپ کو اپنا قائم مقام بنا دیا ، اس کے چند ماہ بعد مدرسِ اول مقرر کر دیا ، وہ تمام ذمہ داریاں جو حضرت پر تھیں وہ مولانا بردوانی کو دے دی گئیں
١٩١٠ء میں ڈاکٹر ڈینس (پرنسپل مدرسہ عالیہ ، کلکتہ) کے انتخاب پر آپ کلکتہ آئے، اور یہیں رہ کر علوم کے دریا بہانے لگے ۔
پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو جامعہ کے انگریز پرنسپل نے مولانا بردوانی سے "جواز خلافت کے خلاف” فتوی دینے کی درخواست کی، تو مولانا نے فوراً انکار کر دیا اور وہاں سے علیحدہ ہوگئے۔ ١٩١٩ء میں ڈھا کے منتقل ہوئے اور وہاں تو تدریسی خدمات انجام دیں ۔
خصوصیات و امتیازات:
(1) آپ بہت ذہین تھے ۔ علم کے ساتھ ساتھ عملی مضبوطی بھی حاصل تھی جب فراغت ہوئی تو حضرت تھانوی نے آپ کی سند میں یہ جملہ لکھا کہ "شابٌ نشأ في عبارة الله”
(2) تدریس کے ابتدائی دور میں آپ کو حفظ قرآن کا جذبہ پیدا ہوا ، ۱۲/ربیع الاول ١٣١٤ھ کو ابتدا کی اور اسی سال جمادی الثانیہ میں صرف ۹۸ دنوں کے اندر پورا قرآن مجید حفظ کر لیا ، یہ خبر کانپور شہر میں پہونچی تو ہلچل مچ گئ بڑے اہتمام سے دستارِ حفظ آپ کو دی گئی ، حضرت تھانوی بڑے سرور میں آپ کے اس عجیب و غریب حفظ قرآنی کو معجزات قرآنی میں شمار کرتے تھے۔
(3) اپنے شیخ کی خدمت میں ہر سالی حاضر ہوتے تو حضرت حکیم الامت آپ کا بڑی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کرتے، اور ان سے وعظ کہلواتے۔ مولانا بردوانی کا وعظ حکیم الامت کے وعظ کا پورا عکس ہوتا تھا اس لیے بہت زیادہ پسند کیا جاتا تھا ، وعظ کے بعد حضرت تھانوی مشفقانہ انداز میں تعریف کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ : ” ما شاء الله نظر بہت وسیع ہے "۔
(4) قرآن کی تلاوت اور احادیث شریفہ کے مطالعہ کا عجیب و غریب معمول تھا ، نماز اور غیر نماز میں روزانہ تلاوت کا تناسب ایک قرآن کی مقدار کے مساوی تھا ، اسی طرح بخاری شریف کے مطالعہ کا بھی معمول تھا اور اس ضخیم ذخیرۂ حدیث کو آپ نے کئی مرتبہ بالاستیعاب پڑھ لیا تھا ، آپ کے شاگردِ رشید مولانا ظفر احمد تھانوی (مصنفِ اعلاء السنن) نے لکھا ہے کہ : "میں نے وہ بخاری دیکھی ہے جس پر مولانا نے اپنی ختم بخاری کی ابتداء اور انتہا کی تاریخیں ضبط کی ہیں ، غالب ستر سے زیادہ ختم کی نشاندہی کی گئی ہے ، اور جو ختم اس سے پہلے کی ہیں ان کا شمار معلوم نہیں”
ماخوذ از: بزمِ اشرف کے چراغ