(قسط: 1)
*طارق شفیق ندوی*
مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی ندوی حفظہ اللہ بیک وقت ایک ذی استعداد و مشفق مدرس ، ایک کامیاب و مؤثر خطیب ، ایک اچھے انشاء پرداز و ادیب ہیں۔ انھیں دارالعلوم دیوبند کا تابندہ سیارہ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کا درخشندہ ستارہ کہا جانا مبالغہ نہ ہوگا. موصوف عالمانہ وقار ، داعیانہ کردار ، استغناء عن الخلق اور استقامت علی الحق کے ساتھ کامیاب زندگی گزار رہے ہیں . ان کی کتاب زندگی کے اوراق نیرتاباں کی طرح درخشاں ہیں اور ان کی تدریسی خدمات کے تابندہ نقوش مفید ، کار آمد اور نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں .
مولانا ضیاء الدین صاحب 05 / اگست 1957 کو اترپردیش کے انتہائی زرخیز و مردم خیز قصبہ خیرآباد ، ضلع مئو میں پیدا ہوئے . *خیرآباد* مئو ، اعظم گڑھ کے درمیانی مسافت اور مرکزی شاہ راہ پر واقع ہے . یہ ایک مشہور صنعتی قصبہ ہونے کے ساتھ ساتھ علم و فضل کا عظیم گہوارہ بھی ہے . سابق نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ( 1992 تا 1997 ) مولانا مفتی حبیب الرحمان صاحب مظاہری حفظہ اللہ ( ولادت 11/اگست 1933 ) امام النحو مولانا نذیر احمد خیرآبادی رحمہ اللہ کے فرزند رشید کا تعلق بھی اسی اہل جنوں کی بستی سے ہے ، اس کے علاوہ مولانا امتیاز احمد صاحب قاسمی رحمہ اللہ سابق صدر المدرسین مدرسہ عربیہ منبع العلوم ( وفات 2005 ) ، صاحب دیوان شاعر جناب فضل حق عارف حفظہ اللہ ، ڈاکٹر مولانا ابواللیث قاسمی حفظہ اللہ ( حال مقیم ملیشیا ) ، جید عالم دین اور صاحب ورع و تقویٰ مولانا حفیظ الرّحمان قاسمی ، ندوی ، مدنی حفظہ اللہ ، صاحب طرز نثر نگار و صحافی ، مستند قلم کار و مصنف مولانا ضیاء الحق قاسمی عرفیت حاجی بابو ( ولادت 04/اکتوبر 1975 ) اسی اہل خرد اور اہل علم و عرفاں کی بستی کے گوہر درخشاں ہیں .
مولانا ضیاء الدین صاحب کے والد ماجد علیہ الرحمہ کا نام محمد حسن ابن محمد عمر تھا . 1973 میں برین ہمریج کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ کر گئے . والدہ ماجدہ کا نام سائرہ خاتون تھا . وہ بھی 30 / نومبر 2013 کو نوے سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں . آسماں ان دونوں کی قبروں پر شبنم افشانی کرے اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو جنت نعیم میں جگہ عطاء فرمائے . آمین
مولانا ضیاء الدین صاحب کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں ان کے بڑے بھائی جناب شہاب الدین مرحوم ( وفات 18/ ستمبر 2019 ) کا بڑا دخل تھا . بوجوہ خاص انھوں نے متوسطات تک کی تعلیم کے لئے اپنے وطن عزیز خیرآباد ، اعظم گڑھ ( حالیہ ضلع مئو ) کے مدرسہ عربیہ منبع العلوم کو ترجیح دی ، جہاں مولانا نذیر احمد صاحب خیرآبادی ، مولانا قمر الدین صاحب رسول پوری ، مولانا امتیاز احمد صاحب خیرآبادی رحمہم اللہ جیسے بے لوث و مخلص اساتذہ کرام کی سرپرستی میں مولانا ضیاء الدین صاحب کو منزل بہ منزل کامیابی ملتی چلی گئی . لیکن ان کو علم ومعرفت سے گہرا لگاؤ تھا اور تعلیم و تعلم سے کچھ زیادہ ہی رغبت و شوق تھا اور ان کے اندر اپنی مطلوبہ منزل کو پالینے کا حد درجہ جنون ، جذبہ ، اور لگن تھا ، دن رات محنت کی ، خوب خوب استفادہ کیا اور اپنا نام ذہین ، باصلاحیت اور وسیع النظر و ہونہار طلبہ میں درج کرایا . یہاں تک کہ مدرسہ کے مثالی طالب علم کی حیثیت سے مشہور و معروف ہوگئے .
اس کے بعد اعلٰی تعلیم کے لئے ماہ اکتوبر 1976 میں ان کے مربی و اتالیق بڑے بھائی محترم شہاب الدین صاحب نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو ( سن قیام 1894 ) کا انتخاب کیا . چونکہ وہ خود 1970 تک لکھنؤ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے . انھوں نے کھلی آنکھوں سے ندوہ کے طلباء اور اساتذہ کو بہت قریب سے دیکھا تھا اور وہ یہاں کی تعلیم و تربیت اور عربی ادب کی تدریسی فوقیت سے غیر معمولی طور پر متاثر تھے . چنانچہ اپنی خواہش و اصرار پر مولانا ضیاء الدین صاحب کو ندوۃ العلماء لکھنو لے آئے ، مسجد سے قریب ایک سفالہ پوش مکان میں ان کے دور کے رشتہ دار حضرت مولانا عبد السّتار اعظمی معروفی شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو رہائش پذیر تھے . ( اس مکان میں کافی مکانیت تھی ، ان کے بعد اس مکان میں راقم الحروف بھی اپنے والد ماجد نور اللہ مرقدہ کے ساتھ چند ماہ قیام پزیر تھا ) ان ہی کے توسط سے داخلہ فارم حاصل کیا ، موصوف عالیہ اولی’ شریعہ میں داخلہ چاہتے تھے ، لیکن ممتحن حضرات مولانا ضیاء الحسن اعظمی ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ( وفات 02/جنوری 1989 ) اور حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ( ولادت 1933 — وفات 16/جنوری 2019 ) نے مشترکہ ٹیسٹ لیا اور عربی ادب میں کمزور ہونے کی باعث اس سے ایک درجہ نیچے ثانویہ خامسہ شریعہ میں داخلہ کی سفارش کی اور داخلہ ہو بھی گیا . لیکن مولانا ضیاء الدین صاحب مطمئن نظر نہیں آئے . دوسری ایک اہم بات یہ رہی کہ پہلی دفعہ گھر اور وطن کے ماحول سے دور ہونے کی وجہ سے وہاں کی فضاء بھی رأس نہیں آئی اور موصوف دو ماہ بعد عید الاضحی کی تعطیل میں وطن واپس آئے تو دوبارہ ندوہ نہیں گئے اور اپنے مدرسہ کے استاذ العلماء مولانا نذیر احمد صاحب صدر المدرسین مدرسہ عربیہ منبع العلوم کے مشورہ سے دارالعلوم مئو ( سن قیام 1875) میں درمیان سال ہی میں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگئے . جہاں ان کے اہم اساتذہ کرام میں سے مولانا محمد عارف صاحب جہانا گنجی ، مولانا نیاز احمد صاحب جہانا گنجی ، مولانا انعام الحق صاحب مئوی ، مولانا اقبال احمد صاحب مئوی رحمہم اللہ تھے .
دارالعلوم مئو سے تکمیلِ کے بعد 1977 میں ازہر الہند دارالعلوم دیوبند ( سن قیام 1866 ) میں داخلہ لیا اور دو سال وہاں قیام کیا اس مدت تعلیم میں شیخ الحدیث مولانا قمر الدین احمد گورکھپوری ( ولادت 02/فروری 1938 ) ، شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ ( ولادت 1942 – وفات 19 / مئی 2020 ) ، شیخ الحدیث مولانا خورشید عالم عثمانی رحمہ اللہ ( ولادت 1353ھ – وفات 07 / فروری 2012 ) ، شیخ الحدیث مولانا نصیر احمد خاں بلند شہری ( ولادت 1918- وفات 2010 ) سے بخاری شریف اول ، خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی رحمہ اللہ ( ولادت 08 / جنوری 1926 – وفات 14 / اپریل 2018 ) سے بخاری شریف نصف ثانی پڑھی اور ناظم تعلیمات مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ (ولادت 1930 – وفات 1995) جیسے نامور اور ماہر فن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا اس کے علاوہ اپنے عہد کے جلیل القدر علمائے عظام سے بھی استفادہ کیا . فقیہ الامت مولانا محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ (ولادت جولائی 1907 – وفات 2 ستمبر 1996) سے شمائل ترمذی شریف ، شیخ الحدیث مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ ( ولادت 24 / جنوری 1929 – وفات 28 / اپریل 2008) سے بخاری شریف نصف ثانی اور حکیم الاسلام مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی ( ولادت 1897 — وفات 17/جولائی 1983 ) رحمۃ اللہ علیہ سے حجۃ اللہ البالغہ پڑھی اور 1979 میں وہاں کی سند فضیلت لے کر وطن واپس آگئے .
دارالعلوم دیوبند سے علوم شرعیہ میں فضلیت کے بعد ندوۃ العلماء میں تخصص فی الادب العربی کی تمنا نے پھر انگڑائی لی ، مولانا ضیاء الدین صاحب کو بچپن ہی سے ندوہ میں تعلیم حاصل کرنے کا دیرینہ شوق تھا اسی نہج پر ان کی ذھن سازی بھی ھوئی تھی۔ ادھر ان کے برادر اکبر و سرپرست جناب شہاب الدین صاحب اپنے بھائی کو ندوہ میں پڑھانے کا خواب شروع سے سجائے ہوئے تھے اور مولانا ضیاء الدین صاحب کو اپنے پانچ بھائیوں میں تنہا دینی تعلیم کے حصول کے لئے منتخب کیا گیا تھا بلکہ وہ اپنے گھرانے کے فرد فرید تھے جو مذہبی و دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مأمور کئے گئے تھے اس لئے انھیں غیر معمولی دلچسپی اور فراخ دستی سے پڑھایا جارھا تھا ، دوران تعلیم کبھی مالی تنگی کے شکوہ کا موقع نہیں دیا جاتا تھا ، بقول شخصے: "اتنا صرفہ بھیجا جاتا تھا جواس وقت عربی درجات کے مؤقر اساتذہ کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہوتا تھا”۔
*جاری…*