دو روز قبل مشہور ناشر کتب منشی نولکشور کی وفات کے بعد ہندو رسم ورواج کے مطابق کریا کرم کے موقعہ پر آپ کے جسد خاکی کے نہ جلنے کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی تھی، چونکہ سوشل میڈیا سے اس کی قسم کی چیزوں کو اس گروپ میں پوسٹنگ کو ناپسند کرنے کی پالیسی ابتدا سے چلی آرہی ہے، لہذا ہم نے اس کی تذکیر کردی تھی۔
اس کی قسم کی خبریں عام طور پر سوشل میڈیا پر مشہور ہونے یا اپنی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کی غرض سے پھیلائی جاتی ہیں، جس کا کوئی دینی یا علمی فائدہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس قسم کی خبروں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ ایک کے ساتھ ایسا ہوا ہے تو ایسے ہی دوسرے اشخاص کے ساتھ قدرت کا یہی معاملہ کیوں نہیں ہوتا؟۔
ہمیں ذاتی طور پر اس خبر سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی، لیکن ہمارے ایک عزیز اور معتبر دوست نے اطلاع دی کہ ایک ہماری بڑی ہی محترم اور محقق شخصیت نے جو اب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، ذاتی طور پر انہیں بتایا تھا کہ منشی نولکشور کے ایک بیٹے مسلمان ہوگئے تھے، اور وہ کراچی میں مقیم تھے۔
لہذا ہمیں اس مسئلے کی تحقیق میں تھوڑی سی دلچسپی ہوئی اور منشی جی کے حالات میں لکھی گئی اہم کتابوں کو چھاننے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ حسب ذیل نکلا۔
منشی نولکشور صرف اسلامی کتابوں کے ناشر نہیں تھے بلکہ انہوں نے کسی ایک مذہب کی کتابوں کی اشاعت کا اہتمام نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے ہندو، مسلمان بھارت میں بسنے والے جملہ مذاہب کی کتابوں کی اشاعت کرکے انہیں نئی زندگی دی ہے۔
محترمہ آصفہ زمانی صاحبہ نے اپنی نول کشور کے بارے میں شائع کردہ مجموعے کے آغاز میں ماہنامہ آج کل کا یہ اقتباس نقل کیا ہے۔
1857ء کی ناکام بغاوت کے بعد اگر سر سید احمد خان اور نول کشور ہندوستان کے تمدنی ورثے اور ذہنی بیداری کی حفاظت نہ کرتے تو شاید ہندوستان آج ترقی کی دوڑ میں اس طرح جدید اقوام کے ساتھ شا نے جوڑ کر نہ بڑھ سکتا، سر سید مغرب کے دلدادہ تھے اور ان کا اعتقاد تھا کہ مغرب کے نقش قدم پر چلنے میں ہندوستان کی نجات ہے، اس لیے علی گڑھ تحریک چلائی۔ اگر نول کشور ان بیش بہا خزانوں کی کھوج لگا کر طباعت کے ذریعے انھیں زندہ جاوید نہ بنا دیتے تو ۱۸۵۷ء کے بعد کی گڑ بڑ میں ان کی تباہی یقینی تھی۔ یہ ہمارے تمدن کا اتنا زبردست نقصان ہوتا کہ جس کی تلافی ممکن نہ تھی (ماہنامہ آج کل دہلی شماره ماه جون 1935ء)
منشی نول کشور کے مستند سوانح نگار امیر حسن نورانی لکھتے ہیں کہ:
19 فروری 1895 میں منشی نولکشور نے وفات پائی ، وہ نہایت تندرست وفات وتوانا تھے ۔ انتقال سے پہلے کسی مرض میں مبتلا نہیں ہوئے۔ اچھے پھلے تھے اور اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے تھے کہ اچانک طبیعت بگڑی طبی مدد پہونچنے کا موقع بھی نہ ملا اور روح نے جسد خاکی کو الوداع کہا۔ اس وقت ان کی عمر انسٹھ سال کی تھی اگر قضا نے چند سال اور مہلت دی ہوئی تو ان کے کارناموں کی داستان عالمگیر حیثیت اختیار کرلیتی ۔ ان کی اچانک موت ملک وقوم اور علمی و ادبی دنیا کے لئے ایک عظیم سانحہ تھا۔ سارے ملک میں ان کا سوگ منایا گیا ۔ بے پناہ ہجوم کے باعث اسپیشل ٹرین کے ذریعہ کانپور لے جایا گیا جہاں دریائے گنگا کے کنارے آخری رسوم ان کے صاحبزادے منشی پراگ نرائن کے ہاتھوں ادا کی گئیں .( منشی نولکشور حالات اور خدمات۔ ۷۹)
آپ کی اولاد اور بعد کے حالات کے بارے میں لکھا ہے کہ
"ان کی کوئی اولاد نہ تھی،اپنے حقیقی بھتیجے منشی پراگ نرائن کو متبنی بیٹا بنایا تھا۔ وہی نو کشور کے جانشین ہوئے ۔ انکے عہد میں بھی مطبع ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔ اور ہزاروں نئی کتابیں شائع ہوئیں اور اودھ اخبار اسی آب وتاب سے شائع ہوتا رہا۔ منشی پراگ نارائن کی وفات کے بعد ان کے بیٹے منشی بشن نرائن نے مطبع کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا۔ اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلے لیکن زندگی نے وفا نہ کی ، صرف سال کی عمریں اچانک وفات پانی اور مطیع کا انتظام حکومت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کیونکہ منشی بشن نرائن کے دونوں بیٹے نابالغ تھے۔ جب بڑے بیٹے رام کمار سن بلوغ کو پہنچے تو مطبع کا کاروبار سنبھالا۔ اور پوری توجہ سے سابقہ روایات کے مطابق کام کیا۔ لیکن بدقسمتی سے 1949ء میں دونوں بھائیوں میں اختلاف رونما ہوا اور عظیم مطبع اور اس کا گرانقدر سرمایہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور یہ تقسیم اس تاریخی مطیع کے زوال کا باعث ثابت ن ہوئی۔ (85)
اور علامہ سید سلیمان ندوی نے منشی نول کشور کے بارے میں لکھا ہے کہ
"سب سے آخر میں لکھنو کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی برس کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نولکشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد 1858ء میں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم و فنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتا ہیں اس مطبع نے شائع کیں ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق میں کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔(نقوش سلیمانی ۔77)
ہمیں امید ہے کہ اس بحث کے بعد مزید کسی بحث کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
عبد المتین منیری(بھٹکل۔ کرناٹک)
2024-07-17
(علم وکتاب ٹیلگرام چینل)