از قلم : مولانا محمد عابد صاحب اعظمی
دنیا میں کچھ شخصیتیں جامع الکمالات ہوتی ہیں ، الله تعالی کو جن اشخاص سے اپنے دین کا کام لینا ہوتا ہے اور جن سے اپنے بندوں کو نفع پہونچانا مقصود ہوتا ہے ، ان میں وہ تمام مطلوب عناصروافر مقدار میں جمع کر دیتا ہے جو راہ وفا میں ثابت قدمی کے ساتھ حصول مقصد کے لئے ناگزیر ہیں، ابتداء ہی سے آزمائش و امتحان کی بھٹی میں تپاکر شخصیت کے ہر پہلو کو اتنا پختہ اور صیقل بنادیتا ہے کہ زمانہ ان کی ہمت وعظمت اور صلابت و استقامت کی شہادت دینے پر مجبورہوجاتا ہے، زمانہ ان کونہیں بناتا بلکہ یہ زمانے کو اپنا بنا کر اسے اپنے معیار پرڈھالتے اور کام لیتے ہیں :
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
(جگر مرادآبادی )
حضرت مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ انہیں با توفیق برگزیدہ بندگان خدا میں سے تھے جنہیں قدرت نے ہر اعتبار سے جامع الکمالات اور منبع الفضائل بنایا تھا، تعلیم و تدریس، تحریر وتقریر، تصنیف و تالیف ، اصلاح و ارشاد، تربیت و رجال سازی ، وعظ و تبلیغ، نصح و خیر خواہی، فیض بخشی ونفع رسانی ، ہر پہلو سے نمونہ کے انسان تھے، تعلیم و تدریس میں یکتا ، تصنیف و تالیف میں یگانہ ، اصلاح و ارشاد میں مرشد کامل ، تربیت در جال سازی میں ممتاز ، وعظ تبلیغ میں بے مثل، نصح و خیر خواہی میں باعث رشک ، اور فیض بخشی اورنفع رسانی میں اپنی مثال آپ تھے ۔
(نام ونسب اور پیدائش)
نام اعجاز احمد اعظمی بن قاضی محمد شعیب کوثر بن قاضی عبدالحق بن حافظ محمد طاہر بن پُردل ہے ۔تاریخی نام نعیم اخترہے، ۲۸/ ربیع الثانی ۱۳٧۰ھ مطابق ٥/ فروری ۱۹۵۱ء بروز دوشنبہ بوقت تین بجے شب آبائی وطن موضع بھیرہ ولید پورضلع مئو (سابقہ ضلع اعظم گڈھ) یوپی میں پیدا ہوئے۔
(ابتدائی تعلیم)
۱۲/ ربیع الثانی ۱۳٦۲ھ مطابق ٢٦/ نومبر ١٩٥٦ء بروز دوشنبہ آپ کی بسم الله کرائی گئی، باقاعدہ مکتب میں داخلہ ١۲/مئی ۱۹۵۸ ء مطابق شوال ۱۳۷۷ھ میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن بھیرہ کے مدرسہ رحیمیہ میں حاصل کی، ۳۰ جون ۱۹۶۴ء کو پرائمری درجہ پانچ کا امتحان دیا اورپرائمری درجات کی تعلیم مکمل کی۔
( فارسی و عربی درجات کی تعلیم )
فارسی اور عربی اول کی تعلیم وطن ہی میں مولانا عبدالستار صاحب علیہ الرحمہ اور ان کے صاحبزادے مولانا عزیز الرحمان صاحب مدظلہ سے حاصل کی، اس کے بعد۱۹٦٦ء مطابق شوال ۱۳۸۴ھ میں جامعہ عربیہ احیاء العلوم مبارک پور میں داخل ہوئے اور درجہ عربی دوم سے عربی پنجم تک چار سال یہاں تعلیم حاصل کی۔ یہاں کی تعلیم کا دورانیہ شوال ۳۸۴ا ھ تا شعبان ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۹٦٦ء تا ۱۹٦٩ء رہا ہے۔
اس کے بعد اعلی تعلیم کیلئے شوال ۱۳۸۸ھ مطابق ۱۹٦٩ء میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے ، امتحان داخلہ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لیا اور نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کی،جدید طالب علم ہونے کے باوجود آپ کی غیر معمولی صلاحیت کی وجہ سے مولانا نے عربی تکلم وانشاء کے درجہ ”صف ثانوی” میں آپ کو داخل کیا، دیوبند میں چند ماہ گزرے تھے کہ ایک ہنگامے کی وجہ سے دارالعلوم چھوڑنا پڑا، اس کےبعد چند ہفتے مدرسة الاصلاح سرائے میر میں زیر تعلیم رہے، دورۂ حدیث شریف کے لئے مدرسہ حسینیہ چلہ امروہہ تشریف لے گئے اور ۱۳۹۱ھ مطابق ١٩٧١ء میں رسمی فراغت حاصل کی، مدرسہ حسینیہ چلہ امروہہ کے زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ سے آپ نے ادیب ماہر کا امتحان دیا اور پہلی پوزیشن سے کامیابی حاصل کی۔
(تبلیغی جماعت میں چلہ اور حفظ قرآن کریم)
فراغت کے بعد بنگال کے ضلع بردوان میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ایک چلہ لگایا، جنوری ۱۹۷۱ء کے آخری دہائی میں چلہ پورا کرنے کے بعد اپنے وطن بھیرہ میں ١٦ مہینے رہے، اسی دوران گھر کے کاموں کے ساتھ قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور ساتھ ساتھ گاؤں کےنوجوانوں کو قرآن شریف کا ترجمہ پڑھاتے رہے۔
حفظ قرآن کریم کے لئے اوقات کی جو ترتیب بنائی تھی، وہ کچھ اس طرح تھی، رات کو دوبجے کے بعد اٹھ جاتے اور جتنا یاد کر چکے ہوتے اس کا کچھ حصہ تہجد میں پڑھتے ، پھر ایک پاؤ ياد کرتے اور فجر کی نماز پڑھ کر اسے پختہ کر کے اپنے استاذ حافظ احمد کریم صاحب کو ان کے گھر جا کرسناتے ، اس کے بعد چار گھنے گھر کے کاموں میں مشغول رہتے، ظہر کی نماز کے بعد پھر قرآن کا دورکرتے اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے ، عصر کی نماز کے بعد اپنے استاذ مولانا عبدالستارصاحب کی خدمت میں حاضری دیتے، مغرب کی نماز کے بعد گاؤں کے نوجوانوں کو ترجمہ قرآن پڑھاتے اور یاد کراتے ، عشاء کی نماز کے بعد فوراً سو جاتے ، اس نظام الاوقات کے ساتھ چھ مہینے میں حفظ قرآن مکمل کیا۔
(تدریسی زندگی)
درس و تدریس کی ابتدا مدرسہ حسینیہ چلہ امروہہ کی عارضی مدرسی سے کیا، اس کے بعداپنے اساتذہ کے حکم سے میسور تشریف لے گئے اور ربيع الآخر ١٣٩٢ھ سے شعبان ۱۳۹۲ھ تک میسور شہر میں ایک مسجد میں امامت وخطابت اور وعظ وتقریر کا فریضہ انجام دیا ، پھر جامعہ اسلامیہ ریوڑی تالاب بنارس کے ذمہ داروں کے غیر معمولی اصرار پر وہاں کی
مدرسی منظور کر لی اور شوال ۱۳۹٢ھ سے شعبان ۱۳۹۳ھ تک یہاں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔
جامعہ اسلامیہ میں ایک سال قیام کے بعد ۱۳۹۳ھ مطابق ۱۹۷۳ء میں مدرسہ دینیہ غازی پور تدریس کے لئے تشریف لے گئے، وہاں آپ نے دو مرحلوں میں نو سال تدریسی خدمات انجام دیں، پہلے مرحلے میں ۱۳۹۳ ھ مطابق ۱۹۷۳ء سے ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹٧٧ء تک اور دوسرے مرحلے میں ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء سے ۱۴۰٦ھ مطابق ۱۹۸۶ءتک وہاں قیام رہا۔
مدرسه دینیہ کے زمانہ قیام میں مصلح الامت حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نوراللہ مرقدہ کی خانقاہ وصی اللہی الہ آبادکے ذمہ داروں کے اصرار پر خانقاہ کےتحت چلنے والے مدرسہ مدرسہ وصية العلوم الہ آباد تدریس کے لئے تشریف لے گئے ، تدریس کے ساتھ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کی سوانح حیات "حيات مصلح الامت‘‘ کی تصنیف کا کام قیام کا ایک سبب تھا، اس کے ساتھ مدرسه دینیہ کی تعلیمی نگرانی بھی آپ کے سپر د تھی ۔ مدرسہ وصیت العلوم اللہ آباد کی عارضی مدرسی ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۹۷۷ء سے ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۸۱ء تک چار سال رہی ، پھر آپ با ضابطہ مدرسہ دینیہ سے مسلک ہو گئے۔
۱۴۰۶ھ مطابق ۱۹۸۶ء میں مدرسہ دینیہ سے علیحدگی کے بعد مدرسہ ریاض العلوم گورینی جون پور تشریف لے گئے ۔ یہاں ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء تک چار سال قیام رہا، پھر وہاں کچھ ایسے احوال پیش آئے کہ آپ نے گورینی کو خیر باد کہ دیا ، اور اپنے استاذ مولانامحمد مسلم صاحب بمہوری کے حکم پرشوال ۱۴۱۰ھ مطابق ۱۹۹۰ء میں مدرسہ شیخ الاسلام شیخو پور تشریف لائے ، یہاں آپ نے اپنی زندگی کے قیمتی ۲۴ ر سال گزارے۔ جب آپ یہاں تشریف لائے تھے تو یہ مکتب سے زیادہ کچھ نہ تھا، علمی تعلیمی اور تعمیری ہر لحاظ سے سناٹا تھا۔ مسجد بن کر کھڑی تھی ، اس کے مشرق میں ایک لمبی چوڑی گڑھی تھی، گڑھی کے جنوبی حصے میں دو تین کھپریل کے کمرے تھے مشرقی حصے میں چھ کمرے نیچے اور کچھ کمرے اوپر کا ایک ڈھانچہ کھڑا تھا، شمال جانب میں ایک ادھورا سا کھپریل کا مطبخ تھا۔ تعلیم کے نام پر بیس پچیس طلبہ حفظ کے اور چار پانچ طلبہ عربی کے تھے۔ مکتب میں گاؤں کے بچے تعلیم کے وقت آتے اور چھٹی کے بعد چلے جاتے۔ یہی کل کائنات تھی۔ وسائل کی کمی اور بے سرومانی تھی، پھر آپ کی محنت جد و جہد اور لگن سے عربی درجات پنجم تک قائم ہوئے، تعلیم و تعلم کا خوشگوار ماحول بنا، مدرسہ نے تعلیمی اور تعمیری لحاظ سے ترقی کی، دور دور تک اس کا شہرہ پہونچا، اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک معمولی مدرسہ سے ملک کا معروف ادارہ بن گیا۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبہ نے ملک و بیرون ملک میں اس کے اعتبار و وقار میں اضافہ کیا۔ یہ خوشگوار انقلاب تمام تر حضرت مولانا کی مخلصانہ جدو جہد کا ثمرہ تھا، جو اس ادارہ کے گوشہ گوشہ چپہ چپہ سے عیاں ہے، اس کے لئے الگ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔لیکن حالات کی ستم ظریفی اور قلب و نظر کی کم ظرفی دیکھئے کہ جس اداره کو ۲۴/ سال تک اپنے خون جگر سے سینچا تھا اس میں ایسے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ مجبوراً آزردہ دلی کے ساتھ اسے چھوڑنا پڑا، اور فتنوں سے دامن بچا لینے ہی میں دین ودنیا کی عافیت محسوس کی۔ اور ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۰۱۳ء میں اس سے مکمل کنارہ کش ہو کر اپنے قائم کردہ مدرسہ سراج العلوم چھپرا ضلع مئو میں مستقل اقامت اختیار کر لی۔
رمضان ۱۴۳۴ھ میں آپ یہاں تشریف لائے، اور اس مدرسہ کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا،عربی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا، تعلیم و تعلم کی باد بہاری چلنے لگی، لیکن وقت نے مہلت نہ دی محض چند مہینوں کے بعد حق جل مجدہ کی طرف سے بلاوا آ گیا اور آپ ۲۲ روی قعد ۱۴۳۴۰ مطابق ۲۸ ستمبر ۲۰۱۳ بروز اتوار ، رات ١١/بج کر ۲۰ منٹ پر مالک حقیقی کے حضور پہونچ گئے۔ رحمه الله رحمة واسعة
بیعت و سلوک
حضرت مولانا کا تصوف و سلوک کی طرف رجحان ابتدائے شعور سے تھا۔ خود فرماتے ہیں کہ
"میرا خیال ہے کہ جب سے شعور ہوا ہے، اپنے دل میں تصوف و احسان کا ذوق پاتا ہوں ، میرا دل اہل اللہ اور بزرگان دین کی محبت سے کبھی خالی نہیں رہا۔ مجھ کو جہاں تک یاد ہے میرے دل کو روحانی دنیا میں سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی محبت ملی”(حکایت ہستی/٣٠٤)
فراغت کے بعد تبلیغی جماعت کے دورہ سے جب واپس آئے اور حضرت مجدد الف ثانی کے مکاتیب ، امام غزالی کی کیمیائے سعادت اور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی کی فتوح الغیب کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں ایک نئی بے چینی پیدا ہوئی اور دل میں آگ لگی کہ کسی بزرگ اور اللہ والے کے قدموں میں پامال ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے اپنے علاقے کے جلیل القدر بزرگ حضرت مولانا حکیم منیر الدین صاحب علیہ الرحمہ امام وخطیب جامع مسجد مئو سے بیعت ہوئے ، اس کے بعد حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب کے خلیفہ و جانشین حضرت مولانا قاری مبین احمد صاحب نور اللہ مرقدہ سے اصلاحی تعلق قائم کیا، پھر سندھ پاکستان کے مشہور بزرگ عالم ، سلسلہ قادریہ کے نامور شیخ حضرت مولانا شاہ حماد اللہ صاحب ہالیجوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے تلمیذ رشید عارف باللہ حضرت مولانا عبد الواحد صاحب نور اللہ مرقدہ بانی و مہتمم جامعہ حمادیہ کراچی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور ان سے اجازت و خلافت حاصل کی۔
اپنے شیخ کے حکم پر آپ بھی سائلین راہ طریقت کی تربیت اور اصلاح وارشاد کے لئے بیعت کیا کرتے تھے۔ نہ جانے کتنے گم کردہ راہ آپ کی نظر کیمیا اثر سے جادہ حق پر گامزن ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی حلاوت سے سرشار ہوئے ۔
درس قرآن کا سلسلہ:
حضرت مولانا نے اللہ تعالی سے دعا کی تھی کہ تا زندگی قرآن کریم سے اشتغال اور اس کی خدمت کی توفیق عطا ہو۔ اللہ نے یہ دعا قبول کی اور تادم واپسیں کسی نہ کسی عنوان سے یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ سالہا سال تک رمضان المبارک میں اپنے گاؤں بھیرہ میں نماز تراویح کے بعد ایک بڑے مجمعے کے سامنے قرآن کریم کی تفسیر بیان کرتے رہے، یہ سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے چلتا رہا تا آنکہ آپ نے رمضان میں گاؤں میں قیام کرنا ترک کر دیا اور شیخو پور میں کچھ عوارض کی وجہ سے قیام کو ترجیح دی۔ پھر ۱۴۰۱ھ مطابق ۱۹۹۰ ء سے اعظم گڑھ شہر کی جامع مسجد میں ہر اتوار کو بعد نماز مغرب درس قرآن کا سلسلہ شروع فرمایا، جوتا وقت وفات بغیر کسی تخلف کے مسلسل جاری رہا۔
آپ درس قرآن کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے، اور اتوار کے دن کہیں دور کا سفر نہیں فرماتے تھے،جہاں بھی ہوتے ، درس قرآن کے وقت حاضر ہو جاتے تھے۔ شہر کے لوگوں نے اس سے خوب خوب استفادہ کیا عوام ہوں یا تعلیم یافتہ طبقہ سب نے فائدہ اٹھایا اور اس سے زندگیوں میں صالح انقلاب پیدا ہوا۔ دین سے برگشتہ نہ جانے کتنے لوگوں نے اس کی برکت سے اپنی زندگی کو دین سے جوڑا اور دینداری کے رنگ میں رنگ گئے۔
وعظ و تقریر:
حضرت مولانا کو اللہ نے زبان وبیان کی بے پناہ قوت وصلاحیت سے نوازا تھا،اور ان کے وعظ و بیان اور تقریر وخطابت میں بلا کی تاثیر رکھی تھی ، زبان سے نکلے ہوئے الفاظ براہ را ست دلوں پر اثر کرتے اور خوابیده جذبات و احساسات کو مہمیز کرتے ، سادہ زبان اور آسان اسلوب میں خطابت کے
روایتی آہنگ سے ہٹ کر بیان کرنے کا ایک خاص انداز تھا جس میں داعی کا خلوص، مفکر کا جذب دروں ، صاحب دل کا سوز اور مجاہد کا آہنگ صاف جھلکتا ہوا محسوس ہوتا تھا ، زبان و بیان کی سادگی و پر کاری کے ساتھ علمی استحضار کا یہ عالم تھا کہ ایک موضوع اور عنوان پر ہفتہ عشرہ بیان فرماتے اور مضامین کا تکرار نہ ہوتا، خواص کی مجلس ہو یا عوام الناس کا مجمع ، جس موضوع پر گفتگو فرماتے ، اس کا حق ادا کر دیتے اور سننے والا
مطمئن ہو کر عمل و اصلاح کا جذ بہ لے کر اٹھتا، حضرت مولانا علیہ الرحمہ کی تقریروں اور بیانات کو محفوظ کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا ، کاش کہ ایسا ہوتا تو ایک بڑا علمی و اصلاحی ذخیرہ لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچتا ۔ البتہ جو چند خطبات اور بیانات خوش قسمتی سے محفوظ کر لیے گئے تھے ، انھیں نقل کر کے دو جلدوں میں "خطبات ِاعجاز”کے نام سے مرتب کرکے شائع کردیا گیا ہے۔
تصنیفی و تالیفی خدمات:
حضرت مولانا علیہ الرحمہ نے زمانہ طالب علمی ہی میں مضمون نگاری شروع کردی تھی ، پڑھنے اور مطالعہ کرنے کا شوق چونکہ جنون کی حد تک تھا اور ساتھ ہی ذہن بھی بہت تیز اور اخاذ تھا، اس لئے کتاب کے تمام مضامین مستحضر ہو جاتے ، اور اسی کی روشنی میں مضمون لکھا کرتے تھے ، عربي چہارم کی طالب علمی کے زمانے میں علامہ شبلی نعمانی کی سیرت النبی زیر مطالعہ تھی، اس سے اخذ کر کے متعدد موضوعات پر چھ سات تقریریں لکھیں ، اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا، تاآنکہ رسمی تعلیم سے فراغت کے بعد اشہب قلم نے جو تیزی دکھائی تو وفات کے وقت تک اس کی رفتار میں کمی نہ آئی ، اس درمیان ہزاروں صفحات پر اس کی جولانیوں نے نقش و نگار اور گل بوٹے بنائے ۔اور مختلف موضوعات پرسینکڑوں مضامین اور درجنوں کتابیں منصۂ شہود پر آئیں اور عام و خاص میں یکساں طور پر مقبول ہوئیں ۔
رسائل وجرائد کی ادارت:
محدث کبیر ابوالماثر حضرت مولانا حبیب الرحمان الاعظمی نوراللہ مرقدہ متوفی ۱۴۱٢ھ کی وفات کےبعد ان کے علوم و معارف کی اشاعت کے لئے ان کی یادگار میں سہ ماہی مجلہ "الماثر‘‘ مئو کا اجرا ہواتو اس کی ادارت کے لئے نظر انتخاب آپ پرپڑی،چنانچہ آپ کی ادارت تحریر میں یہ مجلہ ۱۴۱۳ھ مطابق ۱۹۹٢ء میں پوری شان و شوکت کے ساتھ منصہ شہود پر آیا۔ اداریہ نویسی سے لے کر مضامین کی فراہمی ، اس کی ترتیب و ایڈیٹنگ کی ذمہ داری پوری تندہی کے ساتھ بحسن وخوبی آپ نےانجام دیا اورعلمی دنیا میں اس کی ایک شناخت بنائی، جب تک امراض و عوارض اور دیگر مصروفیات نے اپنی گرفت میں نہیں لیا، مسلسل اس کے لئے مضامین و مقالات اور اداریئے لکھتے رہے اور اس درمیان آپ کے نوک قلم سے صد ہا مضامین و مقالات، تبصرے،وفيات وجود میں آئے۔
"الماثر”کی ادارت کے ساتھ ساتھ ۱۴۱٦ھ مطابق ۱۹۹٦ء میں جب جامعہ عربیہ انوار العلوم جہاناگنج اعظم گڈھ سے ایک ماہنامہ "انوارالعلوم” کے نام سے جاری ہوا،تو اس کی ادارت کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہوئی ، یہ رسالہ عوام الناس کی دینی ضرورت کے تحت نکلنا شروع ہوا تھا، اس میں مختلف دینی موضوعات پر عام فہم مضامین ہوتے تھے، جس سے عوام وخواص سب مستفید ہوتے تھے، یہ رسالہ زیادہ دنوں تک
جاری نہ رہ سکا اور تقریبا ڈیڑھ سال نکل کر بند ہو گیا۔
ماہنامہ "انوارالعلوم”کے بند ہونے کے بعد لوگوں کے شدید تقاضے پر مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور سے ۱۴۲۰ھ مطابق ۲۰۰۰ء میں پہلے ” الاسلام” پھر "ضیاء الاسلام” کے نام سے ماہانہ رسالہ کا اجرا ہوا، اس رسالے کا اداریہ اور غالب حصہ حضرت مولانا کے مضامین و مقالات پر مشتمل ہوتا تھا، جب تک دست و بازو میں قوت رہی، اور امراض و عوارض نے اپنے آہنی شکنجوں میں نہیں جکڑا تھا، مسلسل اس کے لئے مضامین لکھتے رہے، اخیرعمر میں جب کہ بیماریوں نے مکمل اپنے حصار میں لے لیا تو یہ رسالہ بھی اپنی زندگی کا وقت پورا کر کے بند ہوگیا۔
تبلیغی واصلاحی خدمات:
حضرت مولانا علیہ الرحمہ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی،تاحیات درس و تدریس،تصنیف وتالیف،وعظ وتقریر،تصوف وتزکیہ،اصلاح وارشاد کے ذریعے بندگان خدا کی خدمت میں مصروف رہے، ان کی ساری جد و جہد کا محور اخلاص پر مبنی رضاے الہی تھا، بندگان خدا کو راہ حق پر گا مزن کر نے، خدا کی معرفت سے روشناس کرانے اور بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لانے کے لیے اپنی پوری زندگی صرف کردی،اس کے لیے ملک کے دور دراز ایسے علاقوں میں بھی تشریف لے گئے جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات و سہولیات یکسر مفقود ہیں، بہار اور جھارکھنڈ کے دور افتادہ علاقے آپ کی جد و جہد کی ابتدائی جولان گاہ تھے ، جہاں ہفتوں مہینوں قیام کر کے رشد و ہدایت کے چراغ روشن کیے اور وعظ و ارشاد کے ذریعے مردہ دلوں میں ایمان ویقین کی شمعیں روشن کیں۔
وفات:
مولانا کی وفات ۲۲ ذی قعدہ ۱۴۳۴ھ مطابق ۲۸ ستمبر ۲۰۱۳ء بروز اتوار رات ۱۱/بج کر ٢٠/منٹ پرہوئی۔ دن میں بالکل ٹھیک تھے معمول کے مطابق سارے کام کئے ، طلبہ کو سبق پڑھایا ، عصر کے بعد اساتذہ کے ساتھ معمول کے مطابق چائے بھی پی، مغرب سے کچھ پہلے طبیعت بگڑی اور پھر بگڑتی چلی گئی، ڈاکٹر کو بلایا گیا، اس نے فورا مئوشہرمیں ہاسپٹل لے جانے کا مشورہ دیا،فوراً مئو لے گئے،ہاسپٹال میں بمشکل پانچ منٹ زندہ ر ہے۔ ڈاکٹروں نے ہاتھ لگایا تو روح پرواز کر چکی تھی۔ انا لله وانا الیہ راجعون۔
جنازه و تدفین:
وفات کی خبر اسی وقت جنگل کی آگ کی طرح ملک و بیرون ملک پھیل گئی ، رات ہی میں خاصی تعداد میں لوگ چھپرا پہونچ گئے ۔ جنازہ کی نماز بعد نماز ظہر تین بجے رکھی گئی۔ احقر نے جنازہ کی نماز پڑھائی، علما، طلباء، صلحاء اور عوام کے ایک جم غفیر نے جنازہ میں شرکت کی ، جن کی تعداد تقریبا تیس ہزار تھی۔ اعظم گڑھ مئو ، جون پور ، غازی پور، بلیا، بنارس ، چند ولی اور یوپی کے دیگر اضلاع کے علاوہ بہار ، دہلی ہمبئی اور دور دراز کے علاقوں سے لوگ آئے اور جنازہ میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔تدفین مدرسه سراج العلوم سراج نگر چھپرا ضلع منو کی مسجد کے زیر سایہ مولانا کے مکان سے متصل مولانا کی مملوکہ زمین میں عمل میں آئی، اور علم و عرفان کا آفتاب و ماہتاب منوں خاک کے نیچے ابدی نیند سو گیا –
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
تصنیفات و تالیفات:
(1) تسهيل الجلالین شرح اردو جالین شریف ( جلد اول )
(۲) حدیث دوستان ( دینی و اصلاحی اور علمی وادبی مکاتیب کا مجموعہ )
(۳) کھوئے ہوؤں کی جستجو ( مختلف شخصیات پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ )
(۴) حیات مصلح الامت ( حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب اعظمی کی مفصل سوانح)
(۵) مدارس اسلامیہ مشورے اور گزارشیں ( مدارس سے متعلق مضامین کا مجموعہ )
(٦) بطواف کعبه رفتم (سفر نامہ حج ) حرمین شریفین کے سفر کی روداد
(۷) تہجد گزار بندے ( تہجد کی اہمیت وفضیات اور تہجد گزار بندوں کا تفصیلی تذکرہ)
(۸) علوم و نکات ( مجموعہ مضامین )
(۹) ذکر جامی ( ترجمان مصلح الامت مولا نا عبد الرحمن جامی کے حالات زندگی )
(۱۰) حضرت چاند شاہ صاحب اور ان کا خانوادہ تصوف ( حضرت چاند شاه صاحب ٹانڈوی اور ان کے خلفاء کے حالات )
(11) تذکرہ شیخ ہالیجوی (سندھ کے معروف شیخ طریقت و عالم حضرت مولانا حماد اللہ صاحب هاليجوی کا مفصل تذکرہ)
(۱۲) حیات سراج الامت ( حضرت مولانا سراج احمد صاحب امروہوی کی سوانح حیات )
(۱۳) نمونے کے انسان (بزرگان دین کے واقعات و حکایات کا مجموعہ )
(۱۴) مودودی صاحب اپنے افکار و نظریات کے آئینہ میں ( مولانا بنوری کی عربی کتاب الاستاذالمودودی کا ترجمہ)
(۱۵) حکایت هستی ( خود نوشت سوانح ، ابتداء حیات سے اختتام طالب علمی تک )
(۱۲) کثرت عبادت عزیمت یا بدعت؟ (علامہ عبد الحی لکھنوی کی کتاب "إقامة الحجة على أن الإكثار فى التعبد ليس ببدعة”كی ترجمانی)
(۱۷) قتل ناحق قرآن وحدیث کی روشنی میں
(۱۸) تعویذات و عملیات کی حقیقت و شرعی حیثیت
(۱۹) شب برات کی شرعی حیثیت
(۲۰) اخلاق العلماء ( علماء کے لیے خاص چیز )
(۲۱) دینداری کے دو دشمن ( حرص مال و حب جاہ پر ایک تحریر )
(۲۲) فتنوں کی طغیانی (ٹی وی پر ایک فکر انگیز تحریر )
(۲۳) اہل حق اور اہل باطل کی شناخت
(۲۴) مالی معاملات کی کمزوریاں اوان کی اصلاح
(۲۵) منصب تدریس اور حضرات مدرسین
(۲۶) حج و عمرہ کے بعض مسائل میں غلو اور اس کی اصلاح
(۲۷) برکات زمزم ( ماء زمزم کی فضیلت و اہمیت کا بیان )
(۲۸) تصوف ایک تعارف
(۲۹) خواب کی شرعی حیثیت
(۳۰) تکبر اور اس کا انجام
(۳۱) تذکرہ مولانا عبد القیوم فتح پوری
(۳۲) تسهیل المیبذی
(۳۳) حدیث درد دل ( مجله المآثر و ماہنامہ ضیاء الاسلام کے اداریوں کا مجموعہ )
(۳۴) مسئلہ ایصال ثواب ! ایک ذہنی طغیانی کا احتساب
(۳۵) المد التعظيمي لاسم الجلالة، اذان میں لفظ اللہ پر مد کرنے کی تحقیق
(۳۶) اذ کار سلسله قادریه(سلسلہ قادریہ حمادیہ کی تعلیمات اور اوراد و اشغال کا مجموعہ)
(۳۷) رمضان المبارک۔ نیکیوں کا موسم بہار
(۳۸) مروجہ جلسے ! بے اعتدالیاں اور ان کی اصلاح
(٣٩) خطبات اعجاز (دو جلدیں)
(٤٠) كاروان حرم (وقائع سید احمد شہید سے سید صاحب کے سفرحج کی داستان کا انتخاب وترتیب)
(٤١)احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن (مولانا سید مناظر احسن گیلانی کی سرگزشت کی ترتیب وتدوین)
حضرت مولانا کی حیات وخدمات سے متعلق کتابیں:
(١) سراپا اعجاز (مختلف اہل علم وقلم کے مضامین ومقالات کا مجموعہ)
(٢) مجلہ”عکس” نوتنواں کی خصوصی اشاعت "مولانا اعجاز احمد اعظمی نمبر”
(٣)تذکرہ مولانا اعجاز احمد اعظمی نور اللہ مرقدہ (مفتی اختر امام عادل قاسمی)
(٤) ششماہی مجلہ "فیض شیخ الہند” انجان شہید کا خصوصی گوشہ بیاد مولانا اعجاز احمد اعظمی علیہ الرحمہ
(٥)سالانہ مجلہ "الاعجاز” بیادگار مولانا اعجاز احمد اعظمی نور اللہ۔
زیر انتظام: مدرسہ اشاعت العلوم ،فتح پور، سکندر سٹی ریلوے اسٹیشن ضلع غازی پور۔